اقوم متحدہ کے لیے پہلا امتحان مسئلہِ کشمیر
یو این کے ٹیبل پر اُس کی 75 سالہ تاریخ میں مسئلہ کشمیر 71 سالہ سب سے پر انا مسئلہ ہے
اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتھ ہی 24 اکتوبر 1945 میں اقوام متحدہ کا ادارہ تشکیل پا گیا اور پھر اس کے تین ماہ نو دن بعد 2 فروری 1946 کو اس کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے سیکرٹری جنرل ناورے کے ٹریگولی Traygve Lie منتخب ہوئے جو اس عہدے پر 10 نومبر 1952 تک فائز رہے اِن کے دور میں اقوام متحدہ کے چارٹر پر عملد ر آمد شروع ہو ا اور بتدریج غلام یعنی نو آبادیاتی نظام میں جکڑے ملک سیاسی طور پر آزاد اور خود مختار ہو کر اقوام متحددہ کے رکن بھی بننے لگے۔
یہ زمانہ یا دور پوری دنیا کے لیے بہت عجیب سا تھا ۔ ایک جانب دنیا کی 3% سے زیادہ آبادی اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گئی تھی اور جسمانی طور پر اس سے دگنی آبادی زخمی اور معذور ہوئی تھی۔ 6 اور9 اگست 1945 کو دنیا میں پہلی مرتبہ ایٹم بم جیسا ہتھیار استعمال ہو چکا تھا۔
جرمنی، فرانس ، برطانیہ، روس سمیت پورے یورپ اور ایشیا میں جاپان ، ہانگ کانگ برما اور اسی طرح افریقہ کے اکثر ملکوں کے شہر ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل ہو چکے تھے، چین سمیت کچھ ملکوں میں کنٹرول میں نہ آنے والی آزادی کی مسلح تحریکیںبڑی قوتوں کے لیے چیلنج بن گئیں تھیں ۔
اب ایک جانب خصوصاً مغربی یورپ اورجاپان کی تعمیر نو کا عمل تھا جس کو نہایت تیزرفتاری سے اور مختصر عرصے یعنی دو تین برسوں میں مکمل کرنا تھا تاکہ اِن ملکوں کے عوام کا اعتماد بحال ہو سکے اور پوری دنیا کو یہ یقین بھی دلانا تھا کہ اقوام متحد ہ کا ادارہ واقعی دنیا میں امن قائم کر دے گا اور اب دنیا میں کو ئی عالمی جنگ نہیں ہو گی یہ پوری دنیا کی سیاست ،اقتصادیات، معاشیات اور زندگی کے دیگر تمام شعبوں کے لیے ایسا تھا جیسے کسی پرانی عمارت کو گر ا کر وقت کے تقاضوں اور مستقبل کے تمام اندیشوں اور امکانات کو مدِنظر رکھ کر نئی مضبوط اور پختہ عمارت تعمیر کے مرحلے میں ہو لیکن چونکہ کہ اُسی وقت نو آبادیاتی قوتوں نے اپنے سیاسی اقتصادی مفادات کو پیشِ نظر رکھ کر اِن غلام ملکوں کو آزاد کر نے کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔
یورپ کی تقریباً 90% اور باقی د نیا کی تقریباً 30% آبادی ذہنی اور نفسیاتی طور پر دوسری جنگ عظیم سے متا ثر ہوئی تھی ۔ یوں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس پوری عالمی صورتحال میں پوری دنیا کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے کی حیثیت ایک ری ہیبلی ٹیشن سنٹر یعنی بحالی و آباد کاری کے مرکز کی سی تھی ۔
اس ساری صورتحال میں عالمی طاقتوں نے اپنی ریشہ دوانیاں شروع کر دیں اور سیاسی نو آبادیاتی نظام سے آزاد ہو نے والے ملکوں کو اپنے اقتصادی نوآبادیاتی نظام میں جکڑ لیا اور ساتھ ہی ساتھ خود کو بھی مضبو ط کیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب دوسری جنگِ عظیم ختم ہوئی اور اقوام متحدہ کا ادارہ قائم ہو ا تو چین ، پاکستان ، بھارت ، مصر ،انڈو نیشیا ، ملائشیا،شام ،عراق، ایران ، سوڈان ،سعودی عرب، تیونس،یمن،ایسے ملک تھے کہ اگر یہاں کے عوام باشعور ہوتے، شرح خواندگی زیادہ ہوتی اور قیادت تسلسل کے ساتھ بہتر انداز کی میسر آتی تو صورت بہتر ہوتی۔
اِن ملکوں میں پہلے نمبر پر مکمل آزادی،خودمختاری اور خود انحصاری کے لحاظ سے چین اہم رہا اور اُس نے جلدہی دنیا بھر میں اپنے آپ کو مکمل آزاد ، خود مختار اور خود انحصار ملک کی حیثیت سے تسلیم کر والیا اس کے بعد ایک عرصے تک بھارت دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت اور قدرے آزاد خارجہ پالیسی کے ساتھ ایک ایسا بڑا ملک رہا جس کے مستقبل کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ ملک اگر ہمسایہ ملکوں سے اپنے تعلقات بہتر کر لے گا تو نہ صرف بھارت دنیا کا اہم ملک بن جائے گا بلکہ وہ علاقے کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر اِن ملکوں کے بلاک کی بنیاد پر اس دنیا میں عالمی سطح کی مثبت تبدیلیوں کا سبب بنے گا، حکمت و دانائی کے لحاظ سے برصغیر کی اس اہمیت کو 1916 ہی میں قائداعظم نے سمجھ لیا تھا لیکن ہندو مسلم اتحاد کو آل انڈ یا کانگریس اور خصوصاً پنڈت موتی لال نہرو نے بہت نقصان پہنچایا، اور پھر 14 اور15 اگست 1947 کو برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان اور بھارت ،آزاد ملک کہلائے اور اس سے تقر یباً دو سال قبل اقوام ِ متحدہ کا ادارہ تشکیل پا چکا تھا۔
1946 تک تو اقوام متحدہ نے ابتدائی کام شروع کیا لیکن ساتھ ہی پہلے پہلے آزاد ہو نے والے بڑے اور اہم ملک جو برطانیہ کی نوآبادیات تھے اِن کی آزدی کے مراحل ہی میں قتل وغارت گری خانہ جنگی اور پھر جنگوں کی صورتحال پید اہو گئی، برطانوی نو آبادیات میں برطانیہ کو سب سے زیادہ فائد ہ پہنچانے والا برصغیر جس کو انگریز سونے کی چڑیا کہتے تھے یہاںانگریزوںنے 1945-46 کے موسم سرما میں گیارہ صوبائی اسمبلیوں اور ساتھ ہی مرکزی یا سنٹرل اسمبلی کے لیے جداگانہ بنیادوں پر انتخابات کر وائے جن میں صوبائی سطح پر مسلم لیگ نے مسلم نشستوں پر 90% اور مرکزی اسمبلی کی مسلم نشستوں پر 100%کو کامیابی حاصل کی جس کے نتیجے میں اِن انتخابات کی بنیاد پر آزادی سے قبل مشترکہ ہند وستان میں ایک قومی حکومت تشکیل دی گئی جس کے وزیر اعظم آل انڈیا کانگریس کے صدر پنڈت جواہر لال نہرو ہوئے اور باقی کابینہ میں مسلم لیگ اور کانگریس کے وزرا شامل تھے جن میں مسلم لیگ کی طرف سے اہم وزیر یعنی وزیر ِ خزانہ نوابزادہ لیاقت علی خان تھے اور کانگریس کی جانب سے اہم وزیر ِ داخلہ سردار ولب بھائی پاٹیل تھے۔
برصغیر میں انگریزوں کی تعداد کم و بیش ایک لاکھ تھی مگر انھون نے بہت کم تعداد میں ہو نے کے باوجود جس حکمت و دانائی سے چالیس کروڑ کی آبادی پر حکومت کی اس میں دو چیزیں اہم تھیں ایک مقامی چالیس کروڑ آبادی کو تقسیم کرو لڑاؤ اور حکومت کرو دوسرا برصغیر کا جاگیر دارانہ نظام تھا جو بہت مستحکم انداز میں انگریزوں کو مغلوں کی حکومت ہی سے ملا تھا اور اس جاگیر دارانہ نظام کو انگریزوں نے اپنے طور پر اپنے حق میں زیادہ بہتر انداز میں تبدیل بھی کیا تھا افغان ، ترک اور مغل جب سنٹرل ایشیا اور افغانستان سے برصغیر آئے تو اِن حملہ آور باد شاہوں کی اپنی باقاعدہ فوج سے کہیں زیادہ قبائلی لشکر اِن کے ساتھ ہو اکرتے تھے یوں جب یہ بادشاہ ہندوستان کو فتح کر لیتے تھے تو اِن کے اپنے قبیلے سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ بڑی فوج تو مرکز یعنی دارالسلطنت میں رہتی تھی اور کچھ دستے ہر صوبے میں صوبائی گو رنرکی ماتحتی میں ہوا کرتے تھے،جب کہ باقی قبائلی لشکر کی صورت یوں ہوتی تھی کہ اِن کے سرداروں کو اِن کے قبائلی لشکرکی تعداد کی بنیاد پر اہمیت دیتے ہوئے بڑے بڑے رقبوں پر مشتمل علاقے جاگیر کی صورت میں الاٹ کر دئیے جاتے تھے اور یہ قبائلی سردار یہاں ان ریاستوں کے نوابین ،راجے، مہاراجے، اور خوانین کہلاتے تھے۔
جہاں تک صوبوں کے گورنروں کا تعلق ہوتا تھا تو وہ اکثر و بیشتر بادشاہ کے خاندان کے قریبی رشتہ دار ہوا کرتے تھے یوں شہزادے یا بادشاہ کے بھائی ، چچا وغیرہ کو گورنر بنایا جاتا تھا، جاگیرداروں کی جاگیریں بنیادی طور پر بادشاہ کی جانب سے الاٹ کی جاتی تھیں اور ریاستوں کے حکمرانوں کی ذاتی ملکیت نہیں ہو اکرتی تھیں یعنی مغلوں کے دور ِ حکومت تک زمین کی نجی ملکیت کا تصور نہیں تھا بلکہ زمین مملکت کی ملکیت ہوا کرتی تھی، مغلیہ دورِ حکومت میں یہ جاگیردار اپنے لشکر کی بنیاد پر اپنی جاگیر میں امن وامان قائم رکھنے کے ذمہ دار ہوتے تھے اور جب کبھی بادشاہ کو اس کی فوج کی ضرورت ہوتی تو وہ با دشاہ کے وفادار مقامی حکمران کی حیثیت سے اپنی مقامی فوج کو اپنی کمانڈ میں لے کر پہنچ جاتا۔
ہندوستان میں ہندو پہلی بڑی اکثریت اور مسلمان دوسری اکثریت تھے اور مجموعی طور پر ہندوستان کی آبادی میں ہندوآبادی کا تناسب 70% اور مسلمان آبای 30 فیصد تھی مگر صدیوں کی مسلم حکومتوں کے دور اقتدار میں ہند و مسلم برداشت اور امن کے ساتھ رہ رہے تھے،انگر یز چونکہ اُس وقت ہندوستان میں آیا تھا جب علم و تحقیق کی بنیاد پر اہل مغرب اور خصوصاً انگریز دنیا میں بہت آ گے نکل چکے تھے اس لیے اِن کے حکومتی اور انتظامی امور بھی ٹیکنالوجی اور سائنسی برتری کے تابع تھے، یوں انگریزوں نے ہندوستان میں آتے ہی اس ملک کے سماج ،تہذیب،آبادی کے لسانی، مذہبی خط وخال اور سیاسی انداز کا تحقیقی بنیادوں پر مطالعہ کیا اور پھر یہاں معاشرتی تضادات کو اپنے مقاصد کے لیے ابھارتے ہوئے یہاں کے جاگیردارانہ نظام کواپنی ضروریات کے مطابق تبدیل کر کے استعمال کیا ۔
برطانیہ جس کی نو آبادیات میں سورج غریب نہیں ہوتا تھا وہاں برطانیہ میں تو جمہوریت کو تو فروغ حاصل ہو رہا تھا بلکہ 1857 تک جب ہندوستان میں علامتی مغلیہ بادشاہت کا خاتمہ بھی کر دیا گیا تھا تو برطانیہ میں روایتی طور پر عوام میں بادشاہت کی عزت اور شان و شوکت کسی طرح کم نہیں تھی تو دوسری جانب اُس وقت برطانیہ کی جمہوریت دنیا کے لیے مثالی تھی اور جہاں تک تعلق برطانیہ کی نو آبادیات کا تھا تو ہر غلام ملک میں انگریز سربراہ جو گورنرجنرل اور وائسرائے کہلاتا تھا اکثر وبیشتر برطانیہ کے شاہی خاندان ہی کا فرد ہوتا تھا،یہاں تک کہ آج بھی اِن کے ولی عہد اور شہزادے اعزازی طور پر اعلیٰ فوجی عہدہ رکھتے ہیں، شاہی خاندان کے اہم افراد ہاوس آف لارڈ کے رکن ہو تے ہیں یوں مقبوضہ ہندوستان میں انگریزوں کے دورِحکومت میں جہاں 540 سے زیادہ ریاستیں تھیں وہاں آزادی اور تقسیم ہند کے وقت تک گیارہ صوبے بھی تھے صوبائی اور مرکزی حکومت پر برطانوی حاکمیت کے لحاظ سے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی شخصیت گو رنر جنرل کہلاتی تھی اور یہی شخصیت ریاستوں کے لیے وائسرائے یعنی بر طانوی شہنشاہیت کی جانب سے بادشاہ کا نائب یا نائب بادشاہ ہواکرتا تھا۔
انگریز وں کی کل تعداد یہاں ایک لاکھ تھی یوں یہاںنوآبایاتی نظام کو قائم رکھنے کے ساتھ صنعتی تجارتی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے نظام چلانا تھا اور اس کے لیے مختلف شعبوں میں تعلیم و تکنیک کی بنیاد پر یہاں افرادی قوت تیار کی اور اگرچہ اعلیٰ سطح پر انگریز ہی بیوروکریسی کے لحاظ سے فائز تھے مگر جنگ عظیم اوّل اور دوئم کے بعد انگر یز فوج اور سویلین افسران کی سطح پر انگریز افرادی قوت کی کمی کا شکار ہوئی تو ہندوستانی افسران کی کچھ تعداد بھی اس نظام میں شامل ہوگئی۔
1885 ء میں آل انڈ یا کانگریس اور پھر 1906ء میں مسلم لیگ کے قیام سے ہندوستان کے خصوصاً غیر ریاستی علاقوں میں سیاسی شعور کی سطح بلند ہو رہی تھی۔ قائداعظم نے جنگ عظیم اوّل کے دوران یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ انگریز چاہے یہ جنگِ عظیم اوّل جیتے یا ہارے ہر دو صورتوں میں تاج برطانیہ کی حکمرانی جو دنیا کے چوتھائی آبادی اور رقبے پر قائم ہے اِس پر اس کی گرفت کمزور ہو جا ئے گی اور یہیں سے برصغیر کی آزادی کا سورج طلوع ہو گا ۔
پہلی جنگ عظیم سے دوسری جنگ عظیم تک عالمی سیاسی، اقتصادی صورتحال میں کافی تبدیلی آچکی تھی جس کے پیش ِ نظر انگریز ہندوستان میں احتیاط سے معاملات کو آگے بڑھا رہا تھا اُسے ہند وستان کی ہندو اکثریت کے دباؤ کا بھی سامنا تھا اور مسلم اکثریت کا بھی خوف تھا کیونکہ یہ بھی کل آباد ی کا 30 فیصد تھی اور یہ اکثریت برصغیر میں افغانستا ن ،ایران، چین اور برماکی سرحدوں کے نزدیک تھی یوں انگریز نے پہلی کوشش یہ کی کہ کسی طرح برصغیر کی تقسیم سے قائد اعظم کو باز رکھا جائے اور جب برطانوی سرکار کو یہ یقین ہو گیا کہ قائد اعظم کسی صورت میں اس پر آمادہ نہیں ہو رہے تو اُنہوں نے برصغیر کے بارے میں اس کی تقسیم کی بنیاد پر اپنے منصوبے کو اپنی مرضی اور مفادات کے مطابق جلد از جلد طے کر نے کی حکمت عملی بنائی اور واقعات اور حالات کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ کانگریس اور انگریز نے یہ طے کیا تھا کہ تقسیم اتنی جلدی اور ایسی کی جائے کہ دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک کی حیثیت سے ابھرنے والاپاکستان ناکام ہو جائے۔
مارچ 1947 ء کو ہندو ستان سے لارڈ وویول رخصت ہوا تو اُس کی جگہ لارڈ ماونٹ بیٹن آخری گورنر جنرل اور وائسرائے بن کر ہند وستان آیا اور 3 جون 1947ء کو تقسیم ہند اور پاکستان اور بھارت کی آزادی کے منصوبے کا اعلان کر دیا، جب کہ اِس منصوبے کی تفصیلات کی حتمی اور قانونی شکل 18 جولائی 1947 ء کو برطانوی پارلیمنٹ میںقانون آزادیِ ہند کے عنوان سے پاس ہونے والا قانون تھا۔ اس سے قبل ہندوستان میں آئینی حیثیت کا حامل قانون ہند 1935 ء بھی برطانوی پارلیمنٹ نے بنایا تھا، اس قانون کے ساتھ ہی قانون آزادی ہند کی بنیاد پر برصغیر کی تقسیم کے تمام امور طے کئے گئے جس کے مطابق پاکستان اور بھارت کو 14 اور15 اگست 1947 کو دو الگ ملکوں کی حیثیت دے دی جائے گی اور پہلے سال ان کی حیثیت ڈومینین اسٹیٹ کی ہو گی اور قانون ہند 1935 ہی نافذالعمل رہے گا ۔
واضح رہے کہ بھارت کا گورنرجنرل لارڈ ماونٹ بیٹن ہی تھا اور پاکستان کے گور نر جنرل قائداعظم محمد علی جناح تھے اور یہ بھی واضح رہے کہ1956 تک جب ہم نے اپنا آئین نہیں بنایا تھا برطانیہ کا بادشاہ ہمارا آئینی سربراہ تھا اور اس کے بعد ملکہ برطانیہ الزبتھ ہماری آئینی سربراہ اور ملکہ ہو گئی۔ البتہ بھارت نے آزادی کے ایک سال بعد اپنا آئین بنا لیا تھا۔
ہند وستان کی 540 سے زیادہ ریاستوں کے حوالے سے 18 جولائی1947 کے قانون ِ آزادیِ ہند میں یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ اِن کے حکمران اپنی ریاستوں کی سرحد ی قربت اور عوام کی اکثریت کی مرضی کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان یا بھارت دونوں میں سے کسی ایک میں شمولیت کا فیصلہ کریں گے، اسی طرح ہند ومسلم اکثریت کی بنیاد پر پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا فیصلہ تھا بلوچستان کے لیے کوئٹہ میونسپل کمیٹی کے غیر سرکاری اراکین اور شاہی جرگہ کے اراکین نے پا کستان یا بھارت میں شمولیت کا فیصلہ کرنا تھا جب کی مشرقی پاکستان میں سلہٹ ضلع میں اور کے پی کے میں عوامی ریفرنڈم کے ذریعے فیصلہ ہونا تھا کہ یہ علاقے بھارت یا پاکستان میں شامل ہوں اور سندھ کے لیے یہ طے پایا تھا کہ سندھ کی صوبائی اسمبلی کے اراکین کی اکثریت یہ فیصلہ کرے گی ۔
