کم عمری کی شادی اہم سماجی مسئلہ
غربت کے ساتھ جڑے مسائل میں الجھی لڑکیاں نقل مکانی، سوشل نیٹ ورکس اور تحفظ کے نظام کو بھی توڑنے لگی ہیں
کم عمری کی شادی کسی ایک ملک، قوم اور برادری کا نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے، یہ صنفی عدم مساوات، غربت، سماجی اصولوں اور عدم تحفظ کی وجہ سے مسائل کا شکار ہے اور پوری دنیا میں اس کے تباہ کن نتائج مرتب ہوتے ہیں، بچپن کی شادیوں کے منفی اثرات کے خانگی اور معاشرتی مسائل کی ایک طویل فہرست ہے، جن سے ان لڑکیوں اور پھر خاندانوں کو دوچار ہونا پڑتا ہے۔
اس رجحان کو ختم کرنے کے لیے پیش رفت مایوس کن ہے، بلکہ اعداد و شمار حیران کن حد تک تشویش ناک ہیں۔ ہر برس 11 ملین لڑکیوں کی شادی 18 سال کی عمر میں کردی جاتی ہے۔ دنیا میں ہر پانچ میں سے ایک لڑکی کی شادی 17 برس سے پہلے بلکہ ایک اندازے کے مطابق 530 ملین سے زیادہ خواتین کی شادیاں بچپن میں کی گئیں یعنی ہر منٹ میں کم از کم 21 لڑکیاں ازدواجی رشتے میں ان کی مرضی و منشا کے بغیر بیاہی جاتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ دوسرے درجے کے طور پر سلوک ایک رجحان سا بن گیا ہے، ان کے انسانی حقوق سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن انھیں صنفی بنیاد پر امتیازی سلوک کا سامنا رہتا ہے۔ کم عمری کی شادی کو اس صنفی عدم مساوات کا ایک اظہار بھی کہا جاسکتا ہے، ہمارا معاشرتی نظام قریباً پدرانہ نظام ہے یعنی وہ نظام جو مردوں کے کنٹرول میں ہے، جو لڑکیوں کو اپنے مزاج، تہذیب یا ثقافت کے نام پر محدود کرتے ہیں، یعنی لڑکی کے ساتھ برتائو ہونا چاہیے اور اسے کیسے لباس پہننا چاہیے، وہ کہاں جاتی ہے، کس کو دیکھتی ہے، کس سے اور کب شادی کرنی ہے۔
پسند کی شادی کا تصور ہمارے معاشرے میں قابل قبول حد تک کئی عوامل کی وجہ سے پسند نہیں کیا جاتا، تاہم مشورہ یہی دیا جاسکتا ہے کہ لڑکا یا لڑکی اپنی مرضی سے شادی کے فیصلے میں خاندان اور والدین کی مرضی کو شامل کر لیں تو انھیں کئی معاملات میں پریشان کن مسائل سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے، یہاں خاندان کے سربراہان کو برد باری اور صبرو تحمل کا مظاہرہ کر کے تمام حالات اور زمینی حقائق کو سمجھنا اور سمجھانے کے لیے مشکل فیصلے کرنا پڑ سکتے ہیں۔
ان سماجی حالات میں دیکھا یہی گیا ہے کہ والدین کو اپنی اولاد کی حفاظت کے لیے ایسے اقدامات کرنا پڑتے ہیں جنھیں کچھ حلقے مناسب نہیں سمجھتے، جیسے کم عمری کی شادی کو اپنی بیٹیوں اور خاندان کی حفاظت کا ایک طریقہ سمجھا جاتا ہے کہ ایسے بے راہ روی سمیت دیگر معاشرتی مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔ بچپن کی شادی کا تصور اب بھی کئی خاندانوں میں رائج ہے، یہ روایت کئی جگہوں پر نسل در نسل چلی آ رہی ہے اور اسے عمومی طور پر قبول بھی کیا جاتا ہے۔
تاہم اس میں سب سے اہم عنصر غربت کو سمجھا جاتا ہے، دنیا کے غربت ترین ممالک میں قریباً 45 فیصد لڑکیوں کی شادیاں بچپن میں کردی جاتی ہیں، یہ شدید غربت میں اپنے خاندان سے فرض کے نام پر بوجھ اتارنے کے مترادف ہوتا ہے، لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کم ہے، سماجی، سیاسی اور معاشی حیثیت بھی مستحکم نہیں، اس لیے وہ معاشی طور پر مردوں پر منحصر ہوتی ہیں اور یہی وہ واحد آپشن ہے جو کم عمری کی شادی کا سبب بنتا ہے۔
غربت کی وجہ سے کم عمری کی شادیوں سے لڑکیاں سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں کیونکہ ان کے پاس تعلیم، فلاح و بہبود اور تحفظ کے لیے ممکنہ رسائی نہیں ہوتی۔ انھیں گھروں میں کام کاج کے امور میں لگا دیا جاتا ہے، کم وسائل والے خاندان اپنے لڑکوں پر ہی زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں یا اسے یوں کہا جائے کہ ان پر زیادہ سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔
غربت کے ساتھ جڑے مسائل میں الجھی لڑکیاں نقل مکانی، سوشل نیٹ ورکس اور تحفظ کے نظام کو بھی توڑنے لگی ہیں، جس کی وجہ سے کسی بھی جگہ رونما ہونے والے کسی ایک واقعے کی بنیاد پر بھی لڑکیوں کی شادیاں کم عمری میں کرنے کا رجحان سامنے آتا ہے، گو کہ سوشل نیٹ ورکس کے پھیلائو سے دنیا سمٹ کر ایک مٹھی میں آ گئی ہے اس لیے شعور اور بلوغت کے تعین کے معیار بھی تبدیل ہو گئے ہیں، کئی ایسے واقعات نے بھی سوچنے میں مجبور کر دیا جہاں کم عمر کی لڑکیوں کی شادیاں بڑی عمر کے مردوں کے ساتھ کردی جاتی ہیں، مشاہدے میں آیا ہے کہ ایسا عمل عموماً اس وقت ہوتا ہے جب خاندان کے درمیان تنازعات کے خاتمے کے لیے رشتے طے کر دیے جاتے ہیں اور واضح طور پر اس میں قربانی کے لیے بھی لڑکی کو بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔
سماجی تنظیموں کے یہ مشاہدے بھی ہیں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کم عمری کی شادی کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر، انسانی اسمگلنگ اور جنسی زیادتی کو چھپانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ایک الگ اور وسیع موضوع ہے، لہٰذا دوبارہ اس جانب آتے ہیں کہ بچے یا نو عمر لڑکیوں کی شادی میں پسند یا زیادتی جیسی بہت سے پیچیدہ باہم متعلقہ وجوہ ہیں، ابتدائی طور پر ہمیں بچپن کی شادی کے روایتی تصور اور عمل کو ختم کرنے کے لیے پہلے ان نظاموں، اصولوں اور طرز عمل کو سمجھنے کی ضرورت ہے، اس کے بعد ہی مختلف سیاق و سباق میں اسے ختم کرنے کے لیے کام کیا جاسکتا ہے کہ تیز اور دیرپا تبدیلی لانے کے لیے ان لوگوں کے مسائل کو ذرایع ابلاغ میں لائیں جو کم عمری اور بچپن کی شادیوں سے متاثر ہیں اور انھیں طبی و معاشرتی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
ہمیں ان کی بات سننا ہوگی اور اس عمل کو ختم کرنے کے لیے تمام شعبوں اور متنوع اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت پڑے گی۔بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرنے کے لیے بین الاقوامی اداروں، حکومتوں، سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کو اکٹھے ہونے کی ضرورت ہے اور پوری دنیا میں انسانی حقوق کے معیارات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے روایتی فرسودہ ماحول سے باہر نکلنا ہو گا۔
جنسی بے راہ روی سے بچنے کے لیے جلد شادیوں کا ایک مفروضہ بھی موجود ہے تو دوسری جانب ایک سے زائد شادیوں کے لیے بھی ثقیل نظریات موجود ہیں، تاہم کم عمری کی شادیوں کا ان دونوں وجوہ سے قطعاً کوئی تعلق نہیں جوڑا جاسکتا، اسے وجہ جواز نہیں سمجھنا چاہیے۔
شادی کے کم از کم عمر پر قانونی طور پر عمل درآمد کیا جانا ضروری ہے کیونکہ یہ بچوں کو بدسلوکی، نقصان، تشدد اور استحصال سے محفوظ رکھتا ہے۔
اس رجحان کو ختم کرنے کے لیے پیش رفت مایوس کن ہے، بلکہ اعداد و شمار حیران کن حد تک تشویش ناک ہیں۔ ہر برس 11 ملین لڑکیوں کی شادی 18 سال کی عمر میں کردی جاتی ہے۔ دنیا میں ہر پانچ میں سے ایک لڑکی کی شادی 17 برس سے پہلے بلکہ ایک اندازے کے مطابق 530 ملین سے زیادہ خواتین کی شادیاں بچپن میں کی گئیں یعنی ہر منٹ میں کم از کم 21 لڑکیاں ازدواجی رشتے میں ان کی مرضی و منشا کے بغیر بیاہی جاتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ دوسرے درجے کے طور پر سلوک ایک رجحان سا بن گیا ہے، ان کے انسانی حقوق سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن انھیں صنفی بنیاد پر امتیازی سلوک کا سامنا رہتا ہے۔ کم عمری کی شادی کو اس صنفی عدم مساوات کا ایک اظہار بھی کہا جاسکتا ہے، ہمارا معاشرتی نظام قریباً پدرانہ نظام ہے یعنی وہ نظام جو مردوں کے کنٹرول میں ہے، جو لڑکیوں کو اپنے مزاج، تہذیب یا ثقافت کے نام پر محدود کرتے ہیں، یعنی لڑکی کے ساتھ برتائو ہونا چاہیے اور اسے کیسے لباس پہننا چاہیے، وہ کہاں جاتی ہے، کس کو دیکھتی ہے، کس سے اور کب شادی کرنی ہے۔
پسند کی شادی کا تصور ہمارے معاشرے میں قابل قبول حد تک کئی عوامل کی وجہ سے پسند نہیں کیا جاتا، تاہم مشورہ یہی دیا جاسکتا ہے کہ لڑکا یا لڑکی اپنی مرضی سے شادی کے فیصلے میں خاندان اور والدین کی مرضی کو شامل کر لیں تو انھیں کئی معاملات میں پریشان کن مسائل سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے، یہاں خاندان کے سربراہان کو برد باری اور صبرو تحمل کا مظاہرہ کر کے تمام حالات اور زمینی حقائق کو سمجھنا اور سمجھانے کے لیے مشکل فیصلے کرنا پڑ سکتے ہیں۔
ان سماجی حالات میں دیکھا یہی گیا ہے کہ والدین کو اپنی اولاد کی حفاظت کے لیے ایسے اقدامات کرنا پڑتے ہیں جنھیں کچھ حلقے مناسب نہیں سمجھتے، جیسے کم عمری کی شادی کو اپنی بیٹیوں اور خاندان کی حفاظت کا ایک طریقہ سمجھا جاتا ہے کہ ایسے بے راہ روی سمیت دیگر معاشرتی مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔ بچپن کی شادی کا تصور اب بھی کئی خاندانوں میں رائج ہے، یہ روایت کئی جگہوں پر نسل در نسل چلی آ رہی ہے اور اسے عمومی طور پر قبول بھی کیا جاتا ہے۔
تاہم اس میں سب سے اہم عنصر غربت کو سمجھا جاتا ہے، دنیا کے غربت ترین ممالک میں قریباً 45 فیصد لڑکیوں کی شادیاں بچپن میں کردی جاتی ہیں، یہ شدید غربت میں اپنے خاندان سے فرض کے نام پر بوجھ اتارنے کے مترادف ہوتا ہے، لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کم ہے، سماجی، سیاسی اور معاشی حیثیت بھی مستحکم نہیں، اس لیے وہ معاشی طور پر مردوں پر منحصر ہوتی ہیں اور یہی وہ واحد آپشن ہے جو کم عمری کی شادی کا سبب بنتا ہے۔
غربت کی وجہ سے کم عمری کی شادیوں سے لڑکیاں سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں کیونکہ ان کے پاس تعلیم، فلاح و بہبود اور تحفظ کے لیے ممکنہ رسائی نہیں ہوتی۔ انھیں گھروں میں کام کاج کے امور میں لگا دیا جاتا ہے، کم وسائل والے خاندان اپنے لڑکوں پر ہی زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں یا اسے یوں کہا جائے کہ ان پر زیادہ سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔
غربت کے ساتھ جڑے مسائل میں الجھی لڑکیاں نقل مکانی، سوشل نیٹ ورکس اور تحفظ کے نظام کو بھی توڑنے لگی ہیں، جس کی وجہ سے کسی بھی جگہ رونما ہونے والے کسی ایک واقعے کی بنیاد پر بھی لڑکیوں کی شادیاں کم عمری میں کرنے کا رجحان سامنے آتا ہے، گو کہ سوشل نیٹ ورکس کے پھیلائو سے دنیا سمٹ کر ایک مٹھی میں آ گئی ہے اس لیے شعور اور بلوغت کے تعین کے معیار بھی تبدیل ہو گئے ہیں، کئی ایسے واقعات نے بھی سوچنے میں مجبور کر دیا جہاں کم عمر کی لڑکیوں کی شادیاں بڑی عمر کے مردوں کے ساتھ کردی جاتی ہیں، مشاہدے میں آیا ہے کہ ایسا عمل عموماً اس وقت ہوتا ہے جب خاندان کے درمیان تنازعات کے خاتمے کے لیے رشتے طے کر دیے جاتے ہیں اور واضح طور پر اس میں قربانی کے لیے بھی لڑکی کو بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔
سماجی تنظیموں کے یہ مشاہدے بھی ہیں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کم عمری کی شادی کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر، انسانی اسمگلنگ اور جنسی زیادتی کو چھپانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ایک الگ اور وسیع موضوع ہے، لہٰذا دوبارہ اس جانب آتے ہیں کہ بچے یا نو عمر لڑکیوں کی شادی میں پسند یا زیادتی جیسی بہت سے پیچیدہ باہم متعلقہ وجوہ ہیں، ابتدائی طور پر ہمیں بچپن کی شادی کے روایتی تصور اور عمل کو ختم کرنے کے لیے پہلے ان نظاموں، اصولوں اور طرز عمل کو سمجھنے کی ضرورت ہے، اس کے بعد ہی مختلف سیاق و سباق میں اسے ختم کرنے کے لیے کام کیا جاسکتا ہے کہ تیز اور دیرپا تبدیلی لانے کے لیے ان لوگوں کے مسائل کو ذرایع ابلاغ میں لائیں جو کم عمری اور بچپن کی شادیوں سے متاثر ہیں اور انھیں طبی و معاشرتی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
ہمیں ان کی بات سننا ہوگی اور اس عمل کو ختم کرنے کے لیے تمام شعبوں اور متنوع اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت پڑے گی۔بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرنے کے لیے بین الاقوامی اداروں، حکومتوں، سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کو اکٹھے ہونے کی ضرورت ہے اور پوری دنیا میں انسانی حقوق کے معیارات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے روایتی فرسودہ ماحول سے باہر نکلنا ہو گا۔
جنسی بے راہ روی سے بچنے کے لیے جلد شادیوں کا ایک مفروضہ بھی موجود ہے تو دوسری جانب ایک سے زائد شادیوں کے لیے بھی ثقیل نظریات موجود ہیں، تاہم کم عمری کی شادیوں کا ان دونوں وجوہ سے قطعاً کوئی تعلق نہیں جوڑا جاسکتا، اسے وجہ جواز نہیں سمجھنا چاہیے۔
شادی کے کم از کم عمر پر قانونی طور پر عمل درآمد کیا جانا ضروری ہے کیونکہ یہ بچوں کو بدسلوکی، نقصان، تشدد اور استحصال سے محفوظ رکھتا ہے۔