تین سزائیں اور صفر عوامی رد عمل
اب تک عمران خان کو اکتیس سال قید کی سزائیں سنائی جا چکی ہیں
بانی تحریک انصاف کو اب تک تین مقدمات میں سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ تین دنوں میں تین مختلف مقدمات میں سزائیں سنائی گئی ہیں۔ سب سے پہلے سائفر میں' پھر توشہ خانہ میں، آخر میں عدت میں نکاح کے کیس میں سزا سنائی گئی ہے۔ میرے لیے یہ سزائیں کوئی حیرانی کا باعث نہیں ہیں۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سزائیں کافی تاخیر سے ہوئی ہیں۔
عمران خان ان سزاؤں کو تاخیر کا شکار کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہے۔ لیکن آخر میں الیکشن سے پہلے ہی سزائیں ہو گئی ہیں۔ اس لیے جو الیکشن سے پہلے سزائیں چاہتے تھے وہ کامیاب ہو گئے اور بانی تحریک انصاف شدید کوشش کے باوجود مکمل کامیاب نہیں ہوئے۔ لیکن کسی حد تک وہ کامیاب بھی رہے ہیں۔ تاخیر کا شکار ہونے کی وجہ سے ان کا انتخابی سیاست پر وہ اثر نہیں ہو رہا جو اگر پہلے ہو جاتا تو ممکن تھا۔
اس طرح اب تک عمران خان کو اکتیس سال قید کی سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ ان کے ساتھ ان کی بیگم بشریٰ بیگم کو بھی دو مقدمات میں سزائیں سنائی گئی ہیں۔ لیکن بشریٰ بیگم کو کسی جیل میں قید رکھنے کے بجائے بنی گالہ میں بانی تحریک انصاف کے گھر میں رکھا گیا ہے۔
بہت سے لوگ سوال کر رہے ہیں کہ یہ مہربانی کس خوشی میں کی گئی ہے۔ اگر مریم نواز کو جیل میں عام قیدیوں کی طرح رکھا جا سکتا ہے تو پھر بشریٰ بی بی کو جیل میں عام قیدی کی طرح کیوں نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ اگر تحریک انصاف کی اسیر خواتین یاسمین راشد وغیرہ کو عام قیدیوں کی طرح جیل میں رکھا جا سکتا ہے تو پھر بشریٰ بی بی کو جیل میں کیوں نہیں رکھا جا سکتا۔
میرے تحریک انصاف کے حامی دوستوں کی یہ بھی رائے ہے کہ عمران خان یا بشریٰ بی بی نے یہ درخواست نہیں کی ہے کہ بنی گالہ میں بشریٰ بی بی کو رکھا جائے گا۔لیکن میری ان سے درخواست ہے کہ سرکار کسی کے نجی گھر کو اس کی مرضی کے بغیر سب جیل قرار نہیں دے سکتی۔
کسی سرکاری ریسٹ ہاؤس کو تو سب جیل قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن کسی نجی گھر کو سب جیل اس کی مرضی کے بغیر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے بنی گالہ کو عمران خان کی مرضی کے بغیر سب جیل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اب یہ مہربانی کیوں کی جا رہی ہے اس کا جواب تو وقت ہی دے گا۔ میں اس وقت اس پر کوئی قیاس آرائی نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن اس کو نظر میں رکھنا ضروری ہے۔
میرے لیے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ تین دن تین سزاؤں کے بعد بھی ملک میں کوئی غیر معمولی کیا معمولی رد عمل بھی سامنے نہیں آیا۔ پورے ملک میں ایک احتجاج بھی نہیں ہوا۔ کہیں دس لوگ بھی اکٹھے نہیں ہوئے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ تین سزاؤں کو لوگوں نے کافی نارمل لیا ہے۔ شاید لوگ ذہنی طور پر ان سزاؤں کے لیے تیار تھے۔
اس لیے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ ورنہ یہ انتخابات کا موسم تھا۔ رد عمل کے لیے بہترین وقت تھا۔ اگر کہیں چند ہزار لوگ بھی اکٹھے ہو جاتے تو انتخابی مہم بھی بن جاتی۔ عوامی رد عمل بھی سامنے آجاتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ہے کہیں کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
اگر نو مئی کو صرف گرفتاری پر اتنا شدید رد عمل سامنے آسکتا ہے تو پھر تین سزاؤں پر رد عمل سامنے کیوں نہیں آیا۔ اگر میں تحریک انصاف والوں کی یہ بات مان لوں کہ نو مئی کا رد عمل اور فساد کی تحریک انصاف نے کوئی پلاننگ نہیں کی تھی اور لوگ عمران خان کی گرفتاری کا سن کر خود باہر آگئے تھے۔
اگر تحریک انصاف کی یہ منطق اور دفاع مان لیا جائے کہ وہ سب کچھ پلاننگ سے نہیں تھا بلکہ لوگوں کا فطری غصہ تھا۔ پھر تین سزاؤں پر کوئی فطری رد عمل کیوں نہیں تھا۔ تین سزاؤں پر لوگوں نے نو مئی جیسے غصہ کا اظہار کیوں نہیں کیا۔ اگر یہ دلیل مان لی جائے کہ لوگ جیلوں میں ہیں اس لیے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ تو پھر جیلوں میں تو ملک بھر میں اب صرف چند سو لوگ قید ہیں۔
کیا یہی تحریک انصاف کی کل عوامی طاقت تھی جو جیل میں ہے۔ اس کے علاوہ کوئی عوام ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ ملک میں 80 فیصد لوگ تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ دوسری طرف 80 لوگ بھی باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اگر یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت نے باہر نکلنے کی کوئی کال ہی نہیں دی۔ا س لیے لوگ باہر نہیں نکلے۔ اگر باہر نکلنے کی کال سامنے آجاتی تو لوگ باہر نکل آتے ۔ تو پھر آپ کو یہ تسلیم بھی کرنا ہوگا کہ نو مئی کو کال دی گئی تھی۔ اگر تین سزاؤں کے بعد لوگ کال کے انتظار میں نہیں نکلے تو پھر نو مئی کو کال سے ہی نکلے تھے۔
اس کا مطلب ہے کہ نو مئی کی باقاعدہ کال موجود تھی۔ اور اگر اب لوگ کال کے بغیر کہیں نہیں نکلے۔ اس لیے اب یا تو یہ مان لیں کہ کوئی عوامی رد عمل سامنے نہیں آیا یا یہ مان لیں کہ ہم نے نو مئی کی طرز پر کوئی کال نہیں دی تھی۔ اگر لوگ عمران خان کی محبت میں تب نکلے تھے تو کیا اب وہ محبت ختم ہو گئی ہے یا یہ ایسی محبت ہے جسے جب آواز دی جائے تب ہی جاگتی ہے۔ یہ محبت خود سے نہیں جاگتی۔ لوگ اس محبت میں کال کے انتظار میں رہتے ہیں۔ عوام کی محبت کسی کال یا کسی پلاننگ کی محتاج نہیں ہوتی۔
میری رائے میں تحریک انصاف کے حامی اب تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف سے عملی طور پر لاتعلق ہو چکے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ اس وقت وہ کسی اور جماعت کی حمایت کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ لیکن وہ تحریک انصاف سے بھی عملی طور پر لاتعلق ہو چکے ہیں۔ اس لیے جو تین سزاؤں پر نہیں نکلے۔ کیا وہ ووٹ ڈالنے نکل پڑیں گے۔
یہ ایک مشکل سوال ہے۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ لوگ صرف آٹھ فروری کا انتظار کر رہے ہیں کہ تب نکلیں گے۔ مجھے ایسا ماحول بھی نہیں لگ رہا۔ دوستوں کو امید ہے وہ مجھے چیلنج بھی کر رہے ہیں۔اس لیے میں بھی انتظار میں ہوں۔اس کا فیصلہ تو آٹھ فروری کو ہی ہوگا۔ پھر اس پر کوئی بات ہو سکے گی۔ لیکن تحریک انصاف کے امیدوار بھی بہت ناامید ہیں۔انھیں بھی جو توقع تھی وہ پوری نہیں ہوئی ہے۔
انھیں گراؤنڈ میں وہ صورتحال نہیں مل رہی جس کی توقع تھی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ سختیاں ہیں، پولیس کا خوف ہے۔ لیکن عوامی رد عمل اگر فطری ہو تو ریاست سامنے نہیں کھڑی ہو سکتی۔ اگر آپ نے نو مئی کی طرز پر اپنے کارکنوں کے ساتھ پلاننگ کر کے کوئی رد عمل پیدا کرنے کی کوشش کی ہو تو ریاست اس کو شکست دے دیتی ہے کیونکہ یہ فطری نہیں غیر فطری رد عمل ہوتا ہے۔
عمران خان ان سزاؤں کو تاخیر کا شکار کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہے۔ لیکن آخر میں الیکشن سے پہلے ہی سزائیں ہو گئی ہیں۔ اس لیے جو الیکشن سے پہلے سزائیں چاہتے تھے وہ کامیاب ہو گئے اور بانی تحریک انصاف شدید کوشش کے باوجود مکمل کامیاب نہیں ہوئے۔ لیکن کسی حد تک وہ کامیاب بھی رہے ہیں۔ تاخیر کا شکار ہونے کی وجہ سے ان کا انتخابی سیاست پر وہ اثر نہیں ہو رہا جو اگر پہلے ہو جاتا تو ممکن تھا۔
اس طرح اب تک عمران خان کو اکتیس سال قید کی سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ ان کے ساتھ ان کی بیگم بشریٰ بیگم کو بھی دو مقدمات میں سزائیں سنائی گئی ہیں۔ لیکن بشریٰ بیگم کو کسی جیل میں قید رکھنے کے بجائے بنی گالہ میں بانی تحریک انصاف کے گھر میں رکھا گیا ہے۔
بہت سے لوگ سوال کر رہے ہیں کہ یہ مہربانی کس خوشی میں کی گئی ہے۔ اگر مریم نواز کو جیل میں عام قیدیوں کی طرح رکھا جا سکتا ہے تو پھر بشریٰ بی بی کو جیل میں عام قیدی کی طرح کیوں نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ اگر تحریک انصاف کی اسیر خواتین یاسمین راشد وغیرہ کو عام قیدیوں کی طرح جیل میں رکھا جا سکتا ہے تو پھر بشریٰ بی بی کو جیل میں کیوں نہیں رکھا جا سکتا۔
میرے تحریک انصاف کے حامی دوستوں کی یہ بھی رائے ہے کہ عمران خان یا بشریٰ بی بی نے یہ درخواست نہیں کی ہے کہ بنی گالہ میں بشریٰ بی بی کو رکھا جائے گا۔لیکن میری ان سے درخواست ہے کہ سرکار کسی کے نجی گھر کو اس کی مرضی کے بغیر سب جیل قرار نہیں دے سکتی۔
کسی سرکاری ریسٹ ہاؤس کو تو سب جیل قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن کسی نجی گھر کو سب جیل اس کی مرضی کے بغیر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے بنی گالہ کو عمران خان کی مرضی کے بغیر سب جیل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اب یہ مہربانی کیوں کی جا رہی ہے اس کا جواب تو وقت ہی دے گا۔ میں اس وقت اس پر کوئی قیاس آرائی نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن اس کو نظر میں رکھنا ضروری ہے۔
میرے لیے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ تین دن تین سزاؤں کے بعد بھی ملک میں کوئی غیر معمولی کیا معمولی رد عمل بھی سامنے نہیں آیا۔ پورے ملک میں ایک احتجاج بھی نہیں ہوا۔ کہیں دس لوگ بھی اکٹھے نہیں ہوئے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ تین سزاؤں کو لوگوں نے کافی نارمل لیا ہے۔ شاید لوگ ذہنی طور پر ان سزاؤں کے لیے تیار تھے۔
اس لیے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ ورنہ یہ انتخابات کا موسم تھا۔ رد عمل کے لیے بہترین وقت تھا۔ اگر کہیں چند ہزار لوگ بھی اکٹھے ہو جاتے تو انتخابی مہم بھی بن جاتی۔ عوامی رد عمل بھی سامنے آجاتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ہے کہیں کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
اگر نو مئی کو صرف گرفتاری پر اتنا شدید رد عمل سامنے آسکتا ہے تو پھر تین سزاؤں پر رد عمل سامنے کیوں نہیں آیا۔ اگر میں تحریک انصاف والوں کی یہ بات مان لوں کہ نو مئی کا رد عمل اور فساد کی تحریک انصاف نے کوئی پلاننگ نہیں کی تھی اور لوگ عمران خان کی گرفتاری کا سن کر خود باہر آگئے تھے۔
اگر تحریک انصاف کی یہ منطق اور دفاع مان لیا جائے کہ وہ سب کچھ پلاننگ سے نہیں تھا بلکہ لوگوں کا فطری غصہ تھا۔ پھر تین سزاؤں پر کوئی فطری رد عمل کیوں نہیں تھا۔ تین سزاؤں پر لوگوں نے نو مئی جیسے غصہ کا اظہار کیوں نہیں کیا۔ اگر یہ دلیل مان لی جائے کہ لوگ جیلوں میں ہیں اس لیے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ تو پھر جیلوں میں تو ملک بھر میں اب صرف چند سو لوگ قید ہیں۔
کیا یہی تحریک انصاف کی کل عوامی طاقت تھی جو جیل میں ہے۔ اس کے علاوہ کوئی عوام ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ ملک میں 80 فیصد لوگ تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ دوسری طرف 80 لوگ بھی باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اگر یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت نے باہر نکلنے کی کوئی کال ہی نہیں دی۔ا س لیے لوگ باہر نہیں نکلے۔ اگر باہر نکلنے کی کال سامنے آجاتی تو لوگ باہر نکل آتے ۔ تو پھر آپ کو یہ تسلیم بھی کرنا ہوگا کہ نو مئی کو کال دی گئی تھی۔ اگر تین سزاؤں کے بعد لوگ کال کے انتظار میں نہیں نکلے تو پھر نو مئی کو کال سے ہی نکلے تھے۔
اس کا مطلب ہے کہ نو مئی کی باقاعدہ کال موجود تھی۔ اور اگر اب لوگ کال کے بغیر کہیں نہیں نکلے۔ اس لیے اب یا تو یہ مان لیں کہ کوئی عوامی رد عمل سامنے نہیں آیا یا یہ مان لیں کہ ہم نے نو مئی کی طرز پر کوئی کال نہیں دی تھی۔ اگر لوگ عمران خان کی محبت میں تب نکلے تھے تو کیا اب وہ محبت ختم ہو گئی ہے یا یہ ایسی محبت ہے جسے جب آواز دی جائے تب ہی جاگتی ہے۔ یہ محبت خود سے نہیں جاگتی۔ لوگ اس محبت میں کال کے انتظار میں رہتے ہیں۔ عوام کی محبت کسی کال یا کسی پلاننگ کی محتاج نہیں ہوتی۔
میری رائے میں تحریک انصاف کے حامی اب تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف سے عملی طور پر لاتعلق ہو چکے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ اس وقت وہ کسی اور جماعت کی حمایت کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ لیکن وہ تحریک انصاف سے بھی عملی طور پر لاتعلق ہو چکے ہیں۔ اس لیے جو تین سزاؤں پر نہیں نکلے۔ کیا وہ ووٹ ڈالنے نکل پڑیں گے۔
یہ ایک مشکل سوال ہے۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ لوگ صرف آٹھ فروری کا انتظار کر رہے ہیں کہ تب نکلیں گے۔ مجھے ایسا ماحول بھی نہیں لگ رہا۔ دوستوں کو امید ہے وہ مجھے چیلنج بھی کر رہے ہیں۔اس لیے میں بھی انتظار میں ہوں۔اس کا فیصلہ تو آٹھ فروری کو ہی ہوگا۔ پھر اس پر کوئی بات ہو سکے گی۔ لیکن تحریک انصاف کے امیدوار بھی بہت ناامید ہیں۔انھیں بھی جو توقع تھی وہ پوری نہیں ہوئی ہے۔
انھیں گراؤنڈ میں وہ صورتحال نہیں مل رہی جس کی توقع تھی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ سختیاں ہیں، پولیس کا خوف ہے۔ لیکن عوامی رد عمل اگر فطری ہو تو ریاست سامنے نہیں کھڑی ہو سکتی۔ اگر آپ نے نو مئی کی طرز پر اپنے کارکنوں کے ساتھ پلاننگ کر کے کوئی رد عمل پیدا کرنے کی کوشش کی ہو تو ریاست اس کو شکست دے دیتی ہے کیونکہ یہ فطری نہیں غیر فطری رد عمل ہوتا ہے۔