قومی ٹیم کی بہتر کارکردگی کیلئے فیصلوں میں مستقل مزاجی کی ضرورت ہے
سابق ٹیسٹ کرکٹر محمد رمضان کا ’’ایکسپریس‘‘ کو خصوصی انٹرویو
کھیلوں کی دنیا میں کوچنگ کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں، دنیا کی بڑی سے بڑی ٹیم اور بڑے سے بڑے کھلاڑی کو بھی کارکردگی میں نکھار لانے کیلئے کوچ کی ضرورت پڑتی ہے۔
پاکستان میں کرکٹ کی مقبولیت سے کسی کو انکار نہیں، اس کھیل میں اب کوچز کو انتہائی اہمیت دی جا رہی ہے، محمد رمضان نے بھی کرکٹ کوچنگ میں اپنی صلاحیتیں منوائی ہیں، اندرون اور بیرون ممالک ذمہ داریاں نبھانے والے 54 سالہ سابق ٹیسٹ کرکٹر ان دنوں غنی گلاس ٹیم کی کی کوچنگ کررہے ہیں جس میں قومی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان شان مسعود بھی شامل ہیں۔
یو بی ایل گراؤنڈ پر ہونے والی ایک ملاقات میں سابق رائٹ ہینڈ بیٹر محمد رمضان نے بتایا کہ ٹیسٹ کھیلنا میرا ایک خواب تھا، بچپن سے کرکٹ کھیلی اور مرحلہ وار گراس روٹ سے اعلیٰ سطح پر آکر انٹرنیشنل کرکٹر بنا،ڈومیسٹک کرکٹ میں پاکستان کسٹمز، یو بی ایل، فیصل آباد، پی این ایس سی، پاکستان ریلویز، کے آر ایل جیسی ٹیموں کی جانب سے کھیلنے کے مواقع حاصل ہوئے۔
اپنے کیریئر کا واحد ٹیسٹ جنوبی افریقہ کے خلاف 1997 میں کھیلا، 2اننگز میں مجموعی طور پر 36 رنز بنائے جبکہ ایک کیچ بھی پکڑا، فرسٹ کلاس کرکٹ میں مجموعی طور پر 176 میچز کی 295 اننگز میں 10478 رنز بنائے جن میں سب سے بڑا سکور 205 رنز رہا، بعد ازاں کوچنگ کی جانب متوجہ ہو گیا اور اپنے تجربے کو نوجوان کھلاڑیوں میں منتقل کرنا شروع کیا،افغانستان،چین اور اسکاٹ لینڈ میں بھی کوچنگ کا اعزاز حاصل کیا،میری خواہش ہے کہ پاکستان کیلئے بھی خدمات انجام دوں۔
ایک سوال کے جواب میں محمد رمضان نے کہا کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ 24 میں بہتر نتائج کیلئے پاکستان کو بھرپور تیاری کرنے کی ضرورت ہے، میگاایونٹ کیلئے جلد سے جلد بہتر کمبی نیشن تیار کیا جائے، صائم ایوب، صاحبزادہ فرحان اور عامر جمال جیسے کھلاڑیوں کی موجودگی خوش آئند ہوگی، اچھے نتائج کیلئے ٹیم ورک ضروری ہے۔
دورہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے بارے میں بات کرتے ہوئے محمد رمضان نے کہا کہ مسلسل تبدیلیوں کی وجہ سے قومی ٹیم کی کارکردگی متاثر ہورہی ہے، ایک اچھا کمبی نیشن نہیں بن پایا، ہر آنے والی مینجمنٹ نئے فیصلے کرتی ہے، اچھے نتائج کیلئے فیصلوں میں مستقل مزاجی کی ضرورت ہے، بیرون ملک بیٹرز کے فلاپ ہونے کی بنیادی وجہ کنڈیشنز ہیں۔
پاکستان میں اسپنرز کے فقدان کے حوالے سے محمد رمضان نے کہا کہ گراس روٹ پر اچھے سلو بولرز تلاش کرکے ان کو بھرپور مواقع فراہم کیے جائیں،ریڈ بال کی پریکٹس میں طویل سیشن کیے جائیں تو اچھے نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
