عصر حاضر کی سیاست اور میکاولی
میکاولی کے مطابق کامیاب حکمران وہ ہے جو حکم چلانا جانتا ہو اور جس کا اخلاقیات سے دور پرے کا بھی واسطہ نہ ہو
61 برس پہلے کا زمانہ یاد آرہا ہے، جب ہم نے پولیٹکل سائنس میں ماسٹرزکرتے ہوئے میکاولی کو نہ صرف پڑھا تھا بلکہ نہایت دلچسپی اور توجہ سے پڑھا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب مہاراجہ اشوک کے اتالیق چانکیہ کو بھی پڑھا تھا جس کے نام پر نئی دہلی میں چانکیہ پوری کے نام سے ایک مخصوص علاقہ ہے جہاں سفارت کاروں کے دفاتر اور رہائش گاہیں موجود ہیں۔
ایک دلچسپ محاورہ یاد آرہا ہے کہ جیسی شکل ع کی ویسی ہی غ کی۔ دونوں میں صرف نقطہ کا فرق ہے، اگر چانکیہ اور میکاولی کا تقابل کیا جائے تو دونوں کی سوچ کم و بیش ایک جیسی ہے بس فرق صرف اتنا ہے کہ چانکیہ کی پیدائش قدیم ہندوستان کی ہے جب کہ میکاولی اٹلی میں پیدا ہوا تھا۔حکمرانی کے ہنر کے بارے میں دونوں مفکرین اِس نکتے پر قطعی متفق ہیں کہ سیاست میں اخلاقیات کا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور دونوں کا تقاضہ صرف یہی ہے کہ اِس عمل میں جائز و ناجائز کی کوئی تمیز نہ تو ہے اور نہ ہونی چاہیے۔
لُب لُباب یہ ہے کہ کسی بھی طرح سے اقتدار کو حاصل اور قائم رکھا جائے۔آج کی دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اُسے چانکیہ اور میکاولی کی پیروی کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ بین الاقوامی سیاست کا منظر نامہ ہو یا ریاست کا منظر نامہ دونوں میں میکاولی کے نقشِ قدم پر چلنے کی روایت موجود ہے۔
کسی مغربی سیاسی مفکر کا یہ قول یاد آرہا ہے کہ سیاست بد ذاتوں کا کھیل ہے۔سیاست کا کھیل دلچسپ سہی لیکن جب تک اِس میں شریک ہونے والے ایک دوسرے پر کیچڑ نہ اچھالیں، تب تک یہ بے لطف ہی رہتا ہے، جو بھی ہو گندی سیاست جمہوریت کے پاکیزہ لباس کو غلیظ ہی کرتی ہے مگر اِس کا کیا علاج کہ یہ روایت جڑیں پکڑ چکی ہے اور عالم یہ ہے کہ میں تو کمبل کو چھوڑ دوں لیکن کیا کروں کہ کمبل مجھے نہیں چھوڑتا۔آج کی سیاست کے دور میں مخالف کے بارے میں جھوٹا پروپیگنڈا کرنا ایک موثر حربہ بن چکا ہے، جس میں ایک دوسرے کی کردارکشی میں میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کا استعمال نہایت کارگر ثابت ہو رہا ہے۔
مسائل کا حل تلاش کرنے اور کارگر پالیسیوں پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے سیاسی رہنماؤں کا سارا زور ایک دوسرے کے بَخیے اُدھیڑنے پر ضایع ہوجاتا ہے اور نتیجہ صفر کا صفر رہتا ہے۔ووٹرز کے مسائل کے حل تلاش کرنے کی سنجیدگی سے پوری کوشش نہیں کی جاتی اور نئے نئے وعدے کر کے اور لارے دے کر اُلو بنانے کی نت نئی ترکیبیں استعمال کی جاتی ہیں۔
نسلوں پر نسلیں گزرتی جائیں گی اور ہمارے اربابِ سیاست یہی نسخہ آزماتے رہیں گے جو ایک مشقِ رائیگاں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔بات گھوم پھر کر دوبارہ میکاولی پر آجاتی ہے۔ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی، جب کسی ملک کے حکمرانوں نے میکاولی کے نظریات اور فلسفہ سے استفادہ نہ کیا ہو۔ حکمراں چاہے کہیں کے ہوں اور کوئی بھی ہوں چانکیہ ہمیشہ اُن کا گُرو رہا ہے۔
میکاولی کی کتاب '' دی پرنس'' 1513 میں شایع ہوکر منظرِ عام پر آئی تھی جس کی اشاعت کو 511 سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد اُس کے نسخہ سے آج کے حکمراں بھی بھرپور فائدے اُٹھا رہے ہیں۔
'' دی پرنس'' اِس بات کی نہ صرف کھلی اجازت بلکہ ترغیب دیتی ہے کہ جھوٹ، فریب، بدمعاشی، عیاری اور مکاری حکمراں اُس سے جتنا بھی فائدہ اُٹھانا چاہیں اُٹھا سکتے ہیں۔میکاولی ایک حقیقت پسند تھا جو میدانِ سیاست میں ایک کارگر اپروچ کا سبق سکھاتا تھا جس میں اخلاقیات کی کوئی گنجائش نہیں۔ اُسے انسانی فطرت میں کسی نیکی اور اچھائی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔
اُس کا درس تھا کہ اقتدار کے حصول کے لیے جو کچھ بھی کرنا پڑے اُس سے اجتناب ہرگز نہ کرو اور اُسے برقرار رکھنے کے لیے جو کچھ بھی کرسکو وہ کر گزرو۔ اُس کا ماننا تھا کہ انسان فطرتاً خود غرض ہوتا ہے اور لوگ احسان فراموش، جھوٹے، دھوکے باز، بزدل اور لالچی ہوتے ہیں اور جب حالات کا تقاضہ ہوتا ہے تو وہ نیکی کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔ موقع پرستی اُن کی فطرتِ ثانیہ ہوتی ہے۔
آج کے دور میں میکاولی کے فلسفہ اور نظریات سے خاطر خواہ فائدہ اُٹھانے والے لوگوں میں آنجہانی امریکی وزیرِ خارجہ ہنری کسنجر کی مثال سرِ فہرست ہے۔
میکاولی کے مطابق کامیاب حکمران وہ ہے جو حکم چلانا جانتا ہو اور جس کا اخلاقیات سے دور پرے کا بھی واسطہ نہ ہو اور جس کے سینے میں دل کی جگہ سنگ گراں فِٹ ہو۔میکاولی کے نظریات پر عمل کرنے کی تازہ ترین مثال عام انتخابات کے انعقاد سے پہلے عوام کو سبز باغ دکھا کر'' بیوقوف'' بنانے کی شکل میں نظر آتی ہے۔ ہم معذرت خواہ ہیں کہ لفظ '' بیوقوف'' ہم اُس عوامی لفظ کی جگہ استعمال کررہے ہیں جسے استعمال کرنے میں اخلاقیات مانع ہے۔
ایک دلچسپ محاورہ یاد آرہا ہے کہ جیسی شکل ع کی ویسی ہی غ کی۔ دونوں میں صرف نقطہ کا فرق ہے، اگر چانکیہ اور میکاولی کا تقابل کیا جائے تو دونوں کی سوچ کم و بیش ایک جیسی ہے بس فرق صرف اتنا ہے کہ چانکیہ کی پیدائش قدیم ہندوستان کی ہے جب کہ میکاولی اٹلی میں پیدا ہوا تھا۔حکمرانی کے ہنر کے بارے میں دونوں مفکرین اِس نکتے پر قطعی متفق ہیں کہ سیاست میں اخلاقیات کا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور دونوں کا تقاضہ صرف یہی ہے کہ اِس عمل میں جائز و ناجائز کی کوئی تمیز نہ تو ہے اور نہ ہونی چاہیے۔
لُب لُباب یہ ہے کہ کسی بھی طرح سے اقتدار کو حاصل اور قائم رکھا جائے۔آج کی دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اُسے چانکیہ اور میکاولی کی پیروی کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ بین الاقوامی سیاست کا منظر نامہ ہو یا ریاست کا منظر نامہ دونوں میں میکاولی کے نقشِ قدم پر چلنے کی روایت موجود ہے۔
کسی مغربی سیاسی مفکر کا یہ قول یاد آرہا ہے کہ سیاست بد ذاتوں کا کھیل ہے۔سیاست کا کھیل دلچسپ سہی لیکن جب تک اِس میں شریک ہونے والے ایک دوسرے پر کیچڑ نہ اچھالیں، تب تک یہ بے لطف ہی رہتا ہے، جو بھی ہو گندی سیاست جمہوریت کے پاکیزہ لباس کو غلیظ ہی کرتی ہے مگر اِس کا کیا علاج کہ یہ روایت جڑیں پکڑ چکی ہے اور عالم یہ ہے کہ میں تو کمبل کو چھوڑ دوں لیکن کیا کروں کہ کمبل مجھے نہیں چھوڑتا۔آج کی سیاست کے دور میں مخالف کے بارے میں جھوٹا پروپیگنڈا کرنا ایک موثر حربہ بن چکا ہے، جس میں ایک دوسرے کی کردارکشی میں میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کا استعمال نہایت کارگر ثابت ہو رہا ہے۔
مسائل کا حل تلاش کرنے اور کارگر پالیسیوں پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے سیاسی رہنماؤں کا سارا زور ایک دوسرے کے بَخیے اُدھیڑنے پر ضایع ہوجاتا ہے اور نتیجہ صفر کا صفر رہتا ہے۔ووٹرز کے مسائل کے حل تلاش کرنے کی سنجیدگی سے پوری کوشش نہیں کی جاتی اور نئے نئے وعدے کر کے اور لارے دے کر اُلو بنانے کی نت نئی ترکیبیں استعمال کی جاتی ہیں۔
نسلوں پر نسلیں گزرتی جائیں گی اور ہمارے اربابِ سیاست یہی نسخہ آزماتے رہیں گے جو ایک مشقِ رائیگاں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔بات گھوم پھر کر دوبارہ میکاولی پر آجاتی ہے۔ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی، جب کسی ملک کے حکمرانوں نے میکاولی کے نظریات اور فلسفہ سے استفادہ نہ کیا ہو۔ حکمراں چاہے کہیں کے ہوں اور کوئی بھی ہوں چانکیہ ہمیشہ اُن کا گُرو رہا ہے۔
میکاولی کی کتاب '' دی پرنس'' 1513 میں شایع ہوکر منظرِ عام پر آئی تھی جس کی اشاعت کو 511 سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد اُس کے نسخہ سے آج کے حکمراں بھی بھرپور فائدے اُٹھا رہے ہیں۔
'' دی پرنس'' اِس بات کی نہ صرف کھلی اجازت بلکہ ترغیب دیتی ہے کہ جھوٹ، فریب، بدمعاشی، عیاری اور مکاری حکمراں اُس سے جتنا بھی فائدہ اُٹھانا چاہیں اُٹھا سکتے ہیں۔میکاولی ایک حقیقت پسند تھا جو میدانِ سیاست میں ایک کارگر اپروچ کا سبق سکھاتا تھا جس میں اخلاقیات کی کوئی گنجائش نہیں۔ اُسے انسانی فطرت میں کسی نیکی اور اچھائی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔
اُس کا درس تھا کہ اقتدار کے حصول کے لیے جو کچھ بھی کرنا پڑے اُس سے اجتناب ہرگز نہ کرو اور اُسے برقرار رکھنے کے لیے جو کچھ بھی کرسکو وہ کر گزرو۔ اُس کا ماننا تھا کہ انسان فطرتاً خود غرض ہوتا ہے اور لوگ احسان فراموش، جھوٹے، دھوکے باز، بزدل اور لالچی ہوتے ہیں اور جب حالات کا تقاضہ ہوتا ہے تو وہ نیکی کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔ موقع پرستی اُن کی فطرتِ ثانیہ ہوتی ہے۔
آج کے دور میں میکاولی کے فلسفہ اور نظریات سے خاطر خواہ فائدہ اُٹھانے والے لوگوں میں آنجہانی امریکی وزیرِ خارجہ ہنری کسنجر کی مثال سرِ فہرست ہے۔
میکاولی کے مطابق کامیاب حکمران وہ ہے جو حکم چلانا جانتا ہو اور جس کا اخلاقیات سے دور پرے کا بھی واسطہ نہ ہو اور جس کے سینے میں دل کی جگہ سنگ گراں فِٹ ہو۔میکاولی کے نظریات پر عمل کرنے کی تازہ ترین مثال عام انتخابات کے انعقاد سے پہلے عوام کو سبز باغ دکھا کر'' بیوقوف'' بنانے کی شکل میں نظر آتی ہے۔ ہم معذرت خواہ ہیں کہ لفظ '' بیوقوف'' ہم اُس عوامی لفظ کی جگہ استعمال کررہے ہیں جسے استعمال کرنے میں اخلاقیات مانع ہے۔