شہر دلوں میں بس جاتے ہیں استنبول میں کوئی بھکاری نظر نہیں آیا
استنبول میں کوئی بھکاری نظر نہیں آیا
(ترکی کا سفرنامہ ۔۔۔ تیسرا پڑاؤ)
''لوگ شہروں میں اور شہر دلوں میں بس جاتے ہیں۔'' یہ اقتباس میں نے حنا جمشید کے ناول ہری یوپیا سے لیا ہے۔ میرا دل کرتا ہے جب میں کچھ لکھوں تو اپنے ہم وطن ہم زبان ادیب جن کو میں پڑھ چکی ہوں اس کا کوئی جملہ یا اقتباس ضرور لکھوں اور اس جملے نے تو میرے دل میں گھر کرلیا ہے۔ اور اس کی تو میرے مضمون سے مطابقت بھی تھی۔
میرے موبائل پر تو پہلے ہی سے نزاع کا عالم تھا، وہ تو کراچی میں ہی بولنے سننے سے معذور ہوچکا تھا۔ عبدالعزیز نے تجویز پیش کی کہ ہم ابوظہبی کی ڈیوٹی فری شاپ سے موبائل لے لیں گے۔ حالاں کہ میں ان کی اس تجویز سے متفق نہیں تھی کیوں کہ میرا خیال تھا کہ سفر کی ابتدا میں زیادہ پیسے خرچ کرنا عقل مندی نہیں ہے اور مجھے موبائل کی اتنی شدید ضرورت بھی نہیں تھی۔
عزیز کے موبائل سے کام چلایا جا سکتا تھا، مگر نئی نسل کو تو نئی چیزوں کا شوق ہوتا ہے اور انھیں سمجھانا بھی مشکل ہوتا ہے۔ وہ کہنے لگا آپ میرا موبائل لے لیجیے گا، مجھے نیا دلا دیجیے گا۔ پہلے ہم نے ابوظبی سے کسٹم کروایا۔ جب ہم چیکنگ کروانے لائن میں کھڑے تھے ہمارے سامنے دو سِکھ اور کسی یورپی ملک کا باشندہ تھا اور یہاں بھی وہی معاملہ تھا کہ ''زبان یار من ترکی کہ من ترکی نمی دانم'' لیکن یہاں ترکی کی جگہ زبان یار من عربی تھی۔
یورپی باشندہ انگریزی میں بات کر رہا تھا اور کسٹم افسر عربی میں جواب دے رہا تھا، جو یورپی باشندے کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی اور عربی کسٹم آفیسر انگریزی میں بات کرنا نہیں چاہتا تھا، یقیناً جس کی اسے ضرورت بھی نہیں تھی۔
آخرکار اس کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ وہ اسے بوٹ اور بیلٹ اتارنے کا کہہ رہا تھا۔ اسے پیچھے کھڑے سکھوں نے بھی بغیر کہے سنے اپنے بوٹ اور بیلٹ اور ہینڈ کیری موبائل فون اتار کر ٹرے میں رکھ دیے اور سر کے اشارے سے انھیں آگے جانے کا کہا۔ میرے ہاتھ میں صرف بورڈنگ کارڈ تھا۔ سامنے ٹرے میں رکھے بدبودار بھاری بوٹ جو نہ جانے کتنا لمبا سفر طے کرکے آ رہے تھے اب ٹرے میں آرام کر رہے تھے۔
عبدالعزیز نے اندازہ کرلیا کہ لائن میں اتنے قریب کھڑے ہونے کی وجہ سے مجھے بدبو آ رہی ہے۔ اس نے اپنی ٹرے اٹھاتے ہوئے کہا،''اماں! آپ ادھر آجائیں'' اور جھک کر جوتے اتارنے لگا۔ وہاں کھڑے ہوئے افسر نے بیٹے سے عربی اور اردو کے ملے جلے انداز میں کہا،''جوگرز مت اتارو، ضرورت نہیں ہے۔'' میں نے حیرت سے اسے دیکھا اس نے مجھے مسکرا کر سلام کیا۔ لو جی ایک عام پاکستانی کے لیے ابوظبی میں ایسا استقبال! میں نے اس کے سلام کا جواب دے کر شکریہ ادا کیا، ورنہ میں نے تو سنا تھا کہ عربوں سے کسی اچھے سلوک کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔
وہ کسی کے سلام کا جواب بھی نہیں دیتے، مگر یہ عرب تو اردو میں بات بھی کر رہا تھا۔ عبدالعزیز نے بیگ پیک کیا اور ضروری چیزیں ٹرے میں رکھ دیں۔ ہم تیزی سے باہر نکل آئے۔ پیچھے لائن میں لگے غیرملکیوں سے بیلٹس اور شوز اتروائے جا رہے تھے اور وہ عربی اپنی زبان میں ہدایات دے رہا تھا۔
ہم ڈیوٹی فری شاپ کی طرف آگئے۔ عبدالعزیز موبائل شاپ ڈھونڈنے میں مصروف ہوگئے آخر پانچ گھنٹے گزارنے تھے۔ وہاں ایک جہاں آباد تھا۔ دنیا بھر کا سامان بھرا ہوا تھا، ہر برانڈ موجود تھا۔ مہنگے پرفیوم سے قیمتی شراب تک اور قیمتی گھڑیوں سے سونے کے زیورات تک سب موجود تھا، مگر ہم کو موبائل شاپ نہ ملنا تھی نہ ملی۔ عبدالعزیز کا تو منہ بن گیا، دو گھنٹے کی خواری کے بعد کچھ بھی ہاتھ نہ آیا۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا، مجھے تو یہ پیسے کا ضیاع لگا تھا۔
عزیز نے تھک کر کہا اماں! آپ ہر بار جیت جاتی ہیں، یہ فاؤل ہے۔ شاید اس نے میرے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر کہا تھا۔ میں نے کہا بیٹا جی! آپ نے کبھی مچھلی کے شکاری کو دیکھا ہے، جو رات بھر ڈور ڈالے بیٹھا رہتا ہے صبح خالی ہاتھ گھر آتا ہے، لیکن وہ شکار پر جانا نہیں چھوڑ دیتا۔ دوسرے دن پھرڈور اٹھا کر شکار کرنے دریا پہ جا پہنچتا ہے۔ مگر ہم ''مچھلی کا شکار'' کرتے کرتے ریس کورس میں آن پہنچے۔ ہمارے پیچھے گھوڑے دوڑنے کی سی آوازیں آنے لگیں۔ یہ لڑکے لڑکیوں کا ایک سیاحتی گروپ تھا جو تقریباً بھاگتا ہوا ہمارے سامنے ایک دکان میں گھس گیا۔
یہ دکان نہیں مکمل شاپنگ مال تھا، وہ لوگ اس طرح شاپنگ کر رہے تھے جیسے یہاں سب مفت مل رہا ہے اور ہم اتنی دیر سامنے والی کافی شاپ میں کافی اور سینڈوچز سے انصاف کرتے رہے۔ ہمیں کوئی جلدی نہیں تھی اور ابھی فلائٹ میں ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا۔ ہم ٹرمنل 5 کی انتظار گاہ میں آ کر بیٹھ گئے۔
