الیکشن اور معاشی شرح نمو
انتخابات کے نتیجے میں معاشی استحکام کی صورت میں پاکستان کی شرح نمو میں اضافے کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں
امیدوار اپنے ووٹرکو یقین دلا رہا تھا آپ کے تمام مسائل حل کردیے جائیں گے۔ آپ کے مطالبات کو مان لیا جائے گا۔ آپ کے مسائل کے حل کی خاطر دل و جان سے کوشش کروں گا۔
بس آپ مجھے کامیاب کروا دیں۔ ووٹر نے امیدوار کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا، ووٹر کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے، وہ تشویش میں مبتلا تھا۔ فکر مند تھا جب کہ امیدوار امید بھری نگاہوں سے اپنے ووٹر کو دیکھ رہا تھا۔
بالآخر ووٹر نے اپنی خاموشی توڑ ڈالی۔ ''جناب آپ کی باتیں سن کر مجھے اپنے مسائل بہت چھوٹے معلوم دے رہے ہیں، سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آپ کسی طرح کامیاب ہو جائیں، آپ کا کامیاب ہونا ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے اور ایسا ہی ہے کیونکہ ایک ایک حلقے میں پندرہ، بیس سے تیس تک امیدوارکھڑے ہیں۔ اب ان میں سے کون کامیاب ہوگا یہ ہر امیدوار کے لیے اور اس کے سپورٹر حامیوں کے لیے بڑا مسئلہ ہے، اگر وہ کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کا سب سے بڑا مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد عوام کے مسائل کی باری آتی ہے، اب عوام کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش ہوتا ہے کہ جیتا ہوا کامیاب امیدوار غائب ہو جاتا ہے۔ اس طرح ان میں سے کچھ اسلام آباد میں نظر آتے ہیں اور کچھ مختلف صوبائی دارالحکومتوں میں نظر آتے ہیں کیونکہ اب انھیں اپنے مسائل حل کرنے میں دلچسپی ہوتی ہے، لہٰذا وہ ووٹر کی نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔''
الیکشن 2024 نے اپنا رنگ جما لیا ہے۔ انتخابی مہم زور شور سے جاری ہے۔ انتخابی فضا میں برق کی سی تیزی پیدا ہوگئی ہے، چھوٹی بڑی ریلیاں نکل رہی ہیں۔ بڑے بڑے جم غفیر جلسے ہو رہے ہیں، دھواں دھار تقاریر ہو رہی ہیں، عوامی مسائل کے لیے منشور پیش کیے جا رہے ہیں، رنگ برنگ کی جھنڈیاں لگائی جا رہی ہیں، رنگین دلچسپ پوسٹرز چسپاں کیے جا رہے ہیں، بینرز لگائے جا رہے ہیں، پارٹی ترانے بجائے جا رہے ہیں۔ اس انتخاب پر حسب سابق اربوں روپے خرچ کیے جائیں گے۔
راقم ان اخراجات کو معیشت کے لیے بہترین قرار دیتا ہے، اگر الیکشن کمیشن کی مقررہ حد کا خیال کر کے خرچ کریں تو بھی بہت سے شعبے ایسے ہیں جن پر کثیر رقم خرچ کی جا رہی ہے۔ بھرپور انتخابی عمل کے نتیجے میں بیرون ملک پاکستان کا امیج بہتر ہوگا۔ ان انتخابات کی کوریج پوری دنیا میں کی جائے گی۔
امید ہے کہ اس کے ساتھ پاکستان میں امن و امان کے بارے میں صورتحال واضح ہوگی۔ کیونکہ بہت سے ممالک کے شہری پاکستان کے بارے میں منفی خیالات رکھتے تھے۔ جس کے باعث ملک میں غیر ملکی سیاحوں کی آمد کا سلسلہ کم ہو گیا ہے۔ حکومت وقت نے الیکشن کی عالمی کوریج کے لیے بہت سے غیر ملکی صحافیوں کو ویزے جاری کر دیے ہیں۔
دنیا کے بڑے بڑے چینلز کے نمایندوں اور ان کے کیمرہ مینوں کو ویزے جاری کردیے گئے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق دولت مشترکہ کے مبصرین کے 16 رکنی وفد کو ویزے جاری کر دیے گئے ہیں۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ کے نمایندوں کو بھی ویزے جاری کر دیے گئے ہیں۔ امید ہے کہ مزید ممالک، مزید عالمی چینلز اخبارات کے صحافیوں، کیمرہ مینوں وغیرہ کو ویزے جاری کردیے جائیں گے۔
اگرچہ انتخابات کے موقع پر اور اس سے قبل بھی کسی قسم کی بدامنی، خراب صورت حال کا پیدا ہونا ہر الیکشن میں ہوتا آیا ہے، لیکن اس سلسلے میں انتظامیہ کی طرف سے سخت ترین انتظامات کے باعث حالات کنٹرول کیے جا سکتے ہیں اور یہ سختی اس لیے لازمی ہے کہ ہماری معیشت کسی بھی قسم کی خراب صورت حال کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
مختلف مبصرین اور تجزیہ نگار مختلف اندازے پیش کر رہے ہیں۔ یوٹیوبرز بھی اپنے وی لاگز میں اپنے مختلف اندازے پیش کررہے ہیں۔ تحریک انصاف کے امیدوار بھی آزاد حیثیت میں مختلف نشانات کے ساتھ انتخابی میدان میں ڈٹ کرکھڑے ہیں۔
انتخابات کے نتیجے میں معاشی استحکام کی صورت میں پاکستان کی شرح نمو میں اضافے کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں جس کے بارے میں آئی ایم ایف نے رواں مالی سال پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار میں سست روی کی پیش گوئی کر رکھی ہے کہ معاشی ترقی کی رفتار 2 فی صد رہنے کے امکانات ہیں جب کہ چند ماہ قبل اکتوبر 2023 میں معاشی ترقی کا تخمینہ 2.5 فی صد لگایا گیا تھا جب کہ حکومت نے رواں مالی سال کے لیے معاشی ترقی کی شرح نمو 3.5 فی صد مقرر کر رکھی ہے۔
امید ہے کہ معاشی پالیسیوں میں مزید بہتری لائی گئی تو ایسی صورت میں اس ہدف کے حصول کا امکان ہے اور آئی ایم ایف کے اندازے دھرے کے دھرے رہ سکتے ہیں کیونکہ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں روپیہ بھی آہستہ آہستہ صحت مند ہوتا جا رہا ہے لیکن اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائی کو مزید مضبوط سے مضبوط ترکرنا اورکرپشن کی شدید بیخ کنی کی ضرورت ہے۔
حکومت نے زرعی پیداوار میں اضافے کی خاطر کھاد کی کنٹرول قیمت پر فراہمی کے اقدامات کو مضبوط کرنے پر عمل شروع کر دیا ہے، کیونکہ ملکی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 21 فی صد کے لگ بھگ ہے۔
اس سلسلے میں لاہور میں کھاد ڈیلرز کنونشن کا انعقاد کیا گیا تھا۔ جس میں کھاد بنانے والی کمپنیوں کے عہدیداروں اور ملک بھر کے کھاد کے ڈیلرز نے شرکت کی۔ اس موقع پر کھاد ڈیلرز نے یقین دلایا کہ وہ کھادوں کو مقرر کردہ نرخوں پر کسانوں کو دستیابی میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
اس طرح کمپنی اور ڈیلرز کے تعاون سے کھاد کی مقررہ قیمت پر دستیابی سے کسانوں کی پریشانی دور ہو جائے گی۔ ملک کے محنت کش کسان علی الصبح سردی اور گرمی میں کھیتوں میں جا کر جب فصل بہاراں کے انتظام میں مصروف ہو جاتا ہے تو ایسے میں اسے کھاد کی شدید طلب پیدا ہوتی ہے اور جب بلیک میں مہنگی کھاد کا ملنا دوسری طرف مطلوبہ رقم کا نہ ہونا، ایسی صورت میں وہ اپنا دل مسوس کر رہ جاتا ہے ۔