نوجوان ووٹرز انتخابی سیاست کی طاقت

نئی نسل میں جو سیاسی و سماجی شعور بڑھا ہے اس میں ان کے سامنے ووٹ ڈالنے کے لیے ان روائتی مسائل کی کوئی اہمیت نہیں

salmanabidpk@gmail.com

پاکستان کی انتخابی سیاست اور جمہوریت سمیت بنیادی طور پر نوجوان طبقہ ہے ۔ پاکستانی سیاست و جمہوریت نے اگر کسی مثبت سمت میں آگے بڑھنا ہے تو اس میں کلیدی کرداربھی نوجوان ووٹرز سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی توجہ کا مرکز بھی نوجوان ووٹرز ہیں۔

اس وقت پاکستان میں کل ووٹروں کی تعداد 12کروڑ 69لاکھ 80 ہزار 272 ووٹ ہیں۔ پنجاب میں اس وقت ووٹوں کی تعداد 7 کروڑ 23 لاکھ 10ہزار582ہے۔ سندھ میں 2کروڑ 66لاکھ 51 ہزار 161ووٹ، کے پی کے 2کروڑ 16لاکھ 92 ہزار 381 ووٹ، بلوچستان 52لاکھ 84ہزار 594ووٹ، اسلام آباد 10لاکھ 41ہزار554 ووٹ ہیں۔

ووٹرز کی تعداد ہماری کل آبادی کا 53.02 فیصد ہے۔پچھلے عام انتخابات کے مقابلے میں دو کروڑ پچیس لاکھ ووٹرز میں اضافہ ہوا ہے، ان میں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے جو خوش آیند فیصلہ ہے ۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا8فروری 2024کے انتخابات میں نوجوان ووٹرز ماضی کے مقابلے میں بڑی تعداد میں ووٹ ڈال سکیں گے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یقینی طور پر ہمیں انتخابی نتائج میں حیران کن نتائج بھی دیکھنے کو مل سکتے ہیں ۔ اس وقت 18-35برس کے ووٹرز 5کروڑ ستر لاکھ 95ہزار197ووٹ ہیں جو کہ کل ووٹوں کا 46فیصد ہیں ۔ جب کہ 36-45 برس کے ووٹرز کی تعداد2کروڑ 77لاکھ 94ہزار 708 ہے۔ اسی طرح 46-55برس کے ووٹرز کی تعداد 1کروڑ 18لاکھ 89ہزار259اور 66برس سے زیادہ افراد میں 1کروڑ 20لاکھ 77ہزار 080ووٹرز ہیں۔

یہ اعداد و شمار ظاہر کرتا ہے کہ انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہونے کے لیے نوجوان ووٹرز جن میں18-35اور 35 اور 36تا 45برس کے ووٹرز کی اہمیت بنیادی نقطہ ہے۔ اسی طر ح اگر ہم ماضی کے انتخابات کی تاریخ کا جائز ہ لیں تو اس میں ووٹرز ٹرن آوٹ کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ 1970 کے انتخابات میں 61فیصد، 1977میں 61 فیصد، 1988 میں 45.08فیصد، 1990میں 45.46 فیصد، 1993 میں40.28فیصد1997،میں 36.10 فیصد، 2002 میں 41.68فیصد، 2008میں 43.65 فیصد، 2013میں53 اشاریہ 62فیصد جب کہ 2018 میں51.50فیصد ووٹرز ٹرن آوٹ رہا ۔

ضروری نہیں کہ سارے نوجوان صرف پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں، یقینی طو رپر ان کی دلچسپی دیگر جماعتیں بھی ہوسکتی ہیں مگر اکثریت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس معاملے میں پی ٹی آئی کو دیگر جماعتوں پر سیاسی برتری حاصل ہے ۔2013اور 2018 کے انتخابات میں بھی 50فیصد سے زیادہ ٹرن آوٹ کو پی ٹی آئی کی حمایت سے جڑی انتخابی مہم کے طور پر ہی دیکھا جاتا ہے۔

نوجوانوں کی سطح پر اگر ہم ماضی کے انتخابات میں ٹرن آوٹ کو دیکھیں تو اس میں 1988 کے انتخابات میں 35 فیصد، 1990 میں 38 فیصد، 1993 میں 33فیصد، 1997میں26فیصد، 2002 میں28فیصد، 2013 میں 26 فیصداور 2018 میں 37فیصد نوجوانوں نے ووٹ ڈالے ۔


اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا 8فروری کو انتخابات میں نوجوان ووٹرز جن کی عمریں 18-35اور 36-45 برس کی ہیں بڑی گرم جوشی کے ساتھ انتخابی عمل میں حصہ لے کر ووٹ ڈالنے جائینگے۔ پی ٹی آئی بطور جماعت انتخابی مہم سے باہر ہے ،اس کے امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں لیکن ان کے پاس پارٹی کا انتخابی نشان نہیں ہے اور وہ مختلف انتخابی نشانوں کے ساتھ الیکشن لڑ رہے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی کا حامی نوجوان طبقہ ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشن کا رخ کرے گا یا گھر بیٹھنے کو ترجیح دے گا ۔ ان کے سامنے دو ہی منظر ہیں، اول وہ ووٹ ڈالیں اور پارٹی کی سیاسی مشکلات میں کمی کریں اور دوئم وہ گھر بیٹھ کر پارٹی کو مزید سیاسی تنہائی میں مبتلا کردیں ۔

دوسری سیاسی جماعتیں ان ہی نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کرنے اوراپنی حمایت میں ووٹ ڈالنے کی طرف لانا چاہتی ہیں،مگر وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوںگی، یہ اہم سوال ہے ۔بنیادی طور پر ہماری سیاسی جماعتیں نوجوانوں کی توجہ تو حاصل کرنا چاہتی ہیں اور ان کی مقبولیت یا بڑی تعداد بطور ووٹرز فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں مگر ان کے پاس نئی نسل کے مسائل کا کوئی حل موجود نہیں۔

معاشی بدحالی، بے روزگاری ، معاشی غیر یقینی حالات، سیاسی وسماجی نظام کی سطح پر اہم فیصلوں میں عدم شمولیت، غیر معیاری تعلیم ، کھیلوں سمیت دیگر سہولیات کا نہ ہونا ، نئی معاشی سرگرمی کا نہ ہونا یا نئے روزگا رکا پیدا نہ ہونا ،حکمرانی کا غیر موثر اور غیر شفاف نظام ان میں عدم تحفظ، مایوسی، غصہ، نفرت ، تعصب جیسے منفی رویے پیدا کررہا ہے۔

حتی تک کہ ان میں یہ احساس بھی بڑھ رہا ہے کہ ہمارے ووٹ کی کوئی اہمیت نہیں، اقتدار میں آنے والی جماعتیں ہمیں اپنی ترجیحات کا حصہ بنارہی ہیں او رنہ ہی ہم اپنے ووٹ سے تبدیلی لاسکتے ہیں کیونکہ تبدیلی کا عمل ہمارے نظام میں ووٹ سے نہیں بلکہ طاقت سے جڑا ہوا ہے جو ان میں مزید لاتعلقی کے احساس کو اجاگر کرتا ہے ۔

نئی نسل میں جو سیاسی و سماجی شعور بڑھا ہے اس میں ان کے سامنے ووٹ ڈالنے کے لیے ان روائتی مسائل کی کوئی اہمیت نہیں او رنہ ہی وہ ان بنیادوں پر ووٹ ڈالنا پسند کرتے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ گھروں کی سطح پر ووٹ ڈالنے کی تقسیم بھی نظر آرہی ہے او رنئی نسل اپنے بڑوں سے مختلف سوچ رہی ہے او راس کا بڑا اظہار ہمیں سوشل میڈیا پر ا ن کی ردعمل سے دیکھنے کو مل رہا ہے۔ وہ روائتی سیاست اور خاندانی سیاست کو چیلنج کررہے ہیں۔

اسی تناظر میں دیکھنا ہوگا کہ 8فروری کے دن یہ نوجوان کیا فیصلہ کرتے ہیں؟ ووٹ ڈالنے نکلتے ہیں او راپنے ہونے کا احساس دلا کر اس بات کی نفی کریں گے کہ نئی نسل محض سوشل میڈیا تک محدود نہیں بلکہ عملی سیاست میں اپنے ووٹ کی مدد سے حالات کو تبدیل کرنے کا شوق اور جنون بھی رکھتی ہے ۔
Load Next Story