’’لینن‘‘ کا سیاسی شعور پہلا حصہ

غازی صلاح الدین کے سوال پر میرا استدلال تھا کہ بلاشبہ کسی بھی واقعہ کو عقیدت یا روایتی گنجلکوں سے آزاد ہونا چاہیے


وارث رضا February 04, 2024
[email protected]

دنیا میں تاریخی، سیاسی،اورانقلابی حوالے سے روس کے انقلابی رہنما ''ولادیمر لینن'' تاریخ ساز شخصیت کے طور پر دنیا کی سیاسی تحریک کے وہ نمایاں کردار ہیں جنھوں نے ''کارل مارکس'' کے انقلابی اور سوشلسٹ نظریئے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ''زار روس'' کے آمرانہ اقتدار کے پنجوں سے عوام کو جمہوری آزادی دلائی، روس میں دنیا کے پہلے سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے والے ''لینن''کو گذرے سو برس ہوچکے۔

اس ایک صدی میں دنیا میں کیا کچھ ہوا اور عوام کے استحصال کی پہلی کڑی''بے رحم سرمایہ داری''نے کیا گل کھلائے اور عوام کے جمہوری ِسیاسی اور انسانی حقوق کو کس طرح روندا، ان تمام کا مختصر جائزہ لینے کے لیے ''عالمی مارکسی رجحان'' IMT کے پارس جان اور انعم پارس نے اپنے نوجوان دوستوں کی مشترکہ کوششوں سے روس کے سوشلسٹ انقلابی رہنما لینن کی صد سالہ برسی کے موقع پر لینن کے انقلابی اقدامات اور کمیونسٹ تحریک میں ان کے منظم کردارکو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کراچی آرٹس کونسل میں انتظام کیا، جس میں روسی انقلاب کے ابتدائی حالات اور وہاں کی سیاسی ہلچل پر مبنی نو سو صفحات کی کتاب ''بالشویزم، راہ انقلاب'' کی تقریب رونمائی بھی ہوئی۔

مذکورہ کتاب IMT کے رہنما اور برطانیہ کے اہم دانشور ''ایلن ووڈز''کی تحقیق کا نچوڑ ہے، جس کا تنقیدی مطالعہ ہر جمہوریت پسند اور عوام دوست سیاسی کارکن سمیت ہر اس نوجوان طالب علم کو کرنا چاہیے جو سماج کی سیاسی اور سماجی بہتری کی خواہش رکھتا ہے، تقریب میں کثیر تعداد کی شرکت اس بات کی گواہی کے لیے اہم ہے کہ ہمارے سماج کا نوجوان سیاسی شعور کی نہ صرف آگاہی چاہتا ہے بلکہ اس کے دل میں سیاسی تحاریک کے اندر عوام کو منظم کرنے کا جوش اور امنگ کروٹیں لے رہا ہے،بس ضرورت نوجوانوں کی سیاسی ،نظریاتی پختگی اور تربیت کی ہے جو منظم تنظیم اور مضبوط کمیونسٹ پارٹی کے بغیر ممکن نہیں۔

متعلقہ کالم کی بنت کے دوران ایک خوبصورت اتفاق اس وقت ہوا جب میں اپنی بیٹی لیلیٰ رضا کے ہمراہ کراچی پریس کلب میں ظہرانہ کرنے کی نیت سے گئے،جوں ہی کلب کی کینٹین میں داخل ہوئے تو ہمارے محبی پیرزادہ سلمان ،دانشور صحافی غازی صلاح الدین اور پر خلوص بھائی ستار سے ٹکرائو ہوا ،جس میں پیرزادہ سلمان اور غازی صلاح الدین سماجی ،سیاسی اور ادبی پہلوئوں پر گفتگو کر رہے تھے،غازی صاحب کی محبت بھری خواہش پر ہم بھی گفتگو کے شریک بنا لیے گئے تو پیرزادہ سلمان نے فوری اطلاع دی کہ آپ یہاں ضرور بیٹھیں کہ ابھی شامل شمس بھی آیا چاہتے ہیں، اور پھر ذرا سی دیر میں ڈئچے نیوز جرمنی کے صحافی شامل شمس بھی اس محفل کا حصہ ہو چکے تھے۔

سب نے اپنی اپنی پسند کا کھانا کھایا اور ہم سب احباب پریس کلب کے لان کی طرف بیٹھنے کے لیے بڑھے ،اس گفتگو میں اقبال سے لے کر ساحر،فیض،فراز اور ترقی پسند تحریک کے چنیدہ زعما کاذکر بھی رہا تو کمیونسٹ تحریک اور روس کے انْقلاب پر بھی سیر حاصل گفتگو رہی۔

کمیونسٹ تحریک کے تناظر میں ہمارے محترم صحافی غازی صلاح الدین کا یہ نکتہ کہ''مارکس نے تو جدلیاتی تاریخ اور جدلیاتی مادیت کے تناظر میں کمیونسٹ انقلاب کی اہم نشانی ترقی یافتہ سرمایہ داری کے استحصال کی انتہا تک پہنچنے کے بعد عوام یا مزدور کے ردعمل میں انقلاب برپا ہونے کا عندیہ دیا تھا،سو روس میں ''لینن'' یا بالشویک پارٹی کے انقلاب لانے کے وقت تو مارکس کی پیش گوئی کے مطابق سرمایہ دارانہ جبر یا سرمایہ دارانہ استحصال کے حالات نہ تھے، تو وہ کیا دوسری وجوہات ہو سکتی ہیں جو ''روس کے عظیم سوشلسٹ انقلاب''لانے کا جواز بنی؟

غازی صاحب اس سوال کا جواب مجھ سے مانگنا بھی چاہتے تھے اور اسی سوال کے تناظر میں انتہائی دانشمندی سے خطے کی سیاسی صورتحال کے بارے میں سب دوستوں کو شریک بحث بھی رکھنا چاہتے تھے۔

سینئر صحافی غازی صلاح الدین کا مذکورہ سوال نہ صرف اہم تھا بلکہ اس سوال میں آج کے تناظر میں ''انقلاب روس''کے محرکات کو دیکھنے کی ایک دانشمندانہ فکر بھی پنہاں تھی،جس میں تقاضہ کیا جا رہا تھا کہ کسی بھی تاریخی واقعے یا انقلاب کو عقیدہ پرستی یا روایت پرستی میں دیکھنے کے بجائے اس واقعہ کے فکری اور تاریخی تناظر کو اس وقت کے معروض میں ہی دیکھا جانا چاہیے اور اس کے تنقیدی پہلو کی مدد سے آج کے سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے آیندہ کی صف بندی کی جانی چاہیے۔

غازی صلاح الدین کے سوال پر میرا استدلال تھا کہ بلاشبہ کسی بھی واقعہ کو عقیدت یا روایتی گنجلکوں سے آزاد ہونا چاہیے تاکہ واقعہ کو دیکھنے کا درست زاویہ سامنے آسکے،میرا موقف تھا کہ سیاسی اختلاف ہوتا بھی ہے اور ہونا بھی چاہیے،مگر اختلاف رائے کا مقصد قطعی یہ نہیں ہونا چاہیے کہ سیاسی جماعتیں یا گروہ اپنی سیاسی بنیاد یا ''تنظیم'' کو ہی غیر منظم کر دیں اور انتشار کا شکار ہو جائیںاور اپنے گروہ یا جماعت کو ٹکڑیوں میں بانٹ دیں۔

اگر ایسا تاریخ کے کسی بھی موڑ پر ہوا ہے تو اس کے نتائج کبھی سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر مثبت نہیں آسکے ہیں بلکہ ایسی مہمات سے عوام کے اندر انتشار اور مایوسی ہی پھیلی ہے، جو عوام کو دوبارہ سے منظم کرنے کی مشکل میں تبدیل ہوکر فرد کو''ذاتی ترجیح''کے منفی رجحان کی طرف لے جاتی ہے،جس سے نہ صرف''سماجی فیبرک ،جس میں انقلاب فرانس اور دو جنگ عظیم دیکھی جا سکتی ہیں،مگر سیاست کی دانش کا تقاضہ ہے کہ ناکامیوں کے ان پہلوئوں پر نظر رکھے جن کی وجہ سے عوام کو محرومی یا جبرسے نجات دلانے کا بڑا مقصد تہہ تیغ کیا گیا ہو۔

