دہشت گردی کا تسلسل آخر کب تک

پاکستان میں پالیسیوں کا تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں دہشت گردی کے خلاف جیتی ہوئی جنگ دوبارہ لڑنی پڑ رہی ہے

پاکستان میں پالیسیوں کا تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں دہشت گردی کے خلاف جیتی ہوئی جنگ دوبارہ لڑنی پڑ رہی ہے۔ فوٹو: فائل

کسی بھی جارحیت یا علاقائی خود مختاری کی خلاف ورزی کا بھرپور قومی عزم اور طاقت کے ساتھ جواب دیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے لائن آف کنٹرول پر تعینات پاک فوج کے جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

دوسری جانب ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل درابن میں رات گئے پولیس تھانہ چودھوان پر دہشت گردوں نے حملہ کردیا، اس حملے میں دس پولیس اہلکار شہید ہوئے ہیں جب کہ نو اہلکار زخمی ہوئے جن میں تھانے کا ایس ایچ او بھی شامل ہے۔

اطلاعات کے مطابق تھانے کی عمارت کی سیکیورٹی پر تعینات اہلکاروں کو اسنائپر سے نشانہ بنایا گیا ، مارٹر گنز کا استعمال کیا گیا، پھر تھانے کے قریب گھات لگائے ہوئے دہشت گردوں نے دستی بم پھینکے اور اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے تھانے کی عمارت میں داخل ہوگئے، دہشت گردوں نے یہ کارروائی جنگی حکمت عملی کی طرح کی ہے۔

دور سے اسنائپر نشانے لے رہا تھا، مارٹرگنز استعمال کی جارہی تھیں، پھر دستی بم پھینکے گئے اور یوں دہشت گردوں کو تھانے کی عمارت میں داخل ہونے کے لیے راستہ فراہم کیا گیا، اس شب خون کی شدت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

اس کے باوجود پولیس کے جوانوں نے حواس برقرار رکھے اور دہشت گردوں پر جوابی فائرنگ کی، دہشت گردوں کا ہدف تھانے کی عمارت پر قبضہ کرنا اور وہاں موجود اہلکاروں کو یرغمال بنانا تھا لیکن ان کی یہ کوشش ناکام رہی۔

بلاشبہ ہمارے سیکیورٹی ادارے ملک کی سرزمین پر دہشت گردی کی جڑیں کاٹنے اور دفاع ملک و قوم کے تقاضے نبھانے میں ہمہ وقت مصروف اور چوکس ہیں اور اس کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کررہے ہیں۔

عام انتخابات کے اعلان کے بعد سے دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے ، سیکیورٹی فورسز کے لیے اس میں کوئی حیرانی یا پریشانی کی بات نہیں ہے کیونکہ ایسے حملوں کی توقع کی جارہی تھی کیونکہ پاکستان میں مخصوص مائنڈ سیٹ رکھنے والا ایک بااثر اور امیر گروہ الیکشن کا انعقاد نہیں چاہتا، پاکستان میں دہشت گردی میں اضافے کا مقصد بھی ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش ہے، جس کے بل بوتے پر اس بیانیے کو طاقت ور بنایا جاسکے کہ موجودہ حالات میں الیکشن نہیں ہوسکتے ۔

ملک میں باشعور طبقہ اور سیکیورٹی فورسز اس مختصر سے گروہ کی منفی سوچ اور عیارانہ حکمت عملی سے پوری طرح آگاہ ہوچکا ہے، لہٰذا پاکستان کے سیکیورٹی ادارے ٹارگٹیڈ آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں، اس کی وجہ سے دہشت گردوں کو ان کے انجام تک پہنچایا جارہاہے جب کہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے گرد قانون کا شکنجہ کسا جارہاہے۔

ملک کی سلامتی کمزور کرنے اور اسے سیاسی و اقتصادی عدم استحکام سے دوچار کرنے کا مخصوص ایجنڈا رکھنے والے مسلسل شکست کھا رہے ہیں۔

افغانستان میں طالبان عبوری حکومت کی نرم پالیسی کے باعث پاکستان کے لیے خاصی مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ایران کی سرحد سے متصل ایرانی صوبے میں بھی دہشت گرد گروہوں کے لیے حالات سازگار ہیں، پاکستان نے یہاںفضائی کارروائی بھی کی ہے۔پاکستان کا خیبر پختونخوا اور بلوچستان سافٹ بیلی بن چکا ہے،پاکستان کے یہ دونوں صوبے قبائلی اور سرداری روایات میں جکڑے ہوئے ہیں۔

کابل کو چھوڑ کر سارا افغانستان غربت وپسماندگی کا شکار ہے،مڈل کلاس کا نام و نشان نہیں ہے، افغانستان کا غریب طبقہ ناخواندہ اور غیر ہنرمند ہے، قدیم قبائلی رسوم و رواج کے نام پر غریب طبقہ سرداروں، ملاؤں اور وارلارڈز کی حکمرانی بھگت رہا ہے۔کابل شہر کا پڑھا لکھا طبقہ تعداد میں انتہائی مختصر ہے، کاروباری طبقے کا سائز بھی بہت چھوٹا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کسی بھی مسلح فورس کے لیے کابل پر قبضہ کرنا کوئی مشکل مہم نہیں رہی ہے۔ جس کے پاس مسلح طاقت زیادہ ہے ، کابل میں حکومت اس کی ہے۔ امریکا نے حملہ کیا تو طالبان بغیر مزاحمت کے کابل سے نکل گئے ۔


امریکا نے کابل کا اقتدار حامد کرزئی، عبداﷲ عبداﷲ اور اشرف غنی کے حوالے کردیا، وہ مزے سے حکومت کرتے رہے ، امریکا افغانستان سے نکلا تو طالبان نے بھی بغیر کسی مزاحمت کے کابل کا کنٹرول حاصل کرلیا،اب وہ مزے سے حکومت کررہے ہیں۔

پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ افغانستان کے صوبے سب سے زیادہ پسماندہ اور غربت کا شکار ہیں، یہاں ٹی ٹی پی، داعش و القاعدہ پوری آزادی کے ساتھ نقل و حرکت کررہی ہیں، پاکستان میں دہشت گردی کا سورس یہی علاقے ہیں، اسی طرح ایران کا صوبہ سیستان بلوچستان اس کا پسماندہ ترین ریجن ہے حالانکہ افغانستان کی نسبت ایران کئی گناہ ترقی یافتہ ہے۔شرح تعلیم شاید پاکستان سے بھی زیادہ ہے، مڈل کلاس کا سائز بھی بڑا ہے لیکن سیستان بلوچستان پسماندہ ترین ہے، یہی وجہ ہے کہ اس وسیع ایریا میں مختلف قسم کے دہشت گرد گروہ باآسانی رہ سکتے ہیں۔

پاکستان کے اندر سیاسی انتشار اور کمزور معیشت نے سرکاری رٹ کو کمزور کیا ہے۔ اگر پاکستان کے تزویراتی مفکرین نے تاریخ سے کوئی سبق سیکھا ہوتا تو انھیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ شمال مغرب ہمارے خطے کے لیے کبھی دوست نہیں رہا۔جنوبی ایشیا میں امن اور خوشحالی کو برقرار رکھنے کے لیے شمال مغربی سرحد کو محفوظ بنانا اولین شرط ہے۔بلبن سے لے کر مغل حکومت تک کی حکمت کا جائزہ لیں ، شمال مغرب کی سرحد کی نگرانی انتہائی سخت رہی ہے۔

دہشت گردوں کا مقصد الیکشن کے عمل کو روکنا، متنازعہ بنانا اور رائے دہندگان کو پولنگ اسٹیشنوں پر آنے سے روکنے کے لیے خوف اور دہشت کا ماحول پیدا کرنا ہے ۔

دہشت گردی اور تشدد میں حالیہ اضافہ اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ خوف و ہراس کے باعث ووٹرز گھروں سے نہیں نکلتا، یوں پولنگ ٹرن آوٹ کم ہوجاتا ہے، جس سے انتخابات کی قانونی حیثیت اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والے سیاسی سیٹ اپ کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے۔

مختلف ناموں سے قائم انتہا پسند اور دہشت گرد گروپس اپنی اصل میں ایک ہی ہیں، چاہے وہ مذہب کا لبادہ اوڑھیں یا قوم پرستی کا، ان کا ایجنڈا طاقت کے بل بوتے پر اپنا اقتدار قائم کرنا ہے ، یہ لوگ جمہوریت کے دشمن ہیں کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ وہ عوام کی رائے سے اقتدار میں نہیں آسکتے ۔اسی لیے یہ لوگ سفاکی، بے رحمی اور بہیمانہ سزاؤں کو بطور حکمت عملی اختیار کرتے ہیں تاکہ عوام کے ذہنوں میں ڈر اور خوف بیٹھ جائے۔ ہم اس حقیقت سے کتنی بھی آنکھیں چرائیں مگر یہ بات سچ ہے کہ وطن عزیز میں ایک بار پھر تعزیتوں کا موسم لوٹ آ یا ہے۔

کوئی ایک واقعہ ہو تو اس پر خاموش رہا جا سکتا ہے لیکن اب تو واقعات کا تسلسل ہمیں چین سے سونے نہیں دے رہا۔ چند سال پیشتر ہم سمجھ رہے تھے کہ دشمن کی کمر ٹوٹ چکی، لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس گواہی دے رہے ہیں اور خدشات، خطرات کا روپ دھار چکے ہیں۔دہشت گردی کا ناگ پھر پھنکار رہا ہے۔ اب تدبیر اور حکمت کا ہنر اور بروقت فیصلہ ہی اس گرداب سے نکال سکتا ہے۔ نفرتوں کے لاوے کو یک جان ہوکر ضرب کاری سے شکست دینی ہوگی، تاکہ یہ ملک امن کا گہوارہ بن سکے۔

اس وقت ہمیں دو طرح کے چیلنجز درپیش ہیں جن میں مذہب کی بنیاد پر دہشت گردی اور قوم پرستی کی بنیاد پر دہشت گردی شامل ہے، حالانکہ ان دونوں چیزوں کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے، ایک سازش کے تحت دہشت گردی کو مذہب اور قوم پرستی سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ملک کو کمزور کرنے کے لیے پراکسیز لڑی جا رہی ہیں۔

ان کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان کی مسلح افواج اور سول آرمڈ فورسز نے قربانی کے عظیم جذبے کے ساتھ فرنٹ لائن پر کھڑے ہو کر دنیا میں نئی مثال قائم کر دی ہے۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر نئے چیلنجز کا باعث بن رہی ہے، دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے پاکستان کے اندر چھپے ہوئے دشمن تک پہنچنا ہوگا۔

دوسرے ملک سے پاکستان میں آکر دہشت گردی کرنے والے اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک پاکستان میں انھیں سہولت کار میسر نہ ہوں، جو دہشت گرد گروہ دوسرے ملک میں جاکر دہشت گردی کرتے ہیں، ان کا دولت کے سوا کوئی نظریہ نہیں ہوتا، وہ کرائے کے قاتل ہوتے ہیں، انھیں جو پیسہ دے گا، وہ اس کے لیے قتل کردیں گے ، اس لیے قاتل کے ساتھ ساتھ قاتل کی خدمات حاصل کرنے والوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچا کر ہی دہشت گردی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔

ملک کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی سازشیں ناکام بنانے کے لیے ہمارے سیکیورٹی اداروں کو ہر قسم کے لیپس سے پاک کر کے ازسر نو منظم اور مربوط بنانے کی ضرورت ہے،سیکیورٹی فورسز کو جدید ترین اسلحہ سے لیس کرنا انتہائی ضروری ہوچکا ہے کیونکہ دہشت گردوں کے پاس جدید ترین امریکن اسلحہ موجود ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں پالیسیوں کا تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں دہشت گردی کے خلاف جیتی ہوئی جنگ دوبارہ لڑنی پڑ رہی ہے، یہ افواج پاکستان اور سول آرمڈ فورسزکی نہیں بلکہ ریاست کی جنگ ہے، اس میں کامیابی کے لیے پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا سمیت تمام اسٹیک ہولڈرزکی شمولیت ناگزیر ہے۔
Load Next Story