داغ نہ لگ جائے
یہ لندن ہے جہاں پنجاب کے ایک سابق گورنرنے بھارتی ٹینکوں پرسوار ہوکر پاکستان کے فوجی حکمران کا تختہ الٹنے کا اعلان کیا
''سید یوسف رضا گیلانی محمد خان جونیجو کی حکومت میں ایک نوجوان وزیر تھے۔ ان کو وزیر بنے ابھی کچھ عرصہ ہوا تھا۔ وزیراعظم جونیجو اور پیر صاحب پگاڑا کی پنجاب کے وزیراعلیٰ نواز شریف سے نہیں بنتی تھی۔ اور تو اور، جنرل ضیاء الحق کو بھی یہ گلہ تھا کہ نواز شریف یہ سمجھتے تھے کہ وہ وزیراعلیٰ پنجاب اس لیے تھے کہ ارکانِ صوبائی اسمبلی کی اکثریت ان کے ساتھ تھی۔ یہ بات جنرل ضیاء کو ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ نواز شریف یہ سمجھیں کہ وہ اپنی وجہ سے وزیراعلیٰ تھے نہ کہ جنرل ضیاء الحق کی بدولت! جنرل ضیاء نے اپنے دل کی بات پیر پگاڑا کے سامنے رکھی۔
جنرل ضیاء کا دکھڑا سن کر پیر پگاڑا نے فرمایا کہ سائیں فکر نہ کریں، نواز شریف ٹھیک ہوجائیں گے۔ اگلے دن پیر پگاڑا نے یوسف رضا گیلانی کو بلایا اور انھیں کہا کہ آپ پنجاب جائیں اور اپنے آپ کو وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر ممبرانِ اسمبلی کے سامنے پیش کرنا شروع کریں اور اپنے ساتھ چند بڑے بڑے سیاسی لوگوں کو شامل کریں۔ گیلانی صاحب نے پیر پگاڑا کے کہنے پر پنجاب میں جاکر ڈیرے لگا دیے، وہ ان دنوں وزیر ریلوے تھے۔ ائیرپورٹ اور ریلوے اسٹیشن سے آتے جاتے پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے درجنوں اراکین اسمبلی نے ان کا استقبال کرنا شروع کردیا۔ یہ خبر پھیل چکی تھی کہ وفاقی حکومت یوسف رضا گیلانی کو نیا وزیراعلیٰ بنانا چاہتی ہے۔ جب بات زیادہ پھیل گئی تو بڑے بڑے لوگوں نے ان سے خفیہ رابطے کرنا شروع کردیے۔
ان میں نصراللہ دریشک، عاشق گوپانگ، ملک اللہ یار کھنڈا، مخدوم الطاف، رفیق لغاری اور دیگر بے شمار ایم پی اے ان کے گروپ میں آگئے۔ سب سے بڑی کامیابی اس وقت ہوئی جب چوہدری پرویز الٰہی نے ان سے رابطہ کیا۔ وہ نواز شریف کو چھوڑ کر ان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے تھے۔ اور تو اور، منظور وٹو کو بھی جب اس سارے معاملے کی بھنک ملی تو وہ بھی گیلانی صاحب سے ملنے کے لیے بے چین ہوگئے۔ یوں بہت کم عرصے میں گیلانی صاحب نے ایم پی ایز کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ساتھ ملا لیا۔''پیرپگاڑا صاحب کو پیغام بھیجا گیا کہ جناب! اب آپ بتائیں کہ نیا وزیراعلیٰ کس کو بنانا ہے کیونکہ نواز شریف کے خلاف بغاوت ہوچکی ہے۔
