کیا مثالی معاشرے کا قیام ممکن ہے
معاشرے میں جو انسانیت سوز سرگرمیاں واقع ہوتی ہیں وہ زیادہ تر لوگوں کے مادی تنازعات کا نتیجہ ہوتی ہیں
انسانی وجود کے دو پہلو ہیں، ایک جسمانی وجود اور ایک اس کا روحانی وجود۔ جسمانی وجود ظاہری اور روحانی وجود باطنی وجود کہلاتا ہے۔
روحانی وجود اگرچہ باطنی احساس ہے تاہم قدرتی طور پر انسان کے خارجی افعال سے ظاہر ہوتا ہے۔ جب یہ مثبت افعال میں ظاہر ہوتا ہے تو اسے روحانیت کا نام دیا جاتا ہے۔ اس طرح روحانیت دوسروں کے ساتھ خیر خواہ بن کر جینے کا نام ہے۔ سیکولر کی اصطلاح میں روحانیت مثبت طرز فکر کا نام ہے مذہبی اصطلاح میں حکم خداوندی کے تحت زندگی گزارنے کا نام روحانیت ہے۔
جب کوئی مہذب معاشرہ تشکیل دیا جاتا ہے تو اس کے قیام اور بقا کے لیے ماہرین اور دانشور افراد کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح کوئی مثالی معاشرہ تشکیل دیا جاتا ہے تو ہمیں روحانی یعنی صالح افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے بغیر مثالی معاشرے کا قیام ممکن نہیں۔
معاشرے میں جو انسانیت سوز سرگرمیاں واقع ہوتی ہیں وہ زیادہ تر لوگوں کے مادی تنازعات کا نتیجہ ہوتی ہیں۔روحانی حوالے سے صالح افراد مادی کلچر کو ناپسند کرتے ہیں یہ مادیت کے مقابلے میں غیر مادی اقدار کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اس طرح جوہری طور پر سادہ طرز زندگی اور مثبت سوچ معاشرے میں فروغ پاتی ہے۔
روحانیت اسی صورت میں بیدار ہوتی ہے جب آپ روحانیت کے متلاشی ہوں، اگر آپ کی خواہش ہے کہ آپ روحانیت پانے والے بن جائیں تو آپ کو خود کو ایک مخلص شخص کے روپ میں ڈھالنا ہوگا کیونکہ روحانیت کی اساس اخلاص پر قائم ہے اس کے بغیر روحانیت کا کوئی تصور نہیں۔ یہ روحانیت کی اولین شرط ہے۔
روحانیت کی دوسری بنیادی شرط دانائی ہے۔ دانائی سے مراد وہ صلاحیت ہے جس کے تحت روحانیت یافتہ شخص چیزوں کو اقدار کے حوالے سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ اس قابل ہوتا ہے کہ چیزوں کے درست اور غلط کا فرق کرسکے۔
تیسری اہم بات جو ایک شخص کو خود تربیتی روحانی عمل کے دوران رکھنی چاہیے وہ غصے سے پرہیز ضروری ہے جس لمحہ بھی آپ نے غصہ اور تشدد کا راستہ اختیار کیا اسی لمحے اس نے روحانیت کا دروازہ بند کردیا، اگر آپ جذباتی حوالے سے اس عمل پر آمادہ نہیں تو پھر روحانیت آپ کی رسائی سے باہر ہے۔
ایک مادہ پرست انسان روحانی اہداف کے بجائے مادی مفادات میں دلچسپی رکھتا ہے جس کے نتیجے میں وہ استحصال، کرپشن اور دیگر سماجی برائیوں میں ملوث ہو جاتا ہے۔ روحانیت پسند انسان غیر مادی اقدار کو اہمیت دیتا ہے جس کی وجہ سے مادہ پرستی کے منفی اثرات سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس طرح جو لوگ خود کو روحانیت کے مطابق استوار کر لیتے ہیں حقیقت میں وہ ہر طرح کی برائی سے دور رہنے کی صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں۔
روحانیت انسان کو اس کے کردار کے حوالے سے صالح اور اس کی فکر کو پختہ اور ہر قسم کے تعمیری کاموں کو فروغ دیتی ہے اور انسان کو مثبت زاویہ نگاہ دے کر اسے ایک نیک انسان میں بدل دیتی ہے۔ایک مادی دنیا میں سکون اور اطمینان کم ہی دکھائی دیتا ہے صرف روحانیت ہی ہے جو آپ کو مسرت اور اطمینان کا احساس دے سکتی ہے۔ روحانیت نہ صرف فرد واحد کو پرسکون شخص بنا دیتی ہے بلکہ پورے معاشرے کو مسائل سے نجات دلا کر اسے پرسکون مثالی معاشرے میں تبدیل کر دیتی ہے۔
موجودہ دور پیشہ ورانہ مہارت کا دور ہے۔ آج کے دور میں کسی کا پیشہ ہی اس کی پہچان ہے۔ ہر انسان کی پیشہ ورانہ زندگی کو ہی اس کے طرز حیات کے طور پر قبول کیا جاتا ہے پیشہ ورانہ تعلیم میں مادی خوشحالی کو ہی اولین حیثیت حاصل ہے۔ اس کے لیے مادی خوشحالی کے لیے پیشہ ورانہ تعلیم کا حصول ضروری ہوگیا ہے۔
اس کلچر نے ایسے رجحان کو جنم دیا ہے جس میں انسان کی خارجی ضروریات کو ہی اولین حیثیت حاصل ہے، انسان کی باطنی ضروریات کو مکمل نظرانداز کردیا گیا ہے اس کے نتیجے میں اس کی زندگی میں خوشحالی ضرور آئی ہے لیکن وہ باطنی زندگی میں سکون سے محروم ہو گیا ہے۔ اصل میں انسان ہزاروں خواہشیں لے کر اس دنیا میں پروان چڑھتا ہے لیکن اپنی بشری کمزوری کی وجہ سے اتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ اپنی تمام آرزوؤں کو عملی جامہ پہنا سکے۔
یہ بشری کمزوری ہے جو انسان کو بے سکونی کے دلدل میں دھکیل دیتی ہے۔نظام قدرت میں تنوع فطرت کی منصوبہ بندی کا لازمی جز ہے مختلف افراد کے ذوق، سوچنے کے انداز اور تاثرات کے اظہار میں اختلاف ہوتا ہے یوں مل جل کر رہنے سے مختلف مسائل کا کھڑا ہونا ایک قدرتی امر ہے۔ اس سے نجات کا طریقہ حقیقت پسندی ہے۔ روحانیت حقیقت پسندی کا شعور عطا کرتی ہے۔
صالح افراد اس معاملات میں درگزر سے کام لیتے ہیں۔روحانیت میں نفرت زہر قاتل کا درجہ رکھتی ہے، روحانیت پر فائز شخص منفی عمل کے نتیجے میں مثبت طرز عمل کا اظہار کرتا ہے۔ یہ عمل اس کو برے نتائج سے محفوظ رکھتا ہے۔ غیر ضروری معاملات میں الجھنے سے بچاتا ہے۔ اس سے ایسا کلچر فروغ پاتا ہے جہاں مثبت اقدار پھلتی اور پھولتی ہیں۔
درگزر کا مطلب شکست کھانا اور پسپائی اختیارکرنے کا نام نہیں بلکہ اس کا مطلب ہے جو ممکن ہے وہ کریں جو ناممکن ہے اس کو نظرانداز کر دیں۔ اپنے عمل کو نتائج کے حوالے سے دیکھیں اگر آپ کے اقدامات کے نتائج اچھے آنے کی امید ہے تو قدم اٹھائیے اگر برے نتائج آنے کا خدشہ ہے تو بہتر ہے ان سے گریز کریں۔ روحانیت کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ عوام الناس میں پیشہ ورانہ تعلیم کے ساتھ روحانی تعلیم کو بھی فروغ دیا جائے۔
بلاشبہ صوفی ازم یا خانقائی نظام ہماری مذہبی زندگی کا ایک اہم شعبہ رہا ہے۔ اس شعبے کا بنیادی فلسفہ کردار سازی کے ذریعے انسان کی باطنی زندگی کے پہلوکو روشن بنانا ہے۔ بدقسمتی سے انسانی زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح اس شعبہ زندگی میں بھی کافی کالی بھیڑیں وجود میں آگئی ہیں جنھوں نے اس شعبے کو اپنے مال و زر کے حصول کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ موجودہ دور میں ان کالی بھیڑوں نے ایک مافیا کی صورت اختیار کر لی ہے۔ یہ عناصر تقدس کا نقاب پہن کر سفاک انسان کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
روحانیت کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ ان عناصر سے نجات حاصل کی جائے۔ یاد رکھیں معاشرے میں بگاڑ ہمیشہ کردارکی خرابی سے پیدا ہوتا ہے موجودہ دور میں مثالی معاشرہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پیشہ ورانہ تعلیم کے ساتھ روحانی اور اخلاقی تعلیم کو بھی اولین حیثیت دی جائے۔
ایک شخص جو صحیح معنوں میں روحانیت کے درجے پر فائز ہوگا یعنی صالح کردار کا مالک ہوگا وہ جس شعبہ زندگی میں جائے گا، اس کا صالح کردار اس کے ساتھ رہے گا۔ سیاست میں ہوگا تو اس کی سیاست اصولی ہوگی اگر تاجر ہوگا تو اس کی تجارت دیانت دارانہ ہوگی، اگر جج ہوگا تو اس کے فیصلے میں عدل و انصاف ہوگا۔ اس طرح ہم معاشرے میں روحانیت کو فروغ دے کر ایک مثالی معاشرہ قائم کر سکتے ہیں۔
روحانی وجود اگرچہ باطنی احساس ہے تاہم قدرتی طور پر انسان کے خارجی افعال سے ظاہر ہوتا ہے۔ جب یہ مثبت افعال میں ظاہر ہوتا ہے تو اسے روحانیت کا نام دیا جاتا ہے۔ اس طرح روحانیت دوسروں کے ساتھ خیر خواہ بن کر جینے کا نام ہے۔ سیکولر کی اصطلاح میں روحانیت مثبت طرز فکر کا نام ہے مذہبی اصطلاح میں حکم خداوندی کے تحت زندگی گزارنے کا نام روحانیت ہے۔
جب کوئی مہذب معاشرہ تشکیل دیا جاتا ہے تو اس کے قیام اور بقا کے لیے ماہرین اور دانشور افراد کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح کوئی مثالی معاشرہ تشکیل دیا جاتا ہے تو ہمیں روحانی یعنی صالح افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے بغیر مثالی معاشرے کا قیام ممکن نہیں۔
معاشرے میں جو انسانیت سوز سرگرمیاں واقع ہوتی ہیں وہ زیادہ تر لوگوں کے مادی تنازعات کا نتیجہ ہوتی ہیں۔روحانی حوالے سے صالح افراد مادی کلچر کو ناپسند کرتے ہیں یہ مادیت کے مقابلے میں غیر مادی اقدار کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اس طرح جوہری طور پر سادہ طرز زندگی اور مثبت سوچ معاشرے میں فروغ پاتی ہے۔
روحانیت اسی صورت میں بیدار ہوتی ہے جب آپ روحانیت کے متلاشی ہوں، اگر آپ کی خواہش ہے کہ آپ روحانیت پانے والے بن جائیں تو آپ کو خود کو ایک مخلص شخص کے روپ میں ڈھالنا ہوگا کیونکہ روحانیت کی اساس اخلاص پر قائم ہے اس کے بغیر روحانیت کا کوئی تصور نہیں۔ یہ روحانیت کی اولین شرط ہے۔
روحانیت کی دوسری بنیادی شرط دانائی ہے۔ دانائی سے مراد وہ صلاحیت ہے جس کے تحت روحانیت یافتہ شخص چیزوں کو اقدار کے حوالے سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ اس قابل ہوتا ہے کہ چیزوں کے درست اور غلط کا فرق کرسکے۔
تیسری اہم بات جو ایک شخص کو خود تربیتی روحانی عمل کے دوران رکھنی چاہیے وہ غصے سے پرہیز ضروری ہے جس لمحہ بھی آپ نے غصہ اور تشدد کا راستہ اختیار کیا اسی لمحے اس نے روحانیت کا دروازہ بند کردیا، اگر آپ جذباتی حوالے سے اس عمل پر آمادہ نہیں تو پھر روحانیت آپ کی رسائی سے باہر ہے۔
ایک مادہ پرست انسان روحانی اہداف کے بجائے مادی مفادات میں دلچسپی رکھتا ہے جس کے نتیجے میں وہ استحصال، کرپشن اور دیگر سماجی برائیوں میں ملوث ہو جاتا ہے۔ روحانیت پسند انسان غیر مادی اقدار کو اہمیت دیتا ہے جس کی وجہ سے مادہ پرستی کے منفی اثرات سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس طرح جو لوگ خود کو روحانیت کے مطابق استوار کر لیتے ہیں حقیقت میں وہ ہر طرح کی برائی سے دور رہنے کی صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں۔
روحانیت انسان کو اس کے کردار کے حوالے سے صالح اور اس کی فکر کو پختہ اور ہر قسم کے تعمیری کاموں کو فروغ دیتی ہے اور انسان کو مثبت زاویہ نگاہ دے کر اسے ایک نیک انسان میں بدل دیتی ہے۔ایک مادی دنیا میں سکون اور اطمینان کم ہی دکھائی دیتا ہے صرف روحانیت ہی ہے جو آپ کو مسرت اور اطمینان کا احساس دے سکتی ہے۔ روحانیت نہ صرف فرد واحد کو پرسکون شخص بنا دیتی ہے بلکہ پورے معاشرے کو مسائل سے نجات دلا کر اسے پرسکون مثالی معاشرے میں تبدیل کر دیتی ہے۔
موجودہ دور پیشہ ورانہ مہارت کا دور ہے۔ آج کے دور میں کسی کا پیشہ ہی اس کی پہچان ہے۔ ہر انسان کی پیشہ ورانہ زندگی کو ہی اس کے طرز حیات کے طور پر قبول کیا جاتا ہے پیشہ ورانہ تعلیم میں مادی خوشحالی کو ہی اولین حیثیت حاصل ہے۔ اس کے لیے مادی خوشحالی کے لیے پیشہ ورانہ تعلیم کا حصول ضروری ہوگیا ہے۔
اس کلچر نے ایسے رجحان کو جنم دیا ہے جس میں انسان کی خارجی ضروریات کو ہی اولین حیثیت حاصل ہے، انسان کی باطنی ضروریات کو مکمل نظرانداز کردیا گیا ہے اس کے نتیجے میں اس کی زندگی میں خوشحالی ضرور آئی ہے لیکن وہ باطنی زندگی میں سکون سے محروم ہو گیا ہے۔ اصل میں انسان ہزاروں خواہشیں لے کر اس دنیا میں پروان چڑھتا ہے لیکن اپنی بشری کمزوری کی وجہ سے اتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ اپنی تمام آرزوؤں کو عملی جامہ پہنا سکے۔
یہ بشری کمزوری ہے جو انسان کو بے سکونی کے دلدل میں دھکیل دیتی ہے۔نظام قدرت میں تنوع فطرت کی منصوبہ بندی کا لازمی جز ہے مختلف افراد کے ذوق، سوچنے کے انداز اور تاثرات کے اظہار میں اختلاف ہوتا ہے یوں مل جل کر رہنے سے مختلف مسائل کا کھڑا ہونا ایک قدرتی امر ہے۔ اس سے نجات کا طریقہ حقیقت پسندی ہے۔ روحانیت حقیقت پسندی کا شعور عطا کرتی ہے۔
صالح افراد اس معاملات میں درگزر سے کام لیتے ہیں۔روحانیت میں نفرت زہر قاتل کا درجہ رکھتی ہے، روحانیت پر فائز شخص منفی عمل کے نتیجے میں مثبت طرز عمل کا اظہار کرتا ہے۔ یہ عمل اس کو برے نتائج سے محفوظ رکھتا ہے۔ غیر ضروری معاملات میں الجھنے سے بچاتا ہے۔ اس سے ایسا کلچر فروغ پاتا ہے جہاں مثبت اقدار پھلتی اور پھولتی ہیں۔
درگزر کا مطلب شکست کھانا اور پسپائی اختیارکرنے کا نام نہیں بلکہ اس کا مطلب ہے جو ممکن ہے وہ کریں جو ناممکن ہے اس کو نظرانداز کر دیں۔ اپنے عمل کو نتائج کے حوالے سے دیکھیں اگر آپ کے اقدامات کے نتائج اچھے آنے کی امید ہے تو قدم اٹھائیے اگر برے نتائج آنے کا خدشہ ہے تو بہتر ہے ان سے گریز کریں۔ روحانیت کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ عوام الناس میں پیشہ ورانہ تعلیم کے ساتھ روحانی تعلیم کو بھی فروغ دیا جائے۔
بلاشبہ صوفی ازم یا خانقائی نظام ہماری مذہبی زندگی کا ایک اہم شعبہ رہا ہے۔ اس شعبے کا بنیادی فلسفہ کردار سازی کے ذریعے انسان کی باطنی زندگی کے پہلوکو روشن بنانا ہے۔ بدقسمتی سے انسانی زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح اس شعبہ زندگی میں بھی کافی کالی بھیڑیں وجود میں آگئی ہیں جنھوں نے اس شعبے کو اپنے مال و زر کے حصول کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ موجودہ دور میں ان کالی بھیڑوں نے ایک مافیا کی صورت اختیار کر لی ہے۔ یہ عناصر تقدس کا نقاب پہن کر سفاک انسان کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
روحانیت کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ ان عناصر سے نجات حاصل کی جائے۔ یاد رکھیں معاشرے میں بگاڑ ہمیشہ کردارکی خرابی سے پیدا ہوتا ہے موجودہ دور میں مثالی معاشرہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پیشہ ورانہ تعلیم کے ساتھ روحانی اور اخلاقی تعلیم کو بھی اولین حیثیت دی جائے۔
ایک شخص جو صحیح معنوں میں روحانیت کے درجے پر فائز ہوگا یعنی صالح کردار کا مالک ہوگا وہ جس شعبہ زندگی میں جائے گا، اس کا صالح کردار اس کے ساتھ رہے گا۔ سیاست میں ہوگا تو اس کی سیاست اصولی ہوگی اگر تاجر ہوگا تو اس کی تجارت دیانت دارانہ ہوگی، اگر جج ہوگا تو اس کے فیصلے میں عدل و انصاف ہوگا۔ اس طرح ہم معاشرے میں روحانیت کو فروغ دے کر ایک مثالی معاشرہ قائم کر سکتے ہیں۔