کسان تاحال درآمدی کھاد سے محروم اربوں روپے خوردبرد ہونے کا خدشہ

یوریا فراہمی کا طریقہ کار وضع نہ ہونے کے باعث کھاد اب تک کسانوں تک نہ پہنچ سکی

2 لاکھ 20 ہزار ٹن کھاد آذربائیجان سے درآمد کی گئی تھی جو سرکاری گودام میں پڑی ہے۔ فوٹو : فائل

نگراں حکومت کی جانب سے کسانوں کو یوریا کھاد کی فراہمی کا طریقہ کار طے کرنے میں ناکامی کے باعث ڈیلرز کی جانب سے یوریا کی فراہمی کے عمل میں اربوں روپے کے خوردبرد ہونے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔

حکومت نے 2 لاکھ 20 ہزار ٹن یوریا آذربائیجان سے درآمد کی تھی جس کی مالیت 30 ارب روپے تھی اور 25 دسمبر کو سرکاری گوداموں میں رکھا گیا تھا تاہم یہ کھاد تا حال کسانوں تک نہیں پہنچ سکی جو گندم کی اگلی فصل کے لیے اس کے انتظار میں ہیں۔

اس سے قبل اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے اپنے اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ یوریا بنانے والے کارخانے سرکاری گودام سے ضرورت کے مطابق کھاد حاصل کریں گے اور اسے ایک مناسب قیمت پر کسانوں کو فراہم کریں گے لیکن اس کا طریقہ کار اب تک وضع نہیں کیا جاسکا جس کے باعث درآمدی کھاد اب تک سرکاری گوداموں میں ہی پڑی ہے۔


یہ بھی پڑھیں: یوریا درآمد کرنے کے بعد بھی کھاد کا بحران جاری رہیگا، پاکستان کسان اتحاد

یوریا درآمد کرنے کا مقصد کسانوں کو کھاد کی بروقت فراہمی اور مارکیٹ میں اس کی قیمتوں کو قابو میں رکھنا تھا تاہم کسانوں کو یا تو اب تک کھاد فراہم نہیں کی جاسکی ہے یا انہیں اس کے لیے دگنی قیمت ادا کرنی پڑرہی ہے جو کہ 6000 روپے فی بیگ ہے۔

اس سے قبل کابینہ نے اپنے اجلاس میں بھی کم قیمت پر گیس لینے کے باوجود یوریا بنانے والے کارخانوں کی جانب سے کسانوں سے کھاد کے بدلے بھاری قیمتیں وصول کرنے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا جبکہ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے مقامی طور پر تیار کی جانے والی اور درآمدی کھاد کی قیمتوں کے تعین کا طریقہ کار وضع کرنے کی منظوری دی تھی کیونکہ صوبوں نے قیمتوں میں اضافی بوجھ کو برداشت کرنے سے انکار کردیا تھا۔

کابینہ کمیٹی نے یہ بھی کہا تھا کہ نیشنل فرٹیلائزر مارکیٹنگ لمیٹڈ درآمدی یوریا کی قیمتوں کا تعین کرے گا اور فنانس ڈویڑن کا کہنا تھا کہ ایک بار قیمتوں کا تعین ہوجانے کے بعد مزید کسی قسم کی کوئی سبسڈی نہیں دی جائے گی۔
Load Next Story