ہوشربا مہنگائی معیشت اور انتخابات
2024 غریبوں کے لیے روزمرہ استعمال کی اشیا مہنگی ہونے، مہنگی افادیت اور بے روزگاری کی وجہ سے مزید مصائب لایا ہے
نگران وفاقی کابینہ نے وزارت قومی صحت کی سفارش پر ہارڈ شپ کیٹگری کے تحت عالمی منڈی میں خام مال کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے 146 انتہائی ضروری جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے دی ہے۔
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اجلاس کے شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت عام آدمی کو ادویات کی مناسب قیمت پر فراہمی کے حوالے سے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہی ہے۔ ادویات کی اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائیاں تیز کی جائیں۔
پاکستان خطے کا وہ واحد ملک ہے جہاں پہلے ہی ادویات کی قیمتیں سب سے زیادہ ہیں، دراصل ادویات ساز کمپنیوں کا مخصوص طریقہ واردات ہے، وہ جس دوائی کی قیمت بڑھانا چاہتی ہیں سب سے پہلے اسے مارکیٹ سے غائب کیا جاتا ہے، دوسرے معنوں میں عوام کا استحصال اور حکومت کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔
دراصل وطن عزیز میں ادویات کی قیمتوں پر نظر رکھنے کا کوئی میکنزم نہیں ہے، ادویات کی قیمتوں میں ردوبدل کے حوالے سے حکومت کو فول پروف نظام وضع کرنا چاہیے جو نہیں ہے، زیادہ تر ادویات بیرون ملک سے آتی ہیں، اس وقت مارکیٹ میں اسمگل شدہ اور جعلی ادویات بھی آگئی ہیں جو افغانستان، ایران اور بھارت سے لائی جا رہی ہیں۔
اس حقیقت کے باوجود کہ بہت سی ادویات درجہ حرارت کے حوالے سے حساس ہوتی ہیں، بہت سی ضروری ادویات کو کولڈ چین کے انتظام کے بغیر عام ٹرکوں میں اسمگل کیا جا رہا ہے۔
کولڈ چین کا مطلب ادویات کی تیاری کے مقام سے لے کر جہاں تک ان کو پہنچایا جاتا ہے سفر کے دوران ان کے درجہ حرارت کو بلا تعطل کنٹرول کرنا ہے، اگر کولڈ چین کو صحیح طریقے سے برقرار نہیں رکھا گیا تو، ویکسین کا اثر ختم ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں ویکسین کی ناقابل استعمال فراہمی ہوتی ہے، جو انھیں بیکار کر دیتی ہے۔ بڑھتے ہوئے بحران کے باعث لوگ بلیک مارکیٹنگ کرنے والوں سے زیادہ قیمتوں پر ادویات خریدنے پر مجبور ہیں۔
جہاں تک مہنگائی اور زندگی گزارنے کی لاگت کا تعلق ہے، 2024 غریبوں کے لیے روزمرہ استعمال کی اشیا مہنگی ہونے، مہنگی افادیت اور بے روزگاری کی وجہ سے مزید مصائب لایا ہے۔
پاکستان میں حکومتیں صرف اپنے پیشروؤں کی طرف سے لیے گئے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے قرض لیتی رہی ہیں اور پی ڈی ایم بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھی اور نا ہی موجودہ نگران حکومت۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی سیاسی جماعت کوئی تھنک ٹینک نہیں چلاتی جس نے تحقیق پر مبنی مطالعہ تیار کیا ہو اور پاکستان کو دوبارہ خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے عملی حل پیش کیے ہوں۔ یہ جمہوریت کی نہیں بلکہ حکمران جماعت سمیت تمام جماعتوں کی ناکامی ہے۔
اچھی معاشیات اچھی سیاست ہے، لیکن انھوں نے کبھی اس کی فکر نہیں کی۔ ڈیٹ ریٹائرمنٹ کی کلید برآمدات پر مبنی نمو، غیر پیداواری اور فضول اخراجات میں واضح کمی، سرکاری زمین کو عوامی نیلامی کے ذریعے لیز پر دے کر تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا، اور منصفانہ طریقے سے ٹیکس جمع کرنا ہے۔ ہمیں ٹیکس کی شرحیں کم کرنے، ٹیکس کوڈز کو سادہ اور آسان بنانے کی بھی ضرورت ہے۔
پی ڈی ایم، نگران حکومتوں کے ایک سال میں ملکی قرضوں میں 12 ہزار ارب روپے سے زائد اضافہ، 13 جماعتوں کی سابقہ اتحادی حکومت اور موجودہ نگران وفاقی حکومت کے ایک سال میں وفاقی حکومت کا قرضہ 63 ہزار 390 ارب روپے سے بھی اوپر چلا گیا۔
اتحادی اور نگران حکومت کے دور میں صرف ایک سال کے دوران قرضوں میں 12 ہزار 430 ارب روپے کا اضافہ ہو گیا۔اس حوالے سے اسٹیٹ بینک کے ہوشربا اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔
جب نگران حکومت آئی تو یہ سوچ پروان چڑھی کہ اب وہ فیصلے کیے جائیں گے جو ملک اور معیشت کے لیے درست ہوں گے کیونکہ نگران حکومت کو کونسا اپنی سیاست بچانا ہوتی ہے، مگر اس عرصے کے دوران دیگر اقدام تو کیا اٹھائے جاتے پی آئی اے کی نجکاری بھی نہ ہو سکی۔
پاکستان کی ریاستی ملکیتی انٹر پرائزز دو برسوں میں 1400 ارب روپے کا نقصان کر چکی ہیں، ملکِ عزیز میں سب سے کم بجٹ صحت اور تعلیم کا ہے جوکہ بمشکل 100سے 150ارب کے درمیان ہوتا ہے۔
آپ اندازہ کریں کہ اگر یہی 1400ارب روپیہ ان دو شعبوں کی بہتری پر لگایا جاتا تو عوام کو کتنا فائدہ پہنچتا۔ الیکشن اور سیاست کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا اگر اس ملک کا معاشی پہیہ جمود کا شکار ہو گیا۔ ایک عام پاکستانی کو اب اپنے ہی ملک میں اپنا مستقبل محفوظ نظر نہیں آتا۔ قانونی اور غیر قانونی' ہر طرح کے راستے سے لوگ باہر جانے کی کوشش میں ہیں۔
موجودہ نگران گورنمنٹ نے عوام کو بہت مایوس کیا ہے روزمرہ کے استعمال کی اشیاء خورو نوش دال، سبزیاں پھلوں،آٹا اور چینی کے منہ مانگے دام وصول کیے جا رہے ہیں۔
عوام دکانداروں کو منہ مانگے ریٹس دینے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں، دکانداروں نے عوام کو دونوں ہاتھوں لوٹنا شروع کردیا۔ سبزیاں، دالوں اور پھلوں کے علاوہ چینی، گھی، آئل کے ریٹس اپنی مرضی کے وصول کیے جا رہے ہیں۔ سبزیوں، دالوں اور گھی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کیا جاچکا ہے یوٹیلیٹی اسٹورز پر اور عام دکانوں کے ریٹس میں کچھ خاص فائدہ دکھائی نہیں دیتا قیمتوں میں انیس بیس کا ہی فرق ہے۔
وفاقی وزرات خزانہ نے پٹرول کی قیمت میں تیرہ روپے پچپن پیسے جب کہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں دو روپے پچھتر پیسے فی لیٹر کا اضافہ کردیا۔ پٹرول بم سے عوام پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔
عام انتخابات سے چند روز قبل پٹرول بم نہ گرایا جاتا تو بہتر تھا، اگر یہ فیصلہ آنیوالی منتخب حکومت پر چھوڑ دیا جاتا تو بہت اچھا ہوتا۔ کاش نگران حکمران جاتے جاتے مہنگائی کا بھوت بوتل میں بند اور اسے سمندر برد کر دیتے۔ وفاق اور بالخصوص پنجاب میں تاریخ کی طویل ترین نگران حکومت بھی عوام کو کسی قسم کا قابل ذکر ریلیف فراہم کرنے میں ناکام رہی۔
ہوشربا مہنگائی اور بے روزگاری نے پاکستانی عوام کو صوفیوں کے مزاروں تک پہنچا دیا۔ مجبور عوام لنگر سے اپنا پیٹ بھرنے پر مجبور ہیں۔ ملک میں پیاز، ٹماٹر، جلانے والی لکڑی، دالوں، بڑے گوشت، برائیلر مرغی، ایل پی جی سلنڈر اور چاول کی قیمتوں میں اضافہ جب کہ فروٹ کی قیمتوں میں ہوشربا حد تک اضافے نے مجموعی طور پر مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
ہوشربا مہنگائی سے ہر چیز کا ذائقہ پھیکا پڑ گیا، کیا پکانا ہے، کیا کھانا ہے، اس کا جواب درد سر بن گیا۔ برائلر گوشت 637 روپے فی کلو ہے جب کہ فارمی انڈے 416 روپے فی درجن ہیں سبزی مارکیٹ کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں۔ سرکاری ریٹ لسٹ میں پیاز مزید مہنگا ہو کر 245 روپے فی کلو کا ہو گیا جب کہ مارکیٹ میں پیاز 270 روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے،ٹماٹر 140 روپے کے بجائے 180 روپے فی کلو تک بیچے جا رہے ہیں۔
اسی طرح مارکیٹ میں آلو 60، لہسن اور ادرک 700 روپے فی کلو دستیاب ہے ، شلجم 70، اروی 200 اور مٹر 300 روپے فی کلو مل رہے ہیں، پالک اور ساگ 70 سے 80، مولی 40 اور گاجر 60 روپے فی کلو بیچی جارہی ہے جب کہ پھول گوبھی اور بند گوبھی 150 روپے فی کلو بک رہی ہے۔
عوام کا کہنا ہے کہ کچھ بھی سستا نہیں، خریداری کے لیے پہلے جیب دیکھنا پڑتی ہے، مہنگائی اتنی ہے کہ دو وقت کی روٹی کھانا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ ادھر مارکیٹ ذرایع کے مطابق انتہائی سرد موسم سے سبزی کی فصل متاثر ہو رہی ہے، جس کے باعث نرخ کم نہیں ہو رہے، آنے والے دنوں میں قیمتوں میں مزید تیزی کا خدشہ بھی موجود ہے۔
بڑے پیمانے پر قرضوں کے بوجھ کے ساتھ بلند مالیاتی خسارے کا انتظام کرنا ہمارے اقتصادی منتظمین کو رواں برس اور اس کے بعد درپیش سب سے بڑا مسئلہ ہو گا۔
پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان کی مالیاتی پالیسی ایف بی آر کی مسلسل ناقص کارکردگی، مسلسل سیکیورٹی سے متعلق اخراجات، فضول اخراجات میں تیزی سے اضافہ اور ہدف سے زیادہ سبسڈیز، پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کو ہونے والے نقصانات اور خاص طور پر توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں کی وجہ سے بہت زیادہ دباؤ میں رہی ہے۔
ہمارا زور ترقی، پیداواری صلاحیت اور تنوع اور ویلیو ایڈیشن کے ذریعے برآمدات کو بڑھانے پر ہونا چاہیے۔ آئی ٹی سیکٹر کو انتہائی نظرانداز کیا جاتا ہے اور ٹیلی کام سیکٹر میں بھاری ٹیکسز ترقی کے مخالف ثابت ہو رہے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ عام انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی وفاقی اور صوبائی حکومتیں پاکستان میں طویل عرصے سے زیر التوا دوسرے سبز انقلاب کے لیے ایک قومی منصوبہ تیار کریں۔
انھیں پیداواری صلاحیت اور معیار میں اضافہ کرنا چاہیے، لاگت کو کم کرنا چاہیے اور مقامی ضروریات کو پورا کرنے اور ویلیو ایڈڈ ایکسپورٹ ایبل سرپلس پیدا کرنے کے قابل زرعی صنعتوں کو قائم کرنا چاہیے۔
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اجلاس کے شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت عام آدمی کو ادویات کی مناسب قیمت پر فراہمی کے حوالے سے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہی ہے۔ ادویات کی اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائیاں تیز کی جائیں۔
پاکستان خطے کا وہ واحد ملک ہے جہاں پہلے ہی ادویات کی قیمتیں سب سے زیادہ ہیں، دراصل ادویات ساز کمپنیوں کا مخصوص طریقہ واردات ہے، وہ جس دوائی کی قیمت بڑھانا چاہتی ہیں سب سے پہلے اسے مارکیٹ سے غائب کیا جاتا ہے، دوسرے معنوں میں عوام کا استحصال اور حکومت کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔
دراصل وطن عزیز میں ادویات کی قیمتوں پر نظر رکھنے کا کوئی میکنزم نہیں ہے، ادویات کی قیمتوں میں ردوبدل کے حوالے سے حکومت کو فول پروف نظام وضع کرنا چاہیے جو نہیں ہے، زیادہ تر ادویات بیرون ملک سے آتی ہیں، اس وقت مارکیٹ میں اسمگل شدہ اور جعلی ادویات بھی آگئی ہیں جو افغانستان، ایران اور بھارت سے لائی جا رہی ہیں۔
اس حقیقت کے باوجود کہ بہت سی ادویات درجہ حرارت کے حوالے سے حساس ہوتی ہیں، بہت سی ضروری ادویات کو کولڈ چین کے انتظام کے بغیر عام ٹرکوں میں اسمگل کیا جا رہا ہے۔
کولڈ چین کا مطلب ادویات کی تیاری کے مقام سے لے کر جہاں تک ان کو پہنچایا جاتا ہے سفر کے دوران ان کے درجہ حرارت کو بلا تعطل کنٹرول کرنا ہے، اگر کولڈ چین کو صحیح طریقے سے برقرار نہیں رکھا گیا تو، ویکسین کا اثر ختم ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں ویکسین کی ناقابل استعمال فراہمی ہوتی ہے، جو انھیں بیکار کر دیتی ہے۔ بڑھتے ہوئے بحران کے باعث لوگ بلیک مارکیٹنگ کرنے والوں سے زیادہ قیمتوں پر ادویات خریدنے پر مجبور ہیں۔
جہاں تک مہنگائی اور زندگی گزارنے کی لاگت کا تعلق ہے، 2024 غریبوں کے لیے روزمرہ استعمال کی اشیا مہنگی ہونے، مہنگی افادیت اور بے روزگاری کی وجہ سے مزید مصائب لایا ہے۔
پاکستان میں حکومتیں صرف اپنے پیشروؤں کی طرف سے لیے گئے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے قرض لیتی رہی ہیں اور پی ڈی ایم بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھی اور نا ہی موجودہ نگران حکومت۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی سیاسی جماعت کوئی تھنک ٹینک نہیں چلاتی جس نے تحقیق پر مبنی مطالعہ تیار کیا ہو اور پاکستان کو دوبارہ خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے عملی حل پیش کیے ہوں۔ یہ جمہوریت کی نہیں بلکہ حکمران جماعت سمیت تمام جماعتوں کی ناکامی ہے۔
اچھی معاشیات اچھی سیاست ہے، لیکن انھوں نے کبھی اس کی فکر نہیں کی۔ ڈیٹ ریٹائرمنٹ کی کلید برآمدات پر مبنی نمو، غیر پیداواری اور فضول اخراجات میں واضح کمی، سرکاری زمین کو عوامی نیلامی کے ذریعے لیز پر دے کر تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا، اور منصفانہ طریقے سے ٹیکس جمع کرنا ہے۔ ہمیں ٹیکس کی شرحیں کم کرنے، ٹیکس کوڈز کو سادہ اور آسان بنانے کی بھی ضرورت ہے۔
پی ڈی ایم، نگران حکومتوں کے ایک سال میں ملکی قرضوں میں 12 ہزار ارب روپے سے زائد اضافہ، 13 جماعتوں کی سابقہ اتحادی حکومت اور موجودہ نگران وفاقی حکومت کے ایک سال میں وفاقی حکومت کا قرضہ 63 ہزار 390 ارب روپے سے بھی اوپر چلا گیا۔
اتحادی اور نگران حکومت کے دور میں صرف ایک سال کے دوران قرضوں میں 12 ہزار 430 ارب روپے کا اضافہ ہو گیا۔اس حوالے سے اسٹیٹ بینک کے ہوشربا اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔
جب نگران حکومت آئی تو یہ سوچ پروان چڑھی کہ اب وہ فیصلے کیے جائیں گے جو ملک اور معیشت کے لیے درست ہوں گے کیونکہ نگران حکومت کو کونسا اپنی سیاست بچانا ہوتی ہے، مگر اس عرصے کے دوران دیگر اقدام تو کیا اٹھائے جاتے پی آئی اے کی نجکاری بھی نہ ہو سکی۔
پاکستان کی ریاستی ملکیتی انٹر پرائزز دو برسوں میں 1400 ارب روپے کا نقصان کر چکی ہیں، ملکِ عزیز میں سب سے کم بجٹ صحت اور تعلیم کا ہے جوکہ بمشکل 100سے 150ارب کے درمیان ہوتا ہے۔
آپ اندازہ کریں کہ اگر یہی 1400ارب روپیہ ان دو شعبوں کی بہتری پر لگایا جاتا تو عوام کو کتنا فائدہ پہنچتا۔ الیکشن اور سیاست کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا اگر اس ملک کا معاشی پہیہ جمود کا شکار ہو گیا۔ ایک عام پاکستانی کو اب اپنے ہی ملک میں اپنا مستقبل محفوظ نظر نہیں آتا۔ قانونی اور غیر قانونی' ہر طرح کے راستے سے لوگ باہر جانے کی کوشش میں ہیں۔
موجودہ نگران گورنمنٹ نے عوام کو بہت مایوس کیا ہے روزمرہ کے استعمال کی اشیاء خورو نوش دال، سبزیاں پھلوں،آٹا اور چینی کے منہ مانگے دام وصول کیے جا رہے ہیں۔
عوام دکانداروں کو منہ مانگے ریٹس دینے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں، دکانداروں نے عوام کو دونوں ہاتھوں لوٹنا شروع کردیا۔ سبزیاں، دالوں اور پھلوں کے علاوہ چینی، گھی، آئل کے ریٹس اپنی مرضی کے وصول کیے جا رہے ہیں۔ سبزیوں، دالوں اور گھی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کیا جاچکا ہے یوٹیلیٹی اسٹورز پر اور عام دکانوں کے ریٹس میں کچھ خاص فائدہ دکھائی نہیں دیتا قیمتوں میں انیس بیس کا ہی فرق ہے۔
وفاقی وزرات خزانہ نے پٹرول کی قیمت میں تیرہ روپے پچپن پیسے جب کہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں دو روپے پچھتر پیسے فی لیٹر کا اضافہ کردیا۔ پٹرول بم سے عوام پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔
عام انتخابات سے چند روز قبل پٹرول بم نہ گرایا جاتا تو بہتر تھا، اگر یہ فیصلہ آنیوالی منتخب حکومت پر چھوڑ دیا جاتا تو بہت اچھا ہوتا۔ کاش نگران حکمران جاتے جاتے مہنگائی کا بھوت بوتل میں بند اور اسے سمندر برد کر دیتے۔ وفاق اور بالخصوص پنجاب میں تاریخ کی طویل ترین نگران حکومت بھی عوام کو کسی قسم کا قابل ذکر ریلیف فراہم کرنے میں ناکام رہی۔
ہوشربا مہنگائی اور بے روزگاری نے پاکستانی عوام کو صوفیوں کے مزاروں تک پہنچا دیا۔ مجبور عوام لنگر سے اپنا پیٹ بھرنے پر مجبور ہیں۔ ملک میں پیاز، ٹماٹر، جلانے والی لکڑی، دالوں، بڑے گوشت، برائیلر مرغی، ایل پی جی سلنڈر اور چاول کی قیمتوں میں اضافہ جب کہ فروٹ کی قیمتوں میں ہوشربا حد تک اضافے نے مجموعی طور پر مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
ہوشربا مہنگائی سے ہر چیز کا ذائقہ پھیکا پڑ گیا، کیا پکانا ہے، کیا کھانا ہے، اس کا جواب درد سر بن گیا۔ برائلر گوشت 637 روپے فی کلو ہے جب کہ فارمی انڈے 416 روپے فی درجن ہیں سبزی مارکیٹ کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں۔ سرکاری ریٹ لسٹ میں پیاز مزید مہنگا ہو کر 245 روپے فی کلو کا ہو گیا جب کہ مارکیٹ میں پیاز 270 روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے،ٹماٹر 140 روپے کے بجائے 180 روپے فی کلو تک بیچے جا رہے ہیں۔
اسی طرح مارکیٹ میں آلو 60، لہسن اور ادرک 700 روپے فی کلو دستیاب ہے ، شلجم 70، اروی 200 اور مٹر 300 روپے فی کلو مل رہے ہیں، پالک اور ساگ 70 سے 80، مولی 40 اور گاجر 60 روپے فی کلو بیچی جارہی ہے جب کہ پھول گوبھی اور بند گوبھی 150 روپے فی کلو بک رہی ہے۔
عوام کا کہنا ہے کہ کچھ بھی سستا نہیں، خریداری کے لیے پہلے جیب دیکھنا پڑتی ہے، مہنگائی اتنی ہے کہ دو وقت کی روٹی کھانا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ ادھر مارکیٹ ذرایع کے مطابق انتہائی سرد موسم سے سبزی کی فصل متاثر ہو رہی ہے، جس کے باعث نرخ کم نہیں ہو رہے، آنے والے دنوں میں قیمتوں میں مزید تیزی کا خدشہ بھی موجود ہے۔
بڑے پیمانے پر قرضوں کے بوجھ کے ساتھ بلند مالیاتی خسارے کا انتظام کرنا ہمارے اقتصادی منتظمین کو رواں برس اور اس کے بعد درپیش سب سے بڑا مسئلہ ہو گا۔
پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان کی مالیاتی پالیسی ایف بی آر کی مسلسل ناقص کارکردگی، مسلسل سیکیورٹی سے متعلق اخراجات، فضول اخراجات میں تیزی سے اضافہ اور ہدف سے زیادہ سبسڈیز، پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کو ہونے والے نقصانات اور خاص طور پر توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں کی وجہ سے بہت زیادہ دباؤ میں رہی ہے۔
ہمارا زور ترقی، پیداواری صلاحیت اور تنوع اور ویلیو ایڈیشن کے ذریعے برآمدات کو بڑھانے پر ہونا چاہیے۔ آئی ٹی سیکٹر کو انتہائی نظرانداز کیا جاتا ہے اور ٹیلی کام سیکٹر میں بھاری ٹیکسز ترقی کے مخالف ثابت ہو رہے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ عام انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی وفاقی اور صوبائی حکومتیں پاکستان میں طویل عرصے سے زیر التوا دوسرے سبز انقلاب کے لیے ایک قومی منصوبہ تیار کریں۔
انھیں پیداواری صلاحیت اور معیار میں اضافہ کرنا چاہیے، لاگت کو کم کرنا چاہیے اور مقامی ضروریات کو پورا کرنے اور ویلیو ایڈڈ ایکسپورٹ ایبل سرپلس پیدا کرنے کے قابل زرعی صنعتوں کو قائم کرنا چاہیے۔