پاکستان ٹیم کیلئے قومی اور غیر ملکی کوچز کی بحث کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر ہر کوچ سے مختصر وقت میں بہتر نتائج کی توقعات وابستہ کرلی جاتی ہیں، کسی بھی ذمہ داری کو ادا کرنے اور اس کے مطلوبہ نتائج پانے کیلئے وقت درکار ہوتا ہے، کسی بھی ٹیم کو مضبوط تر بنانے کیلئے کوچ کا کردار اہم ہوتا ہے ایک اچھے کوچ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اچھا کمبی نیشن بنائے جس میں سینئرز اور جونئیرز کا بہترین امتزاج ہو، بہتر نیٹ پریکٹس اور ماحول دوست مواقع فراہم کرے اور ان میں مقابلے کا رحجان پیدا کرے۔
انھوں نے کہا کہ کرکٹ میں محکمہ جاتی ٹیموں کا اہم کردار رہا ہے، ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کی دوبارہ بحالی خوش آئند ہے، باہمی مقابلوں میں جیت کا جذبہ بڑھتا ہے، کھلاڑیوں کو مالی آسودگی ملتی ہے اور وہ معاشی دباؤ سے آزاد ہوکر یکسوئی کے ساتھ بہتر کارکردگی کیلئے کوشاں ہوجاتے ہیں۔
محمد رمضان نے سابقہ اور موجودہ کھلاڑیوں کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں کھیلوں میں زیادہ پیسہ نہیں تھا، آج کے دور میں فرنچائز لیگ اور دیگر مواقع کی وجہ سے کھلاڑیوں میں مالی خوشحالی زیادہ ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ ماضی جیسا معیارموجودہ دور کے کھلاڑیوں میں موجود نہیں۔
اپنے ادارے کی کرکٹ ٹیم کا ذکر کرتے ہوئے محمد رمضان نے کہا کہ غنی گلاس ٹیم نے گریڈ ٹو کھیل رہی ہے، پریذیڈنٹ کپ ٹورنامنٹ میں شان مسعود کی پاکستان ٹیم کے ساتھ مصروفیات تھیں، بعض کھلاڑیوں کو انجریز کا سامنا کرنا تھاجس کی وجہ سے زیادہ بہتر نتائج سامنے نہیں آسکے لیکن مضبوط ٹیموں کا اچھا مقابلے کر کے ٹیم نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا، شان مسعود ایک شاندار بیٹر ہیں، اسکواڈ میں ان کی موجودگی ٹیم کے کھلاڑیوں کا مورال بلند کرتی ہے۔
پاکستان میں کرکٹ کی مقبولیت سے کسی کو انکار نہیں، اس کھیل میں اب کوچز کو انتہائی اہمیت دی جا رہی ہے، محمد رمضان نے بھی کرکٹ کوچنگ میں اپنی صلاحیتیں منوائی ہیں، اندرون اور بیرون ممالک ذمہ داریاں نبھانے والے 54 سالہ سابق ٹیسٹ کرکٹر ان دنوں غنی گلاس ٹیم کی کی کوچنگ کررہے ہیں جس میں قومی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان شان مسعود بھی شامل ہیں۔
یو بی ایل گراؤنڈ پر ہونے والی ایک ملاقات میں سابق رائٹ ہینڈ بیٹر محمد رمضان نے بتایا کہ ٹیسٹ کھیلنا میرا ایک خواب تھا، بچپن سے کرکٹ کھیلی اور مرحلہ وار گراس روٹ سے اعلیٰ سطح پر آکر انٹرنیشنل کرکٹر بنا،ڈومیسٹک کرکٹ میں پاکستان کسٹمز، یو بی ایل، فیصل آباد، پی این ایس سی، پاکستان ریلویز، کے آر ایل جیسی ٹیموں کی جانب سے کھیلنے کے مواقع حاصل ہوئے۔
اپنے کیریئر کا واحد ٹیسٹ جنوبی افریقہ کے خلاف 1997 میں کھیلا، 2اننگز میں مجموعی طور پر 36 رنز بنائے جبکہ ایک کیچ بھی پکڑا، فرسٹ کلاس کرکٹ میں مجموعی طور پر 176 میچز کی 295 اننگز میں 10478 رنز بنائے جن میں سب سے بڑا سکور 205 رنز رہا، بعد ازاں کوچنگ کی جانب متوجہ ہو گیا اور اپنے تجربے کو نوجوان کھلاڑیوں میں منتقل کرنا شروع کیا،افغانستان،چین اور اسکاٹ لینڈ میں بھی کوچنگ کا اعزاز حاصل کیا،میری خواہش ہے کہ پاکستان کیلئے بھی خدمات انجام دوں۔
ایک سوال کے جواب میں محمد رمضان نے کہا کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ 24 میں بہتر نتائج کیلئے پاکستان کو بھرپور تیاری کرنے کی ضرورت ہے، میگاایونٹ کیلئے جلد سے جلد بہتر کمبی نیشن تیار کیا جائے، صائم ایوب، صاحبزادہ فرحان اور عامر جمال جیسے کھلاڑیوں کی موجودگی خوش آئند ہوگی، اچھے نتائج کیلئے ٹیم ورک ضروری ہے۔
دورہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے بارے میں بات کرتے ہوئے محمد رمضان نے کہا کہ مسلسل تبدیلیوں کی وجہ سے قومی ٹیم کی کارکردگی متاثر ہورہی ہے، ایک اچھا کمبی نیشن نہیں بن پایا، ہر آنے والی مینجمنٹ نئے فیصلے کرتی ہے، اچھے نتائج کیلئے فیصلوں میں مستقل مزاجی کی ضرورت ہے، بیرون ملک بیٹرز کے فلاپ ہونے کی بنیادی وجہ کنڈیشنز ہیں۔
پاکستان میں اسپنرز کے فقدان کے حوالے سے محمد رمضان نے کہا کہ گراس روٹ پر اچھے سلو بولرز تلاش کرکے ان کو بھرپور مواقع فراہم کیے جائیں،ریڈ بال کی پریکٹس میں طویل سیشن کیے جائیں تو اچھے نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
پاکستان ٹیم کیلئے قومی اور غیر ملکی کوچز کی بحث کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر ہر کوچ سے مختصر وقت میں بہتر نتائج کی توقعات وابستہ کرلی جاتی ہیں، کسی بھی ذمہ داری کو ادا کرنے اور اس کے مطلوبہ نتائج پانے کیلئے وقت درکار ہوتا ہے، کسی بھی ٹیم کو مضبوط تر بنانے کیلئے کوچ کا کردار اہم ہوتا ہے ایک اچھے کوچ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اچھا کمبی نیشن بنائے جس میں سینئرز اور جونئیرز کا بہترین امتزاج ہو، بہتر نیٹ پریکٹس اور ماحول دوست مواقع فراہم کرے اور ان میں مقابلے کا رحجان پیدا کرے۔
انھوں نے کہا کہ کرکٹ میں محکمہ جاتی ٹیموں کا اہم کردار رہا ہے، ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کی دوبارہ بحالی خوش آئند ہے، باہمی مقابلوں میں جیت کا جذبہ بڑھتا ہے، کھلاڑیوں کو مالی آسودگی ملتی ہے اور وہ معاشی دباؤ سے آزاد ہوکر یکسوئی کے ساتھ بہتر کارکردگی کیلئے کوشاں ہوجاتے ہیں۔
محمد رمضان نے سابقہ اور موجودہ کھلاڑیوں کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں کھیلوں میں زیادہ پیسہ نہیں تھا، آج کے دور میں فرنچائز لیگ اور دیگر مواقع کی وجہ سے کھلاڑیوں میں مالی خوشحالی زیادہ ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ ماضی جیسا معیارموجودہ دور کے کھلاڑیوں میں موجود نہیں۔
اپنے ادارے کی کرکٹ ٹیم کا ذکر کرتے ہوئے محمد رمضان نے کہا کہ غنی گلاس ٹیم نے گریڈ ٹو کھیل رہی ہے، پریذیڈنٹ کپ ٹورنامنٹ میں شان مسعود کی پاکستان ٹیم کے ساتھ مصروفیات تھیں، بعض کھلاڑیوں کو انجریز کا سامنا کرنا تھاجس کی وجہ سے زیادہ بہتر نتائج سامنے نہیں آسکے لیکن مضبوط ٹیموں کا اچھا مقابلے کر کے ٹیم نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا، شان مسعود ایک شاندار بیٹر ہیں، اسکواڈ میں ان کی موجودگی ٹیم کے کھلاڑیوں کا مورال بلند کرتی ہے۔