مسلم لیگ ن کا منشور اور وعدے
یہ عجب بات ہے کہ مسلم لیگ ن کے منشور میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے بارے میں کچھ تحریر نہیں کیا گیا
مسلم لیگ ن نے طویل انتظار کے بعد اپنا منشور انتخابات سے 11دن قبل پیش کر ہی دیا۔ مسلم لیگ ن کے اس منشور میں معاشی اصلاحات، بجلی سستی، ایک کروڑ نوکریاں، مہنگائی 10فیصد کم کرنے، نیب کا خاتمہ، پارلیمنٹ کی بالادستی، چھوٹے کسانوں کو بلاسود قرضے، تعلیم کے بجٹ میں اضافہ، یونیورسل ہیلتھ کوریج، پنچایت سسٹم، آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی اصلی حالت میں بحالی، چھوٹے مقدمات کا فیصلہ دو ماہ میں اور بھارت سے باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات کے نکات شامل ہیں۔
منشور کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی نے 40 صفحات پر مشتمل منشور کے اجراء کے موقع پر کہا کہ منشور کی تیاری پر چھ ماہ سے کام ہو رہا تھا، یوں ایک جامع دستاویز تیاری کی گئی ہے۔
مسلم لیگ ن کے منشور میں وعدے ہی وعدے نظر آتے ہیں مگر ریاستی ڈھانچہ میں کمی، غیر پیداواری اخراجات کے خاتمے اور معیشت کو اس قابل بنانے کہ عالمی اداروں کی ڈکٹیشن سے چھٹکارا مل جائے جیسے اہم مسائل کا حل منشور میں نظر نہیں آتا۔ مسلم لیگ ن کے اس منشور کا سب سے اہم نکتہ پارلیمنٹ کی تمام ریاستی اداروں پر بالادستی قائم کرنا ہے۔
یہ بڑی واضح حقیقت ہے کہ پارلیمنٹ کی تمام ریاستی اداروں پر بالادستی سے ہی جمہوری نظام مستحکم ہوسکتا ہے اور ریاست کی تمام ترجیحات عوام ہوسکتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو تاریخ بتاتی ہے کہ مسلم لیگ ن آمرانہ قوتوں کی سرپرستی میں وجود میں آئی، مگر میاں نواز شریف نے جلد ہی وزیر اعظم کے بااختیار ہونے اور پارلیمنٹ کے سپریم ہونے کی جدوجہد شروع کر دی تھی۔
یہ وجہ تھی کہ میاں نواز شریف کا غلام اسحاق خان سے اختیارات کے استعمال پر تضاد پیدا ہوا اور میاں صاحب اور غلام اسحاق خان کو اقتدار کے ایوان سے رخصت ہونا پڑا۔
دوسرے دور میں میاں نواز شریف نے اس وقت کی اپوزیشن رہنما بے نظیر بھٹو شہید کی مدد سے جنرل ضیاء الحق دور کی آئین کی آٹھویں شق کو آئین سے خارج اور اس وقت کے صدر فاروق لغاری کو بے اختیار کیا اور بھارت سے دوستی سمیت بنیادی پالیسیاں اختیار کیں۔بے نظیر بھٹو کے ساتھ 2005میں میثاق جمہوریت پر اتفاق کیا۔ یہ میثاقِ پارلیمنٹ کی بالادستی کا اہم ستون تھا۔ اس میثاق کی بناء پر صوبائی خود مختاری کا معاملہ بھی حل ہوا۔
نواز شریف نے تیسری دفعہ اقتدار میں آنے کے بعد بااختیار وزیر اعظم بننے کی کوشش کی تو بالادست مقتدرہ نے اس پر سزا دی۔ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کو ملک کی مختلف جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں مگر میاں نواز شریف نے ''ووٹ کو عزت دو '' کا نعرہ بلند کیا۔
یہ نعرہ پارلیمنٹ کی بالادستی کا نعرہ تھا مگر میاں صاحب کو علاج کے لیے لندن بھیج دیا گیا اور وہ بہت عرصے تک لوٹ کر نہ آئے۔اب ایک بار پھر میاں نواز شریف ملک کی اہم ترین شخصیت بن گئے اور ان کو تمام مقدمات سے نجات ملی اور ان کے وزیر اعظم بننے کی راہ میں رکاوٹ ختم کر دی گئی، یوں 2024 میاں صاحب کی زندگی کا ایک مختلف سال ہے۔
