پاکستان ایک نظر میں ہم زندہ قوم ہیں

وہ خاتون سبزی والے سے50 روپے میں پیاز، لہسن اور ادرک کا تقاضا کر رہی تھیں۔ جبکہ ایک سبزی ہی 100 روپے کلو ہے۔


ارم فاطمہ June 04, 2014
وہ خاتون سبزی والے سے50 روپے میں پیاز، لہسن اور ادرک کا تقاضا کر رہی تھیں۔ جبکہ ایک سبزی ہی 100 روپے کلو ہے۔ فوٹو فائل

وہ خاتون سبزی والے سے50 روپے میں پیاز، لہسن اور ادرک کا تقاضا کر رہی تھیں۔ میں حیرانگی سے انہیں دیکھنے لگی جب ایک سبزی ہی 100 روپے کلو ہے تو پھر50 روپے میں یہ چیزیں کیسے اور کتنی آسکتی ہیں؟ میری حیرانگی پر انہوں نے مسکرا کر میری جانب دیکھا اور ہم نے ایک دوسرے سے سلام دعا کی۔ اسی دوران انہوں نے بتایا کہ وہ میرے ہی محلے میں رہتی ہیں، ان کے شوہر کینسر کے مریض ہیں، دو بیٹیاں ہیں جو فیکٹری میں کام کرکے علاج اور گھر کے اخراجات پورے کرتیں ہیں۔ باتوں باتوں میں میری گلی آگئی اور میں انہیں خدا حافط کہہ کر آگے کی جانب بڑھ گئی۔

پھر اچانک ہی ایک دن مجھے پتا چلا کہ ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے۔ دو دن تک جب گلی میں قرآن خوانی کا کوئی انتظام نظر نہ آیا تو میں ان کے گھر چلی گئی، جہاں معلوم ہوا کہ مالی تنگد ستی کے باعث گھر کے افراد گھر میں ہی قرآن خوانی اور قاتحہ کا انتظام کر رہے ہیں۔ ان کے پاس تو کھانے کے پیسے نہیں تھے محلے پھر میں قرآن خوانی کہاں سے کراتے۔ مرنےوالا تو چلا جاتا ہے لیکن اپنے پیچھے زندہ رہ جانے والوں کو مشکل میں ڈال جاتا ہے۔

مجھے چند دن پہلے کی بات یاد آگئی۔ جب ان کے پڑوسیوں نے بیٹے کی پیدائش پر خواجہ سراؤں کو بلایا تھا۔ اور ان پر بے شمار نوٹ یوں نچھاور کردیئے جیسے کہ پیسے درختوں پر اگتے ہیں۔ مجھے بے حد افسوس ہوا کہ دیوار سے دیوار لگی سے لیکن اس کے باوجود لوگ ایک دوسرے کے حالات سے بے خبر ہیں۔

یہ تو صرف ایک مثال ہے ۔ ہمارے معاشرے میں جابجا ایسے کتنی کہانیاں اور کردار بھرے پڑے ہیں مگر ہم انہیں نظر کر کے اپنی زندگی میں مگن اور مصروف ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ آج کا انسان تنہا، افسردہ اور مایوسی کا شکار ہے۔ اس کے تعلقات معاشرے کے دیگر افراد کے ساتھ محض رسمی اور مصنوعی پن کے ساتھ زندہ ہیں۔

زندگی اور زندہ رہنے کا احساس صرف سانس لینے اور دل دھڑکنے کے سبب نہیں ہوتا۔ اس طرح تو اس کرہ ارض پر کروڑوں مخلوق ہیں جو رزق پاتی ہیں اور زندہ ہیں۔ کیا ان میں اور انسانوں میں کوئی فرق نہیں؟ زندگی اپنے اندر محبت، مروت اور فرائض کی ادائیگی کے احساس کا نام ہے۔ وگرنہ معاشرے میں بے حس لوگوں کی کمی تو نہیں ہے۔

کہاں ہیں حضرت عمرؓ جیسے لوگ جو راتوں کہ جاگ کر لوگوں کے حالات سے با خبر تھے۔

کہاں ہیں حضرت ابو بکرؓجیسے لوگ جو انسانیت کے لئے اپنا گھر خالی کرد یتے تھے۔

کہاں ہیں حضرت عثمانؓ جیسے لوگ جوسخاوت میں اپنی مثال آپ تھے۔

کہاں ہیں حضرت علیؓ جیسے لوگ جو عادل اور انصاف پسند تھے۔

درحقیقت تو بحیثیت قوم ہم سب سو رہے ہیں۔ ہم جانتے بوجھتے ہوئے ہمیں پڑوسیوں کی بھوک نظر نہیں آتی، استطاعت رکھتے ہوئے پھیلے ہاتھوں کو نظرانداز کرد یتے ہیں۔ بے بس اور لاچار لوگوں کو دیکھ کر ہم یونہی گزر جاتے ہیں۔ مظلوم کی سسکیاں، آہیں، آنسو ہم ہر کوئی اثر نہیں کرتے۔ دوسروں کو تکلیف میں چھوڑ کر اپنی دنیا میں مست رہنا، کیا جینا اسی کا نام ہے؟ اگر ہاں یہی زندگی ہے توہمیں خوش ہونا چاہئے کیونکہ ہم ایک زندہ قوم ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں