ووٹ آپ سے مخاطب ہے

دہشت کی فضا عام گلی محلوں پر طاری کردی گئی ہے تاکہ وہ جان کے خوف سے گھروں سے باہر نہ نکلیں

zahedahina@gmail.com

میں پانچ برس پہلے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ اب 8 فروری کو آپ سب سے میری دوبارہ ملاقات ہوگی۔ کہنے کو تو میں کاغذ کا ایک ٹکڑا ہوں لیکن میرا نام ووٹ ہے اور میرا حسب نسب جمہوریت سے جڑا ہوا ہے۔ میں تقریباً 200 سال سے ساری دنیا میں سفر کرتا ہوں۔

کبھی ایشیا، کبھی افریقا اور کبھی مغربی دنیا میں، غریب اور متوسط طبقے کے لوگ ہر جگہ میرا استقبال کرتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ مجھ سے ان کا مستقبل وابستہ ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ میں جو کاغذ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہوں، بڑے بڑے راجوں مہاراجوں سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں اور ایک عام آدمی کو ایسی قوت بخشتا ہوں جس سے وہ بڑے بڑے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو شکست دے دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کا ہر باشعور شہری انتخاب کے دن میرا انتظار کرتا ہے۔

پچھلی بار جب ملاقات ہوئی تھی تو میں نے آپ کو سمجھایا تھا کہ انتخاب کے دن ہوسکتا ہے کہ آپ میں سے کچھ کاہلی برتیں اور آج کا دن سونے یا تفریح میں گزار دیں لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ خود پر اور اپنی آنے والی نسلوں پر ظلم کریں گے۔ جیسا کہ میں نے ابھی اوپر کی سطروں میں کہا کہ میں دیکھنے میں کاغذ کا ایک ٹکڑا ہوں، جس پر آپ سوچ سمجھ کر مہر لگائیں گے تو روزمرہ کے مسائل حل ہونے کا راستہ کھلتا ہے۔

بچوں کی تعلیم، افراد خانہ کی صحت، روزگار، پکے گھر اور امن و امان کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اس لیے یہ ہرگز نہ کرنا کہ آج کے دن کو چھٹی کی طرح مناؤ۔ آپ اپنے ساتھ اور اپنی آنے والی نسلوں کے ساتھ اس سے بڑی ناانصافی نہیں کرسکتے۔ مجھے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ آپ لوگ میری بات زیادہ دھیان سے نہیں سنتے لہٰذا ضروری ہے کہ میں ایک بار پھر سے اپنا تعارف کرادوں۔

میری پیدائش 1788میں امریکی مدبرین کے ہاتھوں ہوئی۔ 1789 میں امریکیوں نے اپنے الیکٹوریل کالج کے ذریعے جارج واشنگٹن کو اپنا پہلا صدر منتخب کیا۔ میں امریکا میں بہت سے مرحلوں سے گزرا۔ کبھی صرف سفید فام مردوں کو ووٹ دینے کی اجازت تھی اور کبھی ان میں سے بھی وہ ووٹ ڈالنے کا حق استعمال کرسکتے تھے جو جائیداد رکھتے ہوں۔

1830 تک چند سیاہ فام مردوں کو اس شرط پر ووٹ دینے کی اجازت ملی کہ وہ غلام نہیں آزاد ہوں، عورتیں خواہ سفید فام ہوں یا سیاہ فام انھیں اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ وہ ووٹ ڈالیں۔ یہ ایک ایسی صورت حال تھی جس سے میں بہت غم زدہ ہوتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے خیال میں میری طاقت میں سب کا حصہ ہونا چاہیے تھا۔

عورتوں کے اندر بھی یہ احساس شدت سے اجاگر ہورہا تھا کہ انھیں مساوی شہری نہیں سمجھا جارہا۔ 1840میں سیاسی شعور رکھنے والی کچھ سفید فام عورتوں نے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر اپنے ووٹ کے حق کے لیے جدوجہد شروع کی۔ حقوق کی اس مہم میں سیاہ فام عورتیں بھی شامل ہوگئیں۔

ووٹ کے طور پر میری حیثیت اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی جمہوریت میں میرے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بعض ریاستوں میں یہ شرط عائد کردی گئی کہ کوئی بھی ایسا سفید فام یا سیاہ فام مرد ووٹ نہیں ڈال سکتا جو خواندہ نہ ہو۔ اس زمانے میں بہت کم لوگ پڑھے لکھے ہوتے تھے، اس لیے لاکھوں اور کروڑوں لوگ ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم ہوگئے۔

میں کاغذ کا ایک پرزہ ...جمہوریت کو ان تمام مرحلوں سے گزرتے ہوئے دیکھتا رہا۔ عورتوں کی بالغ حق رائے دہی کی تحریک بہت مشکل مرحلوں سے گزرتی ہوئی آگے بڑھتی رہی۔ اس میں کئی جان سے گئیں، کچھ نے جیل کاٹی اور کچھ توہین اور تذلیل کے مرحلوں سے گزریں۔ میرا دل ان کے لیے خون کے آنسو روتا تھا لیکن میں خود ان کے لیے کچھ نہیں کرسکتا تھا جب تک کہ وہ ہمت سے آگے بڑھ کر اپنے حق کے لیے جدوجہد نہ کریں۔

1878میں امریکی آئین میں ترمیم کے لیے ایک ایکٹ پیش ہوا کہ عورتوں کو ووٹ کا حق دیا جائے لیکن وہ منظور نہ ہوسکا۔ نیوزی لینڈ کی عورتوں کو دنیا میں سب سے پہلے ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ میرے لیے اس سے بڑی خوشی کی اور کوئی بات نہیں ہوسکتی تھی، اس کے بعد عورتوں کے ووٹ ڈالنے کے حق کا راستہ کھل گیا اور یکے بعد دیگر مختلف امریکی ریاستوں میں عورتیں ووٹ ڈالنے کے لیے آزاد ہوئیں۔ 1920 میں یہ حق تمام سفید فام اور سیاہ فام امریکی عورتوں کو حاصل ہوگیا، اس کے بعد برطانیہ اور آئرلینڈ میں 1928 اور 1944 میں فرانس کی عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق مل گیا۔


1964تک امریکی کانگریس میں انتخابی ٹیکس کا روڑا غریب امریکی سفید فام، سیاہ فام مرد اور عورت کی راہ میں اٹکایا گیا تھا۔ یہ غریب لوگ میری طاقت کو استعمال کرنے کی خواہش کے باوجود اپنی غربت سے مجبور ہوجاتے تھے۔ ان کے پاس اتنی رقم ہی نہیں ہوتی تھی کہ وہ الیکشن میں ووٹ ڈالنے کا ٹیکس اداکر سکیں۔

اس ٹیکس کو 1964میں امریکی کانگریس نے قلم زد کردیا جس کے بعد ہر امریکی سفید فام اور سیاہ فام مرد اور عورت ووٹ ڈالنے کے لیے بالکل آزاد ہوگئے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خوشحال اور برسراقتدار طبقات غریب کے ووٹ سے کس قدر خوف کھاتے ہیں۔

میں آپ سب کو 1970 کی طرف واپس لے جانا چاہوں گا۔ اس دن پاکستان میں بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر پہلے عام انتخابات کا انعقاد ہوا تھا۔ اس وقت ملک پانچ وفاقی اکائیوں پر مشتمل تھا۔ ان میں سب سے بڑی اکائی کو مشرقی پاکستان کہا جاتا تھا۔ پاکستانی عوام کی اکثریت اس وفاقی اکائی میں رہتی تھی۔ یہ انتخابات اس وقت کے فوجی آمر جنرل یحییٰ خان نے کرائے تھے۔

عام خیال یہی ہے کہ وہ پاکستان کے سب سے شفاف اور منصفانہ عام انتخابات تھے۔ اس دن میں بہت خوش تھا کیوں کہ متحدہ پاکستان کے رائے دہندگان کی بہت بڑی تعداد نے میرا استعمال کیا تھا۔ جب ڈبوں سے نکال کر میری گنتی ہوئی تو معلوم ہوگیا کہ عوام نے میرے ذریعے حق حکمرانی کا مینڈیٹ کسے دیا ہے۔

سب سے زیادہ ووٹ مجیب الرحمان کی جماعت عوامی لیگ کو دیے گئے تھے۔ ان کی جماعت کو ایک کروڑ انیس لاکھ سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے اور قومی اسمبلی کی 167 نشستیں حاصل ہوئیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو جس کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو تھے 61 لاکھ سے کچھ زیادہ ووٹ ملے اور قومی اسمبلی کی 61 نشستیں ان کی جماعت کے حصے میں آئیں۔

میری خوشی اس وقت شدید دکھ میں تبدیل ہوگئی جب میں نے دیکھا کہ اس وقت کے حکمرانوں نے میرا احترام نہیں کیابلکہ مجھے اپنے پیروں تلے روند ڈالا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس جماعت کوعوام نے اکثریت عطا کی تھی اقتدار اس کو سونپ دیا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ ہوسکتا ہے کہ آج جو لوگ انتخاب میں میرا استعمال کررہے ہیں وہ 53 سال پہلے پیدا بھی نہ ہوئے ہوں یا اس وقت ان کی عمر زیادہ بڑی نہ ہو۔

میں ان لوگوں کو یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ میرا نام ووٹ ہے میں دیکھنے میں کاغذ کا ایک ٹکڑا نظر آتا ہوں لیکن جو ملک یا قوم میری مرضی یا منشا کا احترام نہیں کرتی اس کا انجام بہت خراب ہوتا ہے۔

1971 کو میرا یعنی ووٹ کا احترام نہیں کیا گیا اور آپ اپنا ملک تڑوا بیٹھے، لہٰذا میں آپ کو خبردار کرتا ہوں کہ انتخاب میں حصہ لینا اور ووٹ ڈالنا یقینا بہت اہم ہے لیکن اس سے زیادہ یہ بات اہم ہے کہ میرے ذریعے رائے دہندگان جس جماعت یا رہنما کو حکومت سازی کا مینڈیٹ دیں اس کا احترام کیا جائے۔

اس نہایت اہم بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے 8 فروری کو آپ میں سے ہر پاکستانی مرد اور ہر عورت اپنے اپنے علاقے میں ووٹ ڈالنے کا مقدس فریضہ ضرور انجام دے، آپ لوگ آج کے دن کو ضایع نہ کریں۔

اپنے گھروں سے نکلیں اور اپنے پسندیدہ نمایندے کو ووٹ دیں تاکہ اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں سے بدل سکیں۔میں ایک ووٹ ہوں اور میں دیکھ رہا ہوں کہ ہر طرف افواہوں کی دھند ہے۔

دہشت کی فضا عام گلی محلوں پر طاری کردی گئی ہے تاکہ وہ جان کے خوف سے گھروں سے باہر نہ نکلیں اور یوں آپ میرا جائز استعمال کرنے سے باز رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں ہر بالغ پاکستانی مرد اور عورت سے یہ التجا کرتا ہوں کہ وہ باہر نکلے اور مجھے بیلٹ باکس کے سپرد کر کے اپنا قومی فرض پورا کرے۔ یہ نہ ہو کہ میں چرا لیا جاؤں اورآپ اگلے پانچ برسوں تک کف افسوس ملتے رہیں۔
Load Next Story