’’کھلاڑیوں کو ورلڈکپ سے پہلے لیگز کی این او سی نہیں دینا چاہیے‘‘
ٹی 20 ورلڈکپ میں ہمارے پاس اچھے چانسز ہیں، ہماری ٹیم اچھی ہے، سابق کپتان
قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان مصباح الحق نے بورڈ کی عدم تسلسل کی پالیسی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر ملکی تو کیا اچھے مقامی کوچز بھی پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے ساتھ کام کرنا نہیں چاہتے۔
نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق ہیڈ کوچ اور سابق چیف سلیکٹر مصباح الحق نے کہا کہ عالمی کپ میں امریکا اور ویسٹ انڈیز کی کنڈیشنز پاکستان کے لیے ساز گار رہیں گی لیکن پاکستان کواچھا کامبی نیشن بنانا ہوگا۔
ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کے حوالے سے تجاویز دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس اچھے فاسٹ باؤلرز ہیں اور بہتر بیٹرز بھی دستیاب ہیں تاہم اسپن کے شعبے میں توجہ کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کھلاڑیوں کو ورلڈکپ سے پہلے لیگز کی این او سی نہیں دینی چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ ٹیسٹ کرکٹ کا اپنا مقام ہے، ٹی20 کرکٹ سے ٹیسٹ نہیں ون ڈے کرکٹ متاثر ہوسکتی ہے، ٹیسٹ میں کارکردگی کی بدولت ویسٹ انڈیز کا شمر جوزف سب کا ہیرو بن گیا ہے۔
سابق کپتان نے کہا کہ پی سی بی ٹیکنیکل کمیٹی کا اب وجود نہیں،کمیٹی اس وقت تک تھی جب ڈائریکٹر نہیں تھا، پاکستان کرکٹ میں ایڈہاک ازم نقصان دہ ہے، اعلیٰ سطح پر تبدیلی سے دیگر تبدیلیاں نہیں ہونی چاہئیں، عدم تسلسل کی وجہ سے طویل منصوبہ بندی ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں ایک سیریز کی بنیاد پر گھر بھیج دیتے ہیں، یہ طریقہ درست نہیں ہے، آج غیر ملکی کوچ تو کیا، سرفہرست مقامی کوچز بھی پی سی بی کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتے۔
سابق قومی سلیکٹر کا کہنا تھا کہ ٹی 20 ورلڈکپ میں ہمارے پاس اچھے چانسز ہیں، ہماری ٹیم اچھی ہے، اسپن کے حوالے سے تھوڑا سوچنا ہے، ایس پی ایل میں کھلاڑیوں کو پیسے ملنے میں تھوڑی تاخیر ہوٸی ہے، معاہدوں کے مطابق جلد کھلاڑیوں کو ان کی رقم مل جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہر فارمیٹ میں الگ کپتان بنانے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے، ایک سے زاٸد کپتان ہونا کوئی بری بات نہیں۔
مصباح الحق کا کہنا تھا کہ دو لیگز کی شرط درست نہیں، اگر بڑا ایونٹ نہیں تو کھیلنے دیں، لیگز کی پالیسی حالات کو دیکھ کر بنائی جائے، فرصت کے اوقات میں کھلاڑیوں کو لیگز میں شرکت کا موقع ملنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ کھلاڑیوں کی توجہ مختصر فارمیٹ پر زیادہ ہے، ٹیسٹ میں ایک میچ کی پرفارمنس سے آپ اسٹار بن جاتے ہیں۔
نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق ہیڈ کوچ اور سابق چیف سلیکٹر مصباح الحق نے کہا کہ عالمی کپ میں امریکا اور ویسٹ انڈیز کی کنڈیشنز پاکستان کے لیے ساز گار رہیں گی لیکن پاکستان کواچھا کامبی نیشن بنانا ہوگا۔
ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کے حوالے سے تجاویز دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس اچھے فاسٹ باؤلرز ہیں اور بہتر بیٹرز بھی دستیاب ہیں تاہم اسپن کے شعبے میں توجہ کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کھلاڑیوں کو ورلڈکپ سے پہلے لیگز کی این او سی نہیں دینی چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ ٹیسٹ کرکٹ کا اپنا مقام ہے، ٹی20 کرکٹ سے ٹیسٹ نہیں ون ڈے کرکٹ متاثر ہوسکتی ہے، ٹیسٹ میں کارکردگی کی بدولت ویسٹ انڈیز کا شمر جوزف سب کا ہیرو بن گیا ہے۔
سابق کپتان نے کہا کہ پی سی بی ٹیکنیکل کمیٹی کا اب وجود نہیں،کمیٹی اس وقت تک تھی جب ڈائریکٹر نہیں تھا، پاکستان کرکٹ میں ایڈہاک ازم نقصان دہ ہے، اعلیٰ سطح پر تبدیلی سے دیگر تبدیلیاں نہیں ہونی چاہئیں، عدم تسلسل کی وجہ سے طویل منصوبہ بندی ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں ایک سیریز کی بنیاد پر گھر بھیج دیتے ہیں، یہ طریقہ درست نہیں ہے، آج غیر ملکی کوچ تو کیا، سرفہرست مقامی کوچز بھی پی سی بی کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتے۔
سابق قومی سلیکٹر کا کہنا تھا کہ ٹی 20 ورلڈکپ میں ہمارے پاس اچھے چانسز ہیں، ہماری ٹیم اچھی ہے، اسپن کے حوالے سے تھوڑا سوچنا ہے، ایس پی ایل میں کھلاڑیوں کو پیسے ملنے میں تھوڑی تاخیر ہوٸی ہے، معاہدوں کے مطابق جلد کھلاڑیوں کو ان کی رقم مل جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہر فارمیٹ میں الگ کپتان بنانے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے، ایک سے زاٸد کپتان ہونا کوئی بری بات نہیں۔
مصباح الحق کا کہنا تھا کہ دو لیگز کی شرط درست نہیں، اگر بڑا ایونٹ نہیں تو کھیلنے دیں، لیگز کی پالیسی حالات کو دیکھ کر بنائی جائے، فرصت کے اوقات میں کھلاڑیوں کو لیگز میں شرکت کا موقع ملنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ کھلاڑیوں کی توجہ مختصر فارمیٹ پر زیادہ ہے، ٹیسٹ میں ایک میچ کی پرفارمنس سے آپ اسٹار بن جاتے ہیں۔