نئی حکومت کو پانچ سال کام کرنے دیا جائے
ایک طرف بلاول زرداری اپنا مکمل زور لگارہے ہیں تو دوسرے طرف میاں نوازشریف کچھ سست رفتاری سے جلسے کررہے ہیں
جیسے جیسے عام انتخابات میں پولنگ کا دن قریب آتا جارہا ہے ،سیاسی سرگرمیاں عروج کو پہنچنے لگی ہیں۔ ساری سیاسی پارٹیاں عوام کو اپنی حمایت پر آمادہ کرنے کے لیے تمام تر کوششیں اورزور لگارہی ہیں۔مسلم لیگ نون جس نے اپنی انتخابی مہم بہت دیر سے شروع کی مگر اب بھر پور طریقے سے میدان میں اُتر آئی ہے اورجس سیاسی ماحول کا اِن دنوں تقاضا ہواکرتا ہے وہ نظر آنے لگاہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی جس نے سب سے پہلے انتخابی مہم کا آغاز کیاتھا وہ سارے ملک میں جلسے کرچکی ہے جب کہ میاں نوازشریف یہ معرکہ ابھی تک پورا نہیں کرپائے ہیں۔ اُن کی اسی کمزوری کو دیکھتے ہوئے بلاول زرداری انھیں اپنی ہرتقریر میں تنقید کا نشانہ بنارہے ہوتے ہیں۔ انھیں اکسا رہے ہوتے ہیں کہ وہ بھی جواب میں ایسے ہی کلمات اپنے منہ سے نکالیں ، لیکن میاں نوازشریف نے ابھی تک ایک بھی جوابی حملہ نہیں کیا ہے ۔
وہ صرف اپنی سابقہ کارکردگی کو لے کر اس بار انتخابات میں اُترے ہیںاور اسی بنیاد پر عوام سے اپنے لیے ووٹ بھی مانگ رہے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ پاکستانی عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ تینوں بڑی سیاسی پارٹیوں میں صرف مسلم لیگ نون ہی کا ریکارڈ اس معاملے میں سب سے اچھا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کو نون لیگ کی طرح کئی بار وفاق میں حکومت کرنے کا موقع ملا لیکن وہ کارکردگی کے اعتبار سے مسلم لیگ کامقابلہ نہیں کرپائی ہے۔وہ کئی سالوں سے سندھ میں بھی مسلسل حکومت کررہی ہے لیکن یہاں بھی اس نے عوام کے مسائل حل نہیں کیے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سندھ میں اسکولوں اوراسپتالوں کی حالت انتہائی دگرگوں ہے، جن بڑے بڑے اسپتالوں کو وہ اپنے دور کاکارنامہ قرار دیتے ہیں اُن میںسوائے گمبٹ اسپتال کے سارے پرانی حکومتوں کے دور میں بنائے گئے ہیں۔ SIUT ، INDUSاور NICVDہم سب جانتے ہیں کس نے بنایا اورکب بنایا۔ مگر وہ اِن اسپتالوں کی تعمیر کو بھی اپنا کارنامہ شمار کررہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ اِن اسپتالوں کو اضافی مالی گرانٹ پیپلزپارٹی نے دی ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ یہ عظیم الشان اسپتال بھی انھوں نے ہی بنائے ہیں۔وہ اپنے ہرجلسے میں اِن اسپتالوں کانام لے کر حقائق کو مسخ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ SIUTجس شخصیات کاکارنامہ ہے اُسے کون نہیں جانتاہے اوراس اسپتال کی تعمیر میں جن مخیر حضرات نے اپنے خزانے لٹا دیے ہیں۔
اُن کی فہرست آج بھی اسپتال کی دیواروں پر آویزاں ہے۔اسی طرح انڈس اسپتال بھی جس شخص کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے اُسے کون نہیں جانتا ۔یہ سارے لوگ آج اگر خاموش ہیں تو یہ اُن کی شخصیت کی عظمت کا ثبوت ہے۔ وہ کوئی سیاستداں تو نہیں ہیں کہ کسی سیاسی بیان کا جواب اسی انداز میں دیں۔بہرحال سیاست میں ایسی باتیں ہواکرتی ہی ہیں مگرعوام بھی جانتے ہیں کہ کون کیاکہہ رہا ہے اوراصل حقائق بھی کیا ہیں۔
موجودہ سیاسی ماحول میں ایک طرف بلاول زرداری اپنا مکمل زور لگارہے ہیں تو دوسرے طرف میاں نوازشریف کچھ سست رفتاری سے جلسے کررہے ہیں۔دونوں کے جلسے ایک دو گھنٹوں میں سمیٹ لیے جاتے ہیں اورعوام کو سارا سارا دن تکلیف اُٹھانی نہیں پڑرہی ہے۔
ورنہ 2018 انتخابات میں مقابلہ ہی اسی بات پرہوا کرتاتھا کہ کون اپنے ایک جلسے کے لیے سارا دن غریب عوام کو خوار کرتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا صبح سے اس کی کوریج میں لگ جاتاتھااوررات جاکرپارٹی کے سربراہ کا اصل خطاب ہواکرتاتھا،مگر اس بار ایسا کچھ نہیں ہورہا ہے۔روزانہ شام کو ایک آدھ گھنٹے میں جلسہ بھی سمیٹ لیاجاتاہے اورٹی وی پرقائد کی تقریر بھی نشر ہوجاتی ہے، کسی کو شکایت بھی نہیں ہے کہ اُسے میڈیا پر ٹائم نہیں دیاگیا۔
اس ساری سیاسی مہم کی تکمیل پر جو سروے اوراندازے سامنے آرہے ہیں اُن میں مسلم لیگ نون کا پلڑا بھاری نظر آرہا ہے اوریہ گمان کیاجارہا ہے کہ وفاق اورپنجاب کی صوبائی سطح تک مسلم لیگ نون ہی حاوی رہے گی۔ باقی دیکر صوبوں بلوچستان اور KPK میں ملاجلارجحان دیکھا جارہا ہے۔
سندھ صوبے میں آج بھی پاکستان پیپلزپارٹی سرفہرست ہے اور وہاں کسی اور پارٹی کو اُس پر فضیلت حاصل نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے اور باوجود عوام کی اکثریت کی حمایت اورہمدردی کی وہ اس پوزیشن میں نظر نہیں آرہی کہ وفاق میں حکومت بنا پائے۔
اُس کے آزاد ارکان کے بارے میں شکوک وشبہات ظاہرکیے جا رہے ہیں کہ وہ اگر جیت گئے تواپنی قیمت اوربولیاں وصول کرتے ہوئے اپنا وزن اس پارٹی کی جھولی میں ڈال دینگے جس نے اُنکی زیادہ قیمت ادا کی ہوگی۔ شاید اسی لیے بلاول صاحب یہ کہتے ہوئے کوئی عار محسو س نہیں کرتے ہیں کہ آزاد ارکان ہمارا ساتھ دینگے۔
جہانگیر ترین بھی اپنی پارٹی کے لیے کچھ نہ کچھ ہاتھ پاؤں تو ماریں گے ہی۔لہٰذا یہ کہنا مشکل دکھائی دیتا ہے کہ تمام آزاد ارکان کس بڑی پارٹی کا حصہ بن جائیںگے۔ تحریک انصاف نے گرچہ اپنے ٹکٹ ہولڈرز سے قرآن پر حلف بھی لیا ہے کہ وہ جیت جانے کے بعد کسی اورپارٹی میں شامل نہیں ہونگے مگر کوئی اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتا ہے تو پارٹی اس کاکیا بگاڑ لے گی ۔ حلف سے روگردانی تو ہمارے یہاں کا معمول ہے۔یہ ہماری قومی شناخت اور خصوصیت ہے اورسیاسی مجبوری بھی۔
2018 میں جس طرح تمام آزاد ارکان کو صرف ایک سیاسی پارٹی میں شامل کروایاگیا اُسی طرح اس بار بھی یہ سب کچھ ہوسکتاہے۔اس معاملے میں کسی کادامن بھی صاف نہیں ہے۔ مسلم لیگ نون نے 2013میں خیبر پختون خوا میں یہ آپشن استعمال نہ کرکے بہت غلطی کی تھی اوردیگر پارٹیوں کوساتھ ملاکروہاں حکومت بنانے کے بجائے تحریک انصاف کو کھلا میدان دے دیاتھا۔
میاں صاحب آج بھی اس چیز پراپنا ملال ظاہرکرتے ہیں کہ میں نے مولانا فضل الرحمٰن کی بات نہ مان کر بہت بڑی غلطی کی تھی ۔اسی لیے وہ شاید اس بار ایسی کوئی غلطی نہیں کریں گے۔ ویسے بھی پانچ سال بعد کیا ہوتاہے اورکیسا سیاسی ماحول ہوتا ہے کسی کو بھی معلوم نہیں ۔ وہ عمر کی زیادتی کی وجہ سے شاید اس بار یہ ذمے داری لینے سے ہچکچا رہے تھے لیکن پارٹی کے لیے عوامی حمایت اورپذیرائی حاصل کرنے کے لیے انھیں مجبوراً میدان میں اُترنا ہی پڑا۔
دودن بعد الیکشن کی ساری مہم اختتام پذیر ہوجائے گی اور 9 فروری کی صبح تمام غیریقینی کیفیات کا خاتمہ ہوجائے گا، ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ یہ ساراعمل سکون واطمینان اورصاف وشفاف طریقے سے مکمل ہوجائے اورصحیح معنوں میں عوام کی ایک نمایندہ حکومت معرض وجود میں آجائے۔ قوم اُسے اگلے پانچ برس بلاروک ٹوک کام کرنے کا موقع دے تاکہ یہ ملک عرصہ دراز سے جس گومگوں کی کیفیت میں غرق ہے اس سے باہر نکل پائے ۔ ترقی و خوشحالی کاسفر شروع ہواورمعاشی واقتصادی مشکلات کا خاتمہ ممکن ہو۔
پاکستان پیپلزپارٹی جس نے سب سے پہلے انتخابی مہم کا آغاز کیاتھا وہ سارے ملک میں جلسے کرچکی ہے جب کہ میاں نوازشریف یہ معرکہ ابھی تک پورا نہیں کرپائے ہیں۔ اُن کی اسی کمزوری کو دیکھتے ہوئے بلاول زرداری انھیں اپنی ہرتقریر میں تنقید کا نشانہ بنارہے ہوتے ہیں۔ انھیں اکسا رہے ہوتے ہیں کہ وہ بھی جواب میں ایسے ہی کلمات اپنے منہ سے نکالیں ، لیکن میاں نوازشریف نے ابھی تک ایک بھی جوابی حملہ نہیں کیا ہے ۔
وہ صرف اپنی سابقہ کارکردگی کو لے کر اس بار انتخابات میں اُترے ہیںاور اسی بنیاد پر عوام سے اپنے لیے ووٹ بھی مانگ رہے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ پاکستانی عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ تینوں بڑی سیاسی پارٹیوں میں صرف مسلم لیگ نون ہی کا ریکارڈ اس معاملے میں سب سے اچھا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کو نون لیگ کی طرح کئی بار وفاق میں حکومت کرنے کا موقع ملا لیکن وہ کارکردگی کے اعتبار سے مسلم لیگ کامقابلہ نہیں کرپائی ہے۔وہ کئی سالوں سے سندھ میں بھی مسلسل حکومت کررہی ہے لیکن یہاں بھی اس نے عوام کے مسائل حل نہیں کیے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سندھ میں اسکولوں اوراسپتالوں کی حالت انتہائی دگرگوں ہے، جن بڑے بڑے اسپتالوں کو وہ اپنے دور کاکارنامہ قرار دیتے ہیں اُن میںسوائے گمبٹ اسپتال کے سارے پرانی حکومتوں کے دور میں بنائے گئے ہیں۔ SIUT ، INDUSاور NICVDہم سب جانتے ہیں کس نے بنایا اورکب بنایا۔ مگر وہ اِن اسپتالوں کی تعمیر کو بھی اپنا کارنامہ شمار کررہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ اِن اسپتالوں کو اضافی مالی گرانٹ پیپلزپارٹی نے دی ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ یہ عظیم الشان اسپتال بھی انھوں نے ہی بنائے ہیں۔وہ اپنے ہرجلسے میں اِن اسپتالوں کانام لے کر حقائق کو مسخ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ SIUTجس شخصیات کاکارنامہ ہے اُسے کون نہیں جانتاہے اوراس اسپتال کی تعمیر میں جن مخیر حضرات نے اپنے خزانے لٹا دیے ہیں۔
اُن کی فہرست آج بھی اسپتال کی دیواروں پر آویزاں ہے۔اسی طرح انڈس اسپتال بھی جس شخص کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے اُسے کون نہیں جانتا ۔یہ سارے لوگ آج اگر خاموش ہیں تو یہ اُن کی شخصیت کی عظمت کا ثبوت ہے۔ وہ کوئی سیاستداں تو نہیں ہیں کہ کسی سیاسی بیان کا جواب اسی انداز میں دیں۔بہرحال سیاست میں ایسی باتیں ہواکرتی ہی ہیں مگرعوام بھی جانتے ہیں کہ کون کیاکہہ رہا ہے اوراصل حقائق بھی کیا ہیں۔
موجودہ سیاسی ماحول میں ایک طرف بلاول زرداری اپنا مکمل زور لگارہے ہیں تو دوسرے طرف میاں نوازشریف کچھ سست رفتاری سے جلسے کررہے ہیں۔دونوں کے جلسے ایک دو گھنٹوں میں سمیٹ لیے جاتے ہیں اورعوام کو سارا سارا دن تکلیف اُٹھانی نہیں پڑرہی ہے۔
ورنہ 2018 انتخابات میں مقابلہ ہی اسی بات پرہوا کرتاتھا کہ کون اپنے ایک جلسے کے لیے سارا دن غریب عوام کو خوار کرتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا صبح سے اس کی کوریج میں لگ جاتاتھااوررات جاکرپارٹی کے سربراہ کا اصل خطاب ہواکرتاتھا،مگر اس بار ایسا کچھ نہیں ہورہا ہے۔روزانہ شام کو ایک آدھ گھنٹے میں جلسہ بھی سمیٹ لیاجاتاہے اورٹی وی پرقائد کی تقریر بھی نشر ہوجاتی ہے، کسی کو شکایت بھی نہیں ہے کہ اُسے میڈیا پر ٹائم نہیں دیاگیا۔
اس ساری سیاسی مہم کی تکمیل پر جو سروے اوراندازے سامنے آرہے ہیں اُن میں مسلم لیگ نون کا پلڑا بھاری نظر آرہا ہے اوریہ گمان کیاجارہا ہے کہ وفاق اورپنجاب کی صوبائی سطح تک مسلم لیگ نون ہی حاوی رہے گی۔ باقی دیکر صوبوں بلوچستان اور KPK میں ملاجلارجحان دیکھا جارہا ہے۔
سندھ صوبے میں آج بھی پاکستان پیپلزپارٹی سرفہرست ہے اور وہاں کسی اور پارٹی کو اُس پر فضیلت حاصل نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے اور باوجود عوام کی اکثریت کی حمایت اورہمدردی کی وہ اس پوزیشن میں نظر نہیں آرہی کہ وفاق میں حکومت بنا پائے۔
اُس کے آزاد ارکان کے بارے میں شکوک وشبہات ظاہرکیے جا رہے ہیں کہ وہ اگر جیت گئے تواپنی قیمت اوربولیاں وصول کرتے ہوئے اپنا وزن اس پارٹی کی جھولی میں ڈال دینگے جس نے اُنکی زیادہ قیمت ادا کی ہوگی۔ شاید اسی لیے بلاول صاحب یہ کہتے ہوئے کوئی عار محسو س نہیں کرتے ہیں کہ آزاد ارکان ہمارا ساتھ دینگے۔
جہانگیر ترین بھی اپنی پارٹی کے لیے کچھ نہ کچھ ہاتھ پاؤں تو ماریں گے ہی۔لہٰذا یہ کہنا مشکل دکھائی دیتا ہے کہ تمام آزاد ارکان کس بڑی پارٹی کا حصہ بن جائیںگے۔ تحریک انصاف نے گرچہ اپنے ٹکٹ ہولڈرز سے قرآن پر حلف بھی لیا ہے کہ وہ جیت جانے کے بعد کسی اورپارٹی میں شامل نہیں ہونگے مگر کوئی اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتا ہے تو پارٹی اس کاکیا بگاڑ لے گی ۔ حلف سے روگردانی تو ہمارے یہاں کا معمول ہے۔یہ ہماری قومی شناخت اور خصوصیت ہے اورسیاسی مجبوری بھی۔
2018 میں جس طرح تمام آزاد ارکان کو صرف ایک سیاسی پارٹی میں شامل کروایاگیا اُسی طرح اس بار بھی یہ سب کچھ ہوسکتاہے۔اس معاملے میں کسی کادامن بھی صاف نہیں ہے۔ مسلم لیگ نون نے 2013میں خیبر پختون خوا میں یہ آپشن استعمال نہ کرکے بہت غلطی کی تھی اوردیگر پارٹیوں کوساتھ ملاکروہاں حکومت بنانے کے بجائے تحریک انصاف کو کھلا میدان دے دیاتھا۔
میاں صاحب آج بھی اس چیز پراپنا ملال ظاہرکرتے ہیں کہ میں نے مولانا فضل الرحمٰن کی بات نہ مان کر بہت بڑی غلطی کی تھی ۔اسی لیے وہ شاید اس بار ایسی کوئی غلطی نہیں کریں گے۔ ویسے بھی پانچ سال بعد کیا ہوتاہے اورکیسا سیاسی ماحول ہوتا ہے کسی کو بھی معلوم نہیں ۔ وہ عمر کی زیادتی کی وجہ سے شاید اس بار یہ ذمے داری لینے سے ہچکچا رہے تھے لیکن پارٹی کے لیے عوامی حمایت اورپذیرائی حاصل کرنے کے لیے انھیں مجبوراً میدان میں اُترنا ہی پڑا۔
دودن بعد الیکشن کی ساری مہم اختتام پذیر ہوجائے گی اور 9 فروری کی صبح تمام غیریقینی کیفیات کا خاتمہ ہوجائے گا، ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ یہ ساراعمل سکون واطمینان اورصاف وشفاف طریقے سے مکمل ہوجائے اورصحیح معنوں میں عوام کی ایک نمایندہ حکومت معرض وجود میں آجائے۔ قوم اُسے اگلے پانچ برس بلاروک ٹوک کام کرنے کا موقع دے تاکہ یہ ملک عرصہ دراز سے جس گومگوں کی کیفیت میں غرق ہے اس سے باہر نکل پائے ۔ ترقی و خوشحالی کاسفر شروع ہواورمعاشی واقتصادی مشکلات کا خاتمہ ممکن ہو۔