زباں فہمی نمبر202 الیکشن سلیکشن اور لیول پلیئنگ فیلڈ

زباں فہمی نمبر202؛ الیکشن، سلیکشن اور لیول پلیئنگ فیلڈ


سہیل احمد صدیقی February 04, 2024
فوٹو : روزنامہ ایکسپریس

ہر ایک نام تھا حرفِ غلط بَجُز شاعرؔ

کھُلا ہے ذوقِ نظر انتخاب میں کیا کیا

میرے مشفق بزرگ معاصرمحترم حمایت علی شاعر (ؔمرحوم) آج زندہ ہوتے تو شاید اپنی مشہور غزل کے مقطع کا یوں استعمال دیکھ کر خاکسار کو ٹیلیفون کال کرتے اور اس بارے میں بخوشی کچھ ارشاد فرماتے۔ یہ غزل انھوں نے پاکستان ٹیلیوژن کے کم ازکم دومشاعروں میں بہت عمدہ ترنم سے پیش کی تھی۔ اسی غزل کا سب سے مشہور شعر ، گویا حاصلِ غزل ، یہ تھا:

بلندیوں کا بھی اُٹھّا ہے، پستیوں سے خمیر

زمیں کے راز ہیں اُڑتے، سحاب میں کیا کیا

ویسے شعر کے استعمال اور پس منظر کی بابت کچھ کہے بغیر عرض کروں کہ حمایت صاحب کی عملی زندگی کی ابتداء بطور سیاسی کارکن ہی ہوئی تھی۔

آج خواہی نخواہی 'زباں فہمی' قدرے سیاسی رنگ لیے ہوئے ہے۔ بقول میرزا نوشہ

رکھیو غالبؔ مجھے اِس تلخ نوائی میں معاف

آج کچھ درد مِرے دل میں سِوا ہوتا ہے

وطنِ عزیز میں چند بڑے مسائل کی فہرست مرتب کی جائے تو اِس حقیقت سے مَفر یا انکار ممکن نہیں کہ ہم سب کو تمام مسائل کے حل کے لیے ہمہ وقت یہی احساس ہوتا ہے یا احساس دلایا جاتا ہے کہ اگر کوئی اچھی حکومت آجائے تو سب ٹھیک کردے گی اور اس کے لیے عام انتخابات کا انعقاد لازم ہے۔ہرچند کہ بندہ بہت زیادہ مثبت طرزِ فکر کا حامل ، پرچارک اور داعی ہے، مگر بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کے لیے کہنا تو کُجا، سوچنا بھی وقت کا زیاں ہوتا ہے۔

''یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں جانور، اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اُڑجائیں گے'' کے مصداق، ملکی سیاست کے میدان ِکارزار میں (جسے خاکسار نے مدتوں پہلے 'سیاہ سَت' قرار دیا تھا اور مابعد ہر جگہ یہی لفظ استعمال ہونے لگا) کسی روایتی طریقِ کار سے، ہرگز کوئی مُثبَت تبدیلی واقع ہوتی نظر نہیں آتی، چہ جائیکہ انقلاب برپا ہو، ہاں البتہ کبھی بھی کسی بھی طالع آزما کے تختہ اقتدار پر قبضہ کرنے اور اپنی محدود سوچ کے مطابق سب کو ''سیدھا'' کرنے کی سعی ٔ نامشکور دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ جنھیں اپنے ہی معاملات کی کماحقہ' آگہی نہیں، وہ یہ سمجھتے اور دنیا کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ 'ہمیں سب پتا ہے'۔

سب سے پہلے تو بات کی جائے نظام یا طرزِحکومت کی جسے خواہ مخواہ 'عوام کی حکومت' کہہ کہہ کر ہمارے کان پکائے جاتے ہیں۔ عوام کی حکومت یا عوامی حکومت کبھی ہمارے یہاں قائم ہو ہی نہیں سکتی جہاں ہر قماش کا آدمی مالِ حرام یا مالِ مشکوک خرچ کرکے اقتدار حاصل کرے اور اپنی بنائی ہوئی ''شاہوں سے بڑھ کر شاہی'' حکومت کے جُملہ اراکین کے مزے اور عیاشی کے لیے عالمی اداروں سے بھیک مانگ کر ، ملکی اُمور چلائے۔

یہ جمہوریت یا جمہوری نظام وہ نہیں جسے امریکا کے ایک دانشور صدر، ابراہم لنکن [Abraham Lincoln]نے ''حکومتِ عوام، بذریعہ عوام، برائے عوام'' [government of the people, by the people, for the people] قرار دیا تھا، بلکہ یہ درحقیقت آسکر وائلڈ[Oscar Fingal O'Fflahertie Wills Wilde] جیسے شاعرو ادیب کے الفاظ میں ''عوام کی پِٹائی، بذریعہ عوام، برائے عوام'' کا نظام ہے۔ اُس نے کہا تھا کہ:

High hopes were once formed of democracy; but democracy means simply the bludgeoning of the people by the people for the people.

''کبھی جمہوریت کے لیے بہت زیادہ توقع وابستہ کرلی گئی تھیں، مگر (درحقیقت) جمہوریت کا سادہ (الفاظ میں) مطلب ہے، عوام پر، عوام ہی (کے نمایندوں) کے ذریعے، عوام ہی کی خاطر ڈنڈے برسانا۔'' ہمارے یہاں ہر شعبے کی طرح سیاست میں بھی بھیڑچال ہے کہ جہاں کسی نے کوئی بات کی، دوسرے نے اُچک لی اور لگا اُسے دُہرانے، خواہ اُس کی تائید میں یا مخالفت میں، پھر ایسی ہر بات کو آگے پہنچانا اور پھیلانا کام ہے، ہمارے ذرایع ابلاغ کا جو صحیح معنوں میں ''ٹرک کی بَتّی کے پیچھے'' لگتے نہیں، بھاگتے ہیں۔ (ایک تجربہ کار صحافی کے قلم سے پیشہ ور صحافت کی مضحکہ خیز صورت حال کی یہ عکاسی یقیناً بہت سے ناواقفین کے لیے اچنبھے کا باعث ہوسکتی ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ ہمارے نیوز ٹی وی چینلز اور اخبارات میں ایسے ہی کام کرنے والے بہت زیادہ ہیں)۔

چند ماہ پہلے کسی نے سیاست میں Level playing field ملنے کا مطالبہ کیا تو کسی نے کہاکہ سب کو ملنی چاہیے اور تیسری آواز یہ آئی کہ سب کو نہیں مل رہی یا مل رہا۔ ہمارے ذرایع ابلاغ میں کوئی ایسا زبان داں نہیں کہ یہ 'مکرّر، مکرّر' بھاشن دینے والے بہت سے سیاسی مداریوں میں،کسی ایک ہی کو ٹوکنے کی جسارت کرکے بتاتا کہ حضور! یہ بات ذرا آسان اور سادہ الفاظ میں کہیں تاکہ عام آدمی بھی سمجھ لے۔ اب 'حضورِوالا' خود بھی اپنی قومی زبان سے اس قدر آشنا نہیں ہوتے کہ اس بابت غور فرمائیں اور صحافت میں دس تا چالیس سال گزارنے والے ''پیِر کُہنہ سال'' بھی اس ضمن میں وقت نہیں نکالتے کہ کبھی کسی اہل علم، اہل زبان سے دریافت کریں یا لغات ہی کھنگال لیں۔وہ تو ''او چھڈو جی! '' یا ''دفع کریں جناب!'' قسم کے جملے ادا کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ آئیے پہلے ذرا انگریزی لغات سے استفادہ کرتے ہیں۔ مشہور لغت Cambridge Dictionaryکے الفاظ میں A level playing field ایک محاورہ [Idiom] ہے جس کا مفہوم مرتبین نے اس طرح بیان کیا ہے:

A level playing field: a situation in which everyone has the same chance of succeeding

ترجمہ: ایسی صورت حال جس میں ہر کسی کو کامیابی (کے حصول) کے لیے یکساں موقع ملیں۔

اب اسی لغت میں اس تعریف کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے:

If the tax systems are different in each European country, how can industries start on a level playing field?

ترجمہ: اگر ہر یورپی ملک میں ٹیکس کا نظام مختلف ہو تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اُن کے یہاں صنعتیں مساوی طور پر آغازِ کار کرسکیں؟

آگے بڑھتے ہیں تو کیمبرج ڈکشنری کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی انگریزی میں اسی محاورے کا مطلب کیا ہے:

A situation in which everyone has the same advantages and disadvantages:

ترجمہ: ایک ایسی صورت حال جس میں ہر کسی کو (کسی بھی معاملے میں) یکساں فوائد ونقصانات (یا قباحتیں درپیش) حاصل ہوں۔یا۔ کسی کو کسی پر فوقیت یا برتری نہ ملے۔

اس تعریف کے تعین کے بعد تفہیم کے لیے ایک جملے میں استعمال کرتے ہوئے، مندرجہ ذیل مثال دی گئی ہے:

If the quality of high schools varies so much, how can everyone start college on a level playing field?

ترجمہ: اگر ثانوی اسکولوں کے معیار میں اتنا زیادہ فرق ہو تو کیسے (ممکن ہے کہ) ہر کوئی یکساں (موقع سے فائدہ اُٹھا کر) کالج (کی تعلیم) کا آغاز کرسکتا ہے۔

Collins Dictionaryکے الفاظ میں a level playing field کی وضاحت یوں ملاحظہ فرمائیں:

You talk about a level playing field to mean a situation that is fair, because no competitor or opponent in it has an advantage over another.

ترجمہ: جب آپ یہ محاورہ استعمال کرتے ہیں تو مُراد یہ ہوتی ہے کہ صورت حال ایسی عمدہ ہو کہ کسی بھی مسابق (مقابلہ کرنے والے) یا مُقابِل کو کسی دوسرے پر کوئی فوقیت حاصل نہ ہو۔

We ask for a level playing field when we compete with foreign companies.

ترجمہ: جب ہم غیرملکی کمپنیوں سے مقابلہ کرتے ہیں تو (اس مقصد کے حصول کے لیے) یکساں موقع دیے جانے کا تقاضا کرتے ہیں۔

Merriam Webster Dictionaryنے level playing field کو اِسم بتاتے ہوئے یہ بیان کیا کہ اس سے مراد ایک ایسی صورت حال ہے جو ہر کسی کو مقابلے یا کسی بھی معاملے میں یکساں طور پر موزوں محسوس ہو:

A state in which conditions in a competition or situation are fair for everyone

اب اسی لغت کی رُو سے اس اصطلاح کا استعمال کچھ یوں کیا جاسکتا ہے:

ترجمہ: ''وہ حکومت سے تقاضا کرتا ہے کہ ٹیکس کے ضابطے پر نظرِثانی کرتے ہوئے تمام کمپنیوں کو یکساں موقع فراہم کرے۔''

[He wants the government to revise the tax code to provide a level playing field for all companies].

گزشتہ دنوں دنیا بھر میں یہی اصطلاح خوب خوب استعمال ہوئی، اس لیے عین ممکن ہے کہ ہمارے جس 'بقراط' نے سیاست میں پہلے پہل اسے بَرتا ہو، اُس نے کوئی غیرملکی اخبار یا ٹی وی چینل دیکھ کر سوچا ہو کہ یہ ''مارکیٹ میں نیا آئٹم آیا ہے'' اور اپنی ''کونپڑی'' (کمپنی) کی ''مشہوری'' (تشہیر) کے لیے اسے استعمال کرلیا ہو اور پھر اِس کا اعادہ بھی کیا ہو تاکہ عام آدمی کو بھی یاد ہوجائے۔

ایک آزادہ رَو [Freelance] صحافی Haisten Willis نے ممتاز جریدے Washington Examiner کے لیے اپنی خبر بناتے ہوئے کہا کہ

ترجمہ: سیاست میں ایک پرانا مقولہ ہے کہ حریف، مباحثہ نہیں کرتے کہ اس طرح دعوتِ مباحثہ (یا دعوتِ مبارزت) دینے والے کو، رائے دہندگان کی نظر وں میں 'ہیرو' بننے والے شخص کے سامنے مساوی سطح پر، مقابل آنا پڑتا ہے۔ (مطبوعہ مؤرخہ 12 جنوری (2024

[There's an old adage in politics that incumbents don't debate, on the premise that doing so puts the challenger on a level playing field with the champion in the eyes of voters].

اس کے بعد 25جنوری 2024ء کو بھی ایک دوسرے معروف صحافی و دانشور نے اسی اصطلاح کا استعمال کیا جو انٹرنیٹ پر دیکھا جاسکتا ہے۔ راقم کی اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ level playing field سے مراد ہے یکساں اور مساوی موقع جو سب کو بِلاامتیاز ملنا چاہیے۔ اتنی آسان، سادہ اور سہل بات کہنے کا کسی کے پاس وقت نہیں، کیونکہ غیرضروری طور پر ''فادری'' زبان جھاڑنے سے نام نہاد علمیت کا پرچار ہوتا ہے۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ ایک مشہور (یا بدنام؟) سیاست داں، آکسفرڈ سے پڑھنے کے بعد بھی کسی ناخواندہ دیہاتی کی طرح Tiger کا مطلب (شیر کی بجائے) چِیتا سمجھتا ہے اور اَپنے کور مقلدین کو بھی یہی بتاتا ہے۔

اب ہم اس بابت بھی بات کرلیں کہ پچھلے چند سالوں سے بجائے عام انتخابات کے General Elections۔یا۔انتخابات کی بجائے فقط Elections کیوں کہا جارہا ہے۔ اسی طرح بجائے 'انتخابی اصلاحات' جیسی سیدھی سادی اصطلاح کو Electoral Reforms کہہ کر بھی اپنی علمیت کا بے جا اظہار کیا جاتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ہمارے یہاں 'پڑھے لکھے' افراد کی بُہتات ہوگئی ہے یا بصد معذرت، ''سندیافتہ'' جُہَلا ء تعداد میں بڑھ گئے ہیں جو ہر بات انگریزی میں یا مخلوط زبان میں کرکے دنیا کو یہ بتاتے ہیں کہ ہم بہت پڑھے لکھے ہیں، ہمارا معیارِتعلیم بہت بلند ہے اور اگر قومی ومادری زبان میں صاف صاف گفتگو کریں تو ہمیں جاہل سمجھا جائے گا۔

ایک قدم آگے بڑھتے ہیں تو ہمیں Selection نظر آتا ہے جس کی تفہیم کسی ایک متبادل اردو لفظ سے کرنا قدرے دشوار ہے۔ اسی طرح جب Elected PM کی جگہ Selected PM کہا جائے تو مزید مشکل ہوجاتی ہے۔ بہت محتاط ترجمہ کیا جائے تو Selected کو منتخَب کی بجائے ، پسندیدہ کہنا موزوں ہوگا۔ یعنی اس تناظر میں Selected PM کا مفہوم ہوا:'پسندیدہ۔ یا۔ منظورِنظر (خواہ کسی کا بھی) وزیراعظم'۔ ویسے تو چُنا ہوا، چُنیِدہ یا چھانٹا ہوا بھی درست ہے، مگر اپنے مخصوص تناظُر میں اوّل الذکر ہی کا استعمال بہتر ہے۔ یہاں ایک باریک سا نکتہ بھی یاد رکھنا چاہیے، منتخَب سے مراد ہے، منتخِب کیا گیا، یعنی موصوف کو 'خ' پر زبرکے ساتھ منتخَب کہا جاتا ہے نہ کہ منتخِب۔ ویسے یہ بات تو اَب انگریزی محاورے کے مطابق، ''ایک کھُلا راز'' ہے کہ ہمارے یہاں الیکشن نہیں، سلیکشن ہی ہوتے ہیں۔

{ یہ تاریخی مغالطہ بھی دُور ہوچکا ہے کہ 1970ء کے عام انتخابات دیانت داری سے منعقد کروائے گئے تھے۔ کئی سال پہلے ایک محب ِ وطن بنگالی دانشور، دو جامعات (ڈھاکا اور راجشاہی) کے سابق سربراہ اور تحریک پاکستان کے سابق کارکن، پروفیسر ڈاکٹر سید سجادحسین مرحوم (متوفیٰ: 1995) کی چشم کُشا کتاب The Wastes of Time کا (مطبوعہ دسمبر1994ئ) اردو ترجمہ ''شکست ِ آرزو'' (مترجمہ محمد ابراہیم خان) کراچی سے منصہ شہود پر آیا تو اُس میں دیگر متعدد حقائق کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی واضح طور پر کہی گئی کہ عوامی لیگ کے بظاہر بہت مقبول رہنما شیخ مجیب الرحمٰن کو بعض حلقوں میں زورزبردستی، دھاندلی سے جِتوایا گیا۔ بات نکلی ہے تو پھر دور تلک ہی جائے گی۔ یہ پورا منظرنامہ بہت چابک دستی سے تیار کیا گیا اور یہاں مغربی حصے میں بھی اس امر کا التزام کیا گیا کہ کوئی ایسا امیدوار یا جماعت نہ اُبھرسکے جو ہمارے عزائم کی راہ میں مُزاحم ہو}۔

ووٹ [Vote] اور ووٹر [Voter] جیسے انگریزی الفاظ اب ہماری اردو کا حصہ ہیں، مگر بربِنائے ضرورت ترجمہ یا متبادل تلاش کرنا چاہیں تو چنداں مشکل نہیں;ووٹر کی اُردو ہے: رائے دہندہ اور جمع رائے دہندگان۔ ریفرینڈم [Referendum] جیسے بھاری بھرکم لفظ کا متبادل بھی ایک زمانے سے 'استصوابِ رائے' مستعمل ہے، لغت میں استصوابِ عامّہ بھی درج ہے، ویسے ایک اور اصطلاح بھی اسی موضوع سے جُڑی ہوئی ہے plebiscite جس کا آسان اردو ترجمہ ہے: رائے شماری۔ اسی اصطلاح کے دیگر معانی میں رائے عامّہ، استصوابِ رائے، مجلس ِ عوام ، کسی عوامی مسئلے پر (خصوصاً کسی حکومت یا دستور میں تبدیلی کے مسئلے پر) پوری قوم یا برادری کا اظہارِ رائے بھی شامل ہیں۔ یہ اصطلاح کشمیر کے تنازُع کے تصفیے کے ضمن میں بہت زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ چند دیگر عام اصطلاحات کا ذکر بھی کرتے چلیں۔ بیلٹ پیپر [Ballot paper] کو آسان اردومیں ''رائے پرچی'' کہہ سکتے ہیں، جبکہ Ballott boxکو ''رائے خانہ''کہنا چاہیے۔ دیگر الفاظ بھی لغت میں موجود ہیں۔ Ballotterکو اُردو میں کہیں گے، رائے دہندہ، جبکہ اس عمل یعنی Balloting کو بہت عام فہم الفاظ میں ''عملِ رائے دہی'' کہنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں