زمین سے مشابہ سیارہ کیپلر 186f
نودریافت شدہ سیارے پر زندگی کے امکانات
ماہرین فلکیات نظام شمسی سے باہر ایسے سیارے کی تلاش میں ہیں، جس کے طبعی خواص زمین سے مشابہ ہوں۔
ان کا خیال ہے کہ ایسے کسی بھی سیارے پر زندگی کا وجود ممکن ہے۔ ماہرین فلکیات نے حال ہی میں ایسا سیارہ ڈھونڈ لیا ہے، جس کی جسامت تقریباً زمین کے برابر ہے۔ اسے کیپلر 186f کا نام دیا گیا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق ان کی مسلسل تلاش کے بعد ملنے والا کیپلر 186f وہ پہلا سیارہ ہے، جو اپنی خصوصیات میں بھی زمین جیسا ہے۔
سائنس داں اس سیارے پر زندگی کے لیے درکار قدرتی ماحول کی موجودگی سے متعلق خاصے پُرامید ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مزید تحقیق اور ضروری مطالعے کے بعد جلد ہی وہاں کی فضا میں زندگی کے لیے ضروری عوامل کا کھوج لگا لیا جائے گا۔ یہ سیارہ زمین سے محض 1.1گنا زیادہ بڑا ہے۔ یعنی اس کی جسامت تقریباً زمین جتنی ہی ہے۔ ماہرین فلکیات کے مطابق زمین سے اس کا فاصلہ 490 نوری سال ہے اور یہ ایک ستارے کے گرد گردش کر رہا ہے۔
اسے ناسا سے وابستہ ماہر فلکیات ایلیسا کوئنٹانا اور ان کی ٹیم کے اراکین نے دریافت کیا ہے۔ انہیں سیارے کی تلاش میں کیپلر دوربین کی مدد سے کام یابی حاصل ہوئی ہے۔ اب تک اس دوربین کی مدد سے کئی سیارے دریافت کیے جاچکے ہیں، مگر ان میں سے بیش تر اپنی خصوصیات کی بنا پر حیات کی نمو کے لیے موزوں نہیں تھے۔ یا تو ان کی جسامت بہت زیادہ تھی یا پھر یہ اپنے اپنے سورج سے بے حد قریب ہونے کے باعث اتنے گرم تھے کہ ان پر کسی جان دار کی موجودگی کا تصور کرنا بھی ممکن نہ تھا۔ اس تناظر میں کیپلر 186f کی دریافت ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
ماہرین فلکیا ت کے مطابق Kepler-186 نامی ستارے کے گرد گردش کرتا ہوا یہ سیارہ تقریباً چٹانی ہے۔ کیپلر 186f کی دریافت کو اس لیے بھی اہمیت دی جارہی ہے کہ یہ سیارہ اپنے ستارے کے گرد اس علاقے یا زون میں پایا گیا ہے جسے سائنس داں زندگی کی نمو کے لیے موزوں تصور کرتے ہیں۔
دوسرے الفاظ میں یہ سیارہ اپنے سورج سے اتنے فاصلے پر ہے کہ اس کا سطحی درجۂ حرارت اسے پانی کی تشکیل کے لیے موزوں بنا دیتا ہے۔ کسی ستارے کے گرد تشکیل آب کے لیے موزوں حد کو Habitable zone یا Goldilocks zone بھی کہتے ہیں۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی اس زون میں سیارے دریافت ہوچکے ہیں، مگر یہ جسامت میں زمین کے مساوی نہیں تھے۔ چوں کہ ہماری زمین سورج کے گرد اسی زون میں ہے، اس لیے سائنس داں نو دریافت شدہ سیارے پر بھی زندگی کے وجود کو ممکن تصور کر رہے ہیں۔ تاہم مزید تحقیق اور سائنسی مشاہدات کے بعد ہی اس سلسلے میں حتمی بات کہی جاسکتی ہے۔
کیپلر 186f اپنے سورج کے گرد ایک چکر 130 دنوں میں مکمل کرتا ہے۔ یعنی اس سیارے کا سال 130 دنوں کا ہوتا ہے۔ اس زون میں پہلے دریافت کیے گئے چار سیارے اپنے اپنے سورج کا ایک چکر تین سے 21 دنوں میں مکمل کرتے تھے۔ کیپلر دوربین کے آپریشن سے وابستہ ایک محقق تھامس برکلے کا کہنا ہے کہ کیپلر 186f اپنے سورج سے اتنے فاصلے پر ہے کہ اس پر پانی کی تشکیل آسانی سے ہو سکتی ہے اور یہی بات ہمیں اس پر زندگی سے متعلق پُرامید رکھے ہوئے ہے تاہم مزید تحقیق کے بعد ہی اس پر پانی کی موجودگی کے بارے میں کچھ کہا جاسکتا ہے۔
اس بارے میں ٹھوس شواہد حاصل کرنے کے لیے ابھی نودریافت شدہ سیارے پر فضا سے متعلق مطالعہ کرنا ہے اور پھر ان معلومات کی روشنی میں کوئی بات کہی جائے گی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر اس سیارے پر زندگی کا وجود ہوا تو وہ زمین سے مختلف ہوگا۔ سائنس دانوں کے مطابق کیپلر دوربین دور دراز سیاروں کی فضا کا اندازہ لگانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اس مسئلے کا حل امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے جیمز ویب نامی خلائی دوربین کی صورت میں نکالا ہے۔
جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس یہ دور بین 2018 میں زمین کے مدار میں اپنا کام شروع کرے گی۔ ماہرین فلکیات کے مطابق یہ دوربین دوسری دنیاؤں کی تلاش میں انقلابی قدم ثابت ہوگی، کیوں کہ اس کی مدد سے دریافت شدہ سیاروں کی فضا کے بارے میں بھی معلومات حاصل ہوں گی۔
ان کا خیال ہے کہ ایسے کسی بھی سیارے پر زندگی کا وجود ممکن ہے۔ ماہرین فلکیات نے حال ہی میں ایسا سیارہ ڈھونڈ لیا ہے، جس کی جسامت تقریباً زمین کے برابر ہے۔ اسے کیپلر 186f کا نام دیا گیا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق ان کی مسلسل تلاش کے بعد ملنے والا کیپلر 186f وہ پہلا سیارہ ہے، جو اپنی خصوصیات میں بھی زمین جیسا ہے۔
سائنس داں اس سیارے پر زندگی کے لیے درکار قدرتی ماحول کی موجودگی سے متعلق خاصے پُرامید ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مزید تحقیق اور ضروری مطالعے کے بعد جلد ہی وہاں کی فضا میں زندگی کے لیے ضروری عوامل کا کھوج لگا لیا جائے گا۔ یہ سیارہ زمین سے محض 1.1گنا زیادہ بڑا ہے۔ یعنی اس کی جسامت تقریباً زمین جتنی ہی ہے۔ ماہرین فلکیات کے مطابق زمین سے اس کا فاصلہ 490 نوری سال ہے اور یہ ایک ستارے کے گرد گردش کر رہا ہے۔
اسے ناسا سے وابستہ ماہر فلکیات ایلیسا کوئنٹانا اور ان کی ٹیم کے اراکین نے دریافت کیا ہے۔ انہیں سیارے کی تلاش میں کیپلر دوربین کی مدد سے کام یابی حاصل ہوئی ہے۔ اب تک اس دوربین کی مدد سے کئی سیارے دریافت کیے جاچکے ہیں، مگر ان میں سے بیش تر اپنی خصوصیات کی بنا پر حیات کی نمو کے لیے موزوں نہیں تھے۔ یا تو ان کی جسامت بہت زیادہ تھی یا پھر یہ اپنے اپنے سورج سے بے حد قریب ہونے کے باعث اتنے گرم تھے کہ ان پر کسی جان دار کی موجودگی کا تصور کرنا بھی ممکن نہ تھا۔ اس تناظر میں کیپلر 186f کی دریافت ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
ماہرین فلکیا ت کے مطابق Kepler-186 نامی ستارے کے گرد گردش کرتا ہوا یہ سیارہ تقریباً چٹانی ہے۔ کیپلر 186f کی دریافت کو اس لیے بھی اہمیت دی جارہی ہے کہ یہ سیارہ اپنے ستارے کے گرد اس علاقے یا زون میں پایا گیا ہے جسے سائنس داں زندگی کی نمو کے لیے موزوں تصور کرتے ہیں۔
دوسرے الفاظ میں یہ سیارہ اپنے سورج سے اتنے فاصلے پر ہے کہ اس کا سطحی درجۂ حرارت اسے پانی کی تشکیل کے لیے موزوں بنا دیتا ہے۔ کسی ستارے کے گرد تشکیل آب کے لیے موزوں حد کو Habitable zone یا Goldilocks zone بھی کہتے ہیں۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی اس زون میں سیارے دریافت ہوچکے ہیں، مگر یہ جسامت میں زمین کے مساوی نہیں تھے۔ چوں کہ ہماری زمین سورج کے گرد اسی زون میں ہے، اس لیے سائنس داں نو دریافت شدہ سیارے پر بھی زندگی کے وجود کو ممکن تصور کر رہے ہیں۔ تاہم مزید تحقیق اور سائنسی مشاہدات کے بعد ہی اس سلسلے میں حتمی بات کہی جاسکتی ہے۔
کیپلر 186f اپنے سورج کے گرد ایک چکر 130 دنوں میں مکمل کرتا ہے۔ یعنی اس سیارے کا سال 130 دنوں کا ہوتا ہے۔ اس زون میں پہلے دریافت کیے گئے چار سیارے اپنے اپنے سورج کا ایک چکر تین سے 21 دنوں میں مکمل کرتے تھے۔ کیپلر دوربین کے آپریشن سے وابستہ ایک محقق تھامس برکلے کا کہنا ہے کہ کیپلر 186f اپنے سورج سے اتنے فاصلے پر ہے کہ اس پر پانی کی تشکیل آسانی سے ہو سکتی ہے اور یہی بات ہمیں اس پر زندگی سے متعلق پُرامید رکھے ہوئے ہے تاہم مزید تحقیق کے بعد ہی اس پر پانی کی موجودگی کے بارے میں کچھ کہا جاسکتا ہے۔
اس بارے میں ٹھوس شواہد حاصل کرنے کے لیے ابھی نودریافت شدہ سیارے پر فضا سے متعلق مطالعہ کرنا ہے اور پھر ان معلومات کی روشنی میں کوئی بات کہی جائے گی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر اس سیارے پر زندگی کا وجود ہوا تو وہ زمین سے مختلف ہوگا۔ سائنس دانوں کے مطابق کیپلر دوربین دور دراز سیاروں کی فضا کا اندازہ لگانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اس مسئلے کا حل امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے جیمز ویب نامی خلائی دوربین کی صورت میں نکالا ہے۔
جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس یہ دور بین 2018 میں زمین کے مدار میں اپنا کام شروع کرے گی۔ ماہرین فلکیات کے مطابق یہ دوربین دوسری دنیاؤں کی تلاش میں انقلابی قدم ثابت ہوگی، کیوں کہ اس کی مدد سے دریافت شدہ سیاروں کی فضا کے بارے میں بھی معلومات حاصل ہوں گی۔