تفہیمِ دین

آپؐ جانتے تھے کہ آپؐ کے بعد مسلمانوں میں کس قسم کا نظام قائم ہوگا


Rafiuzzaman Zuberi February 04, 2024

مولانا امین احسن اصلاحی اپنی کتاب '' تفہیمِ دین'' میں انسان کی فطرت اور اس کے طرز عمل کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔

''اس امر میں تو شبہ نہیں کہ دنیا میں نیکی اور بھلائی کی زندگی بسر کرنے والے ہمیشہ تھوڑے ہی رہے ہیں، اکثریت ہمیشہ حق سے منحرف ہو کر زندگی بسر کرنے والوں ہی کی رہی ہے، لیکن اس صورت حال کو اس بات کی دلیل نہیں قرار دیا جاسکتا کہ انسان کی فطرت ہی بری ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں ایک طرف یہ بات صحیح ہے کہ دنیا میں ہمیشہ برائی کی زندگی بسرکرنے والوں ہی کی اکثریت رہی ہے، وہیں یہ بات بھی صحیح ہے کہ جہاں تک پسند کرنے کا تعلق ہے، دنیا میں ہمیشہ نیکی کی زندگی پسند کرنے والوں کی اکثریت رہی ہے، جو لوگ رات دن ظلم، ناانصافی، خیانت، بدعہدی، بدکاری اور فسق و فجور میں مبتلا ہیں، اگر ان سے دریافت کیا جائے کہ ایمانداری کے ساتھ بتائیں کہ ظلم اور انصاف، بخل اور فیاضی، جھوٹ اور سچ، خیانت و امانت، غرور اور تواضع میں سے کس چیزکو پسند کرتے ہیں تو انشا اللہ ان کی عظیم اکثریت جو جواب دے گی وہ ظلم کے مقابلے میں انصاف، بخل کے مقابل میں فیاضی اور جھوٹ کے مقابلے میں سچ کے حق میں ہوگا۔ اب سوچیے اگر انسان اپنی فطرت کے لحاظ سے شرپسند ہے اور اپنی عملی زندگی سے وہ اس چیز کا ثبوت بھی مہیا کر رہا ہے تو آخر اس کی پسند اور ناپسند کا معاملہ اس کے طرز عمل سے بالکل مختلف کیوں ہوا ہے؟

یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ انسان کی فطرت کی نیکی پسندی کا لازمی تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ وہ برائی کی راہ اختیار نہ کرے یا نہ اختیار کر سکے۔ آخر انسان کی فطرت حیوانات کی جبلت کی طرح تو نہیں ہے کہ اس میں تبدیلی واقع ہو ہی نہ سکے۔ حیوانات تو قدرت کی طرف سے ایک مخصوص ڈگر پر ہانک دیے گئے ہیں۔

وہ اس ڈگر سے انحراف نہیں کر سکتے، لیکن انسان کی سرشت پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ایک طرف تو قدرت نے اسے اچھی فطرت پر پیدا کیا ہے یعنی اس کو بھلائی اور برائی کا امتیاز بخشا ہے اور بھلائی کی قدر اس کے اندر ودیعت کی ہے، دوسری اس کو اختیار اور آزادی کی نعمت بھی بخشی ہے یعنی وہ بھلائی اور برائی کی ان دونوں راہوں میں سے کسی ایک کو اختیارکرنے پر قدرت کی طرف سے مجبور نہیں کر دیا گیا ہے بلکہ وہ ان میں سے ہر راہ کو اختیار کرنے کے لیے آزاد ہے وہ اپنے انتخاب سے چاہے بھلائی کی راہ اختیار کرے چاہے برائی کی۔''

مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں '' اب رہا یہ سوال کہ بھلائی اور برائی کے درمیان امتیاز رکھنے اور بھلائی کو پسند کرنے کے باوجود انسانوں کی اکثریت برائی میں مبتلا کیوں پائی جاتی ہے تو اس کا بہترین جواب جو سمجھ میں آتا ہے اور جو قرآن نے دیا ہے، وہ یہ ہے کہ ہر برائی چونکہ نفس کے لیے اپنے اندر ایک فوری لذت یا جلدی حاصل ہو جانے والا نفع رکھتی ہے، اس وجہ سے انسان برائی کو برائی سمجھنے کے باوجود آلودہ ہو جاتا ہے، برعکس اس کے بھلائی کے جو کام ہیں ان کے ساتھ اس طرح کی فوری لذتوں کی کوئی چاٹ نہیں ہوتی۔

اس وجہ سے عام لوگ ان کو ایک اعلیٰ نصب العین تسلیم کرنے کے باوجود ان کے لیے ہمت نہیں کرتے۔ اس بات کو آپ دوسرے الفاظ میں سمجھنا چاہیں تو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ بھلائی اور نیکی کے کاموں کی فطرت قدرت نے کچھ ایسی بنائی ہے کہ ان کے انجام دینے کے لیے ہمارے نفس کو ایک چڑھائی سی چڑھنی پڑتی ہے جس کے لیے عزم و ہمت کی ضرورت ہے اور اس عزم و ہمت کو پیدا کرنے کے لیے آدمی کو اپنی تربیت کرنی پڑتی ہے برعکس اس کے برائی کے کاموں کے لیے آدمی کو اپنے نفس کو خواہشات کے بہاؤ پر چھوڑ دینا کافی ہوتا ہے۔ اس کے لیے کسی ریاضت یا کسی تربیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔

آپ غور کریں گے تو محسوس کریں گے کہ دنیا میں جتنے کام بھی کچھ قدر و قیمت رکھتے ہیں، سب ہی کسی نہ کسی حد تک مشقت طلب ہیں یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے کاموں کے لیے حوصلہ کرنے والے کم نکلتے ہیں۔''

مولانا لکھتے ہیں '' فلسفی ارسطو کے نزدیک انسان اپنی فطرت کے لحاظ سے اگرچہ نیکی پسند واقع ہوا ہے لیکن اس کے باوجود وہ عملاً برائی میں جو زیادہ مبتلا پایا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ نیکی کی فطرت وحدت اور بدی کی فطرت انتشار کی متقاضی ہے۔ اگر آپ نیکی کی زندگی بسرکرنا چاہیں تو آپ کو کوشش کرکے اپنی تربیت اس طرح کرنی پڑے گی کہ آپ کی تمام قوتیں اور صلاحیتیں ایک متعین ہدف پر استعمال ہوں۔ ظاہر ہے کہ یہ چیز تربیت اور ریاضت کی محتاج ہے۔ اس کے برعکس بدی کی زندگی گزارنے کے لیے اس قسم کی کوئی زحمت آپ کو اٹھانی نہیں پڑے گی۔

نیکی اور بدی کی یہی فطرت ہمارے حضور نبی کریمؐ نے اس طرح فرمائی ہے کہ '' جنت مشکلات میں گھیر دی گئی ہے اور دوزخ مرغوبات میں گھیر دی گئی ہے۔'' اسی بات کو سیدنا مسیحؑ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ'' بدی کی راہ فراخ اور کشادہ اور اس پر چلنے والے بہت ہیں اور نیکی کی راہ تنگ ہے اور اس پر چلنے والے تھوڑے ہیں۔''

جس طرح بدی میں انسانوں کی اکثریت کا مبتلا ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ بدی ہی انسان کی فطرت ہے، اسی طرح شرک میں انسانوں کی اکثریت کا مبتلا ہونا بھی اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ شرک ہی انسان کی فطرت کا تقاضا ہے۔ اس معاملے میں بھی عقل اور فطرت کے مطابق بات وہی ہے جو قرآن کہتا ہے یعنی انسانی فطرت کا تقاضا تو توحید ہی ہے لیکن اپنی بعض کمزوریوں اور کج فہمی کے سبب آدمی شرک میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہایت واضح الفاظ میں اپنی سنت کے ساتھ خلفائے راشدین کی سنت کا بھی ذکر فرمایا ہے اور اپنی سنت کی طرح اس پر قائم رہنے کی وصیت بھی فرمائی ہے۔وہ لکھتے ہیں '' آپؐ جس دینِ حق کے داعی تھے، وہ دین کوئی رہبانیت کا دین نہیں تھا کہ وہ کسی نظام کے تصور سے بالکل خالی ہو بلکہ اس کے برعکس وہ روز اول ہی سے ایک اجتماعی اور سیاسی نظام کے تقاضوں کے ساتھ نمودار ہوا تھا۔

خود حضورؐ کی زندگی میں اس نے عملاً ایک مکمل سیاسی نظام کی صورت اختیار بھی کر لی تھی اور اس نظام کے اصول و مبادی قرآن میں بھی بیان ہوگئے تھے اور خود حضورؐ نے بھی ان کی وضاحت فرما دی تھی۔ پھر حضورؐ کو آپؐ کی امت کے مستقبل کا پورا نقشہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے ہی دکھا دیا گیا تھا۔

چنانچہ متعدد حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس امت کو اپنی اجتماعی زندگی میں جن مراحل اور جن انقلابات سے گزرنا تھا اس کے بہت سے پہلو آپؐ کے علم میں تھے۔ آپؐ جانتے تھے کہ آپؐ کے بعد مسلمانوں میں کس قسم کا نظام قائم ہوگا۔ اس کے بعد کیا انقلاب ہوگا اور اس انقلاب کے بعد کیا حالات پیش آئیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں