بھارتی دارالحکومت میں 600 سال پرانی مسجد کی مسماری کے بعد حالات کشیدہ
عدالت نے 700 سال قدیم ایک اور تاریخی مسجد کے تہہ خانے میں پنڈتوں کو پوجا کی اجازت دیدی
بھارت کے دارالحکومت کے جنوبی علاقے میں تاریخی مسجد کے انہدام پر مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی جب کہ انتہاپسند ہندو جتھوں نے مسجد کے ملبے کے قریب شدید نعرے بازی کی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق نئی دہلی کے مہرولی محلے میں ہندو مسلم کشیدگی برقرار ہے۔ مظاہرے اور جلاؤ گھیراؤ کے بعد علاقے میں سخت سیکیورٹی نافذ کردی گئی ہے اور پولیس کی جانب سے حالات کنٹرول میں ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز 600 سال پرانی مسجد کو دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے عملے نے بغیر کوئی پیشگی نوٹس جاری کیے منہدم اور احاطے میں موجود قبریں بھی مسمار کردیں۔
یہ خبر پڑھیں : بھارت؛ ایک اور تاریخی مسجد میں ہندوؤں کو پوجا کی اجازت
مسجد کے امام ذاکر حسین نے بتایا کہ بغیر کسی پیشگی اطلاع کے نماز فجر کے فوری بعد دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا عملہ آیا تھا اور منہ اندھیرے خفیہ کارروائی کی۔ نمازیوں کے فون ضبط کرلیے گئے تاکہ ویڈیو نہ بنائی جاسکے۔
امام مسجد نے مزید بتایا کہ مسجد کے انہدام کوعوام کی نظروں سے چھپانے کے لیے ملبے کو کچھ دور جاکر پھینکا گیا۔ اگر یہ مسماری قانون کے عین مطابق تھی تو اتنی رزاداری کیوں برتی گئی۔
یاد رہے کہ 26 جنوری کو بابری مسجد کی جگہ وزیراعظم مودی نے رام مندر کا افتتاح کردیا جب کہ وارانسی کی تاریخی مسجد گیان واپی کے تہہ خانے میں پوجا پاٹ کی اجازت دیدی گئی جب کہ ایک 700 سال قدیم عید گاہ کی مسماری کے لیے بھی سرگرم ہیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق نئی دہلی کے مہرولی محلے میں ہندو مسلم کشیدگی برقرار ہے۔ مظاہرے اور جلاؤ گھیراؤ کے بعد علاقے میں سخت سیکیورٹی نافذ کردی گئی ہے اور پولیس کی جانب سے حالات کنٹرول میں ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز 600 سال پرانی مسجد کو دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے عملے نے بغیر کوئی پیشگی نوٹس جاری کیے منہدم اور احاطے میں موجود قبریں بھی مسمار کردیں۔
یہ خبر پڑھیں : بھارت؛ ایک اور تاریخی مسجد میں ہندوؤں کو پوجا کی اجازت
مسجد کے امام ذاکر حسین نے بتایا کہ بغیر کسی پیشگی اطلاع کے نماز فجر کے فوری بعد دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا عملہ آیا تھا اور منہ اندھیرے خفیہ کارروائی کی۔ نمازیوں کے فون ضبط کرلیے گئے تاکہ ویڈیو نہ بنائی جاسکے۔
امام مسجد نے مزید بتایا کہ مسجد کے انہدام کوعوام کی نظروں سے چھپانے کے لیے ملبے کو کچھ دور جاکر پھینکا گیا۔ اگر یہ مسماری قانون کے عین مطابق تھی تو اتنی رزاداری کیوں برتی گئی۔
یاد رہے کہ 26 جنوری کو بابری مسجد کی جگہ وزیراعظم مودی نے رام مندر کا افتتاح کردیا جب کہ وارانسی کی تاریخی مسجد گیان واپی کے تہہ خانے میں پوجا پاٹ کی اجازت دیدی گئی جب کہ ایک 700 سال قدیم عید گاہ کی مسماری کے لیے بھی سرگرم ہیں۔