تجزیہ نگار اندازے لگا رہے ہیں کہ اب مسلم لیگ ن الیکٹیبل کی مدد سے برسر اقتدار آرہی ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ 2018میں ہائی برڈ سسٹم 1کو اقتدار ملا تھا تو اب ہائی برڈ سسٹم 2 کو اقتدار ملے گا۔ ملک میں انسانی حقوق کی خراب صورتحال، سیاسی کارکنوں کے خلاف آپریشن سے ثابت ہوتا ہے کہ سویلین اسپیس کم ہو رہا ہے۔
یہ عجب بات ہے کہ مسلم لیگ ن کے منشور میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے بارے میں کچھ تحریر نہیں کیا گیا۔ رقبہ کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان سیاسی ابتری کا شکار ہے، یوں جب قانون کی بالادستی نہیں ہوگی تو پارلیمنٹ کیسے بااختیار ہوگی؟ اس منشور میں احتساب کے ادارہ نیب کے خاتمے کی شق شامل ہے۔
نیب کا ادارہ ریاستی اداروں سے بدعنوانی ختم کرنے کے لیے قائم ہوا تھا مگر کچھ قوتیں نیب کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں، مگر ایک اور حقیقت ہے کہ تحریک انصاف نے بدعنوانی کے خاتمے کو بطور ہتھیار استعمال کیا تھا۔
مسلم لیگ ن کے اس منشور کا ایک اہم نکتہ بھارت سے باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات کی بحالی ہے۔ یہ منشور بنانے والے صاحبان دانش نے جرات کے ساتھ بھارت سے تعلقات استوار کرنے کے معاملے کو اہمیت دی ہے۔ ماہرین معاشیات کی اکثریت کی یہ رائے ہے کہ پاکستان کا معاشی بحران بھارت، افغانستان اور ایران سے معمول کے تعلقات کے بغیر حل نہیں ہوسکتا۔
بھارت سے تجارت پر پابندی کے زیادہ نقصانات پاکستان کو ہوئے ہیں۔ میاں شہباز شریف کے ساتھی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بھارت سے تجارت شروع کرنے کے لیے بنیادی کام مکمل کر لیا تھا۔
انھوں نے یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ اس فیصلے کا نوٹی فکیشن فوری طور پر جاری ہوگا، اگر بھارت سے معمول کی تجارت جاری رہتی تو مہنگائی میں کمی آسکتی تھی۔
بھارت سے سستی بجلی حاصل کر کے اس بحران کو کم کیا جاسکتا ہے، اگر پڑوسی ممالک سے تعلقات معمول پر نہیں آئے تو پھر ریاستی ڈھانچہ کم نہیں ہوسکتا۔ دفاعی بجٹ سمیت غیر پیداواری اخراجات میں کمی نہیں ہوسکتی۔ اگرچہ مسلم لیگ پنجاب میں ترقی کا دعویٰ کرتی ہے مگر گزشتہ ہفتے جاری ہونے والے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب میں ڈیڑھ کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے۔
سینٹرل پنجاب اور سرائیکی علاقہ میں کئی گاؤں ایسے ہیں جن کے مردوں نے اپنے گردے فروخت کر دیے ہیں۔ غیر قانونی طور پر یورپ جانے والے افراد میں سے اکثریت کا تعلق بھی پنجاب سے ہوتا ہے۔ پنجاب میں غربت کی لکیر کے نیچے 40 فیصد آبادی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
پاکستان کو ہر سال 7 ملین ڈالر کے بیرونی قرضوںکی ادائیگی کے لیے مزید قرضے حاصل کرنے پڑتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں گروتھ ریٹ 2 فیصد ہے مگر اقتصادیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر 5 سال تک یہ شرح 8 فیصد تک رہے گی تو پھر ہی غربت کے خاتمے اور ترقیاتی منصوبے شروع ہوسکیں گے۔
شہباز شریف کی اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ بجلی، گیس اور پٹرولیم کی مصنوعات کی سبسڈی نہیں دی جائے گی جس کی بناء پر نہ صرف مہنگائی بڑھی ہے بلکہ برآمدی اشیاء پر آنے والی لاگت میں بھی اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں زرمبادلہ کا بحران پیدا ہوا ہے۔
نئے منتخب وزیر اعظم کو فوری طور پر آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج لینا ہوگا۔ اس صورتحال میں مجموعی خسارہ کم نہیں ہوسکتا تو پھر یہی کہا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ ن کا منشور محض وعدوں پر مشتمل ہے۔
منشور کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی نے 40 صفحات پر مشتمل منشور کے اجراء کے موقع پر کہا کہ منشور کی تیاری پر چھ ماہ سے کام ہو رہا تھا، یوں ایک جامع دستاویز تیاری کی گئی ہے۔
مسلم لیگ ن کے منشور میں وعدے ہی وعدے نظر آتے ہیں مگر ریاستی ڈھانچہ میں کمی، غیر پیداواری اخراجات کے خاتمے اور معیشت کو اس قابل بنانے کہ عالمی اداروں کی ڈکٹیشن سے چھٹکارا مل جائے جیسے اہم مسائل کا حل منشور میں نظر نہیں آتا۔ مسلم لیگ ن کے اس منشور کا سب سے اہم نکتہ پارلیمنٹ کی تمام ریاستی اداروں پر بالادستی قائم کرنا ہے۔
یہ بڑی واضح حقیقت ہے کہ پارلیمنٹ کی تمام ریاستی اداروں پر بالادستی سے ہی جمہوری نظام مستحکم ہوسکتا ہے اور ریاست کی تمام ترجیحات عوام ہوسکتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو تاریخ بتاتی ہے کہ مسلم لیگ ن آمرانہ قوتوں کی سرپرستی میں وجود میں آئی، مگر میاں نواز شریف نے جلد ہی وزیر اعظم کے بااختیار ہونے اور پارلیمنٹ کے سپریم ہونے کی جدوجہد شروع کر دی تھی۔
یہ وجہ تھی کہ میاں نواز شریف کا غلام اسحاق خان سے اختیارات کے استعمال پر تضاد پیدا ہوا اور میاں صاحب اور غلام اسحاق خان کو اقتدار کے ایوان سے رخصت ہونا پڑا۔
دوسرے دور میں میاں نواز شریف نے اس وقت کی اپوزیشن رہنما بے نظیر بھٹو شہید کی مدد سے جنرل ضیاء الحق دور کی آئین کی آٹھویں شق کو آئین سے خارج اور اس وقت کے صدر فاروق لغاری کو بے اختیار کیا اور بھارت سے دوستی سمیت بنیادی پالیسیاں اختیار کیں۔بے نظیر بھٹو کے ساتھ 2005میں میثاق جمہوریت پر اتفاق کیا۔ یہ میثاقِ پارلیمنٹ کی بالادستی کا اہم ستون تھا۔ اس میثاق کی بناء پر صوبائی خود مختاری کا معاملہ بھی حل ہوا۔
نواز شریف نے تیسری دفعہ اقتدار میں آنے کے بعد بااختیار وزیر اعظم بننے کی کوشش کی تو بالادست مقتدرہ نے اس پر سزا دی۔ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کو ملک کی مختلف جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں مگر میاں نواز شریف نے ''ووٹ کو عزت دو '' کا نعرہ بلند کیا۔
یہ نعرہ پارلیمنٹ کی بالادستی کا نعرہ تھا مگر میاں صاحب کو علاج کے لیے لندن بھیج دیا گیا اور وہ بہت عرصے تک لوٹ کر نہ آئے۔اب ایک بار پھر میاں نواز شریف ملک کی اہم ترین شخصیت بن گئے اور ان کو تمام مقدمات سے نجات ملی اور ان کے وزیر اعظم بننے کی راہ میں رکاوٹ ختم کر دی گئی، یوں 2024 میاں صاحب کی زندگی کا ایک مختلف سال ہے۔
تجزیہ نگار اندازے لگا رہے ہیں کہ اب مسلم لیگ ن الیکٹیبل کی مدد سے برسر اقتدار آرہی ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ 2018میں ہائی برڈ سسٹم 1کو اقتدار ملا تھا تو اب ہائی برڈ سسٹم 2 کو اقتدار ملے گا۔ ملک میں انسانی حقوق کی خراب صورتحال، سیاسی کارکنوں کے خلاف آپریشن سے ثابت ہوتا ہے کہ سویلین اسپیس کم ہو رہا ہے۔
یہ عجب بات ہے کہ مسلم لیگ ن کے منشور میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے بارے میں کچھ تحریر نہیں کیا گیا۔ رقبہ کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان سیاسی ابتری کا شکار ہے، یوں جب قانون کی بالادستی نہیں ہوگی تو پارلیمنٹ کیسے بااختیار ہوگی؟ اس منشور میں احتساب کے ادارہ نیب کے خاتمے کی شق شامل ہے۔
نیب کا ادارہ ریاستی اداروں سے بدعنوانی ختم کرنے کے لیے قائم ہوا تھا مگر کچھ قوتیں نیب کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں، مگر ایک اور حقیقت ہے کہ تحریک انصاف نے بدعنوانی کے خاتمے کو بطور ہتھیار استعمال کیا تھا۔
مسلم لیگ ن کے اس منشور کا ایک اہم نکتہ بھارت سے باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات کی بحالی ہے۔ یہ منشور بنانے والے صاحبان دانش نے جرات کے ساتھ بھارت سے تعلقات استوار کرنے کے معاملے کو اہمیت دی ہے۔ ماہرین معاشیات کی اکثریت کی یہ رائے ہے کہ پاکستان کا معاشی بحران بھارت، افغانستان اور ایران سے معمول کے تعلقات کے بغیر حل نہیں ہوسکتا۔
بھارت سے تجارت پر پابندی کے زیادہ نقصانات پاکستان کو ہوئے ہیں۔ میاں شہباز شریف کے ساتھی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بھارت سے تجارت شروع کرنے کے لیے بنیادی کام مکمل کر لیا تھا۔
انھوں نے یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ اس فیصلے کا نوٹی فکیشن فوری طور پر جاری ہوگا، اگر بھارت سے معمول کی تجارت جاری رہتی تو مہنگائی میں کمی آسکتی تھی۔
بھارت سے سستی بجلی حاصل کر کے اس بحران کو کم کیا جاسکتا ہے، اگر پڑوسی ممالک سے تعلقات معمول پر نہیں آئے تو پھر ریاستی ڈھانچہ کم نہیں ہوسکتا۔ دفاعی بجٹ سمیت غیر پیداواری اخراجات میں کمی نہیں ہوسکتی۔ اگرچہ مسلم لیگ پنجاب میں ترقی کا دعویٰ کرتی ہے مگر گزشتہ ہفتے جاری ہونے والے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب میں ڈیڑھ کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے۔
سینٹرل پنجاب اور سرائیکی علاقہ میں کئی گاؤں ایسے ہیں جن کے مردوں نے اپنے گردے فروخت کر دیے ہیں۔ غیر قانونی طور پر یورپ جانے والے افراد میں سے اکثریت کا تعلق بھی پنجاب سے ہوتا ہے۔ پنجاب میں غربت کی لکیر کے نیچے 40 فیصد آبادی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
پاکستان کو ہر سال 7 ملین ڈالر کے بیرونی قرضوںکی ادائیگی کے لیے مزید قرضے حاصل کرنے پڑتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں گروتھ ریٹ 2 فیصد ہے مگر اقتصادیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر 5 سال تک یہ شرح 8 فیصد تک رہے گی تو پھر ہی غربت کے خاتمے اور ترقیاتی منصوبے شروع ہوسکیں گے۔
شہباز شریف کی اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ بجلی، گیس اور پٹرولیم کی مصنوعات کی سبسڈی نہیں دی جائے گی جس کی بناء پر نہ صرف مہنگائی بڑھی ہے بلکہ برآمدی اشیاء پر آنے والی لاگت میں بھی اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں زرمبادلہ کا بحران پیدا ہوا ہے۔
نئے منتخب وزیر اعظم کو فوری طور پر آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج لینا ہوگا۔ اس صورتحال میں مجموعی خسارہ کم نہیں ہوسکتا تو پھر یہی کہا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ ن کا منشور محض وعدوں پر مشتمل ہے۔