کون بنے گا وزیرِ اعظم
اقتدار کی جڑیں اگر عوام میں نہ ہوں تو پھر جس کے ہاتھ میں بندوق ہوتی ہے، طاقت اسی کے گرد گھومتی ہے
اب آپ سے ملاقات ہوگی، اگلے کالم میں عام انتخابات ہونے کے بعد جب ہم یہ جان سکیں گے کہ اس ملک کا وزیراعظم کون بننے جا رہا ہے؟ اورکون سی سیاسی جماعت بھاری اکثریت کے ساتھ قومی اسمبلی کی نشستوں پر بیٹھتی ہے۔
اقتدار کی جڑیں اگر عوام میں نہ ہوں تو پھر جس کے ہاتھ میں بندوق ہوتی ہے، طاقت اسی کے گرد گھومتی ہے۔ لیاقت علی خان بھی سول بیوروکریسی پر انحصارکرتے تھے، ایوان نمایندگان پر نہیں۔ وہ مسئلہ بن گئے تھے، اقتدارکی اس رسہ کشی میں طاقتور دھڑے کے لیے۔ پھرکیا ہوا، سول بیوروکریسی کے طاقتور دھڑے نے سازش رچائی اور لیاقت علی خان کو راستے سے ہٹایا گیا اور بڑی آسانی سے اقتدار منتقل ہوگیا، سول بیوروکریسی کی طرف۔ صوبائی انتخابات کرائے گئے، مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ بڑی شکست سے دوچار ہونا پڑا کیونکہ اس وقت کے فیصلہ سازوں نے بنگالیوں پر اردو مسلط کردی۔ شہید سہروردی اور فضلِ حق شیرِ بنگال جیسی شخصیتوں کو مسلم لیگ سے دستبردارکروا دیا۔
سرد جنگ کے زمانوں میں لیاقت علی خاں نے امریکا کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور جواہر لعل نہرو نے سوویت یونین کی طرف۔ سوویت یونین نے نہرو کے خلاف کوئی سازش نہ رچائی، لیکن امریکا نے جنرل ایوب خان کے ساتھ روابط بڑھائے جو اس ملک سے جمہوریت کو رخصت کرنے کے خواہاں تھے۔ پھر پتا چلا کہ اسکندر مرزا جو خود جنرل ایوب اور اس کے ساتھیوںکی بیساکھیوں پرکھڑے تھے، ان کو جنرل ایوب نے بڑے اعزازکے ساتھ رات کے اندھیرے میں رخصت کیا اور جب جنرل ایوب، اسکندر مرزا کو رخصت کر رہے تھے، اس وقت امریکی سفیر ان کے ہمراہ تھے۔
سرد جنگ کے زمانے میں پاکستانی آمریت اور امریکا ایک ہوگئے۔ ہماری آمریت نے ہندوستان کو دو دریا بیچ دیے، 1965 میں جنگ ہوئی ، 1971 میں پاکستان دولخت ہوا، وہاں مغربی پاکستان کے خلاف بیانیہ بنا۔ بریگیڈیئر سالک لکھتے ہیں کہ جنرل ایوب بنگالیوں سے اس قدر نالاں تھے کہ اس زمانے میں کہ کتنے ہی حلقوں میں یہ بات زیر بحث آئی کہ بنگالیوں سے جان چھڑوائی جائے۔
جمہوریت اس ملک کے بننے کی وجہ تھی اور ہم جمہوریت سے ہی بھاگ رہے تھے۔ اس ملک میں جمہوریت اور آمریت کا فرق ہی ختم کر دیا گیا۔ آزاد نمایندوں کے ساتھ کنگز پارٹیاں بنائی گئیں۔ جنرل ایوب کو بھٹو اورکئی ایسے لوگ مل گئے۔ وڈیروں، نوابوں ، خوانین اور چوہدریوں کو اقتدارکی ہوس تھی، ان کا جینا اور مرنا اقتدارکے بل بوتے پر تھا۔
مسلم لیگ بنی پھر ٹوٹی، پھر مسلم لیگ 'ن' اور پھر 'ق' بنائی گئی۔ مسلم لیگ ( ن) پہلے ضیاء الحق کے بیانیے کے ساتھ کھڑی تھی، پھر انھوں نے عوام میں اپنی جڑیں بنائیں۔ ذوالفقار علی بھٹو جو پہلے آمریت کے ساتھ تھے، وہ بہت بڑے عوامی لیڈر بن کر ابھرے، اس راہ پر جو سزا و جزا ان کو ملنی تھی، اس کو بھٹو نے قبول کیا۔ فاروق لغاری کی طرح جو لوگ، جمہوریت کے پراسز سے نکل گئے وہ فقط تاریخ کا حصہ بنے۔
ذوالفقارعلی بھٹوکا دور وہ واحد دور تھا جب سویلین نے اپنا لوہا منوایا، بھٹو صاحب کوئی آمر نہ تھے، وہ ایک عوامی لیڈر تھے اور بھاری پڑے اپنے مخالفین پر۔ ذوالفقار علی بھٹوکی آزاد خارجہ پالیسی نے ان کے گرد اقتدارکا گھیرا تنگ کیا، وہ یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانا، امریکا کی مخالفت کرنا، آزاد خارجہ پالیسی بنانا ان کے لیے آسان ہے مگر بہت سے لوگ ضیاالحق کے روپ میں موجود تھے جو ان کے مخالف تھے۔
1977 کے انتخابات دھاندلی کی نذر ہوئے جب کہ 1971 کے الیکشن شفاف ترین الیکشن تھے مگر ہم نے ان کو ماننے سے انکارکردیا۔ جب بھی اس ملک میں انتخابات ہوئے کچھ نہ کچھ ایسا ہوا جو غیر معمولی تھا۔ پھر ہم نے آئین میں آرٹیکل 58(2)کا اندراج کیا جس کی روح یہی تھی کہ جمہوریت، آمریت کی محتاج رہے۔ ہماری ملکی تاریخ انتخابات سے انکارکے گرد گھومتی رہتی ہے۔
اب کیا ہے؟ عمران خان تو سسٹم سے باہر چلے گئے مگر ان کوکیوں کچھ نہ ہوا، جو ان کے ساتھ تھے۔ الزام یہ ہے کہ میاں صاحب لاڈلے ہیں، یہ کیسے لاڈلے ہیں؟ جو جلا وطن رہے۔ جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید، ثاقب نثار وغیرہ کے خلاف جو کچھ انھوں نے کھل کرکہا وہ کسی اور نے نہیں کہا۔ ان لوگوں کی جمہوریت سے وفا، سسٹم کو بحال کرنے کی جدوجہد کو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی حالیہ رپورٹ میں عیاں کردیا ہے۔ عمران خان اور ان کے رفقاء کی بدولت ہم خانہ جنگی کے قریب پہنچ چکے تھے اور پھر ہم بال بال بچے۔ کبھی ادارے برے نہیں ہوتے، فرد ہوتے ہیں جو اداروں میں بگاڑ لاتے ہیں، اپنے ذاتی مفادات کی خاطر۔
چالیس سال میں پہلی مرتبہ ایسا ہورہا ہے کہ جنرل ضیاالحق اور اس کی ڈاکٹرائن کو رول بیک کیا جارہا ہے۔ یہ کام ایک رات میں نہیں ہوا اور نہ ہی اتنا آسان ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ ہم اس کام کو نامکمل چھوڑ دیں، جس طرح 1973 ہم نے ایک بنیا د ڈالی تھی کہ یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر اب ختم ہوئی، لیکن ہوا کیا ؟ذوالفقار علی بھٹو پھانسی پر چڑھائے گئے اور بے نظیر تاریک راہوں پر ماری گئیں۔
ہمیں یہ سمجھ نہیں آیا دو طاقتور پارٹیاں جن کی جڑیں عوام میں پیوستہ ہیں اچانک نہیں بنی۔ اس کے برعکس پاکستان میں ایک طرف عوام اور دوسری طرف آمریت تھی اور الیکشن ایک میوزیکل چیئرگیم تھی اور اس چیئرکو جس کی مرضی ہو دھاندلی کر کے ہتھیا لیتا تھا۔
الیکشن کے نتائج آٹھ فروری کو آنے ہیں، پھر جو آزاد امیدوار جیت کر آئیں گے حکومت بنانے کے لیے ان کے ساتھ سیاسی جوڑ توڑ کا کھیل کھیلا جائے گا۔ پہلے یہ کام جہانگیر ترین کیا کرتے تھے، اب یہ کھیل آصف زرداری کھیلنے جا رہے ہیں۔ پھر ''کون بنے گا وزیرِ اعظم'' اس بات کا علم تو مجھے نہیں ہے، مگر ایسا ضرور ہے کہ آزاد امیدوار اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ کون بنے گا، اس ملک کا وزیراعظم؟
اقتدار کی جڑیں اگر عوام میں نہ ہوں تو پھر جس کے ہاتھ میں بندوق ہوتی ہے، طاقت اسی کے گرد گھومتی ہے۔ لیاقت علی خان بھی سول بیوروکریسی پر انحصارکرتے تھے، ایوان نمایندگان پر نہیں۔ وہ مسئلہ بن گئے تھے، اقتدارکی اس رسہ کشی میں طاقتور دھڑے کے لیے۔ پھرکیا ہوا، سول بیوروکریسی کے طاقتور دھڑے نے سازش رچائی اور لیاقت علی خان کو راستے سے ہٹایا گیا اور بڑی آسانی سے اقتدار منتقل ہوگیا، سول بیوروکریسی کی طرف۔ صوبائی انتخابات کرائے گئے، مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ بڑی شکست سے دوچار ہونا پڑا کیونکہ اس وقت کے فیصلہ سازوں نے بنگالیوں پر اردو مسلط کردی۔ شہید سہروردی اور فضلِ حق شیرِ بنگال جیسی شخصیتوں کو مسلم لیگ سے دستبردارکروا دیا۔
سرد جنگ کے زمانوں میں لیاقت علی خاں نے امریکا کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور جواہر لعل نہرو نے سوویت یونین کی طرف۔ سوویت یونین نے نہرو کے خلاف کوئی سازش نہ رچائی، لیکن امریکا نے جنرل ایوب خان کے ساتھ روابط بڑھائے جو اس ملک سے جمہوریت کو رخصت کرنے کے خواہاں تھے۔ پھر پتا چلا کہ اسکندر مرزا جو خود جنرل ایوب اور اس کے ساتھیوںکی بیساکھیوں پرکھڑے تھے، ان کو جنرل ایوب نے بڑے اعزازکے ساتھ رات کے اندھیرے میں رخصت کیا اور جب جنرل ایوب، اسکندر مرزا کو رخصت کر رہے تھے، اس وقت امریکی سفیر ان کے ہمراہ تھے۔
سرد جنگ کے زمانے میں پاکستانی آمریت اور امریکا ایک ہوگئے۔ ہماری آمریت نے ہندوستان کو دو دریا بیچ دیے، 1965 میں جنگ ہوئی ، 1971 میں پاکستان دولخت ہوا، وہاں مغربی پاکستان کے خلاف بیانیہ بنا۔ بریگیڈیئر سالک لکھتے ہیں کہ جنرل ایوب بنگالیوں سے اس قدر نالاں تھے کہ اس زمانے میں کہ کتنے ہی حلقوں میں یہ بات زیر بحث آئی کہ بنگالیوں سے جان چھڑوائی جائے۔
جمہوریت اس ملک کے بننے کی وجہ تھی اور ہم جمہوریت سے ہی بھاگ رہے تھے۔ اس ملک میں جمہوریت اور آمریت کا فرق ہی ختم کر دیا گیا۔ آزاد نمایندوں کے ساتھ کنگز پارٹیاں بنائی گئیں۔ جنرل ایوب کو بھٹو اورکئی ایسے لوگ مل گئے۔ وڈیروں، نوابوں ، خوانین اور چوہدریوں کو اقتدارکی ہوس تھی، ان کا جینا اور مرنا اقتدارکے بل بوتے پر تھا۔
مسلم لیگ بنی پھر ٹوٹی، پھر مسلم لیگ 'ن' اور پھر 'ق' بنائی گئی۔ مسلم لیگ ( ن) پہلے ضیاء الحق کے بیانیے کے ساتھ کھڑی تھی، پھر انھوں نے عوام میں اپنی جڑیں بنائیں۔ ذوالفقار علی بھٹو جو پہلے آمریت کے ساتھ تھے، وہ بہت بڑے عوامی لیڈر بن کر ابھرے، اس راہ پر جو سزا و جزا ان کو ملنی تھی، اس کو بھٹو نے قبول کیا۔ فاروق لغاری کی طرح جو لوگ، جمہوریت کے پراسز سے نکل گئے وہ فقط تاریخ کا حصہ بنے۔
ذوالفقارعلی بھٹوکا دور وہ واحد دور تھا جب سویلین نے اپنا لوہا منوایا، بھٹو صاحب کوئی آمر نہ تھے، وہ ایک عوامی لیڈر تھے اور بھاری پڑے اپنے مخالفین پر۔ ذوالفقار علی بھٹوکی آزاد خارجہ پالیسی نے ان کے گرد اقتدارکا گھیرا تنگ کیا، وہ یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانا، امریکا کی مخالفت کرنا، آزاد خارجہ پالیسی بنانا ان کے لیے آسان ہے مگر بہت سے لوگ ضیاالحق کے روپ میں موجود تھے جو ان کے مخالف تھے۔
1977 کے انتخابات دھاندلی کی نذر ہوئے جب کہ 1971 کے الیکشن شفاف ترین الیکشن تھے مگر ہم نے ان کو ماننے سے انکارکردیا۔ جب بھی اس ملک میں انتخابات ہوئے کچھ نہ کچھ ایسا ہوا جو غیر معمولی تھا۔ پھر ہم نے آئین میں آرٹیکل 58(2)کا اندراج کیا جس کی روح یہی تھی کہ جمہوریت، آمریت کی محتاج رہے۔ ہماری ملکی تاریخ انتخابات سے انکارکے گرد گھومتی رہتی ہے۔
اب کیا ہے؟ عمران خان تو سسٹم سے باہر چلے گئے مگر ان کوکیوں کچھ نہ ہوا، جو ان کے ساتھ تھے۔ الزام یہ ہے کہ میاں صاحب لاڈلے ہیں، یہ کیسے لاڈلے ہیں؟ جو جلا وطن رہے۔ جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید، ثاقب نثار وغیرہ کے خلاف جو کچھ انھوں نے کھل کرکہا وہ کسی اور نے نہیں کہا۔ ان لوگوں کی جمہوریت سے وفا، سسٹم کو بحال کرنے کی جدوجہد کو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی حالیہ رپورٹ میں عیاں کردیا ہے۔ عمران خان اور ان کے رفقاء کی بدولت ہم خانہ جنگی کے قریب پہنچ چکے تھے اور پھر ہم بال بال بچے۔ کبھی ادارے برے نہیں ہوتے، فرد ہوتے ہیں جو اداروں میں بگاڑ لاتے ہیں، اپنے ذاتی مفادات کی خاطر۔
چالیس سال میں پہلی مرتبہ ایسا ہورہا ہے کہ جنرل ضیاالحق اور اس کی ڈاکٹرائن کو رول بیک کیا جارہا ہے۔ یہ کام ایک رات میں نہیں ہوا اور نہ ہی اتنا آسان ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ ہم اس کام کو نامکمل چھوڑ دیں، جس طرح 1973 ہم نے ایک بنیا د ڈالی تھی کہ یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر اب ختم ہوئی، لیکن ہوا کیا ؟ذوالفقار علی بھٹو پھانسی پر چڑھائے گئے اور بے نظیر تاریک راہوں پر ماری گئیں۔
ہمیں یہ سمجھ نہیں آیا دو طاقتور پارٹیاں جن کی جڑیں عوام میں پیوستہ ہیں اچانک نہیں بنی۔ اس کے برعکس پاکستان میں ایک طرف عوام اور دوسری طرف آمریت تھی اور الیکشن ایک میوزیکل چیئرگیم تھی اور اس چیئرکو جس کی مرضی ہو دھاندلی کر کے ہتھیا لیتا تھا۔
الیکشن کے نتائج آٹھ فروری کو آنے ہیں، پھر جو آزاد امیدوار جیت کر آئیں گے حکومت بنانے کے لیے ان کے ساتھ سیاسی جوڑ توڑ کا کھیل کھیلا جائے گا۔ پہلے یہ کام جہانگیر ترین کیا کرتے تھے، اب یہ کھیل آصف زرداری کھیلنے جا رہے ہیں۔ پھر ''کون بنے گا وزیرِ اعظم'' اس بات کا علم تو مجھے نہیں ہے، مگر ایسا ضرور ہے کہ آزاد امیدوار اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ کون بنے گا، اس ملک کا وزیراعظم؟