کھیل سے جیل تک
اپنی مقبولیت دیکھ کر اس نے اُسی چیز کو ٹارگٹ بنالیا جو برّصغیر میں دولت اور شہرت حاصل کرنے والوں کی رِیت رہی ہے
وہ عالمی سطح کا کھلاڑی تھا، خوبرو تھا، کئی سال تک قومی کرکٹ ٹیم کا کپتان رہا، اسی کی کپتانی میں پاکستانی کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ جیتا، جس سے اسے ملک بھر میں بے حد عزت اور شہرت ملی اور وہ قوم کا ہیرو بن گیا۔
اپنی مقبولیت دیکھ کر اس نے اُسی چیز کو ٹارگٹ بنالیا جو برّصغیر میں دولت اور شہرت حاصل کرنے والوں کی رِیت رہی ہے، اقتدار کی منزل تک پہنچنے کے لیے وہ بھی سیاست میں داخل ہوگیا۔ دو دھائیوں کی جدّوجہد یا دھکّے کھانے نے بعد اس کی یہ خواہش بھی پوری ہوگئی اور وہ ملک کا وزیراعظم بن گیا۔
ایک اسپورٹس ہیرو اور ملک کے سابق وزیراعظم کا اس طرح جیل جانا اور مختلف کیسوں میں سزایاب ہونا افسوسناک ہے، مجھے اُس کے اِس انجام کی خوشی نہیں، دکھ ہوا ہے۔ اس المیے کی وجوہات کیا ہیں اور کون کون اس کا ذمّے دار ہے؟ اس تجزیے سے پہلے مجھے عمران خان کے ساتھ اپنے interaction کے واقعات یاد آرہے ہیں۔
یہ غالباً 1996کی بات ہے جب انھوں نے اپنی پارٹی کو پہلی بار سیاسی دنگل میں اتارا اور مختلف شہروں کے دورے شروع کیے۔ میں اُس وقت فرنٹیئر کانسٹیبلری کے ضلع شبقدر میں تعینات تھا اور ڈی او ایف سی کی حیثیّت سے شبقدر کے تاریخی قلعے میں قیام پذیر تھا۔ وہیں ایک رات میرے فون کی گھنٹی بجی تو آپریٹر نے بتایا کوئی صحافی ہیں، رئیس انصاری صاحب (آجکل ایک بڑے چینل کے بیوروچیف ہیں) آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔
میں جب ایس پی سٹی لاہور تھا تو اس وقت سے ان کا میرے ساتھ اچھا تعلق تھا۔ رئیس نے بتایا کہ میں اپنے ادارے کی طرف سے عمران خان کی سیاسی سرگرمیوں کو cover کررہا ہوں، آج انھوں نے فیصل آباد میں تقریر کی ہے اور اس میں آپ کا بھی ذکر کیا ہے۔ مجھے یہ سن کر حیرانی بھی ہوئی اور تشویش بھی، اس لیے میں نے پوچھا کہ میں تو عمران خان کو جانتا تک نہیں، کبھی ملا بھی نہیں، انھوں نے کیا کہا ہے میرے بارے میں؟ رئیس نے کہا کہ انھوں نے بڑے اچھے پیرائے میں آپ کا ذکر کیا ہے۔
اس کے بعد ایک دو اور شہروں سے بھی اسی نوعیّت کے فون آئے۔ چند دنوں بعد عمران خان کے بہنوئی اور میرے دیرینہ دوست حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ ''عمران تو آپ کا فین ہوگیا ہے، آپ لاہور آئیں تواس سے ضرور ملیں، آپ سے مل کر بہت خوش ہوگا۔'' میں نے ان سے بھی پوچھا کہ میں تو اسے کبھی نہیں ملا، وہ کیسے فین ہوگیاہے۔
کہنے لگے'' وہ رحیم یار خان گیا تھا، جہاں چار پانچ مختلف جگہوں پر لوگوں نے کہا کہ ''ایس پی ذوالفقار چیمہ کی وجہ سے پورے ضلع میں بہت تبدیلی آئی ہے۔'' عمران خان کو اس بات سے بڑی inspiration ملی ہے اور وہ بار بار کہتا ہے کہ '' ایک ایس پی پورے ضلعے کو تبدیل کرسکتا ہے تو ایک سیاسی لیڈر پورے ملک کو کیوں نہیں بدل سکتا۔'' اس کے چند ہفتوں بعد میں لاہور گیا تو زمان پارک والے گھر میں (اس وقت حفیظ اللہ نیازی بھی اسی گھر میں رہتے تھے) عمران خان صاحب سے ملاقات ہوئی۔