قائد اعظم اپنے ویژن کی بنیاد پر یہ جان گئے تھے کہ پاکستان کے ساتھ ناانصافی کی جا رہی ہے لیکن اُن کے پاس وقت بہت کم تھا اُن کے معالج ڈاکٹر پاٹیل نے اُنہیں بتا دیا تھا کہ ٹی بی کی بیماری اُن کے پھیپھڑوں کو تباہ کر چکی اور موت نزدیک ہے۔ قائد اعظم کو ادراک تھا کہ اُن کے بعد پاکستان کو آزاد کرانا مشکل ہو جائے گا وہ اس کے لیے اپنی اسٹرٹیجی طے کر چکے تھے کہ اللہ اُنہیں اتنی زندگی ضرور دے گا کہ وہ اپنی زندگی میں یہ تاریخی فریضہ ضرور ادا کریں گے۔
1941 کی مردم شماری کے مطابق مشترکہ پنجاب کی کل آبادی28418819 تھی جس میں مسلمانوں کی تعداد 16217242 تھی یوں مجموعی طور پر پنجاب کی 57% آبادی مسلمان تھی اور بنگال کی کل آبادی60306525 تھی جس میں مسلمانوں کی آبادی33005434 تھی اور یہاں بھی مسلمان آبادی 54.73 فیصد تھی لیکن مشرقی پنجاب میں سکھ اور ہندو قدرے اکثریت میں تھے جب اِ ن دونوں صوبوں کی تقسیم آبادی کی اکثریت والے علاقوں کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ ہوا تو قائد اعظم یہ جانتے تھے کہ 1946 جنوری تک ہو نے والے مشترکہ ہند وستان کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ اور کانگریس کی مشترکہ قومی حکومت تشکیل پائی ہے اُس میں وازارت ِداخلہ کانگریس کے نہایت متعصب ہندو لیڈر ولب بھائی پاٹیل کو دی گئی ہے اور اس تقسیم کے نتیجے میں پاکستان کے ساتھ زیادتی ہو گی۔
یوں قائد اعظم نے یہ تجویز دی کہ یہ تقسیم اقوام ِمتحدہ کے تحت کرائی جائے اور جب اس تجویز کو رد کیا گیا تو قائد نے یہ کہا کہ پنجاب کی تقسیم لندن کی پریوری کونسل کرے مگر اس کے لیے ریڈ کلف کو برطانوی حکومت نے تعینات کیا اور پھر اس تقسیم میں سازش کے تحت مشرقی پنجاب کے گورداسپور، فیروزپور اور زیرہ کے مسلم اکثریت کے علاقے بھارت کو دے دیئے گئے اور سردار ولب بھائی پاٹیل نے سکھوں اور ہندوں کے جتھوں کے ذریعے فوراً ہی یہاں فسادات کرائے اور مسلمانوں کا قتل عام صرف اس لیے کروایا کہ یہاں سے لاکھوں مسلمانوں کو نکال کر پاکستانی پنجاب میں دھکیل دیا جائے یہ اس لیے بھی کیا گیا کہ یہاں پانی کی تقسیم کے مادھو پور ہیڈ ورکس اور فیروز پور ہیڈ ورکس پر قبضے سے پاکستان کو جانے والے دریائی پانی پر کنٹرول حاصل کیا جائے اور ایک اور اہم وجہ تھی کہ کشمیر کو بیرونی دنیا کو ملانے والے چھ کے چھ راستے پاکستان سے گزرتے ہیں۔
یہاں مشرقی پنجاب میں اِن مسلم اکثریتی علاقوں کو بھارت کے حوالے کرنے سے پٹھان کوٹ سے ایک نیا اور مصنوعی راستہ بھارت کو فراہم کر دیا گیا اور اس کے بعد جب پاکستان اور بھارت آزاد ہوگئے تو کشمیر جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے یہاں مسلمانوں نے تحریک چلائی کہ کشمیر کا الحاق پاکستان سے کیا جائے اس پر بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کشمیر کے راجہ ہری سنگھ پر دباؤ ڈال کر ایک خاص منصوبے کے تحت کشمیر کا بھارت سے الحاق کروادیا اور تعجب کی بات یہ ہے کہ 18 جولائی1947 کے قانون آزادی ہند کے تحت برصغیر کی تقسیم کروانے والے لارڈ ماوئنٹ بیٹن نے بطور بھارت کے پہلے گورنرجنرل اس معاہدے پر دستخط کر دئیے البتہ یہ کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے بھی بعد میں اس مسئلے پر کشمیریوں کی مرضی معلوم کر نے کے لیے رائے شماری کی تجویز دی تھی لیکن اصول اور قانون کے مطابق لار ڈماوئنٹ بیٹن نے غلط کیا تھا کیونکہ قانون آزادی ِہند واضح تھا کہ ریاستوں کے حکمرانوں سے صاف کہہ دیا گیا تھا کہ اپنے عوام کی مرضی اور ریاست کی سرحدی قربت کو مدِنظر رکھ کر ہی یہ حکمران فیصلہ کر یں گے کہ ریاست کا الحاق پاکستان یا بھارت سے کیا جائے۔
بھارت نے ریاست حیدر آباد، بھوپال اور جوناگڑھ کے نوابین کے خلاف اسی بنیاد پر فوجی کاروائی کر کے اِن ریاستوں کو بھارت میں شامل کر لیا تھا کہ اِن کی آبادیوں کی اکثریت ہندو تھی اور سرحدی قربت بھی بھارت سے تھی مگر کشمیر کے اعتبار سے انگریز گورنر جنرل اور بھارت کا معیار دہرا تھا پھر جہاں تک انگریز دورِ حکومت میں ریاستوں کا تعلق تھا تو کشمیر کی حیثیت بھی تاریخی لحاظ سے ہندوستان کی دوسری ریاستوں سے مختلف تھی کہ یہ علاقہ انگریزوں نے رنجیت سنگھ کی موت کے بعد سکھوں سے جنگ میں فتح پانے کے بعد تاوان جنگ رقم کی کمی کو پورا کرنے کے لیے گلاب سنگھ کو 75 ہزار نانک شاہی کرنسی کے عوض فروخت کیا تھا ا س لیے یہ بھی ہو سکتا تھا کہ پاکستان 1947 کے مطابق اُس زمانے کی رقم کی قدر کی بنیاد پر ادائیگی کرکے مسلم اکثریت کا یہ علاقہ حاصل کر لیتا،بہرحال یہ مسئلہ تھا کہ اس کی بنیاد پر کشمیر میں 22 اکتوبر 1947 سے 5 جنوری1949 کو دونوں نئے آزاد ہونے والے ملکوں کے درمیان پہلی جنگ ہوئی، انگریز جنرل کمانڈر انچیف جو اس جنگ کے خلاف تھے۔
تو قائد اعظم کے حکم پر میجر جنرل خورشید انور، کرنل شیر، کرنل اکبر خان کے علاوہ وزیر ستان سے تعلق رکھنے والے قبائلی لشکر نے شرکت کی اور آزاد کشمیر،گلگت بلتستان کے علاقے آزاد کروا لیئے ، جولائی 1948 ء کے آغاز پر قائد اعظم کی ٹی بی نہ صرف شدت اختیار کر گئی تھی بلکہ اب یہ بیماری راز بھی نہیں رہی تھی اور قائداعظم کو دارالحکومت کراچی سے دور بلوچستان کے سرد پہاڑی علاقے زیارت منتقل کر دیا گیا تھا اور پھر اسی دوران پاکستان پر بیرونی دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ یہ جنگ روک دی جائے اور کہا جاتا ہے کہ قائد اعظم اس بات کو کسی صورت نہیں مان رہے تھے۔
غالباً وہ یہ جانتے تھے کہ جغرافیائی نقشے بدلنے والے تاریخی ارادے جب بہادری کی بنیاد پر مسئلے حل اور حتمی فیصلے کے قریب ہوں تو کبھی بھی ایسی تحریک کو نہیں روکنا چاہیے، کہ پرُجوش قومی اتحاد تسلسل کے ساتھ اگر منزل پر پہنچنے سے پہلے مصلحت کی بنیاد پر روک دیا جائے تو پھر اسے پہاڑ کی چوٹی سر کرنے والے ناکاموں کی طرح برفانی ڈھلوانوں پر کششِ ثقل کھینچ کر پستی میں دھکیل دیتی ہے۔ مگر قائد اعظم کی وفات کے تین مہینے پچیس دن بعد 5 جنوری 1949کو پاکستان نے اقوام متحد ہ کے کہنے پر یہ جنگ روک دی، اس جنگ کو رکوانے کیلئے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے خود کوشش کی تھی وہ کسی طرح مہلت چاہتے تھے اور بڑی قوتیں بھی یہ نہیں چاہتی تھیں کہ پاکستان اور کشمیریوں کی جانب سے مزید پیش قدمی ہو کیونکہ اس طرح اس علاقے میں اسٹریجک پوزیشن بھارت کے ہاتھوں سے چند مہینوں میں نکلنے والی تھی۔
اس کے بعد 27 جولائی 1949 کو پاکستان بھارت کے درمیان سیز فائر معاہدہ کراچی میں ہوا جس میں ضامن اقوام متحدہ تھا جو ثالثی کا کردار اس لیے ادا کر رہا تھا کہ اس کے لیے کمیشن، یو این فار انڈیا اینڈ پاکستان تشکیل دیا گیا تھا اور اس کے لیے بھارت نے اقوام متحدہ سے درخواست کی تھی اور اس میں شبہ نہیں کہ اصولی طور پر اقوام متحدہ کا کر دار اُس وقت جب یہ معاہدہ ہو رہا تھا شفاف تھا، اس معاہدے پر پاکستان کی طرف سے میجر جنرل ڈبلیو جے کاوتھون اور بھارت کی جانب سے لیفٹیننٹ جنرل شیر ینگیش نے اور اقوام متحدہ کی جانب سے دو نمائندوں ہیرنانڈوسامپر اور ایم، ڈیلو ئی نے دستخط کئے تھے یہ معاہدہ انگریزی میں تحریر کیا گیا تھا۔
یہ اقوام متحدہ کے قیام کے بعد اس کے سامنے آنے والا سب سے پہلا اور اہم ترین مسئلہ تھا، اور اس کا حل اس لیے آسان تھا کہ اس میں دونوں فریق اقوام متحدہ کے ساتھ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت اس کے اس حل پر متفق تھے کہ کشمیر کا فیصلہ یہاں کی مقامی آبادی اپنی مرضی سے ووٹ کی بنیاد پر اقوام متحد ہ کی نگرانی میں کیا جائے گا۔ معاہدہ کراچی میں بھارت اور پاکستان نے اقوام متحدہ کے نمائندوں کے سامنے جنگ بندی لائن کو تسلیم کر لیا تھا اور جو علاقے پاکستان کے پاس ہیں اُن میں پا کستان آج بھی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق رائے شماری کروانے کے لیے تیار ہے۔
پاکستان 30 ستمبر 1947 کو اپنے قیام کے ایک ماہ سولہ دن کے بعد اقو م متحدہ کا رکن بنا تھا اور اُس وقت اقوام متحدہ کو قائم ہو ئے ایک سال گیارہ مہینے چھ دن ہوئے تھے، بھارت جو انڈیا کے نام سے1919 میں قائم ہونے والی لیگ آف نیشن ''اقوامِ عالم'' میں برطانوی نوآبادی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑے ملک کی حیثیت سے اس کا رکن بنا تھا اس کی اسی رکنیت کے تحت30 اکتوبر 1945 کو اقوام متحدہ کے باقاعدہ قیام کے چھ دن بعد رکن بن گیا تھا، اور اِن دونوں رکن ملکوں کے درمیان کراچی معاہدے کی ثالثی اقوام متحدہ نے کرائی اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں جو قراردادیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے منظور ہوئیں اُس وقت اُن قرار دادوںکی حمایت سیکورٹی کونسل کے تمام ویٹو اراکین نے کی تھی اور ا صول و ضوابط کے مطابق اُن قراردادوں پر عملد آمد ہونا چاہیے۔
پاکستان کا موقف آج بھی یہی ہے کہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی اُنہی قراردادوں کے مطابق ہو جب کہ بھارت پہلے حیلوں بہانوں سے اِن قراردادوں پر عملدر آمد کو ٹالتا رہا اور پھر رقتہ رفتہ اِن سے منحرف ہونے لگا اور اب یہ صورت ہے کہ وہ اِن قرار دودوں کو تسلیم ہی نہیں کرتا اور چین کے علاوہ سیکورٹی کونسل کے چاروں اراکین یعنی امریکہ، برطانیہ ، فرانس اور روس کسی نہ کسی وقت اور کسی نہ کسی انداز سے کشمیر کے مسئلے پر سیکورٹی کونسل میں بھارت کی ناجائز حمایت کرتے رہے ہیں، آخری بار اس مسئلے پر 2019 میں فرانس نے بھارتی مفاد کے حق میں فیصلہ دیا۔
اقوام متحدہ کے ٹیبل پر اُس کی 75 سالہ تاریخ میں مسئلہ کشمیر 71 سالہ سب سے پر انا مسئلہ ہے جو سیاست کے لحاظ سے منفی اور مفاد پرستانہ عالمی رویوں کی وجہ سے اقوام متحدہ کے چارٹر اور حقوقِ انسانی کے لیے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ، یہ عالمی ادارہ دنیا کے ممالک اور عوام کی حکومتوں پر مشتمل ہے اور اس نے اپنے چارٹر اور ہیومن رائٹس کے ڈکلیریشن میں دنیا بھر میں ایک ملک پر کسی دوسرے ملک کی جارحیت کی شدت سے ممانعت کر رکھی ہے اسی طرح دنیا بھر میں انسانوں کی مرضی کے خلاف ظلم و جبر کی بنیاد پر حکومت کے خلا ف کاروائی کا حق اسکے چارٹر میں شامل ہے، مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ کا ادارہ کشمیر کے مسئلے کو اب تک حل نہیں کر پایا ہے ۔
یوم یکجہتی کشمیر
ویسے تو کشمیر کی تاریخ دور جدید میں دنیا کی مظلوم قوموں کی آزادی کا ایک استعارہ بن گئی ہے اور سال کے 365 دنوں کے اعتبار سے 76 برسوں کی خون آشام جدوجہد کی بنیاد پر ہر دن ہی ایسا دن ہے جو کشمیر اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے لحاظ سے اہم اور یادگار ہے کیونکہ اس دوران آزادی کشمیر کی راہ میں ایک لاکھ سے زیادہ کشمیری شہید ہوئے، اور اتنی ہی تعداد میں زخمی اور معذور ہوئے، ہزاروں خواتین کو بے آبرو کیا گیا ،لاکھوں بچے یتیم ہوئے لیکن آزاد ی کی یہ جدوجہد جاری رہی۔
1947-48 ء کی جنگ میں کشمیری مجاہدین ، پاکستانی فوج اور ہمارے شمالی وزیرستان اور قبائلی علاقوں کے مجاہدین نے مل کر آج کے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں کو آزاد کروا لیا۔
ہم یقینا اُس وقت بھارتی مقبوضہ کشمیر بھی آزاد کر وا لیتے مگر پاکستان نے اقوام متحدہ کی ضمانت اور اُس کے چارٹر پر یقین کرتے ہو ئے جنگ بندی اور اُس کی جنگ بند لائن کو تسلیم کر لیا ، مگر بعد میں ثابت ہوا کہ اقوام متحدہ مقررہ وقت میں اپنی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں رائے شماری کر واکر اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام ہو گیا ، مگر کشمیریوں نے اپنی آزادی کی جنگ جاری رکھی۔
اب جہاں تک تعلق 5 فروری یوم کشمیر کا ہے تو سب سے پہلے 1975 ء میں جب مقبوضہ کشمیر میں شیخ عبداللہ اور بھارت کی سابق وزریر اعظم اندرا گاندھی کے درمیان معاہد ہ طے پایا تو پاکستان میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 28 فروری 1975 ء کو کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہو ئے یوم یکجہتی ِ کشمیر منایا ۔
اس کے بعد جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کر کے اُن کو یوم یکجہتی کشمیر قومی سطح پر منانے کے لیے آمادہ کیا اور ساتھ ہی سابق وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو بھی اپنے خیال سے آگاہ کیا تو اُنہوں نے بھی پُر جوش انداز سے اس آئیڈیا کی تائید کی اور فیصلہ کیا گیا کہ 5 فروری کو ہر سال حکومت اور اپوزیشن یوم یکجہتی کشمیر منائے گی۔
اس دن کو منانے کے لیے اس کے بعد سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی نے 5 فروری کو زیادہ پُر جوش اور مو ثر انداز میں اپنانے کا فیصلہ کیا۔ 5 فروری 2004 ء کو سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی نے مظفر آباد میں آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں، جموں کشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا اور اس وقت امور کشمیر کے وزیر آفتاب احمد خان شیر پائو نے بھی اس اجلاس میں شرکت کی تھی۔
اس کے بعد سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ 5 فروری کو ہر سال مظفر آباد کی آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی میں پا کستان کا وزیراعظم یا اُس کے نامزدہ کردہ نمائندہ شرکت کرتا ہے اور ملک بھر میں قومی سطح پر عام تعطیل ہوتی ہے۔
اس دن کی اہمیت میں 5 اگست2019 ء کے بھارتی حکومت کے اس فیصلے کے بعد اضافہ ہو گیا جس کے مطابق بھارتی نے اپنے آئین کی شق 370 کو رد کر تے ہو ئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی ریاست کو ختم کر دیا ، اور اس سال یعنی2024 ء میں 5 فروری کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے کہ 10 دسمبر2023 ء کو بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی،وئی چندر چوڑئے نے بھارتی حکومت کے فیصلے کو بر قرار رکھا اور بھارتی الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ 30 ستمبر 2024 ء ریاست جموں وکشمیر میں عام انتخابات کر ائے جائیں۔
یہ زمانہ یا دور پوری دنیا کے لیے بہت عجیب سا تھا ۔ ایک جانب دنیا کی 3% سے زیادہ آبادی اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گئی تھی اور جسمانی طور پر اس سے دگنی آبادی زخمی اور معذور ہوئی تھی۔ 6 اور9 اگست 1945 کو دنیا میں پہلی مرتبہ ایٹم بم جیسا ہتھیار استعمال ہو چکا تھا۔
جرمنی، فرانس ، برطانیہ، روس سمیت پورے یورپ اور ایشیا میں جاپان ، ہانگ کانگ برما اور اسی طرح افریقہ کے اکثر ملکوں کے شہر ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل ہو چکے تھے، چین سمیت کچھ ملکوں میں کنٹرول میں نہ آنے والی آزادی کی مسلح تحریکیںبڑی قوتوں کے لیے چیلنج بن گئیں تھیں ۔
اب ایک جانب خصوصاً مغربی یورپ اورجاپان کی تعمیر نو کا عمل تھا جس کو نہایت تیزرفتاری سے اور مختصر عرصے یعنی دو تین برسوں میں مکمل کرنا تھا تاکہ اِن ملکوں کے عوام کا اعتماد بحال ہو سکے اور پوری دنیا کو یہ یقین بھی دلانا تھا کہ اقوام متحد ہ کا ادارہ واقعی دنیا میں امن قائم کر دے گا اور اب دنیا میں کو ئی عالمی جنگ نہیں ہو گی یہ پوری دنیا کی سیاست ،اقتصادیات، معاشیات اور زندگی کے دیگر تمام شعبوں کے لیے ایسا تھا جیسے کسی پرانی عمارت کو گر ا کر وقت کے تقاضوں اور مستقبل کے تمام اندیشوں اور امکانات کو مدِنظر رکھ کر نئی مضبوط اور پختہ عمارت تعمیر کے مرحلے میں ہو لیکن چونکہ کہ اُسی وقت نو آبادیاتی قوتوں نے اپنے سیاسی اقتصادی مفادات کو پیشِ نظر رکھ کر اِن غلام ملکوں کو آزاد کر نے کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔
یورپ کی تقریباً 90% اور باقی د نیا کی تقریباً 30% آبادی ذہنی اور نفسیاتی طور پر دوسری جنگ عظیم سے متا ثر ہوئی تھی ۔ یوں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس پوری عالمی صورتحال میں پوری دنیا کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے کی حیثیت ایک ری ہیبلی ٹیشن سنٹر یعنی بحالی و آباد کاری کے مرکز کی سی تھی ۔
اس ساری صورتحال میں عالمی طاقتوں نے اپنی ریشہ دوانیاں شروع کر دیں اور سیاسی نو آبادیاتی نظام سے آزاد ہو نے والے ملکوں کو اپنے اقتصادی نوآبادیاتی نظام میں جکڑ لیا اور ساتھ ہی ساتھ خود کو بھی مضبو ط کیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب دوسری جنگِ عظیم ختم ہوئی اور اقوام متحدہ کا ادارہ قائم ہو ا تو چین ، پاکستان ، بھارت ، مصر ،انڈو نیشیا ، ملائشیا،شام ،عراق، ایران ، سوڈان ،سعودی عرب، تیونس،یمن،ایسے ملک تھے کہ اگر یہاں کے عوام باشعور ہوتے، شرح خواندگی زیادہ ہوتی اور قیادت تسلسل کے ساتھ بہتر انداز کی میسر آتی تو صورت بہتر ہوتی۔
اِن ملکوں میں پہلے نمبر پر مکمل آزادی،خودمختاری اور خود انحصاری کے لحاظ سے چین اہم رہا اور اُس نے جلدہی دنیا بھر میں اپنے آپ کو مکمل آزاد ، خود مختار اور خود انحصار ملک کی حیثیت سے تسلیم کر والیا اس کے بعد ایک عرصے تک بھارت دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت اور قدرے آزاد خارجہ پالیسی کے ساتھ ایک ایسا بڑا ملک رہا جس کے مستقبل کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ ملک اگر ہمسایہ ملکوں سے اپنے تعلقات بہتر کر لے گا تو نہ صرف بھارت دنیا کا اہم ملک بن جائے گا بلکہ وہ علاقے کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر اِن ملکوں کے بلاک کی بنیاد پر اس دنیا میں عالمی سطح کی مثبت تبدیلیوں کا سبب بنے گا، حکمت و دانائی کے لحاظ سے برصغیر کی اس اہمیت کو 1916 ہی میں قائداعظم نے سمجھ لیا تھا لیکن ہندو مسلم اتحاد کو آل انڈ یا کانگریس اور خصوصاً پنڈت موتی لال نہرو نے بہت نقصان پہنچایا، اور پھر 14 اور15 اگست 1947 کو برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان اور بھارت ،آزاد ملک کہلائے اور اس سے تقر یباً دو سال قبل اقوام ِ متحدہ کا ادارہ تشکیل پا چکا تھا۔
1946 تک تو اقوام متحدہ نے ابتدائی کام شروع کیا لیکن ساتھ ہی پہلے پہلے آزاد ہو نے والے بڑے اور اہم ملک جو برطانیہ کی نوآبادیات تھے اِن کی آزدی کے مراحل ہی میں قتل وغارت گری خانہ جنگی اور پھر جنگوں کی صورتحال پید اہو گئی، برطانوی نو آبادیات میں برطانیہ کو سب سے زیادہ فائد ہ پہنچانے والا برصغیر جس کو انگریز سونے کی چڑیا کہتے تھے یہاںانگریزوںنے 1945-46 کے موسم سرما میں گیارہ صوبائی اسمبلیوں اور ساتھ ہی مرکزی یا سنٹرل اسمبلی کے لیے جداگانہ بنیادوں پر انتخابات کر وائے جن میں صوبائی سطح پر مسلم لیگ نے مسلم نشستوں پر 90% اور مرکزی اسمبلی کی مسلم نشستوں پر 100%کو کامیابی حاصل کی جس کے نتیجے میں اِن انتخابات کی بنیاد پر آزادی سے قبل مشترکہ ہند وستان میں ایک قومی حکومت تشکیل دی گئی جس کے وزیر اعظم آل انڈیا کانگریس کے صدر پنڈت جواہر لال نہرو ہوئے اور باقی کابینہ میں مسلم لیگ اور کانگریس کے وزرا شامل تھے جن میں مسلم لیگ کی طرف سے اہم وزیر یعنی وزیر ِ خزانہ نوابزادہ لیاقت علی خان تھے اور کانگریس کی جانب سے اہم وزیر ِ داخلہ سردار ولب بھائی پاٹیل تھے۔
برصغیر میں انگریزوں کی تعداد کم و بیش ایک لاکھ تھی مگر انھون نے بہت کم تعداد میں ہو نے کے باوجود جس حکمت و دانائی سے چالیس کروڑ کی آبادی پر حکومت کی اس میں دو چیزیں اہم تھیں ایک مقامی چالیس کروڑ آبادی کو تقسیم کرو لڑاؤ اور حکومت کرو دوسرا برصغیر کا جاگیر دارانہ نظام تھا جو بہت مستحکم انداز میں انگریزوں کو مغلوں کی حکومت ہی سے ملا تھا اور اس جاگیر دارانہ نظام کو انگریزوں نے اپنے طور پر اپنے حق میں زیادہ بہتر انداز میں تبدیل بھی کیا تھا افغان ، ترک اور مغل جب سنٹرل ایشیا اور افغانستان سے برصغیر آئے تو اِن حملہ آور باد شاہوں کی اپنی باقاعدہ فوج سے کہیں زیادہ قبائلی لشکر اِن کے ساتھ ہو اکرتے تھے یوں جب یہ بادشاہ ہندوستان کو فتح کر لیتے تھے تو اِن کے اپنے قبیلے سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ بڑی فوج تو مرکز یعنی دارالسلطنت میں رہتی تھی اور کچھ دستے ہر صوبے میں صوبائی گو رنرکی ماتحتی میں ہوا کرتے تھے،جب کہ باقی قبائلی لشکر کی صورت یوں ہوتی تھی کہ اِن کے سرداروں کو اِن کے قبائلی لشکرکی تعداد کی بنیاد پر اہمیت دیتے ہوئے بڑے بڑے رقبوں پر مشتمل علاقے جاگیر کی صورت میں الاٹ کر دئیے جاتے تھے اور یہ قبائلی سردار یہاں ان ریاستوں کے نوابین ،راجے، مہاراجے، اور خوانین کہلاتے تھے۔
جہاں تک صوبوں کے گورنروں کا تعلق ہوتا تھا تو وہ اکثر و بیشتر بادشاہ کے خاندان کے قریبی رشتہ دار ہوا کرتے تھے یوں شہزادے یا بادشاہ کے بھائی ، چچا وغیرہ کو گورنر بنایا جاتا تھا، جاگیرداروں کی جاگیریں بنیادی طور پر بادشاہ کی جانب سے الاٹ کی جاتی تھیں اور ریاستوں کے حکمرانوں کی ذاتی ملکیت نہیں ہو اکرتی تھیں یعنی مغلوں کے دور ِ حکومت تک زمین کی نجی ملکیت کا تصور نہیں تھا بلکہ زمین مملکت کی ملکیت ہوا کرتی تھی، مغلیہ دورِ حکومت میں یہ جاگیردار اپنے لشکر کی بنیاد پر اپنی جاگیر میں امن وامان قائم رکھنے کے ذمہ دار ہوتے تھے اور جب کبھی بادشاہ کو اس کی فوج کی ضرورت ہوتی تو وہ با دشاہ کے وفادار مقامی حکمران کی حیثیت سے اپنی مقامی فوج کو اپنی کمانڈ میں لے کر پہنچ جاتا۔
ہندوستان میں ہندو پہلی بڑی اکثریت اور مسلمان دوسری اکثریت تھے اور مجموعی طور پر ہندوستان کی آبادی میں ہندوآبادی کا تناسب 70% اور مسلمان آبای 30 فیصد تھی مگر صدیوں کی مسلم حکومتوں کے دور اقتدار میں ہند و مسلم برداشت اور امن کے ساتھ رہ رہے تھے،انگر یز چونکہ اُس وقت ہندوستان میں آیا تھا جب علم و تحقیق کی بنیاد پر اہل مغرب اور خصوصاً انگریز دنیا میں بہت آ گے نکل چکے تھے اس لیے اِن کے حکومتی اور انتظامی امور بھی ٹیکنالوجی اور سائنسی برتری کے تابع تھے، یوں انگریزوں نے ہندوستان میں آتے ہی اس ملک کے سماج ،تہذیب،آبادی کے لسانی، مذہبی خط وخال اور سیاسی انداز کا تحقیقی بنیادوں پر مطالعہ کیا اور پھر یہاں معاشرتی تضادات کو اپنے مقاصد کے لیے ابھارتے ہوئے یہاں کے جاگیردارانہ نظام کواپنی ضروریات کے مطابق تبدیل کر کے استعمال کیا ۔
برطانیہ جس کی نو آبادیات میں سورج غریب نہیں ہوتا تھا وہاں برطانیہ میں تو جمہوریت کو تو فروغ حاصل ہو رہا تھا بلکہ 1857 تک جب ہندوستان میں علامتی مغلیہ بادشاہت کا خاتمہ بھی کر دیا گیا تھا تو برطانیہ میں روایتی طور پر عوام میں بادشاہت کی عزت اور شان و شوکت کسی طرح کم نہیں تھی تو دوسری جانب اُس وقت برطانیہ کی جمہوریت دنیا کے لیے مثالی تھی اور جہاں تک تعلق برطانیہ کی نو آبادیات کا تھا تو ہر غلام ملک میں انگریز سربراہ جو گورنرجنرل اور وائسرائے کہلاتا تھا اکثر وبیشتر برطانیہ کے شاہی خاندان ہی کا فرد ہوتا تھا،یہاں تک کہ آج بھی اِن کے ولی عہد اور شہزادے اعزازی طور پر اعلیٰ فوجی عہدہ رکھتے ہیں، شاہی خاندان کے اہم افراد ہاوس آف لارڈ کے رکن ہو تے ہیں یوں مقبوضہ ہندوستان میں انگریزوں کے دورِحکومت میں جہاں 540 سے زیادہ ریاستیں تھیں وہاں آزادی اور تقسیم ہند کے وقت تک گیارہ صوبے بھی تھے صوبائی اور مرکزی حکومت پر برطانوی حاکمیت کے لحاظ سے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی شخصیت گو رنر جنرل کہلاتی تھی اور یہی شخصیت ریاستوں کے لیے وائسرائے یعنی بر طانوی شہنشاہیت کی جانب سے بادشاہ کا نائب یا نائب بادشاہ ہواکرتا تھا۔
انگریز وں کی کل تعداد یہاں ایک لاکھ تھی یوں یہاںنوآبایاتی نظام کو قائم رکھنے کے ساتھ صنعتی تجارتی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے نظام چلانا تھا اور اس کے لیے مختلف شعبوں میں تعلیم و تکنیک کی بنیاد پر یہاں افرادی قوت تیار کی اور اگرچہ اعلیٰ سطح پر انگریز ہی بیوروکریسی کے لحاظ سے فائز تھے مگر جنگ عظیم اوّل اور دوئم کے بعد انگر یز فوج اور سویلین افسران کی سطح پر انگریز افرادی قوت کی کمی کا شکار ہوئی تو ہندوستانی افسران کی کچھ تعداد بھی اس نظام میں شامل ہوگئی۔
1885 ء میں آل انڈ یا کانگریس اور پھر 1906ء میں مسلم لیگ کے قیام سے ہندوستان کے خصوصاً غیر ریاستی علاقوں میں سیاسی شعور کی سطح بلند ہو رہی تھی۔ قائداعظم نے جنگ عظیم اوّل کے دوران یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ انگریز چاہے یہ جنگِ عظیم اوّل جیتے یا ہارے ہر دو صورتوں میں تاج برطانیہ کی حکمرانی جو دنیا کے چوتھائی آبادی اور رقبے پر قائم ہے اِس پر اس کی گرفت کمزور ہو جا ئے گی اور یہیں سے برصغیر کی آزادی کا سورج طلوع ہو گا ۔
پہلی جنگ عظیم سے دوسری جنگ عظیم تک عالمی سیاسی، اقتصادی صورتحال میں کافی تبدیلی آچکی تھی جس کے پیش ِ نظر انگریز ہندوستان میں احتیاط سے معاملات کو آگے بڑھا رہا تھا اُسے ہند وستان کی ہندو اکثریت کے دباؤ کا بھی سامنا تھا اور مسلم اکثریت کا بھی خوف تھا کیونکہ یہ بھی کل آباد ی کا 30 فیصد تھی اور یہ اکثریت برصغیر میں افغانستا ن ،ایران، چین اور برماکی سرحدوں کے نزدیک تھی یوں انگریز نے پہلی کوشش یہ کی کہ کسی طرح برصغیر کی تقسیم سے قائد اعظم کو باز رکھا جائے اور جب برطانوی سرکار کو یہ یقین ہو گیا کہ قائد اعظم کسی صورت میں اس پر آمادہ نہیں ہو رہے تو اُنہوں نے برصغیر کے بارے میں اس کی تقسیم کی بنیاد پر اپنے منصوبے کو اپنی مرضی اور مفادات کے مطابق جلد از جلد طے کر نے کی حکمت عملی بنائی اور واقعات اور حالات کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ کانگریس اور انگریز نے یہ طے کیا تھا کہ تقسیم اتنی جلدی اور ایسی کی جائے کہ دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک کی حیثیت سے ابھرنے والاپاکستان ناکام ہو جائے۔
مارچ 1947 ء کو ہندو ستان سے لارڈ وویول رخصت ہوا تو اُس کی جگہ لارڈ ماونٹ بیٹن آخری گورنر جنرل اور وائسرائے بن کر ہند وستان آیا اور 3 جون 1947ء کو تقسیم ہند اور پاکستان اور بھارت کی آزادی کے منصوبے کا اعلان کر دیا، جب کہ اِس منصوبے کی تفصیلات کی حتمی اور قانونی شکل 18 جولائی 1947 ء کو برطانوی پارلیمنٹ میںقانون آزادیِ ہند کے عنوان سے پاس ہونے والا قانون تھا۔ اس سے قبل ہندوستان میں آئینی حیثیت کا حامل قانون ہند 1935 ء بھی برطانوی پارلیمنٹ نے بنایا تھا، اس قانون کے ساتھ ہی قانون آزادی ہند کی بنیاد پر برصغیر کی تقسیم کے تمام امور طے کئے گئے جس کے مطابق پاکستان اور بھارت کو 14 اور15 اگست 1947 کو دو الگ ملکوں کی حیثیت دے دی جائے گی اور پہلے سال ان کی حیثیت ڈومینین اسٹیٹ کی ہو گی اور قانون ہند 1935 ہی نافذالعمل رہے گا ۔
واضح رہے کہ بھارت کا گورنرجنرل لارڈ ماونٹ بیٹن ہی تھا اور پاکستان کے گور نر جنرل قائداعظم محمد علی جناح تھے اور یہ بھی واضح رہے کہ1956 تک جب ہم نے اپنا آئین نہیں بنایا تھا برطانیہ کا بادشاہ ہمارا آئینی سربراہ تھا اور اس کے بعد ملکہ برطانیہ الزبتھ ہماری آئینی سربراہ اور ملکہ ہو گئی۔ البتہ بھارت نے آزادی کے ایک سال بعد اپنا آئین بنا لیا تھا۔
ہند وستان کی 540 سے زیادہ ریاستوں کے حوالے سے 18 جولائی1947 کے قانون ِ آزادیِ ہند میں یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ اِن کے حکمران اپنی ریاستوں کی سرحد ی قربت اور عوام کی اکثریت کی مرضی کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان یا بھارت دونوں میں سے کسی ایک میں شمولیت کا فیصلہ کریں گے، اسی طرح ہند ومسلم اکثریت کی بنیاد پر پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا فیصلہ تھا بلوچستان کے لیے کوئٹہ میونسپل کمیٹی کے غیر سرکاری اراکین اور شاہی جرگہ کے اراکین نے پا کستان یا بھارت میں شمولیت کا فیصلہ کرنا تھا جب کی مشرقی پاکستان میں سلہٹ ضلع میں اور کے پی کے میں عوامی ریفرنڈم کے ذریعے فیصلہ ہونا تھا کہ یہ علاقے بھارت یا پاکستان میں شامل ہوں اور سندھ کے لیے یہ طے پایا تھا کہ سندھ کی صوبائی اسمبلی کے اراکین کی اکثریت یہ فیصلہ کرے گی ۔
قائد اعظم اپنے ویژن کی بنیاد پر یہ جان گئے تھے کہ پاکستان کے ساتھ ناانصافی کی جا رہی ہے لیکن اُن کے پاس وقت بہت کم تھا اُن کے معالج ڈاکٹر پاٹیل نے اُنہیں بتا دیا تھا کہ ٹی بی کی بیماری اُن کے پھیپھڑوں کو تباہ کر چکی اور موت نزدیک ہے۔ قائد اعظم کو ادراک تھا کہ اُن کے بعد پاکستان کو آزاد کرانا مشکل ہو جائے گا وہ اس کے لیے اپنی اسٹرٹیجی طے کر چکے تھے کہ اللہ اُنہیں اتنی زندگی ضرور دے گا کہ وہ اپنی زندگی میں یہ تاریخی فریضہ ضرور ادا کریں گے۔
1941 کی مردم شماری کے مطابق مشترکہ پنجاب کی کل آبادی28418819 تھی جس میں مسلمانوں کی تعداد 16217242 تھی یوں مجموعی طور پر پنجاب کی 57% آبادی مسلمان تھی اور بنگال کی کل آبادی60306525 تھی جس میں مسلمانوں کی آبادی33005434 تھی اور یہاں بھی مسلمان آبادی 54.73 فیصد تھی لیکن مشرقی پنجاب میں سکھ اور ہندو قدرے اکثریت میں تھے جب اِ ن دونوں صوبوں کی تقسیم آبادی کی اکثریت والے علاقوں کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ ہوا تو قائد اعظم یہ جانتے تھے کہ 1946 جنوری تک ہو نے والے مشترکہ ہند وستان کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ اور کانگریس کی مشترکہ قومی حکومت تشکیل پائی ہے اُس میں وازارت ِداخلہ کانگریس کے نہایت متعصب ہندو لیڈر ولب بھائی پاٹیل کو دی گئی ہے اور اس تقسیم کے نتیجے میں پاکستان کے ساتھ زیادتی ہو گی۔
یوں قائد اعظم نے یہ تجویز دی کہ یہ تقسیم اقوام ِمتحدہ کے تحت کرائی جائے اور جب اس تجویز کو رد کیا گیا تو قائد نے یہ کہا کہ پنجاب کی تقسیم لندن کی پریوری کونسل کرے مگر اس کے لیے ریڈ کلف کو برطانوی حکومت نے تعینات کیا اور پھر اس تقسیم میں سازش کے تحت مشرقی پنجاب کے گورداسپور، فیروزپور اور زیرہ کے مسلم اکثریت کے علاقے بھارت کو دے دیئے گئے اور سردار ولب بھائی پاٹیل نے سکھوں اور ہندوں کے جتھوں کے ذریعے فوراً ہی یہاں فسادات کرائے اور مسلمانوں کا قتل عام صرف اس لیے کروایا کہ یہاں سے لاکھوں مسلمانوں کو نکال کر پاکستانی پنجاب میں دھکیل دیا جائے یہ اس لیے بھی کیا گیا کہ یہاں پانی کی تقسیم کے مادھو پور ہیڈ ورکس اور فیروز پور ہیڈ ورکس پر قبضے سے پاکستان کو جانے والے دریائی پانی پر کنٹرول حاصل کیا جائے اور ایک اور اہم وجہ تھی کہ کشمیر کو بیرونی دنیا کو ملانے والے چھ کے چھ راستے پاکستان سے گزرتے ہیں۔
یہاں مشرقی پنجاب میں اِن مسلم اکثریتی علاقوں کو بھارت کے حوالے کرنے سے پٹھان کوٹ سے ایک نیا اور مصنوعی راستہ بھارت کو فراہم کر دیا گیا اور اس کے بعد جب پاکستان اور بھارت آزاد ہوگئے تو کشمیر جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے یہاں مسلمانوں نے تحریک چلائی کہ کشمیر کا الحاق پاکستان سے کیا جائے اس پر بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کشمیر کے راجہ ہری سنگھ پر دباؤ ڈال کر ایک خاص منصوبے کے تحت کشمیر کا بھارت سے الحاق کروادیا اور تعجب کی بات یہ ہے کہ 18 جولائی1947 کے قانون آزادی ہند کے تحت برصغیر کی تقسیم کروانے والے لارڈ ماوئنٹ بیٹن نے بطور بھارت کے پہلے گورنرجنرل اس معاہدے پر دستخط کر دئیے البتہ یہ کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے بھی بعد میں اس مسئلے پر کشمیریوں کی مرضی معلوم کر نے کے لیے رائے شماری کی تجویز دی تھی لیکن اصول اور قانون کے مطابق لار ڈماوئنٹ بیٹن نے غلط کیا تھا کیونکہ قانون آزادی ِہند واضح تھا کہ ریاستوں کے حکمرانوں سے صاف کہہ دیا گیا تھا کہ اپنے عوام کی مرضی اور ریاست کی سرحدی قربت کو مدِنظر رکھ کر ہی یہ حکمران فیصلہ کر یں گے کہ ریاست کا الحاق پاکستان یا بھارت سے کیا جائے۔
بھارت نے ریاست حیدر آباد، بھوپال اور جوناگڑھ کے نوابین کے خلاف اسی بنیاد پر فوجی کاروائی کر کے اِن ریاستوں کو بھارت میں شامل کر لیا تھا کہ اِن کی آبادیوں کی اکثریت ہندو تھی اور سرحدی قربت بھی بھارت سے تھی مگر کشمیر کے اعتبار سے انگریز گورنر جنرل اور بھارت کا معیار دہرا تھا پھر جہاں تک انگریز دورِ حکومت میں ریاستوں کا تعلق تھا تو کشمیر کی حیثیت بھی تاریخی لحاظ سے ہندوستان کی دوسری ریاستوں سے مختلف تھی کہ یہ علاقہ انگریزوں نے رنجیت سنگھ کی موت کے بعد سکھوں سے جنگ میں فتح پانے کے بعد تاوان جنگ رقم کی کمی کو پورا کرنے کے لیے گلاب سنگھ کو 75 ہزار نانک شاہی کرنسی کے عوض فروخت کیا تھا ا س لیے یہ بھی ہو سکتا تھا کہ پاکستان 1947 کے مطابق اُس زمانے کی رقم کی قدر کی بنیاد پر ادائیگی کرکے مسلم اکثریت کا یہ علاقہ حاصل کر لیتا،بہرحال یہ مسئلہ تھا کہ اس کی بنیاد پر کشمیر میں 22 اکتوبر 1947 سے 5 جنوری1949 کو دونوں نئے آزاد ہونے والے ملکوں کے درمیان پہلی جنگ ہوئی، انگریز جنرل کمانڈر انچیف جو اس جنگ کے خلاف تھے۔
تو قائد اعظم کے حکم پر میجر جنرل خورشید انور، کرنل شیر، کرنل اکبر خان کے علاوہ وزیر ستان سے تعلق رکھنے والے قبائلی لشکر نے شرکت کی اور آزاد کشمیر،گلگت بلتستان کے علاقے آزاد کروا لیئے ، جولائی 1948 ء کے آغاز پر قائد اعظم کی ٹی بی نہ صرف شدت اختیار کر گئی تھی بلکہ اب یہ بیماری راز بھی نہیں رہی تھی اور قائداعظم کو دارالحکومت کراچی سے دور بلوچستان کے سرد پہاڑی علاقے زیارت منتقل کر دیا گیا تھا اور پھر اسی دوران پاکستان پر بیرونی دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ یہ جنگ روک دی جائے اور کہا جاتا ہے کہ قائد اعظم اس بات کو کسی صورت نہیں مان رہے تھے۔
غالباً وہ یہ جانتے تھے کہ جغرافیائی نقشے بدلنے والے تاریخی ارادے جب بہادری کی بنیاد پر مسئلے حل اور حتمی فیصلے کے قریب ہوں تو کبھی بھی ایسی تحریک کو نہیں روکنا چاہیے، کہ پرُجوش قومی اتحاد تسلسل کے ساتھ اگر منزل پر پہنچنے سے پہلے مصلحت کی بنیاد پر روک دیا جائے تو پھر اسے پہاڑ کی چوٹی سر کرنے والے ناکاموں کی طرح برفانی ڈھلوانوں پر کششِ ثقل کھینچ کر پستی میں دھکیل دیتی ہے۔ مگر قائد اعظم کی وفات کے تین مہینے پچیس دن بعد 5 جنوری 1949کو پاکستان نے اقوام متحد ہ کے کہنے پر یہ جنگ روک دی، اس جنگ کو رکوانے کیلئے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے خود کوشش کی تھی وہ کسی طرح مہلت چاہتے تھے اور بڑی قوتیں بھی یہ نہیں چاہتی تھیں کہ پاکستان اور کشمیریوں کی جانب سے مزید پیش قدمی ہو کیونکہ اس طرح اس علاقے میں اسٹریجک پوزیشن بھارت کے ہاتھوں سے چند مہینوں میں نکلنے والی تھی۔
اس کے بعد 27 جولائی 1949 کو پاکستان بھارت کے درمیان سیز فائر معاہدہ کراچی میں ہوا جس میں ضامن اقوام متحدہ تھا جو ثالثی کا کردار اس لیے ادا کر رہا تھا کہ اس کے لیے کمیشن، یو این فار انڈیا اینڈ پاکستان تشکیل دیا گیا تھا اور اس کے لیے بھارت نے اقوام متحدہ سے درخواست کی تھی اور اس میں شبہ نہیں کہ اصولی طور پر اقوام متحدہ کا کر دار اُس وقت جب یہ معاہدہ ہو رہا تھا شفاف تھا، اس معاہدے پر پاکستان کی طرف سے میجر جنرل ڈبلیو جے کاوتھون اور بھارت کی جانب سے لیفٹیننٹ جنرل شیر ینگیش نے اور اقوام متحدہ کی جانب سے دو نمائندوں ہیرنانڈوسامپر اور ایم، ڈیلو ئی نے دستخط کئے تھے یہ معاہدہ انگریزی میں تحریر کیا گیا تھا۔
یہ اقوام متحدہ کے قیام کے بعد اس کے سامنے آنے والا سب سے پہلا اور اہم ترین مسئلہ تھا، اور اس کا حل اس لیے آسان تھا کہ اس میں دونوں فریق اقوام متحدہ کے ساتھ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت اس کے اس حل پر متفق تھے کہ کشمیر کا فیصلہ یہاں کی مقامی آبادی اپنی مرضی سے ووٹ کی بنیاد پر اقوام متحد ہ کی نگرانی میں کیا جائے گا۔ معاہدہ کراچی میں بھارت اور پاکستان نے اقوام متحدہ کے نمائندوں کے سامنے جنگ بندی لائن کو تسلیم کر لیا تھا اور جو علاقے پاکستان کے پاس ہیں اُن میں پا کستان آج بھی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق رائے شماری کروانے کے لیے تیار ہے۔
پاکستان 30 ستمبر 1947 کو اپنے قیام کے ایک ماہ سولہ دن کے بعد اقو م متحدہ کا رکن بنا تھا اور اُس وقت اقوام متحدہ کو قائم ہو ئے ایک سال گیارہ مہینے چھ دن ہوئے تھے، بھارت جو انڈیا کے نام سے1919 میں قائم ہونے والی لیگ آف نیشن ''اقوامِ عالم'' میں برطانوی نوآبادی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑے ملک کی حیثیت سے اس کا رکن بنا تھا اس کی اسی رکنیت کے تحت30 اکتوبر 1945 کو اقوام متحدہ کے باقاعدہ قیام کے چھ دن بعد رکن بن گیا تھا، اور اِن دونوں رکن ملکوں کے درمیان کراچی معاہدے کی ثالثی اقوام متحدہ نے کرائی اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں جو قراردادیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے منظور ہوئیں اُس وقت اُن قرار دادوںکی حمایت سیکورٹی کونسل کے تمام ویٹو اراکین نے کی تھی اور ا صول و ضوابط کے مطابق اُن قراردادوں پر عملد آمد ہونا چاہیے۔
پاکستان کا موقف آج بھی یہی ہے کہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی اُنہی قراردادوں کے مطابق ہو جب کہ بھارت پہلے حیلوں بہانوں سے اِن قراردادوں پر عملدر آمد کو ٹالتا رہا اور پھر رقتہ رفتہ اِن سے منحرف ہونے لگا اور اب یہ صورت ہے کہ وہ اِن قرار دودوں کو تسلیم ہی نہیں کرتا اور چین کے علاوہ سیکورٹی کونسل کے چاروں اراکین یعنی امریکہ، برطانیہ ، فرانس اور روس کسی نہ کسی وقت اور کسی نہ کسی انداز سے کشمیر کے مسئلے پر سیکورٹی کونسل میں بھارت کی ناجائز حمایت کرتے رہے ہیں، آخری بار اس مسئلے پر 2019 میں فرانس نے بھارتی مفاد کے حق میں فیصلہ دیا۔
اقوام متحدہ کے ٹیبل پر اُس کی 75 سالہ تاریخ میں مسئلہ کشمیر 71 سالہ سب سے پر انا مسئلہ ہے جو سیاست کے لحاظ سے منفی اور مفاد پرستانہ عالمی رویوں کی وجہ سے اقوام متحدہ کے چارٹر اور حقوقِ انسانی کے لیے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ، یہ عالمی ادارہ دنیا کے ممالک اور عوام کی حکومتوں پر مشتمل ہے اور اس نے اپنے چارٹر اور ہیومن رائٹس کے ڈکلیریشن میں دنیا بھر میں ایک ملک پر کسی دوسرے ملک کی جارحیت کی شدت سے ممانعت کر رکھی ہے اسی طرح دنیا بھر میں انسانوں کی مرضی کے خلاف ظلم و جبر کی بنیاد پر حکومت کے خلا ف کاروائی کا حق اسکے چارٹر میں شامل ہے، مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ کا ادارہ کشمیر کے مسئلے کو اب تک حل نہیں کر پایا ہے ۔
یوم یکجہتی کشمیر
ویسے تو کشمیر کی تاریخ دور جدید میں دنیا کی مظلوم قوموں کی آزادی کا ایک استعارہ بن گئی ہے اور سال کے 365 دنوں کے اعتبار سے 76 برسوں کی خون آشام جدوجہد کی بنیاد پر ہر دن ہی ایسا دن ہے جو کشمیر اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے لحاظ سے اہم اور یادگار ہے کیونکہ اس دوران آزادی کشمیر کی راہ میں ایک لاکھ سے زیادہ کشمیری شہید ہوئے، اور اتنی ہی تعداد میں زخمی اور معذور ہوئے، ہزاروں خواتین کو بے آبرو کیا گیا ،لاکھوں بچے یتیم ہوئے لیکن آزاد ی کی یہ جدوجہد جاری رہی۔
1947-48 ء کی جنگ میں کشمیری مجاہدین ، پاکستانی فوج اور ہمارے شمالی وزیرستان اور قبائلی علاقوں کے مجاہدین نے مل کر آج کے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں کو آزاد کروا لیا۔
ہم یقینا اُس وقت بھارتی مقبوضہ کشمیر بھی آزاد کر وا لیتے مگر پاکستان نے اقوام متحدہ کی ضمانت اور اُس کے چارٹر پر یقین کرتے ہو ئے جنگ بندی اور اُس کی جنگ بند لائن کو تسلیم کر لیا ، مگر بعد میں ثابت ہوا کہ اقوام متحدہ مقررہ وقت میں اپنی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں رائے شماری کر واکر اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام ہو گیا ، مگر کشمیریوں نے اپنی آزادی کی جنگ جاری رکھی۔
اب جہاں تک تعلق 5 فروری یوم کشمیر کا ہے تو سب سے پہلے 1975 ء میں جب مقبوضہ کشمیر میں شیخ عبداللہ اور بھارت کی سابق وزریر اعظم اندرا گاندھی کے درمیان معاہد ہ طے پایا تو پاکستان میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 28 فروری 1975 ء کو کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہو ئے یوم یکجہتی ِ کشمیر منایا ۔
اس کے بعد جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کر کے اُن کو یوم یکجہتی کشمیر قومی سطح پر منانے کے لیے آمادہ کیا اور ساتھ ہی سابق وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو بھی اپنے خیال سے آگاہ کیا تو اُنہوں نے بھی پُر جوش انداز سے اس آئیڈیا کی تائید کی اور فیصلہ کیا گیا کہ 5 فروری کو ہر سال حکومت اور اپوزیشن یوم یکجہتی کشمیر منائے گی۔
اس دن کو منانے کے لیے اس کے بعد سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی نے 5 فروری کو زیادہ پُر جوش اور مو ثر انداز میں اپنانے کا فیصلہ کیا۔ 5 فروری 2004 ء کو سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی نے مظفر آباد میں آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں، جموں کشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا اور اس وقت امور کشمیر کے وزیر آفتاب احمد خان شیر پائو نے بھی اس اجلاس میں شرکت کی تھی۔
اس کے بعد سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ 5 فروری کو ہر سال مظفر آباد کی آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی میں پا کستان کا وزیراعظم یا اُس کے نامزدہ کردہ نمائندہ شرکت کرتا ہے اور ملک بھر میں قومی سطح پر عام تعطیل ہوتی ہے۔
اس دن کی اہمیت میں 5 اگست2019 ء کے بھارتی حکومت کے اس فیصلے کے بعد اضافہ ہو گیا جس کے مطابق بھارتی نے اپنے آئین کی شق 370 کو رد کر تے ہو ئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی ریاست کو ختم کر دیا ، اور اس سال یعنی2024 ء میں 5 فروری کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے کہ 10 دسمبر2023 ء کو بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی،وئی چندر چوڑئے نے بھارتی حکومت کے فیصلے کو بر قرار رکھا اور بھارتی الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ 30 ستمبر 2024 ء ریاست جموں وکشمیر میں عام انتخابات کر ائے جائیں۔