پاکستان ایک نظر میں کراچی جل رہا ہے

احتجاج کرنا ہر کسی کا حق ٹھرا۔ لیکن اپنے ہی لوگوں کی املاک کو نقصان پہچاناکہاں کی عقلمندی ہے۔


Sana Ghori June 04, 2014
احتجاج کرنا ہر کسی کا حق ٹھرا۔ لیکن اپنے ہی لوگوں کی املاک کو نقصان پہچاناکہاں کی عقلمندی ہے۔ فوٹو فائل

لندن میں ہونے والی کارروائی کا نتیجے کراچی میں نکلا اور کئی گاڑیاں نذر آتش کردی گئیں جن میں تین رکشے بھی شامل تھے۔ رکشہ ڈرائیور دیر تک اپنے رکشہ کو جلتے دیکھتا رہا۔ ہڑتال یا احتجاج کسی کا بھی ہو، مشتعل عوام کا پہلا نشانہ پبلک ٹرانسپورٹ، گاڑیاں اور دوسری املاک ہی بنتی ہیں۔ اور جلانے والے کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ انھوں نے محض کوئی بس، ویگن یا دیگر املاک کو ہی نہیں جلایا بلکہ جلنے والی املاک کے توسط سے پلنے والے پورے خاندان کو زندگی بھر سسکنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔

زیادہ تر ڈرائیور حضرات ٹرانسپورٹ قسطوں پر حاصل کرتے ہیں اور روز کی ہونے والی کمائی سے وہ ایک خطیر رقم اس کی قسط ادا کرنے میں صرف کرتے ہیں۔ شرپسند عناصر حکومت سے ناراضگی اور اپنے ذاتی غصے کو بجھانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کو آگ تو لگا دیتے ہیں لیکن وہ اس سے واقف ہی نہیں ہوتے کہ ان کا یہ فعل کسی غریب انسان کی زندگی میں کیا قیامت لاسکتا ہے۔اس رکشہ ڈرائیور کے گھر کی خوشیاں بھی لمحہ بھر میں آگ کی زد میں آگئی اور سب ختم ہوگیا۔ اس کے بچوں کا مستقبل اب اندھیرے کے سوا کچھ نہیں۔ کتنا بڑا المیہ ہے، کیسا دل کو چیر کر رکھ دینے والا سانحہ ہے کہ غربت کے باعث لوگ اپنے بچوں کو تعلیم، آرام دہ زندگی اور تفریح تو کجا زندگی بھی نہیں دے پا رہے۔ لیکن ہمارے ملک کی میں اس جانب توجہ کیا اس بارے میں بات تک نہیں کی جاتی۔

جب کہ حکومت کی طرف سے جلنے والی گاڑیوں کا معاوضہ دینے کی بھی کوئی خاطر خواہ پالیسی سامنے نہیں آسکی۔ ہمارے کرتا دھرتا ادھورے پاکستانی صحیح لیکن ہم عوام ان کے لیے جان دینے کے لیے تیار ہیں۔ یہ شہر برسوں سے خون ریزی تباہی اور بربادی کے مناظر دیکھ رہا ہے۔ زبان کے نام پر ہونے والے فسادات کتنے ہی گھر اجاڑ چکے ہیں۔ رہی سہی کسر آئے دن ہونے والی ہڑتالوں نے پوری کردی۔ احتجاج کرنا ہر کسی کا حق ٹھہرا۔ لیکن اپنے ہی لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچانا کہاں کی عقلمندی ہے۔ کراچی کے حالات کسی ایسے ملک کے ہیں جہاں وقفے وقفے سے جنگ جاری ہو۔ قتل و غارت گری کے واقعات کی سنگینی وحشت اور زندگی کے مظاہرے اور اس میں استعمال ہونے والا اسلحہ اس تجزیئے کو صحیح ثابت کرتاہے۔ یہ ایسا شہر ہے جہاں صرف اسلحہ ہی خوف کی علامت نہیں بلکہ شہری اب اپنی املاک کے ختم ہوجانے کے ڈر کو ساتھ لیئے نفسیاتی مریض بنتے جا رہے ہیں۔ اگر ریاستی ادارے عوام کے جان ومال کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتے توکم از کم متاثرین کی اشک شوئی اور ان کے مالی نقصان کے ازالے سے گریز اور تاخیر نا کریں۔

