پاکستانی شہریت پامالی کی دہلیز پر…
پاکستانی شہریت حاصل کرنے کے بعد بہت سے تارکین وطن دیگر اداروں کی طرح نادرا میں بھی ملازمت اختیار کیے ہوئے ہیں۔۔۔
ملک میں امن و امان کے حوالے سے جہاں بہت سے عوامل اور محرکات ہمارے سامنے ہیں، وہیں ملک میں موجود اور انتہائی تیزی سے بڑھتی ہوئی غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد، ان کے کوائف کی رجسٹریشن نہ ہونا اور اس عمل میں رکاوٹوں کا کھڑا ہونا بھی ہے جو کہ سراسر حکومتی لاپرواہی، بے حسی، مفاد پرستی یا بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ چند دن پہلے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے انکشاف کیا کہ پاکستانی کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کے حامل اٹھاون غیر ملکیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے جو کہ پاکستان آرمی، پولیس اور حساس اداروں سمیت مختلف سرکاری محکموں میں کام کر رہے تھے۔
قائمہ کمیٹی نے حساس اداروں کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ ان غیر ملکیوں کو جنھیں نادرا نے شناختی کارڈ جاری کیے تھے، میں سے ایک افغان انٹیلی جنس کا اہل کار پاکستانی حساس ادارے میں ''خدمات'' انجام دے رہا تھا۔ کمیٹی نے ایک اور انتہائی حیران کن انکشاف کیا کہ پاکستانی شہریوں کے کوائف اکٹھے کر کے مرتب کرنے والے انتہائی اہمیت کے حامل قومی ادارے ''نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی'' (نادرا) میں اس وقت سات امریکی شہری اعلیٰ عہدوں پر ''خدمات'' انجام دے رہے ہیں۔ چند ماہ قبل بھی قائمہ کمیٹی نے حیرت انگیز انکشاف کیا تھا کہ نادرا شہریوں کے کوائف پر مشتمل کمپیوٹر سی ڈیز دو سو روپے میں فروخت کر رہا ہے، جس کے ذریعے جعلساز موبائل فونز کی سمیں جاری کروا رہے تھے۔
جعل سازی کے ذریعے اصل کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈز کا اجرا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے بھی اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ملک بھر میں تیس لاکھ غیر قانونی تارکین وطن کو قومی شناختی کارڈ جعل سازی کے ذریعے جاری کیے جا چکے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت صرف کراچی میں چھبیس لاکھ غیر قانونی تارکین وطن رہائش پذیر ہیں جب کہ دیگر رپورٹس کے مطابق اتنی ہی تعداد کے لگ بھگ پچیس لاکھ غیر قانونی تارکین جعل سازی کے ذریعے اصل کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ بنوا چکے ہیں جن میں سے بیشتر نے اپنی قومیت اور زبانیں تبدیل کر کے یہ کارڈز حاصل کیے ہیں، انھی میں ایک بڑی تعداد ایسے تارکین کی ہے جنھیں مقامی شہریوں کے کوائف چوری کر کے شناختی کارڈ جاری کیے گئے، بعض نے تو اپنا باپ کسی پاکستانی شہری کو ظاہر کر کے بھی کارڈ حاصل کیے، اس طرح لاکھوں کی یہ تعداد پاکستانی قوم میں مکمل طور پر ضم ہو چکی ہے۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو کراچی میں اس وقت پچاس لاکھ سے زائد غیر قانونی تارکین وطن آباد ہیں۔
تازہ ترین رپورٹس کے مطابق ملک کے سب سے بڑے اور تجارتی شہر جسے معاشی حب ہونے کے ساتھ ملک کو مجموعی ریونیو کا ستر فیصد حصہ فراہم کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے، میں پاکستانی شہریت دس سے بیس ہزار روپے میں فروخت کرنے کے لیے ایجنٹ مافیا سرگرم عمل ہے، جو جعل سازی سے دستاویزات تیار کر کے ''اصل کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ'' جاری کراتی ہے۔ یہ مافیا پرانے مینوئل شناختی کارڈ، راشن کارڈ، بلز، ڈیتھ سرٖٹیفکیٹس، اسکول چھوڑنے کے سرٹیفکیٹس، تعلیمی اسناد، مختلف سرکاری و نجی کنٹریکٹس یا کوئی بھی ثبوت جو تیس چالیس سال پرانا شہری ثابت کر سکے، جعل سازی سے بالکل اصل جیسا تیار کر لیتی ہے جو کہ خانہ پری میں انتہائی معاون ثابت ہوتا ہے۔
آپ دنیا کے کسی بھی ملک سے کسی بھی رنگ، نسل اور قوم کا کوئی بھی شخص آنکھوں پر پٹی باندھ کر کراچی لے آئیں، جسے نہ تو یہاں کی کوئی زبان بولنا آتی ہو اور نہ ہی یہاں کے کسی شہری سے آشنا ہو، آپ اس کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ آسانی سے بنوا سکتے ہیں، ایجنٹ کو ایک فون کریں، ایجنٹ آپ کے پاس حاضر ہو جائے گا، پندرہ سے بیس ہزار روپے میں معاملہ طے کریگا، دو تین ہزار ایڈوانس لے کر وہ اس غیر ملکی کے کوائف بمعہ تصویر کے ساتھ لے جائے گا اور ٹھیک ایک ماہ کے اندر اندر آپ کے دروازے پر آموجود ہو گا، وہ آپ سے باقی رقم وصول کر کے ''اصل قومی کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ'' آپ کے حوالے کر دے گا۔
اسی طرح غیر قانونی تارکین وطن کو ایک سہولت یہ بھی دی جاتی ہے کہ تنسیخ کی تاریخ کے بعد انھیں کارڈز کی تجدید کے لیے نادرا کے دفتر جانے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ نئے کارڈ پر بھی پرانی تصویر ہی لگا دی جاتی ہے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کیس کو نادرا کی جانب سے اعتراض لگا کر واپس کر دیا جائے تو یہ مافیا عدالتوں سے رجوع کر لیتی ہے اور دستاویزات پیش کر کے کارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، اگر عدالت کو شک گزرے تو عدالت سے استدعا کی جاتی ہے کہ متعلقہ تارک وطن کی تصدیق کے لیے اس کے آبائی وطن کی حکومت یا متعلقہ ادارے کو خط لکھ کر پوچھا جائے، عدالت کے خط لکھنے پر یہ مافیا اپنے پھیلے ہوئے پروں کے ذریعے تمام دستاویزات کی تصدیق عدالت کو فراہم کرا دیتی ہے جس کا معاوضہ ایک لاکھ روپے تک وصول کیا جاتا ہے۔
پاکستانی شہریت حاصل کرنے کے بعد بہت سے تارکین وطن دیگر اداروں کی طرح نادرا میں بھی ملازمت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اگرچہ قائمہ کمیٹی کا کہنا ہے کہ وہ جعل سازی میں ملوث نادرا کے اہل کاروں کے خلاف کارروائی کرے گی، مگر اس سے پہلے بھی تو بہت کچھ سامنے آ چکا ہے، کیا کارروائیاں ہوئیں وہ بھی قوم کیسامنے آنی چاہئیں۔ مگر مسئلہ تو ہے کہ پاکستان میں غیر ملکی طاقتیں اتنی مضبوط ہو چکی ہیں کہ اب کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا بلکہ ان کی پالیسیوں کے آگے ہماری حکومتیں، عدالتیں اور انتظامیہ بے بس نظر آتے ہیں۔
تارکین وطن سے متعلق سپریم کورٹ آف پاکستان کے ریمارکس اور احکامات ہمارے سامنے ہیں، پشاور ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ بھی اس سلسلے میں احکامات جاری کر چکی ہیں مگر اس معاملے میں سب کے سب ہی بے بس نظر آئے ہیں۔ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں غیر ملکی پاکستان میں موجود ہیں اور ان کا کوئی ڈیٹا یا ریکارڈ حکومت کے پاس موجود نہیں ہے، بلکہ موجودہ حکومت نے تو غیر قانونی تارکین وطن کی رجسٹریشن کے لیے قائم کیے گئے ادارے ''نیشنل ایلینز رجسٹریشن اتھارٹی'' (نارا) کو بھی ختم کرکے ''نادرا'' میں ضم کردیا گیا ہے۔
اس بارے میں حکومتی اداروں نے موقف اختیار کیا کہ نادرا کو جس مقصد کے لیے قائم کیا گیا تھا وہ اس میں ناکام رہی لہٰذا اسے ختم ہی کر دیا جائے، حالانکہ حکومت کو اس بارے میں تحقیق کرانی چاہیے تھی کہ وہ کون سی وجوہات اور عوامل ہیں جن کے باعث یہ ادارہ ناکام ہوا ہے۔ نادرا حکام سپریم کورٹ کے روبرو یہ بیانات ریکارڈ کرا چکے ہیں کہ انھیں کام کرنے سے روکا جاتا رہا ہے، بلکہ نادرا حکام نے سپریم کورٹ میں یہ بھی بتایا کہ تھا کہ انھیں اس سلسلے میں ہدایات ملتی تھیں کہ غیر ملکیوں کو غیرملکی نہ کہا جائے۔
حکومت کو اس بات کی مکمل چھان بین کرانا چاہیے تھی کہ وہ کون سی طاقتیں ہیں جو نادرا کو کام کرنے سے روکتی رہیں اور ان طاقتوں کے عزائم اور مقاصد کیا تھے، اس کے ساتھ یہ بھی معلوم کیا جانا چاہیے تھا کہ اس معاملے میں رکاوٹیں پیدا کرنیوالے افراد جعل سازی کے ذریعے اصل شناختی کارڈ حاصل کر کے اتنے با اثر تو نہیں ہو چکے کہ وہ اپنے ہم وطنوں کے مفادات پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتے۔ ہماری سیاسی جماعتیں، مذہبی تنظیمیں اور لسانی گروہ بھی غیر قانونی تارکین وطن کے لیے اپنے پاکستانی شہریوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ نرم گوشہ رکھتے ہوئے موقف اختیار کرتی ہیں کہ یہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں جس کی وجہ سے ہم ان کا بھرپور ساتھ دیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ غیر قانونی تارکین وطن ہمارے بھائی ہیں اور ان میں اکثریت بھی مسلمانوں کی ہے اور ہمیں ان کی ہر صورت ہر ممکن مدد کرنا چاہیے جو کہ ہم نے کی ہے اور مستقبل میں بھی کرتے رہیں گے، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کا ریکارڈ ہی نہ مرتب نہ کرنے دیا جائے اور سیاسی، مذہبی اور لسانی عددی برتری حاصل کرنے کی دوڑ میں ہم اپنے قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر اپنی نسلوں کی آزادی اور ان کے جان و مال دائو پر لگا دیں۔ اس قدر حساس معاملے میں حکومت کی اس حد تک بے حسی پر کیوں نہ ماتم کیا جائے کہ غیر ملکیوں کو مکمل چھوٹ دے کر اپنی آزادی دائو پر لگائی جا رہی ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ اس سلسلے میں شہریوں کی رجسٹریشن سے متعلق قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے اسے انتہائی حساس معاملہ قرار دیا جائے، شہریت کی درخواست دینے والے کے کوائف کی تصدیق کے لیے خفیہ اداروں کی خدمات کے ساتھ ٹھوس طریقہ کار وضع کیا جائے، جعل سازی سے شناختی کارڈ حاصل کرنے والوں کی شکایات اور ان پر عمل درآمد کے لیے نادرا میں برانچ قائم کی جائے جس کی مانیٹرنگ وفاقی وزارت داخلہ کے سپرد کی جائے اور کسی بھی سرکاری افسر و اہلکار، کارڈ بنانے یا بنوانے والے اور تصدیق کنندہ پر غفلت برتنے پر سنگین سزائوں کا اطلاق کیا جائے اور چند ایک کو فوری طور پر سزائیں دلوا کر اس گھنائونے کاروبار کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ سیاسی، مذہبی اور لسانی تنظیمیں بھی ہوش کے ناخن لیں، ورنہ وہ وقت دور نہیں جب اس خطرناک اسکرپٹ کی حقیقت کھل جائے اور ایک ''خاموش گروہ'' ایک جم غفیر کے ساتھ ہمارے سامنے آ کھڑا ہو اور ہمارے بس میں کچھ بھی نہ رہے۔