8 فروری کے انتخابات سہل نہیں
یوں محسوس ہوتا رہا ہے کہ8فروری کے انتخابات کے حوالے سے جے یو آئی ایف کی طرح نون لیگ بھی کسی اَن دیکھے خوف کا شکارتھی
انشاء اللہ، دو دن بعد ملک بھر میں عام انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے۔ بعض حلقوں میں اُمیدواروں کی فوتیدگی یا قتل کے سانحات کے سبب الیکشن ملتوی کر دیے گئے ہیں۔ لیکن پورے ملک میں انتخابات کا طبل بج چکا ہے۔
حالیہ کور کمانڈرز کانفرنس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ''8فروری کے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پاک فوج آئینی مینڈیٹ اور الیکشن کمیشن کے تحت تفویض کردہ ہدایات کے مطابق فرائض انجام دے گی۔''
انتخابات کی یہ گھڑی مشکل سے آئی ہے۔ اِس کے لیے کئی اطراف سے کئی خدشات و تحفظات کا مسلسل اظہار کیا جارہا تھا ۔ حضرت مولانا فضل الرحمن تو مسلسل ارشاد فرماتے رہے ہیں کہ 8فروری2024ء کے انتخابات کچھ دن مزید آگے بڑھا دیے جائیں تو کونسا آسمان گر جائے گا ؟
دلیل کے طور پر اُن کا ارشادِ گرامی یہ تھا کہ (1) فروری میں ملک کے کئی حصے شدید سردی کی لپیٹ میں ہوں گے۔ یوں ووٹروں کا پولنگ بوتھز تک آنا خاصا دشوار ہوگا (2)ملک کے کئی حصے دہشت گردی کا ہدف بن رہے ہیں ۔ ایسے میں عام انتخابات کا انعقاد حکمت اور دانشمندی نہیں ہے (3)جے یو آئی ایف کو ( دہشت گردوں کی جانب سے) انتخابی جلسے نہ کرنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں؛ چنانچہ ایسے ماحول میں جنرل الیکشنز منعقد کرنا مستحسن نہیں ہے ۔
قبلہ مولانا فضل الرحمن کے مذکورہ بالا خدشات و تحفظات اتنے بے بنیاد بھی نہیں تھے لیکن اب وہ بھی خم ٹھونک کر انتخابی میدان میں ہیں۔ نون لیگی قیادت پر بھی ''نیند'' طاری دکھائی دیتی رہی۔ ابتدا میں نون لیگی قائدین انتخابی میدان میں اُترنے سے ، بظاہر، گریز پا اور سست ہی نظر آ تے رہے۔
یوں محسوس ہوتا رہا ہے کہ8فروری کے انتخابات کے حوالے سے جے یو آئی ایف کی طرح نون لیگ بھی کسی اَن دیکھے خوف کا شکار تھی۔ صرف جماعتِ اسلامی اور پیپلز پارٹی دو ایسی جماعتیں تھیں جو سب سے پہلے انتخابی کمپین کے میدان میں اُتریں۔ دونوں بلند آہنگ ہو کر مسلسل زور دیتی رہیں کہ حالات خواہ کچھ بھی ہوں، عام انتخابات کا ڈول 8فروری ہی کو ڈالا جائے ۔
اب انتخابات کا میدان پوری طرح دہک چکا ہے۔ ساری جماعتیں اور اُن کے اُمیدوار پوری تندہی اور جوش و جذبے کے ساتھ میدانِ عمل میں ہیں۔ حتیٰ کہ جے یو آئی ایف کے سربراہ قبلہ حضرت مولانا فضل الرحمن بھی کھل کر کئی انتخابی جلسوں سے خطاب کر کے اپنے ووٹروں کے دل گرما چکے ہیں۔
یعنی کوئی بھی سیاسی جماعت ، سیاسی لیڈر انتخابات میں حصہ نہ لینے کا رسک نہیں لے سکا۔ البتہ کہیں کہیں سے یہ آوازیں اُٹھتی سنائی دیتی رہی ہیں کہ بھنور میں پھنسی پی ٹی آئی کو انتخابات کا بائیکاٹ کر دینا چاہیے ۔
بانی پی ٹی آئی اور اُن کی اہلیہ کو چودہ، دس اور سات سال کی سزائیں ہونے کے باوجود پی ٹی آئی مگر (ابھی تک) انتخابات کا مقاطع کرنے پر تیار نہیں۔ پی ٹی آئی نے ملک بھر میں سب سے زیادہ اُمیدوار کھڑے کیے ہیں۔
یوں پی ٹی آئی کا یہ پروپیگنڈہ بھی ناکام ہُوا ہے کہ ''ہمارے اُمیدواروں کو انتخابات میں کھڑے ہونے سے روکا جارہا ہے ۔'' عدالت کے حکم پر پی ٹی آئی کے بعض مفرور اور زندانی اُمیدوار بھی انتخابات لڑنے کے اہل قرار دیے گئے ہیں۔ یہ انتخابات اگرچہ پی ٹی آئی کے لیے سہل نہیں ہیں لیکن اُن کا راستہ مسدود و محدود نہیں کیا گیا ۔ اِس عمل کی تحسین کی جانی چاہیے ۔
پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئرمین ، بلاول بھٹو زرداری، کی ہمتوں کی داد دینی چاہیے کہ انھوں نے چاروں صوبوں میں بھرپور جلسے کیے ہیں ۔ اپنے مخالفین کو کھل کر للکارا ہے ۔ اپنی خواہشات کا اظہار بھی کیا ہے اور اپنے پارٹی منشور کی خوب تشہیر بھی کی ہے۔ جلسے جلوسوں میں اُن کے والد بھی بھرپور ساتھ نبھاتے رہے۔
لاہور میں جناب آصف علی زرداری نے ڈیرہ جما کر جس طرح نون لیگ کے قلعے میں شگاف ڈالنے کی کوشش کی، اِس کا فائدہ بلاول بھٹو ہی کو ہوگا۔ جماعتِ اسلامی اور پیپلز پارٹی دو ایسی جماعتیں ثابت ہُوئیں جنھوں نے سب سے زیادہ جلسے بھی کیے ہیں اور سب سے پہلے اپنے پارٹی منشور بھی عوام کے سامنے لائیں۔
پیپلز پارٹی کے منشور میں اگرچہ مبالغہ آرائی زیادہ ہے لیکن پیپلز پارٹی نے عوام کا دل پشوری کرنے کی اپنی سی بھرپور کوشش کی ہے۔ بسیار کوششوں کے باوصف یہ انتخابات پیپلز پارٹی کے لیے سہل اور آسان نہیں ہیں۔ اگرچہ پی پی پی سندھ میں خود کو محفوظ سمجھ رہی ہے مگر پنجاب اور کے پی کے میں اُسے سنگلاخ رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
پنجاب میں اپنی فتح یقینی بنانے کے لیے بلاول بھٹو نے تحریک ِ نفاذِ فقہ جعفریہ کی قیادت کی محبتیں بھی سمیٹی ہیں اور اہلِ حدیث کے ایک دھڑے کے لیڈر، مولانا احتشام الٰہی ظہیر، کو بھی گلے لگا لیا ہے۔ بلاول بھٹو نے آگے بڑھ کر ڈاکٹر طاہرالقادری کی جماعت (PAT) کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے اور لاہور کی مسیحی برادری سے بھی کامیاب مذاکرات کیے ہیں جب کہ نون لیگ نے علمائے کرام اور لاہور کی مسیحی برادری کا تعاون حاصل کرنے میں تاخیر کردی ۔
نون لیگ کے تو انداز ہی وکھرے اور نرالے ہیں۔ نون لیگی قیادت جس طرح سب سے آخر میں انتخابی میدان میں اُتری ہے، اِس نے اِس تصور کو تقویت بخشی کہ وہ مبینہ طور پر کسی کی لاڈلی ہے۔
یہ شاید واحد سیاسی جماعت ہے جسے 8فروری کے انتخابات میں کوئی مشکل اور کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے ؛ چنانچہ اِس کی بطور پارٹی اور بطور قیادت سہل انگاری دیدنی ہے۔ نون لیگ نے سب سے آخر میں اپنا منشور پیش کیا ہے اور اِس میں بھی کوئی انقلابی قدم اُٹھانے سے دانستہ گریز کیا گیا ہے۔
کوئی لینڈ ریفارمز پر بات کی گئی ہے نہ اِس بات کا کھل کر اظہار کیا گیا ہے کہ اگر کل کو سیاسی جماعتوں میں کوئی تصادم ہو جائے تو سیاسی قیادت مسئلے کے حل کے لیے غیر سیاسی قوتوں کی جانب نہیں دیکھے گی۔ نون لیگی قیادت نے انتخابی مہمات سر کرنے کے لیے سندھ اور بلوچستان کو بالکل نظر انداز کیے رکھا ۔ وہ خیبر پختونخوا کے دو شہروں کے علاوہ کہیں بھی کوئی بڑا انتخابی جلسہ نہ کر سکی۔
یوں محسوس ہوتا رہا جیسے نون لیگی قیادت نے انتخابات میں کامیابی کے حوالے سے سندھ، کے پی کے اور بلوچستان سے توقعات وابستہ کرنی بالکل چھوڑ دی ہیں۔اِس مایوسی نے نون لیگ کو پنجاب کی پارٹی بنا دیا ہے ۔تمام تر مبینہ سہولتوں کے باوصف 8فروری کے عام انتخابات نون لیگ کے لیے بھی ''کھیر'' نہیں ہیں۔
اگرچہ محترمہ مریم نواز شریف نے اپنے والد گرامی اور چچا جان کے ساتھ مل کر خوب انتخابی جنگ لڑی ہے ، لیکن سچی بات یہ ہے کہ شریف برادران کے دل بھی کسی اَن دیکھے خوف کا شکار ہیں ۔ یہ خوف تقریباً ہر ایک جماعت کے سر پر تلوار بن کر لٹک رہا ہے ۔ سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ اگر کسی بھی جماعت کو مطلوبہ اکثریتی ووٹ نہ ملے تو مخلوط حکومت سازی کے لیے کس کس کے دَر پر دستک دینا پڑے گی ؟