پاکستان بھر میں ذرائع نقل و حرکت کے لیے لاکھوں کی تعداد میں پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں پر دوڑ رہی ہے۔ اس پبلک ٹرانسپورٹ کی وجہ سے لاکھوں افراد اپنی منزل پر پہنچتے ہیں۔ شہر کی سڑکوں پر رواں دواں پبلک ٹرانسپورٹ میں کئی بسیں اور ویگنیں بہت قیمتی اور مہنگی ہوتی ہیں۔ آئے دن کی ہڑتالوں میں گاڑیوں کو نذر آتش کرنے کی خبریں اب اتنی عام ہو چکی ہیں کہ انھیں سن کر اب کوئی بھی ان پر توجہ بھی نہیں دیتا۔ ایک اندازے کے مطابق روز شہر بھر میں تقریباً 15 ہزار سے زائد پبلک ٹرانسپورٹ چلتی ہے جس سے ہمارے مزدر طبقے کا روزگار وابستہ ہے۔

موجودہ دور حکومت میں اب تک 500 سے زائد گاڑیاں جلائی گئی ہیں جب کہ حکومت کی جانب سے صرف 100 کے قریب گاڑیوں کا معاوضہ دیا گیا ہے وہ بھی اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ اس سے قبل 2007 میں پرویز مشرف دور حکومت میں شہر کی سنگین صورت حال میں جلنے والی گاڑیوں کے ٹرانسپورٹرز کو فی کس دو لاکھ روپے ایک گاڑی کا معاوضہ دیا گیا تھا۔اس کے بعد آنے والے حکومتوں کے دور میں متعدد ایسے واقعات پیش آئے جن میں سرعام لوگوں کی گاڑیوں کو نظر آتش کیا گیا لیکن حکومت کی جانب سے سوائے مذمت کے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ کیاایسے میں حکومت کی ذمے داری نہیں بنتی کہ وہ ٹرانسپورٹروں کو تحفظ فراہم کرے؟۔ان ٹرانسپورٹرز کی گاڑیوں کو شرپسندوں کے قہر کا نشانہ بننے سے بچائیں۔ اگر کوئی بدنصیب ڈرائیور کسی یونین کا رکن نہیں تو اس کی جلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ کا بھی کوئی پوچھنے والا نہیں۔ آخر ان واقعات کا ذمے دار کون ہے؟

میرے خیال میں تو بنیادی طور پر حکومت وقت کی ہی ذمے داری ہے کہ وہ متاثرہ ڈرائیورز کو معاوضہ دیں۔ جس طرح کے حادثات جنم لے رہے ہیں اس میں غریب عوام کہاں جائے۔ان کی خوشیوں کا ضامن آج کون بنے گا۔

کراچی کے حالات سے آج ہر شخص متاثر ہورہا ہے۔ لیکن حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی قانون سازی کی جائے کہ جس میں ذاتی املاک کو نقصان پہنچنے کی مد میں جو اخراجات ہیں ان کی ذمے داری حکومت اٹھائے۔ حکومت معاوضوں کا اعلان ضرور کرتی ہے لیکن اکثریت اس سے محروم ہے۔ حکومت اپنے کاموں کے لیے ٹرانسپورٹرز کی جن گاڑیوں کو روکتی ہے ان کو بھی معاوضہ نہیں دیا جاتا جو کہ بہرحال غریب ڈرائیورز کے لیے پریشانی کا باعث ہے، اس سلسلے میں جلد ہی قانون سازی کرنی ہوگی۔ میری حکومت سے گزارش ہے کہ عوام کی اس خاموش فریاد کو نظر انداز کرنے کے بجائے ان کو ان کا حق فراہم کیا جائے۔یہ نا ہو کہ مظلوم عوام کی یہ خاموشی حکومت کے لئے کسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