رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی
آج لوگ نفسیاتی طورپراس مقام پرجاپہنچے ہیں کہ عقائد ونظریات تودوردوسروں کے نقطہ نظر تک کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں
ملک کے دوسرے بڑے شہر کی ہائی کورٹ کے احاطے میں ایک نوجوان خاتون کو اس کے مشتعل والدین اور دیگر عزیز واقارب نے اینٹیں مارکر محض اس لیے ہلاک کردیا،کیونکہ اس نے پسند کی شادی کی تھی ۔ چند ہفتے قبل ملتان کے ایک وکیل راشد رحمان کو قتل کردیاگیاتھا ۔چناب نگر میں امریکا سے آئے ایک ڈاکٹر کو آبائی قبرستان کے دروازے پر اس لیے قتل کردیا جاتا ہے، کیونکہ اس کا تعلق ایک ایسے عقیدے سے تھا، جسے عوام کی اکثریت پسند نہیںکرتی۔جب کہ گزشتہ دودہائیوں سے مسلک اور فرقے کے نام پر قتل روز کا معمول بن چکا ہے۔
یہ رویے اور رجحانات معاشرے میں جنون کی حدتک بڑھی ہوئی عدم برداشت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مگراس قسم کے واقعات کے سدباب کے لیے سرکاری سطح پر عملاً کوئی ٹھوس اقدامات نہیںکیے جارہے، جس کی وجہ سے ان واقعات کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ۔قتل کی مختلف اقسام اور اسباب ہوتے ہیں ۔لیکن پاکستان میں دو طرح قتل کی شرح بہت زیادہ ہے ۔اول، عزت کے نام پر قتل ۔دوئم،عقیدے یا مسلک کی بنیاد پر قتل ۔ان دونوں اقسام کے قتل میں قاتل بڑے فخر سے اپنے اقدام کا اعتراف کرتاہے ۔ اس کے عزیز واقارب اور دوست احباب اس عمل پر اسے سراہتے ہیں ۔اس لیے قتل کے ان واقعات کا جائزہ لیتے وقت ہمیں چند باتوں کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔
اول،جس خطے پر پاکستان بنا ہے، وہاں قبائلی اور جاگیردارانہ کلچر کی جڑیں خاصی مضبوط ہیں ۔دوئم، اس کلچر کو ختم یاکمزور کرنے کے لیے ریاستی یا سماجی سطح پر کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے یہ رجحانات مزید مستحکم ہوئے ہیں ۔ سوئم، ریاست کے مذہبی تشخص کے حوالے سے منصوبہ سازوں نے بعض ایسے ابہام پیدا کردیے جن کے نتیجے میں مذہبیت (Religiosity) کو مذہب (Religion) سے زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی ہے ۔جو مختلف عقائد کے ماننے والوں کے درمیان سیاسی رسہ کشی کو پروان چڑھانے کا سبب بن رہی ہے۔ عقیدے کے نام پر قتل وغارت گری اسی روئیے کا شاخسانہ ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ اربابِ اختیار بالخصوص ریاستی منصوبہ سازوں نے ان واقعات کو کبھی سنجیدگی سے سمجھنے اور ان کا سدباب کرنے کی کوشش نہیںکی ۔ انگریز دور میں بنائے جانے والے والے قوانین بالخصوص پینل کوڈ اور کرمنل پروسیجر کوڈ میں موجود متعلقہ شقوں پر بھی عمل درآمد نہیں ہو رہا بلکہ مخصوص مفادات کے حصول کی خاطر ریاست ،سیاسی جماعتیں اور سماجی تنظیمیں ان رویوں اور رجحانات کی سرپرستی کرتی ہیں،جس کی وجہ سے ان رجحانات کو تقویت حاصل ہورہی ہے ۔ انتظامیہ جو اسی معاشرت سے تعلق رکھتی ہے، اس قسم کے قتل کو معیوب نہیں سمجھتی،وہ ایسے واقعات کو تماش بین بنی دیکھتی رہتی ہے جیسا کہ لاہور والے واقعے میں ہوا۔
چونکہ مقامی انتظامیہ اور پولیس قاتل کو غیرت مند سمجھتے ،اس لیے اس واقعے کی FIRمیں ایسی دفعات لگاتے ہیں، جن سے قاتل کے بچ نکلنے کی راہ ہموارہو سکے۔یہی سبب ہے کہ پاکستان میں آج تک ایسے کسی قاتل کو سزا نہیں ہوئی،جس نے عزت یا عقیدے کے نام پر قتل کیا ہو ۔حکمرانوں، منصوبہ سازوں اور سیاستدانوں کی بے حسی کا اندازہ دوتین دہائیوں کے دوران رونماء ہونے والے کئی واقعات سے لگایا جاسکتا ہے ۔ 1995 میں پشاورکے ایک بااثر گھرانے کی لڑکی کو پسند کی شادی کرنے پراس کے والدین نے حنا جیلانی کے دفتر کے باہر سفاکی کے ساتھ قتل کروا دیا تھا۔
حکومت کی طرف سے ان افراد کے خلاف کارروائی تو دورکی بات ،سابق سینیٹر اقبال حیدر مرحوم نے اس واقعے کے بعد عزت کے نام پر قتل کی روک تھام کے لیے قانون سازی کرنے کی کوشش کی تو انھیں اس وقت کے 66اراکین پر مشتمل ایوان میں صرف سینیٹر جمیل الدین عالی اور بیرسٹر اعتزاز احسن کے سوا کسی سینیٹر کی حمایت حاصل نہ ہوسکی ۔ بلکہ ترقی پسندی کی دعویدار ایک جماعت کے مرکزی رہنماء نے عزت کے نام پر قتل کو قبائلی روایات کا حصہ قرار دے کر اس بل کی مخالفت بھی کی۔ دوسرا واقعہ بلوچستان کا ہے،جہاں عزت کے نام پرسات لڑکیوں کو زندہ دفن کردیا گیا جس رکن اسمبلی کے حلقے میں یہ واقعہ ہوا اس نے بھی اس واقعے کو قبائلی روایت قرار دے کر اس کی حمایت کی۔
المناک پہلو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی جیسی روشن خیال جماعت نے اس رکنِ قومی اسمبلی کی سرزنش کرنے کے بجائے اسے وفاقی وزارت عنایت کردی ۔چند ہفتے قبل میڈیا میں شکار پور سے منتخب ہونے والے ایک رکن قومی اسمبلی پربھی اسی قسم کے جرگے میں ایسا ہی فیصلہ کرنے کا الزام عائد ہوا، مگر حکومت نے ان کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز کیا ۔ وقت اور حالات نے ثابت کیا ہے کہ پسند کی شادی کرنے والے جوڑوں کی زندگیوں کو اجیرن بنانے اور ان کے وارثوں پر جرگوں میں بھاری جرمانے عائد کرنے میں مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکینِ قومی وصوبائی اسمبلی پیش پیش ہوتے ہیں، جس سے حکمران اشرافیہ کی ذہنیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
سندھ اور جنوبی پنجاب میں کاروکاری کی رسم کے بارے میں جن تنظیموں نے تحقیق کی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ کاروکاری قتل صرف پسند کی شادی پر ہی نہیں کیے جاتے، بلکہ جاگیردار گھرانے اپنی بہنوں کو جائیداد کا حصہ نہ دینے کے لیے ان پر کسی بھی ایسے ہاری کے ساتھ ناجائز تعلق کا الزام لگاکر دونوں کو قتل کروا دیتے ہیں جس سے انھیں جان چھڑانی ہو ۔ جب کہ مغربی پنجاب میں ونی کی رسم ایک بہت بڑا سماجی مسئلہ بن چکی ہے ۔اس رسم کے تحت نوعمر لڑکیوں کو بوڑھے مردوں کے عقد میں دے دیا جاتا ہے ۔ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک صرف دیہی معاشرت کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ شہروں میں بھی یہ رویہ اور رجحان اتنا ہی مضبوط ہے۔
1998 میں ہم نے 100 ایسے افراد کا انٹرویو کیا جن کی کم سے کم تعلیم گریجویشن تھی اور جو دو نسلوں سے اربنائزڈ ہوچکے تھے ۔ ان سے پوچھا گیا تھا کہ آیا وہ خواتین کو ایک آزاد شہری اور مساوی پارٹنر سمجھتے ہیں یا انھیں اپنی ذاتی ملکیت تصور کرتے ہیں ۔90 فیصد شہری تعلیم یافتہ لوگوں نے بڑے فخر سے کہا کہ وہ خواتین کو اپنی ذاتی ملکیت کا حصہ سمجھتے ہیں ۔اس سے پاکستان میں مجموعی طور پر پائے جانے والے Mindset کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ۔ یہی کچھ معاملہ مختلف عقائد کے ماننے والوں کے بارے میں عمومی طور پر پائی جانے والی رائے ہے۔لوگوں کی اکثریت کسی مخالف عقیدے کے ماننے والوں کے ساتھ ہونے والی کسی زیادتیوں پر بھری محفل میں تو بظاہر تاسف کا اظہار کرتی ہے۔ لیکن نجی محفلوں میں ان کا رویہ مختلف ہوتا ہے۔
ان رویوں کے پروان چڑھنے میں علاقے کی مسجد کے پیش امام کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ بہت کم لوگ اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ محلے کی مسجد کے پیش امام کا دن میں پانچ وقت عوام کے ساتھ رابطہ ہوتا ہے۔وہ انھیں جس راہ پر لگانا چاہے،باآسانی لگا سکتاہے۔اگر حکومت معاشرے میں تحمل، برداشت اور رواداری کے علاوہ دیگر منفی رجحانات کی بیخ کنی کی سنجیدگی کے ساتھ خواہشمند ہے تو اسے وقتاً فوقتاً امام مسجدکو سماجی معاملات میں شریک کرناہوگا۔جس سے کمیونٹی کے بہت سے معاملات حل ہوسکتے ہیں۔لیکن اس مقصد کے لیے امام مسجد کی کمیونٹی ڈیولپمنٹ کے بارے میں وقتاًفوقتاًکی Orientation کرنا ہوگی۔
یوں امام مسجد کی مدد سے بہت سے کمیونٹی معاملات کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔اس کے علاوہ اسے اس بات پر بھی آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنے جمعے کے وعظ میں دیگر عقائد اور مسالک کے خلاف زہرافشانی کرنے کے بجائے تحمل، برداشت اور رواداری کا درس دے۔پشاور کے سرگرم سماجی کارکن تحسین اللہ خان نے مختلف جید علماء کے تعاون سے خاصی عرق ریزی کے بعدجمعے کی تقریر کے لیے مختلف موضوعات پر100کے قریب وعظ تیار کیے تھے۔مگر حکومت اور سول سوسائٹی کی عدم دلچسپی کے باعث یہ وعظ جو رواداری، تحمل اور برداشت کا درس دینے کا سبب بن سکتے تھے، الماریوں کی زینت بنے رہ گئے۔ پاکستانی معاشرے کے اندر موجود تضادات کے گہرا ہونے کے باعث فکری،نظریاتی اورمعاشرتی بنیادوں پر تقسیم بھی گہری ہورہی ہے۔جو سفاکانہ ردعمل میںاضافہ کا سبب بن رہی ہے۔
آج لوگ نفسیاتی طورپر اس مقام پر جاپہنچے ہیں کہ عقائد ونظریات تو دور کی بات دوسروں کے خیالات، تصورات اور نقطہ نظر تک کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے، جس پر قابو پانا حکومت کی اولین ذمے داری ہے۔ کیونکہ اس قسم کے معاملات کو بے لگام چھوڑ دینے سے معاشرے میں قانون کی عملداری بالکل ختم ہوجاتی ہے اور پورامعاشرہ شتر بے مہار بن جاتا ہے، جیسا کہ پاکستان میں آج کل ہورہا ہے۔ سول سوسائٹی، ذرایع ابلاغ اور اہل دانش پر بھی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان رجحانات پر قابو پانے میں حکومت کو ممکنہ تعاون فراہم کریں اور حکومت ان اداروں کوہر قسم کاتحفظ فراہم کرے۔اگر اس مرض پر قابو نہیں پایا گیا تو یہ ایک ایسا ناسور بن جائے گا کہ جس کا علاج ممکن نہیں ہوسکے گا۔