پہلے بھی لکھا ہے اب پھر دہرا دیتا ہوں کہ میں نے ملتے ہی انھیں کہا ''خان صاحب! میں خود آپ سے مل کر ایک مشورہ دینا چاہتا تھا۔'' وہ پوری طرح متوجّہ ہو کر کہنے لگے، ہاں ضرور بتائیں،آپ کے مشورے پر ضرور عمل کروںگا۔'' میں نے کہا ''میرا مشورہ تو یہ ہے کہ آپ سیاست کی دلدل میں داخل نہ ہوں، اِس وقت آپ ایک غیر متنازعہ قومی ہیرو ہیں۔ سیاست دان بن کر آپ متنازعہ ہوجائیں گے اور ملک ایک ہیرو سے محروم ہوجائے گا،غیر متنازعہ ہیرو کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں، سیاستدانوں کی تو کوئی کمی نہیں مگرہمارے ہاں غیرمتنازعہ ہیرو نہ ہونے کے برابر ہیں۔'' میرا مشورہ انھیں بالکل پسند نہ آیاکیونکہ وہ میدانِ سیاست میں اترنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔
پہلا مشورہ نہ مانا گیا تو میں نے اس پر اصرار نہ کیا اور فوراً دوسرا مشورہ دیا''تو چلیں پھر یہ تہیّہ کرلیں کہ آپ اپنی پارٹی میں کبھی کرپٹ اور بدنام لوگوں کو شامل نہیں کریں گے۔'' انھوں نے بڑے پرعزم انداز میں کہا ''بالکل! میں کبھی کرپٹ لوگوں کو اپنی پارٹی میں شامل نہیں کروں گا، میں ایسے لوگوں سے ہاتھ تک نہیں ملاوںگا۔ ایسے کئی لوگ میرے ساتھ آنا چاہتے تھے مگر میں نے انھیں لینے سے انکار کردیا ہے۔'' وہ مجھ سے شبقدر قلعے اور اس میں زنجیروں سے جکڑے ہوئے دروازوں کے بارے میں پوچھتے رہے، اُس وقت وہ ایک مخلص انسان نظر آئے ۔
پہلی ملاقات میں میری طرف سے دیے گئے دونوں مشوروں میں سے انھوں نے ایک پر بھی عمل نہ کیا۔ پہلے الیکشن میں وہ بری طرح ناکام ہوئے تو اس کے فوراً بعد وہcompromises کے سفر پر چل پڑے۔
جنرل مشرف نے ایک منتخب حکومت ختم کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تو عمران خان جمہوریت کے ساتھ نہیں، ڈکٹیٹر کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور اس کے بدنامِ زمانہ ریفرنڈم میں اس کے چیف پولنگ ایجنٹ بن گئے۔ اُس وقت میں نے اپنے ادارے کے سربراہ کی ناراضی کے باوجود انھیں نیشنل پولیس اکیڈیمی بلایا، جہاں میں نے سخت جملے بولے مگر انھوں نے سو سے زیادہ پولیس افسروں کے سامنے تقریر کرتے ہوئے پھر کہا ''ذوالفقار چیمہ اُن چند لوگوں میں سے ہیں جن سے مجھے inspiration ملی ہے۔''
جنرل مشرف کئی انٹرویوز میں بتاچکے '' عمران مجھ سے وزارتِ عظمٰی مانگتا تھا مگر میں نے اسے سمجھایا کہ تمہاری چھوٹی سی پارٹی ہے، ہم تمہیں آٹھ دس سیٹیں دلا دینگے۔'' اس پر ناراضی ہوگئی اور عمران خان صاحب مشرف کے خلاف میاں نوازشریف کے ہمنوا بن گئے، اُس دور میں انھوں نے درجنوں تقریریں نوازشریف کے حق میں کیں۔ وہ بارہا لندن میں ایون فیلڈز کے انھی فلیٹس میں جاتے رہے جن کے بارے میں کئی سال بعد اچانک انھیں خیال آیا کہ یہ تو عوام کا پیسہ لُوٹ کر خریدے گئے ہیں۔
اُس وقت وہ ن لیگ کے وزیروں سے بڑھ کر نوازشریف کا دفاع کیا کرتے تھے، ایک انٹرویو میں (جو سوشل میڈیا پر چل رہا ہے) انھوں نے میاں نوازشریف کے بیرونِ ملک قیام کی حمایت میں کہا کہ'' جنرل مشرف ایک ڈکٹیٹر ہے اور ہماری عدالتیں اور جج اس سے ڈرتے ہیں، اس کی موجودگی میں نواز شریف کو یہاں انصاف نہیں مل سکتا، اس لیے انھوں نے باہر جاکر اچھا کیا ہے۔''
پرانی ریکارڈنگز دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے، اُس وقت کپتان میں چالاکی اور عیّاری نہیں تھی بلکہ سادگی اور معصومیت تھی، اُسی سادگی اور صداقت میں وہ اچھی اور سچی باتیں کیا کرتا تھا۔ وہ آئین کی بالادستی، عدلیہ اور میڈیا کی آزادی اور قانون کی حکمرانی کی باتیں کیا کرتا تھا جو پڑھے لکھے لوگوں کے دلوں میں اترتی تھیں۔
چودہ پندرہ سال کی جدوجہد کے بعد بھی جب انھیں کوئی پذیرائی نہ ملی اور پارلیمنٹ میں ان کی نمایندگی ایک سیٹ سے نہ بڑھ سکی تو پھر کچھ ظاہری اور کچھ خفیہ مشیروں نے انھیں ''کامیابی کا اصل راستہ'' دکھایا اور انھوں نے اپنے آپ کو اپنے تمام تر آدرشوں سمیت کامیابی دلانے والوں کے حوالے کردیااور پھر پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ اُسی خود سپردگی کی کیفیّت میں اکتوبر 2011 کا کامیاب جلسہ ہوا اور پھر 2014 کے دھرنوں میں انھوںنے طاہر القادری صاحب کا پارٹنر بن کر اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ بننا قبول کرلیا۔
اس کے بعد انھوں نے جمہوریّت کے ساتھ ہمیشہ کے لیے اپنا ناتا توڑ لیا اور جمہوری کلچر کے قیام کے لیے اپنے دعوؤں اور وعدوں کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالا۔ 2017میں ایک منتخب جمہوری وزیراعظم کو نکالا گیا تو وہ احتجاج کرنے کے بجائے مٹھائیاں بانٹنے والوں میں شامل تھا۔ 2018 کاالیکشن عمران خان نے ایک مہرے کی حیثیت سے بیساکھیوں کے سہارے لڑا جس میں اس کے سہولت کاروں نے اسے جتانے کے لیے ''چھڑی اور گاجر'' دونوں کا بھرپور استعمال کیا، اور پھر ہر قسم کے حربوں کے بعد اسے وزیراعظم کا حلف دلوایا جاسکا۔
ایوانِ اقتدار میں پہنچ کر اس کی شخصیّت کے پرت آہستہ آہستہ کھلنے لگے، چند ہفتوں میں ہی کپتان کی نااہلی بے نقاب ہوگئی اور ریاست کے سینئر اور تجربہ کار اہلکاروں نے اس کی اہلیّت اورcapacity پر سوال اٹھانے شروع کر دیے، اور شکایتوں کے انبار لگنا شروع ہوگئے ۔
لاکھوں نوجوانوں نے خواب دیکھے تھے کہ ''تبدیلی'' ان کے لیے بہتر مستقبل کی نوید لائے گی۔ عوام سمجھتے تھے کہ ''نیا پاکستان'' اُن کے دکھوں کا مداوا کرے گا اور ان کے زخموں پر مرہم رکھے گا، مگر تبدیلی اپنے ساتھ مہنگائی کا طوفان لے کر وارد ہوئی اور نئے پاکستان میں پہلے دو سالوں میں ہی نوجوانوں کے خواب کرچی کرچی ہوکر بکھر گئے۔
ایک اہم ادارے کے سربراہ سے پہلی ملاقات میں ہی وزیرِاعظم عمران خان صاحب نے فرمایا کہ ''ملک کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی یا معیشت نہیں، مجھ پر تنقید کرنے والی اپوزیشن ہے، اپوزیشن کے سب لیڈروں کو اندر کردیں۔'' جواب آیا کہ ''آپ کی خواہش فاشزم میں پوری ہوسکتی ہے، جمہوریّت میں نہیں'' مگر خان صاحب کی طرف سے درجنوں سیاستدانوں کو اندر اور کئی صحافیوں کو چینل سے باہر کرنے کااصرار جاری رہا۔
پہلے سال ہی باخبر لوگ جان گئے کہ یہ عالمی سطح کا کھلاڑی اسپورٹس مین اسپرٹ پر یقین نہیں رکھتا بلکہ وہ ایک فاشسٹ نظریات اور آمرانہ سوچ کا حامل ہے۔ (جاری ہے)
اپنی مقبولیت دیکھ کر اس نے اُسی چیز کو ٹارگٹ بنالیا جو برّصغیر میں دولت اور شہرت حاصل کرنے والوں کی رِیت رہی ہے، اقتدار کی منزل تک پہنچنے کے لیے وہ بھی سیاست میں داخل ہوگیا۔ دو دھائیوں کی جدّوجہد یا دھکّے کھانے نے بعد اس کی یہ خواہش بھی پوری ہوگئی اور وہ ملک کا وزیراعظم بن گیا۔
ایک اسپورٹس ہیرو اور ملک کے سابق وزیراعظم کا اس طرح جیل جانا اور مختلف کیسوں میں سزایاب ہونا افسوسناک ہے، مجھے اُس کے اِس انجام کی خوشی نہیں، دکھ ہوا ہے۔ اس المیے کی وجوہات کیا ہیں اور کون کون اس کا ذمّے دار ہے؟ اس تجزیے سے پہلے مجھے عمران خان کے ساتھ اپنے interaction کے واقعات یاد آرہے ہیں۔
یہ غالباً 1996کی بات ہے جب انھوں نے اپنی پارٹی کو پہلی بار سیاسی دنگل میں اتارا اور مختلف شہروں کے دورے شروع کیے۔ میں اُس وقت فرنٹیئر کانسٹیبلری کے ضلع شبقدر میں تعینات تھا اور ڈی او ایف سی کی حیثیّت سے شبقدر کے تاریخی قلعے میں قیام پذیر تھا۔ وہیں ایک رات میرے فون کی گھنٹی بجی تو آپریٹر نے بتایا کوئی صحافی ہیں، رئیس انصاری صاحب (آجکل ایک بڑے چینل کے بیوروچیف ہیں) آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔
میں جب ایس پی سٹی لاہور تھا تو اس وقت سے ان کا میرے ساتھ اچھا تعلق تھا۔ رئیس نے بتایا کہ میں اپنے ادارے کی طرف سے عمران خان کی سیاسی سرگرمیوں کو cover کررہا ہوں، آج انھوں نے فیصل آباد میں تقریر کی ہے اور اس میں آپ کا بھی ذکر کیا ہے۔ مجھے یہ سن کر حیرانی بھی ہوئی اور تشویش بھی، اس لیے میں نے پوچھا کہ میں تو عمران خان کو جانتا تک نہیں، کبھی ملا بھی نہیں، انھوں نے کیا کہا ہے میرے بارے میں؟ رئیس نے کہا کہ انھوں نے بڑے اچھے پیرائے میں آپ کا ذکر کیا ہے۔
اس کے بعد ایک دو اور شہروں سے بھی اسی نوعیّت کے فون آئے۔ چند دنوں بعد عمران خان کے بہنوئی اور میرے دیرینہ دوست حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ ''عمران تو آپ کا فین ہوگیا ہے، آپ لاہور آئیں تواس سے ضرور ملیں، آپ سے مل کر بہت خوش ہوگا۔'' میں نے ان سے بھی پوچھا کہ میں تو اسے کبھی نہیں ملا، وہ کیسے فین ہوگیاہے۔
کہنے لگے'' وہ رحیم یار خان گیا تھا، جہاں چار پانچ مختلف جگہوں پر لوگوں نے کہا کہ ''ایس پی ذوالفقار چیمہ کی وجہ سے پورے ضلع میں بہت تبدیلی آئی ہے۔'' عمران خان کو اس بات سے بڑی inspiration ملی ہے اور وہ بار بار کہتا ہے کہ '' ایک ایس پی پورے ضلعے کو تبدیل کرسکتا ہے تو ایک سیاسی لیڈر پورے ملک کو کیوں نہیں بدل سکتا۔'' اس کے چند ہفتوں بعد میں لاہور گیا تو زمان پارک والے گھر میں (اس وقت حفیظ اللہ نیازی بھی اسی گھر میں رہتے تھے) عمران خان صاحب سے ملاقات ہوئی۔
پہلے بھی لکھا ہے اب پھر دہرا دیتا ہوں کہ میں نے ملتے ہی انھیں کہا ''خان صاحب! میں خود آپ سے مل کر ایک مشورہ دینا چاہتا تھا۔'' وہ پوری طرح متوجّہ ہو کر کہنے لگے، ہاں ضرور بتائیں،آپ کے مشورے پر ضرور عمل کروںگا۔'' میں نے کہا ''میرا مشورہ تو یہ ہے کہ آپ سیاست کی دلدل میں داخل نہ ہوں، اِس وقت آپ ایک غیر متنازعہ قومی ہیرو ہیں۔ سیاست دان بن کر آپ متنازعہ ہوجائیں گے اور ملک ایک ہیرو سے محروم ہوجائے گا،غیر متنازعہ ہیرو کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں، سیاستدانوں کی تو کوئی کمی نہیں مگرہمارے ہاں غیرمتنازعہ ہیرو نہ ہونے کے برابر ہیں۔'' میرا مشورہ انھیں بالکل پسند نہ آیاکیونکہ وہ میدانِ سیاست میں اترنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔
پہلا مشورہ نہ مانا گیا تو میں نے اس پر اصرار نہ کیا اور فوراً دوسرا مشورہ دیا''تو چلیں پھر یہ تہیّہ کرلیں کہ آپ اپنی پارٹی میں کبھی کرپٹ اور بدنام لوگوں کو شامل نہیں کریں گے۔'' انھوں نے بڑے پرعزم انداز میں کہا ''بالکل! میں کبھی کرپٹ لوگوں کو اپنی پارٹی میں شامل نہیں کروں گا، میں ایسے لوگوں سے ہاتھ تک نہیں ملاوںگا۔ ایسے کئی لوگ میرے ساتھ آنا چاہتے تھے مگر میں نے انھیں لینے سے انکار کردیا ہے۔'' وہ مجھ سے شبقدر قلعے اور اس میں زنجیروں سے جکڑے ہوئے دروازوں کے بارے میں پوچھتے رہے، اُس وقت وہ ایک مخلص انسان نظر آئے ۔
پہلی ملاقات میں میری طرف سے دیے گئے دونوں مشوروں میں سے انھوں نے ایک پر بھی عمل نہ کیا۔ پہلے الیکشن میں وہ بری طرح ناکام ہوئے تو اس کے فوراً بعد وہcompromises کے سفر پر چل پڑے۔
جنرل مشرف نے ایک منتخب حکومت ختم کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تو عمران خان جمہوریت کے ساتھ نہیں، ڈکٹیٹر کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور اس کے بدنامِ زمانہ ریفرنڈم میں اس کے چیف پولنگ ایجنٹ بن گئے۔ اُس وقت میں نے اپنے ادارے کے سربراہ کی ناراضی کے باوجود انھیں نیشنل پولیس اکیڈیمی بلایا، جہاں میں نے سخت جملے بولے مگر انھوں نے سو سے زیادہ پولیس افسروں کے سامنے تقریر کرتے ہوئے پھر کہا ''ذوالفقار چیمہ اُن چند لوگوں میں سے ہیں جن سے مجھے inspiration ملی ہے۔''
جنرل مشرف کئی انٹرویوز میں بتاچکے '' عمران مجھ سے وزارتِ عظمٰی مانگتا تھا مگر میں نے اسے سمجھایا کہ تمہاری چھوٹی سی پارٹی ہے، ہم تمہیں آٹھ دس سیٹیں دلا دینگے۔'' اس پر ناراضی ہوگئی اور عمران خان صاحب مشرف کے خلاف میاں نوازشریف کے ہمنوا بن گئے، اُس دور میں انھوں نے درجنوں تقریریں نوازشریف کے حق میں کیں۔ وہ بارہا لندن میں ایون فیلڈز کے انھی فلیٹس میں جاتے رہے جن کے بارے میں کئی سال بعد اچانک انھیں خیال آیا کہ یہ تو عوام کا پیسہ لُوٹ کر خریدے گئے ہیں۔
اُس وقت وہ ن لیگ کے وزیروں سے بڑھ کر نوازشریف کا دفاع کیا کرتے تھے، ایک انٹرویو میں (جو سوشل میڈیا پر چل رہا ہے) انھوں نے میاں نوازشریف کے بیرونِ ملک قیام کی حمایت میں کہا کہ'' جنرل مشرف ایک ڈکٹیٹر ہے اور ہماری عدالتیں اور جج اس سے ڈرتے ہیں، اس کی موجودگی میں نواز شریف کو یہاں انصاف نہیں مل سکتا، اس لیے انھوں نے باہر جاکر اچھا کیا ہے۔''
پرانی ریکارڈنگز دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے، اُس وقت کپتان میں چالاکی اور عیّاری نہیں تھی بلکہ سادگی اور معصومیت تھی، اُسی سادگی اور صداقت میں وہ اچھی اور سچی باتیں کیا کرتا تھا۔ وہ آئین کی بالادستی، عدلیہ اور میڈیا کی آزادی اور قانون کی حکمرانی کی باتیں کیا کرتا تھا جو پڑھے لکھے لوگوں کے دلوں میں اترتی تھیں۔
چودہ پندرہ سال کی جدوجہد کے بعد بھی جب انھیں کوئی پذیرائی نہ ملی اور پارلیمنٹ میں ان کی نمایندگی ایک سیٹ سے نہ بڑھ سکی تو پھر کچھ ظاہری اور کچھ خفیہ مشیروں نے انھیں ''کامیابی کا اصل راستہ'' دکھایا اور انھوں نے اپنے آپ کو اپنے تمام تر آدرشوں سمیت کامیابی دلانے والوں کے حوالے کردیااور پھر پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ اُسی خود سپردگی کی کیفیّت میں اکتوبر 2011 کا کامیاب جلسہ ہوا اور پھر 2014 کے دھرنوں میں انھوںنے طاہر القادری صاحب کا پارٹنر بن کر اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ بننا قبول کرلیا۔
اس کے بعد انھوں نے جمہوریّت کے ساتھ ہمیشہ کے لیے اپنا ناتا توڑ لیا اور جمہوری کلچر کے قیام کے لیے اپنے دعوؤں اور وعدوں کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالا۔ 2017میں ایک منتخب جمہوری وزیراعظم کو نکالا گیا تو وہ احتجاج کرنے کے بجائے مٹھائیاں بانٹنے والوں میں شامل تھا۔ 2018 کاالیکشن عمران خان نے ایک مہرے کی حیثیت سے بیساکھیوں کے سہارے لڑا جس میں اس کے سہولت کاروں نے اسے جتانے کے لیے ''چھڑی اور گاجر'' دونوں کا بھرپور استعمال کیا، اور پھر ہر قسم کے حربوں کے بعد اسے وزیراعظم کا حلف دلوایا جاسکا۔
ایوانِ اقتدار میں پہنچ کر اس کی شخصیّت کے پرت آہستہ آہستہ کھلنے لگے، چند ہفتوں میں ہی کپتان کی نااہلی بے نقاب ہوگئی اور ریاست کے سینئر اور تجربہ کار اہلکاروں نے اس کی اہلیّت اورcapacity پر سوال اٹھانے شروع کر دیے، اور شکایتوں کے انبار لگنا شروع ہوگئے ۔
لاکھوں نوجوانوں نے خواب دیکھے تھے کہ ''تبدیلی'' ان کے لیے بہتر مستقبل کی نوید لائے گی۔ عوام سمجھتے تھے کہ ''نیا پاکستان'' اُن کے دکھوں کا مداوا کرے گا اور ان کے زخموں پر مرہم رکھے گا، مگر تبدیلی اپنے ساتھ مہنگائی کا طوفان لے کر وارد ہوئی اور نئے پاکستان میں پہلے دو سالوں میں ہی نوجوانوں کے خواب کرچی کرچی ہوکر بکھر گئے۔
ایک اہم ادارے کے سربراہ سے پہلی ملاقات میں ہی وزیرِاعظم عمران خان صاحب نے فرمایا کہ ''ملک کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی یا معیشت نہیں، مجھ پر تنقید کرنے والی اپوزیشن ہے، اپوزیشن کے سب لیڈروں کو اندر کردیں۔'' جواب آیا کہ ''آپ کی خواہش فاشزم میں پوری ہوسکتی ہے، جمہوریّت میں نہیں'' مگر خان صاحب کی طرف سے درجنوں سیاستدانوں کو اندر اور کئی صحافیوں کو چینل سے باہر کرنے کااصرار جاری رہا۔
پہلے سال ہی باخبر لوگ جان گئے کہ یہ عالمی سطح کا کھلاڑی اسپورٹس مین اسپرٹ پر یقین نہیں رکھتا بلکہ وہ ایک فاشسٹ نظریات اور آمرانہ سوچ کا حامل ہے۔ (جاری ہے)