پیر صاحب سیاست کے پرانے گھاگ تھے۔ انھوں نے نوجوان گیلانی کو کہا کہ انتظار کرو۔ ''گیلانی صاحب ابھی لاہور میں تھے اور اپنے تئیں اپنی مرضی کے وزیراعلیٰ کا نام سوچ رہے تھے کہ پتہ چلا کہ نواز شریف جنرل ضیاء الحق سے ملنے کے لیے اسلام آباد تشریف لے گئے ہیں۔ نواز شریف کو احساس ہوگیا تھا کہ جنرل ضیاء سے معافی تلافی کیے بغیر ان کی وزارت اعلیٰ نہیں بچے گی۔ وہ جنرل صاحب سے ملنے گئے اور اپنی وفاداری کا نئے سرے سے حلف اٹھایا۔ جب جنرل ضیاء اور نواز شریف کی ملاقات ختم ہوئی تو جنرل ضیاء الحق نے ایک بیان جاری کیا کہ نواز شریف کا کلّہ مضبوط ہے۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو نے بھی یہ بیان دیا کہ پنجاب میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ رہی سہی کسر پیر صاحب پگاڑا کے بیان نے پوری کردی کہ نواز شریف کی بوری میں سوراخ تھا جس کی میں نے سلائی کردی ہے۔ کھیل ختم ہوگیا تھا۔
''جونہی یہ خبر لاہور پہنچی، سارے کے سارے ایم پی ایز خوفزدہ ہوکر بھاگ گئے۔ ان سب کو احساس ہوگیا کہ انھیں استعمال کیا گیا تھا۔ ان سے زیادہ گیلانی صاحب کو احساس ہوا کہ مجھے جنرل ضیاء، محمد خان جونیجو اور پیر پگاڑا نے مل کر استعمال کیا تھا۔ انھوں نے بتایا: میں بڑے بجھے دل کے ساتھ پیر پگاڑا صاحب سے ملنے گیا اور ان سے پوچھا کہ انھوں نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا تھا۔ وہ مسکرائے اور بولے: بچہ! یہ سب سیاست ہے۔ نواز شریف جنرل ضیاء کو آنکھیں دکھا رہا تھا۔ میں نے جنرل ضیاء سے کہا کہ ہم نواز شریف کو ٹھیک کردیں گے۔
اب ہم نے ایک ایسے بندے کا انتخاب کرنا تھا جس کو استعمال کرکے نواز شریف کو سبق سکھایا جاسکتا۔ میری نظر تمہارے اوپر پڑی۔ تم نوجوان ہو۔ تمہاری ابھی سیاست میں پوری کریڈیبلٹی نہیں ہے۔ ملتان کے ایک بڑے سیاسی گھرانے سے تمہارا تعلق ہے۔ دوسرے تم میرے رشتہ دار ہو لہٰذا تمہارے لیے ایم پی ایز کو یقین دلانا آسان تھا کہ وہ نواز شریف کو چھوڑ کر تمہارے ساتھ مل جائیں۔ شکر ہے میرا اندازہ غلط ثابت نہیں ہوا۔ تم نے مجھے مایوس نہیں کیا۔ گیلانی صاحب نے ٹوٹے دل کے ساتھ کہا کہ اس کا مطلب ہے آپ نے مجھے استعمال کیا ہے؟ پیر صاحب مسکرائے اور بولے: جی ہاں! میں نے آپ کو استعمال کیا ہے۔'' (بحوالہ ''ایک سیاست کئی کہانیاں'' از رئوف کلاسرا، صفحہ 344 )
کیا آج کوئی پھر کسی کے ہاتھوں استعمال ہورہا ہے کہ ہمارے ہاں ایسا ہی ہوتا آرہا ہے؟ یوسف رضا گیلانی (جو بعد ازاں پاکستان کے وزیراعظم ہوئے) نے کتاب کے مصنف کو سیاست کی سفاکیوں کے بارے میں یہ عبرت انگیز کہانی لندن میں سنائی تھی۔ آج پھر وہی لندن ہے اور میدانِ سیاست میں آج بھی نواز شریف موجود ہیں، ایک مقتدر فرد کی حیثیت سے۔ چوہدری برادران بھی موجود ہیں جنہوں نے اسی لندن میں ایک جماعت کے سربراہ سے معاہدہ کیا ہے کہ نواز شریف کے چلتے ہوئے اقتدار کو چلتا کیسے کیا جائے۔ کیا نواز شریف کوئی ریڈ لائن عبور کرگئے ہیں کہ انھیں نیا سبق سکھایا جانا ضروری ہوگیا ہے؟ یہ نیا ''لندن پلان'' ماضی میں لندن ہی میں ہونے والے بہت سے پلانوں کی یاد دلاتا ہے۔
مدتوں قبل بلوچستان کے معروف سیاستدان جناب عطاء اللہ مینگل سے منسوب بھی ایک ''لندن پلان'' کی باز گشت مدتوں سنائی دیتی رہی ہے۔ یہ لندن ہی ہے جہاں بیٹھ کر پنجاب کے ایک سابق گورنر نے بھارتی ٹینکوں پر سوار ہوکر پاکستان کے ایک فوجی حکمران کا تختہ الٹنے کا اعلان کیا تھا اور لندن سے شایع ہونے والے ایک عالمی شہرت یافتہ جریدے میں اپنے ان ارادوں کے بارے میں ایک آرٹیکل بھی شایع کردیا تھا۔ بھارت کی اعانت حاصل کرنے کے حوالے سے پاکستانی عوام نے اس مضمون اور مضمون نگار کے خلاف سخت ردِ عمل کا اظہار کیا تھا لیکن کسے پروا تھی! یہ لندن ہے جہاں محترمہ بے نظیر بھٹو اور جناب نواز شریف نے کبھی متحد اور متفق ہوکر ایک مطلق حکمران سے گلو خلاصی کروانے کے لیے ''میثاقِ جمہوریت'' پر دستخط کیے تھے۔ بلند جمہوری آدرشوں کے حصول کے لیے۔
آج پھر وہی لندن ہے جہاں علامہ طاہر القادری صاحب اور چوہدری شجاعت حسین و چوہدری پرویز الٰہی کے درمیان ایک میثاق طے پا گیا ہے۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ایک وزیراعظم اور اس کی حکومت سے نجات حاصل کرنے کے لیے۔ مگر وہ علامہ صاحب ایسی غیر سیاسی شخصیت،جن کا ملک بھر میں کوئی سیاسی حلقہ نہیں ہے، چوہدری برادران ان کے تعاون سے کیا حاصل کر پائیں گے؟ جمہوری روایات کا یہ حسن ہے کہ ہر ایک کو احتجاج کرنے، جلسے جلوس نکالنے اور اپنی اپنی ڈفلی بجانے کا حق ہے مگر کسی سیاسی جماعت اور سیاستدان کے بارے میں بہر حال یہ تاثر نہیں ابھرنا چاہیے کہ وہ کسی کے ہاتھوں استعمال ہورہا ہے۔
اس سے سیاست کاروں کے کردار پر دھبہ بھی لگتا ہے اور عوام میں ان کا اعتبار بھی جاتا رہتا ہے کہ حقائق تادیر چھپے تو نہیں رہ سکتے۔ آج کے حکمرانوں کو بھی اپنی ذات کے حصار سے نکل کر اور محض اپنے مفادات کے تحفظ و حصول سے بالا ہوکر آگے بڑھنا چاہیے۔ آخر کوئی وجہ تو ہے کہ نیا لندن پلان بنانے والوں کے ساتھ ساتھ جناب آصف زرداری کو بھی (مجبوراً؟) حکمرانوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا پڑ گئی ہے۔
جنرل ضیاء کا دکھڑا سن کر پیر پگاڑا نے فرمایا کہ سائیں فکر نہ کریں، نواز شریف ٹھیک ہوجائیں گے۔ اگلے دن پیر پگاڑا نے یوسف رضا گیلانی کو بلایا اور انھیں کہا کہ آپ پنجاب جائیں اور اپنے آپ کو وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر ممبرانِ اسمبلی کے سامنے پیش کرنا شروع کریں اور اپنے ساتھ چند بڑے بڑے سیاسی لوگوں کو شامل کریں۔ گیلانی صاحب نے پیر پگاڑا کے کہنے پر پنجاب میں جاکر ڈیرے لگا دیے، وہ ان دنوں وزیر ریلوے تھے۔ ائیرپورٹ اور ریلوے اسٹیشن سے آتے جاتے پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے درجنوں اراکین اسمبلی نے ان کا استقبال کرنا شروع کردیا۔ یہ خبر پھیل چکی تھی کہ وفاقی حکومت یوسف رضا گیلانی کو نیا وزیراعلیٰ بنانا چاہتی ہے۔ جب بات زیادہ پھیل گئی تو بڑے بڑے لوگوں نے ان سے خفیہ رابطے کرنا شروع کردیے۔
ان میں نصراللہ دریشک، عاشق گوپانگ، ملک اللہ یار کھنڈا، مخدوم الطاف، رفیق لغاری اور دیگر بے شمار ایم پی اے ان کے گروپ میں آگئے۔ سب سے بڑی کامیابی اس وقت ہوئی جب چوہدری پرویز الٰہی نے ان سے رابطہ کیا۔ وہ نواز شریف کو چھوڑ کر ان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے تھے۔ اور تو اور، منظور وٹو کو بھی جب اس سارے معاملے کی بھنک ملی تو وہ بھی گیلانی صاحب سے ملنے کے لیے بے چین ہوگئے۔ یوں بہت کم عرصے میں گیلانی صاحب نے ایم پی ایز کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ساتھ ملا لیا۔''پیرپگاڑا صاحب کو پیغام بھیجا گیا کہ جناب! اب آپ بتائیں کہ نیا وزیراعلیٰ کس کو بنانا ہے کیونکہ نواز شریف کے خلاف بغاوت ہوچکی ہے۔
پیر صاحب سیاست کے پرانے گھاگ تھے۔ انھوں نے نوجوان گیلانی کو کہا کہ انتظار کرو۔ ''گیلانی صاحب ابھی لاہور میں تھے اور اپنے تئیں اپنی مرضی کے وزیراعلیٰ کا نام سوچ رہے تھے کہ پتہ چلا کہ نواز شریف جنرل ضیاء الحق سے ملنے کے لیے اسلام آباد تشریف لے گئے ہیں۔ نواز شریف کو احساس ہوگیا تھا کہ جنرل ضیاء سے معافی تلافی کیے بغیر ان کی وزارت اعلیٰ نہیں بچے گی۔ وہ جنرل صاحب سے ملنے گئے اور اپنی وفاداری کا نئے سرے سے حلف اٹھایا۔ جب جنرل ضیاء اور نواز شریف کی ملاقات ختم ہوئی تو جنرل ضیاء الحق نے ایک بیان جاری کیا کہ نواز شریف کا کلّہ مضبوط ہے۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو نے بھی یہ بیان دیا کہ پنجاب میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ رہی سہی کسر پیر صاحب پگاڑا کے بیان نے پوری کردی کہ نواز شریف کی بوری میں سوراخ تھا جس کی میں نے سلائی کردی ہے۔ کھیل ختم ہوگیا تھا۔
''جونہی یہ خبر لاہور پہنچی، سارے کے سارے ایم پی ایز خوفزدہ ہوکر بھاگ گئے۔ ان سب کو احساس ہوگیا کہ انھیں استعمال کیا گیا تھا۔ ان سے زیادہ گیلانی صاحب کو احساس ہوا کہ مجھے جنرل ضیاء، محمد خان جونیجو اور پیر پگاڑا نے مل کر استعمال کیا تھا۔ انھوں نے بتایا: میں بڑے بجھے دل کے ساتھ پیر پگاڑا صاحب سے ملنے گیا اور ان سے پوچھا کہ انھوں نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا تھا۔ وہ مسکرائے اور بولے: بچہ! یہ سب سیاست ہے۔ نواز شریف جنرل ضیاء کو آنکھیں دکھا رہا تھا۔ میں نے جنرل ضیاء سے کہا کہ ہم نواز شریف کو ٹھیک کردیں گے۔
اب ہم نے ایک ایسے بندے کا انتخاب کرنا تھا جس کو استعمال کرکے نواز شریف کو سبق سکھایا جاسکتا۔ میری نظر تمہارے اوپر پڑی۔ تم نوجوان ہو۔ تمہاری ابھی سیاست میں پوری کریڈیبلٹی نہیں ہے۔ ملتان کے ایک بڑے سیاسی گھرانے سے تمہارا تعلق ہے۔ دوسرے تم میرے رشتہ دار ہو لہٰذا تمہارے لیے ایم پی ایز کو یقین دلانا آسان تھا کہ وہ نواز شریف کو چھوڑ کر تمہارے ساتھ مل جائیں۔ شکر ہے میرا اندازہ غلط ثابت نہیں ہوا۔ تم نے مجھے مایوس نہیں کیا۔ گیلانی صاحب نے ٹوٹے دل کے ساتھ کہا کہ اس کا مطلب ہے آپ نے مجھے استعمال کیا ہے؟ پیر صاحب مسکرائے اور بولے: جی ہاں! میں نے آپ کو استعمال کیا ہے۔'' (بحوالہ ''ایک سیاست کئی کہانیاں'' از رئوف کلاسرا، صفحہ 344 )
کیا آج کوئی پھر کسی کے ہاتھوں استعمال ہورہا ہے کہ ہمارے ہاں ایسا ہی ہوتا آرہا ہے؟ یوسف رضا گیلانی (جو بعد ازاں پاکستان کے وزیراعظم ہوئے) نے کتاب کے مصنف کو سیاست کی سفاکیوں کے بارے میں یہ عبرت انگیز کہانی لندن میں سنائی تھی۔ آج پھر وہی لندن ہے اور میدانِ سیاست میں آج بھی نواز شریف موجود ہیں، ایک مقتدر فرد کی حیثیت سے۔ چوہدری برادران بھی موجود ہیں جنہوں نے اسی لندن میں ایک جماعت کے سربراہ سے معاہدہ کیا ہے کہ نواز شریف کے چلتے ہوئے اقتدار کو چلتا کیسے کیا جائے۔ کیا نواز شریف کوئی ریڈ لائن عبور کرگئے ہیں کہ انھیں نیا سبق سکھایا جانا ضروری ہوگیا ہے؟ یہ نیا ''لندن پلان'' ماضی میں لندن ہی میں ہونے والے بہت سے پلانوں کی یاد دلاتا ہے۔
مدتوں قبل بلوچستان کے معروف سیاستدان جناب عطاء اللہ مینگل سے منسوب بھی ایک ''لندن پلان'' کی باز گشت مدتوں سنائی دیتی رہی ہے۔ یہ لندن ہی ہے جہاں بیٹھ کر پنجاب کے ایک سابق گورنر نے بھارتی ٹینکوں پر سوار ہوکر پاکستان کے ایک فوجی حکمران کا تختہ الٹنے کا اعلان کیا تھا اور لندن سے شایع ہونے والے ایک عالمی شہرت یافتہ جریدے میں اپنے ان ارادوں کے بارے میں ایک آرٹیکل بھی شایع کردیا تھا۔ بھارت کی اعانت حاصل کرنے کے حوالے سے پاکستانی عوام نے اس مضمون اور مضمون نگار کے خلاف سخت ردِ عمل کا اظہار کیا تھا لیکن کسے پروا تھی! یہ لندن ہے جہاں محترمہ بے نظیر بھٹو اور جناب نواز شریف نے کبھی متحد اور متفق ہوکر ایک مطلق حکمران سے گلو خلاصی کروانے کے لیے ''میثاقِ جمہوریت'' پر دستخط کیے تھے۔ بلند جمہوری آدرشوں کے حصول کے لیے۔
آج پھر وہی لندن ہے جہاں علامہ طاہر القادری صاحب اور چوہدری شجاعت حسین و چوہدری پرویز الٰہی کے درمیان ایک میثاق طے پا گیا ہے۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ایک وزیراعظم اور اس کی حکومت سے نجات حاصل کرنے کے لیے۔ مگر وہ علامہ صاحب ایسی غیر سیاسی شخصیت،جن کا ملک بھر میں کوئی سیاسی حلقہ نہیں ہے، چوہدری برادران ان کے تعاون سے کیا حاصل کر پائیں گے؟ جمہوری روایات کا یہ حسن ہے کہ ہر ایک کو احتجاج کرنے، جلسے جلوس نکالنے اور اپنی اپنی ڈفلی بجانے کا حق ہے مگر کسی سیاسی جماعت اور سیاستدان کے بارے میں بہر حال یہ تاثر نہیں ابھرنا چاہیے کہ وہ کسی کے ہاتھوں استعمال ہورہا ہے۔
اس سے سیاست کاروں کے کردار پر دھبہ بھی لگتا ہے اور عوام میں ان کا اعتبار بھی جاتا رہتا ہے کہ حقائق تادیر چھپے تو نہیں رہ سکتے۔ آج کے حکمرانوں کو بھی اپنی ذات کے حصار سے نکل کر اور محض اپنے مفادات کے تحفظ و حصول سے بالا ہوکر آگے بڑھنا چاہیے۔ آخر کوئی وجہ تو ہے کہ نیا لندن پلان بنانے والوں کے ساتھ ساتھ جناب آصف زرداری کو بھی (مجبوراً؟) حکمرانوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا پڑ گئی ہے۔