تاشقند جانے والی فلائٹ کا کاؤنٹر ابھی کھلا نہیں تھا اور ہمارے سامنے بے چارے گرمی کے ستائے روسی جسم پر برائے نام کپڑے پہنے آپس میں چپکے کھڑے تھے، کچھ دنیا ومافیہا سے بے خبر اس انتظار کا فائدہ بھی اٹھا رہے تھے اور ہم واحد ایشیائی پاکستانی ان مناظر کی تاب نہ لاتے ہوئے ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے تھے اور دعا مانگ رہے تھے کہ جلد سے جلد کاؤنٹر کھل جائے کہ کوئی دھپ سے میرے برابر آ کر بیٹھ گیا۔ یہ کوئی بائیس تئیس سال کی سلونی سی لڑکی تھی جس نے اپنا ہینڈ کیری زمین پر، جوتے گود میں رکھ لیے تھے اور اپنی پھولی ہوئی سانس کو بحال کر رہی تھی۔
اس نے مجھے مسکرا کر دیکھا اور انگریزی میں کہا، میں مونیکا ہوں، ٹائم بہت کم تھا، بھاگ بھاگ کر برا حال ہو گیا اور جھک کر جوتے پہننے لگی۔ او یو مونیکا! تم ادھر ہو، ہم لوگ تم کو کب سے ڈھونڈ رہا تھا۔ اب اٹھو فلائٹ جانے والا ہے، کاؤنٹر کھل گیا ہے وہ ہندی اور انگریزی میں اس سے کہہ رہا تھا۔
یہ ہمارا گائیڈ ہے، مونیکا نے ہمارا تعارف کروایا اور گائیڈ سے انگریزی اور ہندی میں کہنے لگی۔ نیکسٹ ٹائم ہم تمہارے ساتھ نہیں آئے گا، تم تو ہمیں آزادی کی سانس بھی نہیں لینے دیتا ہے، ہم آیندہ سولو ٹرپ کرے گا۔ دیکھا اماں میں نے پہلے ہی کہا تھا، ہم ٹورسٹ گروپ کے ساتھ نہیں جائیں گے، میری بات سچ ہوگئی۔ عبدالعزیز نے یہ بات اردو میں کہی تھی، وہ ہمیں اردو میں بات کرتے دیکھ کر ٹھٹھک گئی۔ آپ لوگ پاکستان سے ہو؟
میں نے ہاں میں گردن ہلائی۔ میں دہلی یونیورسٹی میں پڑھتی ہوں۔ میرے ڈیڈی دہلی میں ڈاکٹر ہیں، لیکن ہمارا تعلق ساؤتھ انڈیا سے ہے میں کسی پاکستانی سے ملنا چاہتی تھی، اور سوچتی تھی کہ نہ جانے پاکستانی کیسے ہوتے ہیں۔ ہم جیسے ہوتے ہیں یا مختلف ہوتے ہیں۔ تھینکس گاڈ، آپ تو ہمارے جیسے ہو، اوکے بائے۔ وہ اپنا ہینڈ کیری گھسیٹتی ہوئی اس ڈیپارچر کی لائن میں جا لگی جہاں اس کے ساتھی پہلے سے موجود تھے۔
ان کے جاتے ہی ہماری ایئرلائن کی طرف سے اعلان ہونے لگا، مجھے تو بڑی شدت سے نیند آ رہی تھی، مجھے جاگتے ہوئے کئی گھنٹے ہوچکے تھے، اس لیے جیسے ہی جہاز نے اڑان بھری میں نے کلمہ پڑھ کر آنکھیں بند کرلیں۔ ''ٹی اور کافی'' کی آواز پر آنکھ کھلی۔ میں نے اشارے سے منع کردیا۔ دوسری بار کھانے کی خوشبو نے جگانے کی کوشش کی مگر بے سود کوشش تھی۔ نیند بھوک پر غالب آچکی تھی۔
وہ جو کہتے ہیں، نیند تو سولی پر بھی آ جاتی ہے، یہ نیند سولی پر نہیں ہوا میں لٹکتے ہوئے آگئی تھی۔ تیسری بار جب آنکھ کھلی تو استنبول پہنچنے کا اعلان ہو رہا تھا، مگر میری نیند پوری ہوچکی تھی۔ آنکھیں تو استنبول ایئرپورٹ دیکھ کر کھل گئیں۔ ہم ابوظبی ایئرپورٹ کو ہی بڑا، خوب صورت اور جدید سمجھ رہے تھے مگر یہاں تو معاملہ اور آگے کا تھا۔ امیگریشن کے سامنے سیاحوں کی اتنی طویل قطاریں تھیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔ زیادہ تر سیاح تو نیوزی لینڈرز، آسٹریلین اور جاپانی تھے۔
کافی دیر میں ہم باہر آئے تو اگلا مرحلہ سامان لینے کا تھا۔ سامان کے حصول کے لیے ہمیں سب سے آخری ٹرمنل پر جانا تھا، جہاں بلاشبہ کوئی بیس بائیس بیلٹس چل رہی تھیں۔ جو رش ہم نے امیگریشن پر دیکھا تھا اس کے بعد تو یقین ہو گیا تھا کہ تقریباً ایک گھنٹہ تو لگے گا مگر سامنے ہی اتحاد کی بیلٹ نظر آگئی اور کوئی پانچ منٹ بعد ہمارا سامان بیلٹ پر نظر آگیا۔ ہمارے سامان کے ساتھ ہی اس آسٹریلین کا بیگ بھی تھا جو امیگریشن پر ہمارے ساتھ کھڑا تھا اور مستقبل عبدالعزیز سے بات چیت کر رہا تھا۔ وہ اپنا سامان لے کر ہمارے برابر آ کر بیٹھ گیا۔
اس نے ہی عبدالعزیز کو بتایا کہ تم ایئرپورٹ سے ٹرکش کی سِم لے لو اور دوسرا مشورہ اس نے یہ دیا کہ ایئرپورٹ سے ٹیکسی میں مت جانا۔ یہ ٹیکسی والے تمہاری جیب خالی کروالیں گے اور ترکی میں کبھی ٹیکسی میں سفر کرنے کی غلطی مت کرنا یہاں کا بس سسٹم اور ٹرام اور میٹرو سسٹم بہت شان دار ہے۔
اس نے بتایا کہ میں ترکی دوسری بار آیا ہوں اور خاصی چیزوں سے واقفیت ہے میں بس کے لیے ٹرمنل جاؤں گا۔ میں تم کو ٹرمنل تک لے کر چلتا ہوں، تم پہلے سِم خرید لو۔ بیٹے نے ایک شاپ سے سِم خریدلی اور اسٹینڈ پر جاکر اس نے بس کا کارڈ لے لیا۔ ادھر آ کر ہمارے خضر راہ نے ہمیں Godby کہا، ٹرمینل پر کھڑی ایک بس میں سوار ہوگیا۔ اس کے بعد والی ہماری بس تھی۔
یہ Havaist کی سروس تھی جو ایئرپورٹ سے یک سرائے تک جاتی تھی۔ یونی فارم پہنے پورٹر نے ہمارا سامان رکھ کر ٹوکن ہمیں پکڑا دیا۔ پھر بس نے جو رفتار پکڑی تو یک سرائے جاکر دم لیا۔ ہم نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو ایسا لگا جیسے ہم اسلام آباد سے مری کے سفر میں ہیں۔ وہی پھولوں درختوں اور سبزے سے ڈھکی پہاڑیاں تھیں، راستے بھر ہم مناظر میں کھوئے رہے کہ وقت گزرنے کا احساس بھی نہیں ہوا، اور بس یک سرائے پہنچ گئی۔
عزیز نے پہلے ہی ہوٹل کی بکنگ کروا لی تھی، اب ہمیں فاتح جانا تھا، جہاں پر Historia Hotel تھا، لیکن ہمیں معلوم نہیں تھا کہ یہاں سے کون سی بس یا ٹرام فاتح جاتی ہے۔
سامنے ہی میٹرو اسٹیشن تھا، استنبول میں میٹرو ٹرین انڈر گراؤنڈ چلتی ہے۔ عزیز نے ایک دو لوگوں سے پوچھا کہ ہم فاتح کیسے جاسکتے ہیں، ایک شخص سے پوچھا تو اس نے دو ایک لوگوں سے جاکر پوچھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ہمیں جانے کا راستہ بتا دے۔ ان لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ہمیں فاتح جانا ہے۔ میرا بیٹا انگریزی میں بات کر رہا تھا۔ میں نے اس شخص سے اردو میں پوچھا، اس کی سمجھ میں صرف یہ بات آگئی کہ ہمیں فاتح جانا ہے۔ اب یہ مرحلہ تھا کہ وہ ہمیں فاتح جانے کا راستہ کیسے سمجھائے۔ میں نے پھر اس سے اردو میں کہا کہ بس یا ٹیکسی؟
وہ ہمیں قریبی ٹیکسی اسٹینڈ تک لے آیا۔ ہم نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ وہ بے چارہ اتنی بار ہمارا شکریہ ادا کرنے جھکا جیسے ہم نے اسے راستہ بتایا ہو اور ترکش زبان میں خدا حافظ کو Gule Gule کہتے ہیں۔ اور وہ Gule Gule کرتا واپس پلٹ گیا۔ میں نے عزیز سے کہا کہ تمہیں آسٹریلین نے منع کیا تھا کہ ٹیکسی مت لینا، عزیز کہنے لگا اماں! میں بہت تھک گیا ہوں۔ اب چلنے کی ہمت نہیں ہے۔
ایک ٹیکسی والا سو لیرا پر راضی ہوگیا۔ اس نے ڈگی کھول دی اور بیٹے نے سامان رکھ دیا۔ وہ خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا رہا، اس نے ہمارے بیٹھتے ہی انگریزی میں پوچھا، پاکستان؟ عزیز نے کہا، ہاں۔ اس نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور ٹیکسی اسٹارٹ کردی۔ مجھے نہ جانے کیوں غصہ آگیا، میں نے کہا تم ہمارا مذاق اڑا رہے ہو یا اس طرح کے رویے کے عادی ہو؟ اس نے ایک اور قہقہہ لگایا او نو میم! I am happy۔ عزیز نے اردو میں کہا، اماں اس سے بات نہ کریں، مجھے تو اس کے ساتھ مسئلہ لگ رہا ہے۔ اس نے تھوڑی سی دور جاکر گاڑی موڑی اور ہم سے کہا کہ فاتح آگیا۔
ہم نے ٹیکسی سے سامان اتار ا اس نے سو لیرا لیے اور جس تیزی سے آیا تھا اسی تیزی سے چلا گیا۔ میں نے ابھی اپنے ملک کے ٹیکسی ڈرائیوروں سے موازنہ شروع ہی کیا تھا کہ ایک دس گیارہ سالہ لڑکے نے اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس کا مطلب تھا کہ میں تمہارا بیگ لے کر چلتا ہوں، ذہن میں چائلڈ لیبر جیسے خیالات آگئے اور میں نے اسے منع کردیا۔ لیکن بیگ سے ایک پانچ لیرا کا نوٹ نکال کر اسے پکڑانے کی کوشش کی۔ لڑکے نے نہیں نہیں کا اشارہ کیا اور سامنے والی گلی کی طرف بھاگ گیا۔ ہم جب کمال اتاترک ایئرپورٹ پر آئے تھے اس وقت دوپہر کے ڈھائی بجے تھے مگر اب شام ہورہی تھی۔
بھوک اور پیاس سے برا حال ہو رہا تھا۔ ہم جہاں کھڑے تھے وہاں سامنے ایک پرانا سا چرچ تھا، جس میں ایک چھوٹا سا باغ تھا، مگر اندر جانے کا راستہ دو تین سیڑھیاں اتر کر تھا۔ پکی اینٹوں سے بنی سڑک اونچائی کی طرف جا رہی تھی، فٹ پاتھ بھی چھوٹے سائز کے تھے اور بے رنگ و روغن کی عمارتوں سے علاقے کی بدحالی صاف ظاہر ہو رہی تھی۔ بوڑھے اور عورتیں کپڑے زمین پر بچھائے چیزیں فروخت کے لیے سجا رہے تھے۔ کچھ عورتوں کے ساتھ بچے بھی تھے جو انھوں نے پرام میں بٹھائے ہوئے تھے۔
عزیز نے اپنے موبائل پر گوگل Map لگالیا تھا اور سرچ کر رہا تھا۔ میں نے کہا بیٹا! یہ تم کہاں لے کر آگئے ہو؟ یہ کوئی رہنے کی جگہ ہے؟ اماں! آرام سے، آپ بہت جلدی گھبرا جاتی ہیں۔ میں ادھر ہی ایک چرچ کی دیوار کے سہارے ٹک کر کھڑی ہوگئی، جہاں ایک عورت اپنے بچے کو پرام میں ڈالے پرانا سامان فروخت کر رہی تھی۔ اسی وقت وہی لڑکا چرچ کے باغ میں جانے کے لیے سیڑھیوں پر نظر آیا اور اپنی زبان میں کچھ پوچھا۔ میں نے کہا Historia Hotel لڑکے نے ہمیں اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور میرا ہینڈ کیری لے کر سامنے والی سڑک کی طرف چل دیا، جو آگے چل کر خاصی کشادہ ہوگئی تھی، جہاں حجام کی دکانیں اور حمام بنے ہوئے تھے۔ ایک دو پرانی طرز کی بیکریاں بھی تھیں اور چائے خانے بھی، جہاں لوگ بیٹھے چائے پی رہے تھے اور ساتھ تاش اور دیگر گیم کھیل رہے تھے۔ راستہ خاصا طویل تھا یا ہم کو لگ رہا تھا۔
لڑکا اس علاقے سے واقف تھا وہ تھوڑی دیر بعد مڑ کر ہمیں دیکھتا اور کچھ کہتا اور چلنے لگتا، میرے بیٹے کو ابھی ترکی کے گوگل کی سمجھ نہیں آئی تھی۔ اس نے موبائل جیب میں رکھ لیا تھا، کیوںکہ ہمارا گوگل تو ہمارے ساتھ تھا۔ ذرا اونچائی پر پہنچ کر وہ دائیں طرف والی گلی میں مڑا تو وہاں کا نقشہ ہی مختلف پایا۔ چوڑی پتھریلی گلیاں، صاف ستھرے چوڑے فٹ پاتھ یہاں ہمیں بچے اور لڑکیاں اسکوٹی چلاتے ملے، نوجوان لڑکوں کے پاس الیکٹرانک موٹر سائیکلیں تھیں۔ لڑکیاں بھی موٹرسائیکل چلا رہی تھیں مگر کبھی کبھار کوئی گاڑی گزرتی، بلڈنگیں بھی نئی بنی ہوئی صاف ستھری تھیں۔ لڑکے نے ہمیں Historia Hotel کے سامنے لا کھڑا کیا، جو نیا بنا ہوا ہوٹل تھا۔
وہ میرا بیگ رکھ کر کھڑا ہو گیا، اور ہاتھ کے اشارے سے پانچ کہا، جس کا مطلب تھا لاؤ میرا پانچ لیرا کا نوٹ۔ میں نے دس لیرا نکال کر اسے دے دیے۔
اس کا کام اس سے بھی زیادہ کا تھا اس نے خوش ہوکر مجھے دیکھا اور سینے پر ہاتھ رکھ کر تشکرم کہا اور اپنی زبان میں کچھ الفاظ کہے۔ ہوٹل والا لڑکا میرا سامان اٹھانے آیا تھا، اس نے انگریزی میں مجھے بتایا کہ یہ کہہ رہا ہے تمہارا دل میری ماں کی طرح خوب صورت ہے۔ میں اب دس لیرا سے اپنی ماں کے لیے روٹی لے کر جاؤں گا۔ میں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور وہ تیزی سے واپس پلٹا اور بھاگتا ہوا واپس گلی کی طرف مڑگیا۔
یہ مختلف رویے تھے جو استنبول میں داخل ہوتے ہی ہم نے دیکھے۔ ٹیکسی والے نے ہمیں جس جگہ اتارا تھا وہ فاتح کے پچھلی طرف کا علاقہ تھا۔ ایک طرح سے اس نے بھٹکا دیا تھا مگر اللہ اپنے بندے کو جس جگہ پہنچانا چاہتا ہے پہنچا دیتا ہے۔ ایک خوب صورت احساس جو استنبول میں داخل ہوتے ہی ہوا وہ یہ کہ کوئی بغیر محنت کے پیسے نہیں لینا چاہتا ہے۔
ہم استنبول کے غریب ترین علاقے سے گزر کر آئے تھے مگر کوئی بھکاری ہمیں نظر نہیں آیا۔ نہ کسی نے دامن پکڑ کر بھیک مانگی نہ چار کھلونے ہاتھ میں پکڑ کر کہا کہ یہ لے لو ورنہ کچھ روپے دے دو۔ جو غریب لوگ فٹ پاتھ پر بازار لگائے بیٹھے تھے لوگ ان سے چیزیں خرید رہے تھے، بھیک نہیں دے رہے تھے۔
میں ہمیشہ لوگوں کا مشاہدہ کرتی ہوں۔ مجھے ان سے ملنا باتیں کرنا اچھا لگتا ہے۔ پرانی عمارتیں، میوزیم، عجائب گھر گزرے وقت کی کہانیاں سناتے ہیں۔ محلے، گلیاں، بازار اور لوگ ہمارا حال ہیں۔
میں نے اور عزیز نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم استنبول کو عجائب گھروں میں تلاش نہیں کریں گے۔ استنبول میں بہت عجائب گھر یا میوزیم ہیں جس کے باہر لمبی لمبی لائنیں لگی نظر آتی ہیں، اندر شیشے کی الماریوں میں حنوط شدہ ماضی ہوتا ہے۔ مجھے میوزیم میں جا کر یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے میں کسی مردہ خانے میں آگئی ہوں اور مجھے زندگی پسند ہے۔
ہمیں ہوٹل کے مالک نے بتایا کہ آپ کا کمرا ہم نے اردن کے مہمانوں کو دے دیا ہے، کیوںکہ آپ کو آنے میں دیر ہوگئی تھی، اب سیکنڈ فلور پر جو کمرا ہے وہ پانچ بیڈ کا ہے، آپ وہاں آرام سے رہ سکتے ہیں چارجز وہی ہوں گے۔لیجیے جناب اس سے اچھی بات کیا ہوگی۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔ بھوک سے برا حال ہو رہا تھا۔
ابھی کھانے کا وقت نہیں ہوا تھا، سامنے ہی ایک سپر اسٹور تھا۔ عزیز جا کر نمکین لسی جسے وہاں Aron کہتے ہیں اور بسکٹ کے پیکٹ لے آئے۔ فریش ہونے کے لیے یہ کافی تھے اور ہم اپنے روم میں آگئے۔
کمرے کو دیکھتے ہی طبیعت خوش ہوگئی، بہت بڑا اور شان دار کمرا تھا۔ کافی بڑا واش روم ، ٹھنڈے اور گرم پانی، اے سی اور ٹی وی کی سہولت ساتھ گیلری اور استنبول کا نظارہ۔ اور سب سے خوب صورت باسفورس کا جھلملاتا پانی اور اس پر تیرتے ہوئے اسٹمر، بوٹ، چھوٹی بڑی کشتیاں ایک لمحے کے لیے انسان کو سحر زدہ کردیتی ہیں۔
آئیے ہم اپنے تیسرے پڑاؤ پر کچھ دم لینے کو رکتے ہیں تاکہ تازہ دم ہو کر اپنے اگلے پڑاؤ کے لیے چل پڑیں۔