روس کے بالشویک لیننی انقلاب کے بارے میں میرا استدلال تھا کہ اختلاف رائے اور نکتہ نظر کی شدید ترین مخالفت کے باوجود روس کے''ولادیمر لینن'' کی یہ تاریخی اور مارکسی دانش تھی کہ اس نے زار روس کے حمایت یافتہ ''منشویک'' کے ساتھ اتحاد بنایا اور انقلاب لانے کے ہدف تک ''بالشویک اور منشویک'' کے الگ نکتہ نظر کے باوجود ''تنظیم'' کو مضبوطی کے ساتھ متحد رکھا اور طے کیا گیا کہ دلیل اور منطق کے تحت ایک دوسرے کے نکتہ نظر کو سنا بھی جائے گا اور اس کا جواب بھی دلیل کی صورت میں ہی قابل قبول ہوگا،جب کہ جب تک ''تنظیم'' میں موجود کامریڈز اپنے ذاتی مفادات کو ذات سے نہیں نکالتے، اسوقت تک انقلاب کے آخری ہدف یعنی زار روس کا خاتمہ ناممکن ہے۔

اس درمیان تمام تر اختلافات کے باوجود ''تنظیمی''وجود کو مضبوط کرنے کے نکتے کا اہم اتفاق ہی تمام تنظیم کی فتح کا ضامن بنا اور انقلاب روس کامیابی کے ساتھ دنیا کے تقشے پر آیا،لینن کے اس مارکسی عملی نتیجے نے یورپ سمیت ساری دنیا کے افراد کے انسانی حقوق،عورتوں کے حقوق اور محنت کش و مزدور کے حقوق کا نہ صرف مکمل دفاع کیا بلکہ جہاں عوامی جمہوریت کی تحاریک کو روس کی مدد کی ضرورت ہوئی، لینن کے کمیونسٹ انقلاب نے دنیا کے کچلے ہوئے عوام کا ساتھ دیا،جس سے روس کی معیشت کا حجم نہ صرف بڑھا بلکہ فوج کے بے تحاشا دفاعی اخراجات نے معیشت کے ساتھ مزدور اور محنت کش دوست ''انقلاب روس'' کے خلاف سرمایہ دارانہ استحصالی ممالک یکجا ہوئے اور روس کے کمیونسٹ سماج میں انتشار پھیلانے کو سرمایہ دارانہ مفادات کے تحت کمزور کیا اور یوں دنیا ایک ''عظیم اور منظم تنظیمی عمل''کے تحت آنے والے عوامی انقلاب سے دنیا کے محروم طبقات کو دور کر دیا گیا اور اسی کے ساتھ سرمایہ دارانہ استحصالی قوتوں نے دنیا کی سیاسی جماعتوں میں تنظیمی عمل پر حملہ کرکے سیاسی جماعتوں کی تنظیمی حیثیت ختم کردی جس سے آج کی دنیا میں شخصیت پرستی، مفاد پرستی اور کساد بازاری بہت واضح انداز سے دیکھی جاسکتی ،جو کہ عقیدہ پرستی اور روایت پرستی کو دنیا بھر میں مضبوط کرکے دنیا کے امن ،خوشحالی اور جمہوری آزادیوں کو چبا رہی ہے۔

آج کی سیاست کے شخصیت پسندی اور عقیدہ پرستی کو ختم کرنے کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ''لینن کے مارکسی''اصولوں پر تنظیم سازی کی جائے اور عوام کے سیاسی اور معاشی ابتلا کا خاتمہ سوشلسٹ فکر کے تحت کیا جائے۔ (جاری ہے۔)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں