کوچۂ سخن

پتھروں نے جو گلابوں کی قبا پہنی ہے<br /> ایسا لگتا ہے چراغوں نے ہوا پہنی ہے

فوٹو: فائل

غزل
پتھروں نے جو گلابوں کی قبا پہنی ہے
ایسا لگتا ہے چراغوں نے ہوا پہنی ہے
اپنے ہاتھوں سے مری ماں نے سجایا سرپر
میں نے ٹوپی نہیں پہنی ہے دعا پہنی ہے
تم سے جھڑجائیں گے اخلاص کے گوہر سارے
تم نے یہ تاج نہیں پہنا انا پہنی ہے
تحفتاً تم نے گھڑی دی تھی محبت میں مجھے
دیکھ لو آج وہی جانِ ادا پہنی ہے
سچ نظر آتا نہیں ہے تو پہنتے کیوں ہو
کس لئے آنکھوں میں تم نے یہ دوا پہنی ہے
شور نغموں کا سنائی نہیں دے گا مجھ کو
میرے کانوں نے فقظ تیری صدا پہنی ہے
کلیم شاداب۔ آکوٹ ضلع آکولہ، مہاراشٹر ،بھارت)


۔۔۔
غزل
کبھی دریچہ کبھی در، دھڑ کنے لگتا ہے
ہمارے دل کی طرح گھر دھڑ کنے لگتا ہے
وہ دل بناتا ہے پتھر پہ اتنی خوبی سے
پھر اس کے بعد تو پتھر دھڑ کنے لگتا ہے
جڑ ے ہیں سارے نظارے اسی کی نظروں سے
وہ دیکھتا ہے تو منظر دھڑ کنے لگتا ہے
کبھی کبھی تو یہ ہوتا ہے بے قرار اتنا
نکل کے سینے سے باہر دھڑ کنے لگتا ہے
ذرا سی دیر برابر میں بیٹھتا ہے کوئی
ہمارا دل بھی برابر دھڑ کنے لگتا ہے
عجیب بات ہے جب ٹوٹتا ہے دل شرجیلؔ
کچھ اور پہلے سے بہتر دھڑ کنے لگتا ہے
(شرجیل انصاری۔ ممبئی ، بھارت)


۔۔۔
غزل
اس کی خوشبو لئے آتے ہیں جی جلاتے ہیں
مثل جاناں یہ حسیں گل مجھے تڑپاتے ہیں
چھوڑ جاتے ہیں لکھے وقت مقرر پر سب
چاند تارے مجھے راتوں کو یہ سمجھاتے ہیں
مجھ کو لگتا ہے کوئی رحم ہوا ہے مجھ پر
کچھ شناسا جو مجھے سانپ نظر آتے ہیں
اس کے چہرے پہ لکھا لفظ جدائی دیکھا
جس کی تفسیر کئے چھوڑ گلی جاتے ہیں
کچھ حسیں خواب جنہیں نوچ کے پھینکا ہم نے
اب تو وہ پاس بھی آتے ہوئے گھبراتے ہیں
درد و غم اس دلِ بے تاب کے یوں دوست بنے
مجھ کو تنہائی میں اکثر یہی بہلاتے ہیں
اک ترا درد جدائی ہے بھلاؤں کیسے
بارہا شعروں میں اس درد کو دہراتے ہیں
(عامرمعان۔ؔ کوئٹہ)


۔۔۔
غزل
خموشی توڑ کے اک دن سبھی کردار بولیں گے
سنائی دے اگر تم کو، در و دیوار بولیں گے
مرے حق میں نہیں ہو تم، یہ میری بدنصیبی ہے
مرے حق میں مگر میرے، کئی غمخوار بولیں گے
میں کیسا ہوں میں کیسا تھا تمہیں کیسے بتاؤں میں
میں کیسا ہوں میں کیسا تھا مرے سب یار بولیں گے
اگر چپ سادھ بھی لوں میں مجھے اتنی سہولت ہے
مری غزلیں، مری نظمیں، مرے اشعار بولیں گے
کبھی جو پھر ملیں دونوں چھڑیں گے پھر نئے قصے
کبھی کچھ کام کی باتیں، کبھی بیکار بولیں گے
زباں کو تم نہ کھولو گے مجھے معلوم ہے لیکن
تری پلکیں، تری نظریں، ترے رخسار بولیں گے
چھپانا بھی اگر چاہو مجھے کتنا چھپاؤ گے
ترے بھیتر ارے ناداں، مرے آثار بولیں گے
انہیں تم لاکھ سمجھا لو مگر سمجھا نہ پاؤ گے
جہاں بیٹھے تھے ہم مل کر، وہی اشجار بولیں گے
میں تم کو بھول بھی جاؤں جہاں والے نہ بھولیں گے
تو میرا تھا، تو میرا ہے، یہی ہر بار بولیں گے
(کاظم علی۔ بورے والا)


۔۔۔
غزل
جاڑا تو وہ نہیں ہے مگر دھند ہے بہت
پھر جانا بھی ہے تم کو، جدھر دھند ہے بہت
اس دل میں کون آیا گیا کیا خبر، مجھے
آتا نہیں ہے کچھ بھی نظر، دھند ہے بہت
کچھ دن تو میرے پاس رہو، میرے آس پاس
آتے ہی چل پڑے ہو کدھر، دھند ہے بہت
آ جاؤ کہ ہم ان کا سہارا بنے رہیں
ہوں گے بہت اداس شجر،دھند ہے بہت
جیسے ملیں، جہاں بھی ملیں کوئی ڈر نہ ہو
اچھا ہے یہ تو اور، اگر دھند ہے بہت
دھندے تمام جاری و ساری ہیں ہر طرف
اب ہے کسی کا خوف نہ ڈر،دھند ہے بہت
اب بھی تمہارے چاہنے والے نہیں ہیں کم
لیکن ابھی جنابِ ظفر، دھند ہے بہت
(امتیاز انجم۔ اوکاڑہ)


۔۔۔
غزل
میں اپنی مرضی سے منظر بدل نہیں سکتا
مقدروں میں جو لکھا ہے ٹل نہیں سکتا
مرے مزاج میں برسوں کی غم شناسی ہے
میں چاہتا ہوں مگر پھول پھل نہیں سکتا
نو واردانِ محبت میں اتنا جوش کہاں
یہاں سے چشمۂ وحشت اُبل نہیں سکتا
یہ کس طرح کی اذیت نے پاؤں جکڑے ہیں
عجیب دورِ مسافت ہے چل نہیں سکتا
میں شعر کہہ کے تدبر کے بیج بوتا ہوں
یہ میری فکر کا سورج ہے ڈھل نہیں سکتا
(مستحسن جامی ۔خوشاب)


۔۔۔


غزل
تو پھر کیسا لگا خود کو رلاکر؟
مری تنہائی بولی مسکرا کر
ہماری نیند شب بھر جاگتی ہے
کسی کے خواب کا تکیہ لگا کر
کسی کو دیکھنے آتے رہیں گے
ہم اپنے دل کو گل دستہ بنا کر
مرے صحرا پہ قبضہ کر گیا ہے
کوئی قالین سبزے کا بچھا کر
کبھی دل سے کہو اسکول جائے
کسی کے عشق کا بستہ اٹھا کر
میں خود الجھن میں عادس ؔپڑ گیا ہوں
محبت کا اسے رستہ دکھا کر
(امجد عادس ۔ راولا کوٹ ، کشمیر)


۔۔۔
غزل
کہتا سب کو اچھا ہے
لیکن اپنی کرتا ہے
جال کشادہ کرتے ہیں
دیکھیں کیسے بچتا ہے
اُس میں کیسی گنجائش
جو پہلے سے سستا ہے
ہم افسردہ لوگوں پر
گہرا کالا جچتا ہے
آپ نے ہم کو سمجھایا
کونسا بہتر رستہ ہے
بچنے والے پچھتائیں
اتنا میٹھا ڈستا ہے
(عظیم کامل۔ جام پور)


۔۔۔
غزل
بجلیاں سی دشتِ حسرت پر گرا کے چل دیے
غیرتھے وہ غیر کواپنا بناکے چل دیے
رات میری آنکھ نے اِک خواب کے بوسے لیے
اور کچھ سپنے مری نیندیں اڑا کے چل دیے
ہوگیا تحریرسہواً ہم سے اُس کانام جب
بس وہ اتنی بات پر پنگی بجا کے چل دیے
جب تِری تصویر بن کر رو پڑا ابرِ حسیں
کہکشاں سے دھوم تارے اِک مچاکے چل دیے
اپنی ہمت تولنے وہ درد کی میزان پر
خار اپنی راہ میں ہر سُو کے بچھا کے چل دیے
دشمنوں سے ہوسکے نہ زیرجب اقبال ہم
دوست اپنے پھر ہمارا سر اڑا کے چل دیے
روزہ دارِ عشق کوجب نہ ملا افطار تو
پی کے جعفر اشکِ غم و ہ کھلکھلا کے چل دیے
(اقبال جعفر، درگ)


۔۔۔
غزل
منع ہے جو بھی وہی بولنے کی عادت ہے
قتل کرو کہ مجھے سوچنے کی عادت ہے
یہ بات جان لے وہ دل سے چاہتا ہے تجھے
ترے حضور جسے کانپنے کی عادت ہے
یہی رہوں گا،اسے یادکر رہا ہو ں گا
میں وہ نہیں ہوں جسے بھاگنے کی عادت ہے
ضرور اس کو ستایا گیا ہے یادوں سے
جسے بھی رات گئے جاگنے کی عادت ہے
وہ بات بات پہ جانے کی دھمکیاں دیتا
اسے خبر تھی مجھے روکنے کی عادت ہے
فرق نہیں کہ گلے میں ہو،آستین میں ہو
وہ کاٹتا ہے جسے کاٹنے کی عادت ہے
غریبِ شہر کی حاجت کا کیا مداوا ہو؟
امیرِ شہر کو جب مانگنے کی عادت ہے
نہیں ہے چین کہیں اور نہیں قرارعقیلؔ
میں کیا کروں کہ اسے دیکھنے کی عادت ہے
(عقیل نواز۔ اسکردو)


۔۔۔
غزل
گزر جائیں گے روز و شب تمھارے ہی خیالوں میں
کہ رونا عمر بھر ہے اب تمھارے ہی خیالوں میں
کسی محفل میں دل میرا نہیں لگتا مرے دلبر
سکوں میرا چھپا ہے سب تمھارے ہی خیالوں میں
نہ مجھ کو چین لینے دے زمانہ جب کسی پہلو
جگہ میں ڈھونڈتا ہوں تب تمھارے ہی خیالوں میں
یہ جسم و جان تب جا کر، کہیں آرام پاتے ہیں
مری نس نس یہ ڈوبے جب تمھارے ہی خیالوں میں
مرے دلبر مرے ہمدم ملے تھے قافیے جتنے
وہ میں نے لکھ دیے ہیں سب تمھارے ہی خیالوں میں
سلامت ہم نکل آئیں نہیں ممکن رہا اب تو
کچھ ایسے ہم گئے ہیں دب تمھارے ہی خیالوں میں
بتا مجھ کو کروں کیسے تمھاری بات رد راحلؔ
کہ بستا ہے مرا تو رَب تمھارے ہی خیالوں میں
( علی راحلؔ۔ بورے والا)


۔۔۔
غزل
زخموں سے چور اس کی گلی سے تھے آئے ہم
لیکن گلہ کا لفظ لبوں پر نہ لائے ہم
اس نے رکھا ہمارے ٹھٹھرتے لبوں پہ لب
ایسا لگا تپش کی کسی زد میں آئے ہم
اک عمر بعد آنکھ اٹھی چاند کی طرف
اک عمر بعد آج بہت مسکرائے ہم
بیٹھے رہے ہیں حسنِ مکمل کے قرب میں
بے شک تھی کالی رات مگر جگمگائے ہم
اک مہ جبیں کی یاد تھی ہر ایک شعر میں
اپنی غزل کو آج بہت گنگنائے ہم
حامدؔ عجیب خواب تھا، دیکھا جو کل کی رات
اپنی طرف تھے آپ ہی پتھر اٹھائے ہم
(سید حامد حسین شاہ۔ مانسہرہ)


سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

Load Next Story