مشرق وسطیٰ میں امن کیلئے فلسطینی ریاست لازمی ہے ناروے
دو ریاستی حل فلسطینیوں کے علاوہ اسرائیل کے بھی مفاد میں ہے تاکہ ان کو سلامتی کے خدشات نہ ہوں، ایسپن بارتھ ایڈے
ناروے کے وزیرخارجہ ایسپن بارتھ ایڈے نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے فلسطینی ریاست ضروری ہے اور دو ریاستی حل اسرائیل کے بھی مفاد میں ہے۔
قطری نشریاتی ادارہ الجزیرہ کو انٹرویو میں ایسپن بارتھ ایڈے نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن کے لیے ناروے کی اوسلو معاہدہ سے غزہ جنگ بندی کی حمایت تک کوششوں پر بات کی۔
ناروے کے وزیرخارجہ نے دو ریاستی حل کے حوالے سے سوال پر کہا کہ اوسلو معاہدے کے تحت دو ریاستی حل کی تجویز ایک مرتبہ پھر ابھر کر سامنے آئی ہے لیکن اسرائیل کے موجودہ وزیراعظم کی جانب سے دو ریاستی حل سے انکار تشویش ناک بات ہے۔
انہوإں نے کہا کہ اسرائیل کی کئی حکومتوں نے اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ فلسطین کا حل دو ریاستوں کے قیام پر ہوگا، جس میں خود مختار فلسطینی ریاست اور اسرائیل کی ریاست شامل ہے اور معاہدے کے تحت دونوں پرامن رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں ریاستوں کے درمیان مذاکرات اور تصفیے کے بعد فلسطینی ریاست کے امور وہاں قائم ہونے والے ادارے سنبھال لیں گے، فلسطینی ریاست میں مغربی کنارہ اور غزہ سمیت دیگر علاقے شامل تھے۔
ناروے کے وزیرخارجہ نے کہا کہ میرا اس بات پر یقین ہے کہ فلسطینیوں کو اپنی ریاست کا مکمل حق حاصل ہے، یہ ریاست نہ صرف زبانی حد تک بلکہ عملی طور پر قائم ہونی چاہیے، جس کی اپنی سرحد ہو اور وہ ریاست اپنے عوام کی خدمت کرے اور فلسطین کے اندر عوام کو جمہوری انداز میں اپنی قیادت کے انتخاب کا حق ملے۔
ایسپن بارتھ ایڈے نے کہا کہ اسرائیل کو بارہا پیغام دے چکے ہیں کہ اگر آپ مستقبل میں صہیونی اسرائیلی اور جمہوری ریاست کے طور پر برقرار رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو فلسطین کا مسئلہ بھی حل کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ فلسطینی جو بہتر معیشت اور اپنے عوام کو معیاری سہولیات فراہم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بھی مکمل سیاسی حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔
فلسطینی ریاست کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ علاقوں میں آبادکاری غیرقانونی ہے، جس کا اظہار اقوام متحدہ کی کئی قراردادوں میں کیا گیا ہے اور فلسطین کو ریاست بنانے چاہتے ہیں تو پھر اس کی سرحدیں ضروری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ دو ریاستی حل نہ صرف فلسطینیوں بلکہ اسرائیل کے بھی حق میں ہے کیونکہ اسرائیل کو پائیدار ریاست بنانے کے لیے سلامتی کے خدشات ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
نارویجن وزیرخارجہ نے غزہ پر اسرائیلی کارروائی کو یوکرین جنگ سے موازانہ کرتے ہوئے کہا کہ اس پر مغربی ممالک کا دوہرا معیار نہ صرف نظر آرہا ہے بلکہ میں اس پر بات کرچکا ہوں کہ ایسا نہیں لگنا چاہیے کہ دوہرے معیار کا مظاہرہ ہو رہا ہو بلکہ یقینی بنایا جائے کہ ایک جیسے معاملات پر ہمارا مؤقف یکساں ہو کیونکہ یہ تاثر عالمی سطح پر فائدہ مند نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کے بنیادی مسئلے کے لیے ہمیں فلسطینی ریاست درکار ہے اور اس کے علاوہ اسرائیل کے ساتھ پرامن رہنے کے لیے ضروری ہے اور یہ نہ صرف مشرق وسطیٰ کے عوام بلکہ پوری دنیا کے لیے اہم ہے۔
قطری نشریاتی ادارہ الجزیرہ کو انٹرویو میں ایسپن بارتھ ایڈے نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن کے لیے ناروے کی اوسلو معاہدہ سے غزہ جنگ بندی کی حمایت تک کوششوں پر بات کی۔
ناروے کے وزیرخارجہ نے دو ریاستی حل کے حوالے سے سوال پر کہا کہ اوسلو معاہدے کے تحت دو ریاستی حل کی تجویز ایک مرتبہ پھر ابھر کر سامنے آئی ہے لیکن اسرائیل کے موجودہ وزیراعظم کی جانب سے دو ریاستی حل سے انکار تشویش ناک بات ہے۔
انہوإں نے کہا کہ اسرائیل کی کئی حکومتوں نے اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ فلسطین کا حل دو ریاستوں کے قیام پر ہوگا، جس میں خود مختار فلسطینی ریاست اور اسرائیل کی ریاست شامل ہے اور معاہدے کے تحت دونوں پرامن رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں ریاستوں کے درمیان مذاکرات اور تصفیے کے بعد فلسطینی ریاست کے امور وہاں قائم ہونے والے ادارے سنبھال لیں گے، فلسطینی ریاست میں مغربی کنارہ اور غزہ سمیت دیگر علاقے شامل تھے۔
ناروے کے وزیرخارجہ نے کہا کہ میرا اس بات پر یقین ہے کہ فلسطینیوں کو اپنی ریاست کا مکمل حق حاصل ہے، یہ ریاست نہ صرف زبانی حد تک بلکہ عملی طور پر قائم ہونی چاہیے، جس کی اپنی سرحد ہو اور وہ ریاست اپنے عوام کی خدمت کرے اور فلسطین کے اندر عوام کو جمہوری انداز میں اپنی قیادت کے انتخاب کا حق ملے۔
ایسپن بارتھ ایڈے نے کہا کہ اسرائیل کو بارہا پیغام دے چکے ہیں کہ اگر آپ مستقبل میں صہیونی اسرائیلی اور جمہوری ریاست کے طور پر برقرار رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو فلسطین کا مسئلہ بھی حل کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ فلسطینی جو بہتر معیشت اور اپنے عوام کو معیاری سہولیات فراہم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بھی مکمل سیاسی حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔
فلسطینی ریاست کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ علاقوں میں آبادکاری غیرقانونی ہے، جس کا اظہار اقوام متحدہ کی کئی قراردادوں میں کیا گیا ہے اور فلسطین کو ریاست بنانے چاہتے ہیں تو پھر اس کی سرحدیں ضروری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ دو ریاستی حل نہ صرف فلسطینیوں بلکہ اسرائیل کے بھی حق میں ہے کیونکہ اسرائیل کو پائیدار ریاست بنانے کے لیے سلامتی کے خدشات ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
نارویجن وزیرخارجہ نے غزہ پر اسرائیلی کارروائی کو یوکرین جنگ سے موازانہ کرتے ہوئے کہا کہ اس پر مغربی ممالک کا دوہرا معیار نہ صرف نظر آرہا ہے بلکہ میں اس پر بات کرچکا ہوں کہ ایسا نہیں لگنا چاہیے کہ دوہرے معیار کا مظاہرہ ہو رہا ہو بلکہ یقینی بنایا جائے کہ ایک جیسے معاملات پر ہمارا مؤقف یکساں ہو کیونکہ یہ تاثر عالمی سطح پر فائدہ مند نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کے بنیادی مسئلے کے لیے ہمیں فلسطینی ریاست درکار ہے اور اس کے علاوہ اسرائیل کے ساتھ پرامن رہنے کے لیے ضروری ہے اور یہ نہ صرف مشرق وسطیٰ کے عوام بلکہ پوری دنیا کے لیے اہم ہے۔