یہ رویے اور رجحانات معاشرے میں جنون کی حدتک بڑھی ہوئی عدم برداشت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مگراس قسم کے واقعات کے سدباب کے لیے سرکاری سطح پر عملاً کوئی ٹھوس اقدامات نہیںکیے جارہے، جس کی وجہ سے ان واقعات کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ۔قتل کی مختلف اقسام اور اسباب ہوتے ہیں ۔لیکن پاکستان میں دو طرح قتل کی شرح بہت زیادہ ہے ۔اول، عزت کے نام پر قتل ۔دوئم،عقیدے یا مسلک کی بنیاد پر قتل ۔ان دونوں اقسام کے قتل میں قاتل بڑے فخر سے اپنے اقدام کا اعتراف کرتاہے ۔ اس کے عزیز واقارب اور دوست احباب اس عمل پر اسے سراہتے ہیں ۔اس لیے قتل کے ان واقعات کا جائزہ لیتے وقت ہمیں چند باتوں کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔
اول،جس خطے پر پاکستان بنا ہے، وہاں قبائلی اور جاگیردارانہ کلچر کی جڑیں خاصی مضبوط ہیں ۔دوئم، اس کلچر کو ختم یاکمزور کرنے کے لیے ریاستی یا سماجی سطح پر کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے یہ رجحانات مزید مستحکم ہوئے ہیں ۔ سوئم، ریاست کے مذہبی تشخص کے حوالے سے منصوبہ سازوں نے بعض ایسے ابہام پیدا کردیے جن کے نتیجے میں مذہبیت (Religiosity) کو مذہب (Religion) سے زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی ہے ۔جو مختلف عقائد کے ماننے والوں کے درمیان سیاسی رسہ کشی کو پروان چڑھانے کا سبب بن رہی ہے۔ عقیدے کے نام پر قتل وغارت گری اسی روئیے کا شاخسانہ ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ اربابِ اختیار بالخصوص ریاستی منصوبہ سازوں نے ان واقعات کو کبھی سنجیدگی سے سمجھنے اور ان کا سدباب کرنے کی کوشش نہیںکی ۔ انگریز دور میں بنائے جانے والے والے قوانین بالخصوص پینل کوڈ اور کرمنل پروسیجر کوڈ میں موجود متعلقہ شقوں پر بھی عمل درآمد نہیں ہو رہا بلکہ مخصوص مفادات کے حصول کی خاطر ریاست ،سیاسی جماعتیں اور سماجی تنظیمیں ان رویوں اور رجحانات کی سرپرستی کرتی ہیں،جس کی وجہ سے ان رجحانات کو تقویت حاصل ہورہی ہے ۔ انتظامیہ جو اسی معاشرت سے تعلق رکھتی ہے، اس قسم کے قتل کو معیوب نہیں سمجھتی،وہ ایسے واقعات کو تماش بین بنی دیکھتی رہتی ہے جیسا کہ لاہور والے واقعے میں ہوا۔
چونکہ مقامی انتظامیہ اور پولیس قاتل کو غیرت مند سمجھتے ،اس لیے اس واقعے کی FIRمیں ایسی دفعات لگاتے ہیں، جن سے قاتل کے بچ نکلنے کی راہ ہموارہو سکے۔یہی سبب ہے کہ پاکستان میں آج تک ایسے کسی قاتل کو سزا نہیں ہوئی،جس نے عزت یا عقیدے کے نام پر قتل کیا ہو ۔حکمرانوں، منصوبہ سازوں اور سیاستدانوں کی بے حسی کا اندازہ دوتین دہائیوں کے دوران رونماء ہونے والے کئی واقعات سے لگایا جاسکتا ہے ۔ 1995 میں پشاورکے ایک بااثر گھرانے کی لڑکی کو پسند کی شادی کرنے پراس کے والدین نے حنا جیلانی کے دفتر کے باہر سفاکی کے ساتھ قتل کروا دیا تھا۔
حکومت کی طرف سے ان افراد کے خلاف کارروائی تو دورکی بات ،سابق سینیٹر اقبال حیدر مرحوم نے اس واقعے کے بعد عزت کے نام پر قتل کی روک تھام کے لیے قانون سازی کرنے کی کوشش کی تو انھیں اس وقت کے 66اراکین پر مشتمل ایوان میں صرف سینیٹر جمیل الدین عالی اور بیرسٹر اعتزاز احسن کے سوا کسی سینیٹر کی حمایت حاصل نہ ہوسکی ۔ بلکہ ترقی پسندی کی دعویدار ایک جماعت کے مرکزی رہنماء نے عزت کے نام پر قتل کو قبائلی روایات کا حصہ قرار دے کر اس بل کی مخالفت بھی کی۔ دوسرا واقعہ بلوچستان کا ہے،جہاں عزت کے نام پرسات لڑکیوں کو زندہ دفن کردیا گیا جس رکن اسمبلی کے حلقے میں یہ واقعہ ہوا اس نے بھی اس واقعے کو قبائلی روایت قرار دے کر اس کی حمایت کی۔
المناک پہلو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی جیسی روشن خیال جماعت نے اس رکنِ قومی اسمبلی کی سرزنش کرنے کے بجائے اسے وفاقی وزارت عنایت کردی ۔چند ہفتے قبل میڈیا میں شکار پور سے منتخب ہونے والے ایک رکن قومی اسمبلی پربھی اسی قسم کے جرگے میں ایسا ہی فیصلہ کرنے کا الزام عائد ہوا، مگر حکومت نے ان کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز کیا ۔ وقت اور حالات نے ثابت کیا ہے کہ پسند کی شادی کرنے والے جوڑوں کی زندگیوں کو اجیرن بنانے اور ان کے وارثوں پر جرگوں میں بھاری جرمانے عائد کرنے میں مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکینِ قومی وصوبائی اسمبلی پیش پیش ہوتے ہیں، جس سے حکمران اشرافیہ کی ذہنیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
سندھ اور جنوبی پنجاب میں کاروکاری کی رسم کے بارے میں جن تنظیموں نے تحقیق کی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ کاروکاری قتل صرف پسند کی شادی پر ہی نہیں کیے جاتے، بلکہ جاگیردار گھرانے اپنی بہنوں کو جائیداد کا حصہ نہ دینے کے لیے ان پر کسی بھی ایسے ہاری کے ساتھ ناجائز تعلق کا الزام لگاکر دونوں کو قتل کروا دیتے ہیں جس سے انھیں جان چھڑانی ہو ۔ جب کہ مغربی پنجاب میں ونی کی رسم ایک بہت بڑا سماجی مسئلہ بن چکی ہے ۔اس رسم کے تحت نوعمر لڑکیوں کو بوڑھے مردوں کے عقد میں دے دیا جاتا ہے ۔ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک صرف دیہی معاشرت کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ شہروں میں بھی یہ رویہ اور رجحان اتنا ہی مضبوط ہے۔
1998 میں ہم نے 100 ایسے افراد کا انٹرویو کیا جن کی کم سے کم تعلیم گریجویشن تھی اور جو دو نسلوں سے اربنائزڈ ہوچکے تھے ۔ ان سے پوچھا گیا تھا کہ آیا وہ خواتین کو ایک آزاد شہری اور مساوی پارٹنر سمجھتے ہیں یا انھیں اپنی ذاتی ملکیت تصور کرتے ہیں ۔90 فیصد شہری تعلیم یافتہ لوگوں نے بڑے فخر سے کہا کہ وہ خواتین کو اپنی ذاتی ملکیت کا حصہ سمجھتے ہیں ۔اس سے پاکستان میں مجموعی طور پر پائے جانے والے Mindset کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ۔ یہی کچھ معاملہ مختلف عقائد کے ماننے والوں کے بارے میں عمومی طور پر پائی جانے والی رائے ہے۔لوگوں کی اکثریت کسی مخالف عقیدے کے ماننے والوں کے ساتھ ہونے والی کسی زیادتیوں پر بھری محفل میں تو بظاہر تاسف کا اظہار کرتی ہے۔ لیکن نجی محفلوں میں ان کا رویہ مختلف ہوتا ہے۔
ان رویوں کے پروان چڑھنے میں علاقے کی مسجد کے پیش امام کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ بہت کم لوگ اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ محلے کی مسجد کے پیش امام کا دن میں پانچ وقت عوام کے ساتھ رابطہ ہوتا ہے۔وہ انھیں جس راہ پر لگانا چاہے،باآسانی لگا سکتاہے۔اگر حکومت معاشرے میں تحمل، برداشت اور رواداری کے علاوہ دیگر منفی رجحانات کی بیخ کنی کی سنجیدگی کے ساتھ خواہشمند ہے تو اسے وقتاً فوقتاً امام مسجدکو سماجی معاملات میں شریک کرناہوگا۔جس سے کمیونٹی کے بہت سے معاملات حل ہوسکتے ہیں۔لیکن اس مقصد کے لیے امام مسجد کی کمیونٹی ڈیولپمنٹ کے بارے میں وقتاًفوقتاًکی Orientation کرنا ہوگی۔
یوں امام مسجد کی مدد سے بہت سے کمیونٹی معاملات کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔اس کے علاوہ اسے اس بات پر بھی آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنے جمعے کے وعظ میں دیگر عقائد اور مسالک کے خلاف زہرافشانی کرنے کے بجائے تحمل، برداشت اور رواداری کا درس دے۔پشاور کے سرگرم سماجی کارکن تحسین اللہ خان نے مختلف جید علماء کے تعاون سے خاصی عرق ریزی کے بعدجمعے کی تقریر کے لیے مختلف موضوعات پر100کے قریب وعظ تیار کیے تھے۔مگر حکومت اور سول سوسائٹی کی عدم دلچسپی کے باعث یہ وعظ جو رواداری، تحمل اور برداشت کا درس دینے کا سبب بن سکتے تھے، الماریوں کی زینت بنے رہ گئے۔ پاکستانی معاشرے کے اندر موجود تضادات کے گہرا ہونے کے باعث فکری،نظریاتی اورمعاشرتی بنیادوں پر تقسیم بھی گہری ہورہی ہے۔جو سفاکانہ ردعمل میںاضافہ کا سبب بن رہی ہے۔
آج لوگ نفسیاتی طورپر اس مقام پر جاپہنچے ہیں کہ عقائد ونظریات تو دور کی بات دوسروں کے خیالات، تصورات اور نقطہ نظر تک کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے، جس پر قابو پانا حکومت کی اولین ذمے داری ہے۔ کیونکہ اس قسم کے معاملات کو بے لگام چھوڑ دینے سے معاشرے میں قانون کی عملداری بالکل ختم ہوجاتی ہے اور پورامعاشرہ شتر بے مہار بن جاتا ہے، جیسا کہ پاکستان میں آج کل ہورہا ہے۔ سول سوسائٹی، ذرایع ابلاغ اور اہل دانش پر بھی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان رجحانات پر قابو پانے میں حکومت کو ممکنہ تعاون فراہم کریں اور حکومت ان اداروں کوہر قسم کاتحفظ فراہم کرے۔اگر اس مرض پر قابو نہیں پایا گیا تو یہ ایک ایسا ناسور بن جائے گا کہ جس کا علاج ممکن نہیں ہوسکے گا۔