کیسے اور کس کو ووٹ دینے کا وقت ہے
اب ووٹر نے فیصلہ کرنا ہے کہ اس نے ساری انتخابی مہم کے بعد کس کو ووٹ دینا ہے
پاکستان کے عام انتخابات جن کے بارے میں بہت ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، بالا آخر پولنگ کا وقت آہی پہنچا ہے۔ جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوںگے تو انتخابی مہم اختتام پذیر ہوچکی ہو گی۔
اب ووٹر نے فیصلہ کرنا ہے کہ اس نے ساری انتخابی مہم کے بعد کس کو ووٹ دینا ہے۔ اسی طرح انتخابی امیدواروں نے پولنگ ڈے کی تیاری کرنی ہے، ووٹر کو پولنگ اسٹیشن لانے کے انتظامات کرنے ہیں۔ پولنگ ایجنٹ مقرر کرنے ہیں۔
پولنگ کیمپ لگانے ہیں۔ پولنگ ڈے پر کام کرنے والے پارٹی کارکنوں اور انتخابی عملے کو کھانا پہنچانا ہے، سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج اکٹھے کرنے کے لیے اپنے سیل بنانے ہیں۔ تمام ٹی وی چینلز نے الیکشن سیل قائم کر دیے ہیں۔ لوگوں کو چھٹی دے دی گئی ہے تا کہ وہ آرام سے اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں۔
جن دوستوں نے یہ شرط لگائی تھی کہ انتخابات نہیں ہوںگے،ان کی شرط ہارنے کا دن قریب آگیا ہے۔ جن دوستوں نے انتخاب ہونے کی شرط لگائی ہوئی تھی ان کے شرط جیتنے کا دن آگیا ہے۔
پاکستان کے انتخابی معرکوں کے نتائج عوام کے لیے خاص دلچسپی کاباعث ہوںگے۔ ایک تجسس تو تحریک انصاف کے آزاد امیدواران کے بارے میں رہے گا کہ ان میں سے کتنے جیتے اور کتنے ہارتے ہیں۔ لوگوں کو یہ بھی تجسس ہے کہ جن وکلا کو ٹکٹ دیے گئے تھے، کیا وہ جیت جائیں گے؟ وکلا کو ٹکٹ دینے کی حکمت عملی کتنی کامیاب اور کتنی ناکام رہی ہے۔
بہت دوستوں نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ کیا یہ وکلا سیٹ نکال لیں گے؟میں سمجھتا ہوں کہ کچھ وکلا تو تحریک انصاف کی بہت محفوظ سیٹوں سے کھڑے ہیں، یہ وہ سیٹیں ہیں جو تحریک انصاف گزشتہ دو انتخابات سے جیت رہی ہے۔ وہاں تو وکلا کا کچھ چانس ہے۔ لیکن باقی حلقوں میں مجھے ان کی کامیابی کے زیادہ امکانات نہیں لگتے۔ مجھے لگتا ہے کہ وکلا کی اکثریت ہار جائے گی۔ سیاسی لوگوں کے جیتنے کا زیادہ چانس لگ رہا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے ووٹر کو پاکستان کے نازک حا لات کا اندازہ ہونا چاہیے۔ انھیں پاکستان کے معاشی بحران کا اندازہ ہونا چاہیے۔پاکستان اس وقت کسی بھی تقسیم اور محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ووٹر کو محاذ آرائی بڑھانے نہیں بلکہ محاذ آرائی ختم کرنے کے لیے ووٹ ڈالنا ہوگا۔ پاکستان کے ووٹر کو یہ بات سامنے رکھنا ہوگی کہ اس کے ووٹ کے نتیجے میں پاکستان میں کوئی بحران پیدا نہ ہو بلکہ اس کے ووٹ کے نتیجے میں پاکستان کے لیے آسانیاں پیدا ہونی چاہیے۔
اس کو اپنے ووٹ کا استعمال کسی فرد یا جماعت کے حق میں نہیں بلکہ پاکستان کے حق میں استعمال کرنا چاہیے۔ ووٹر کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کسی بھی قسم کا بحران پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ بیانیے کے تحت ووٹ دینے کا وقت نہیں۔
یہ پاکستان کو آنے والی مشکلات سے بچانے کے لیے ووٹ دینے کا وقت ہے۔ ذاتی پسند سے بالاتر ہو کر پاکستان کے لیے ووٹ دینے کا وقت ہے۔ جوش سے نہیں ہوش سے ووٹ دینے کا وقت ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستان کی قوم نے اس نازک وقت پر اپنے ووٹ کا درست فیصلہ نہ کیا تو خطرناک نتائج بھی سامنے آسکتے ہیں۔
پاکستان کے معاشی چیلنجز بہت خطرناک ہو گئے ہیں۔ اس لیے کمزور حکومت پاکستان کے مفاد میں نہیں۔میں سمجھتا ہوں کسی بھی قسم کی مخلوط حکومت بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ پاکستان اب اس نہج پر پہنچ گیا ہے جہاں کسی بھی قسم کا سیاسی عدم استحکام برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے پاکستان کے ووٹر کو ایک مستحکم حکومت کے لیے ووٹ دینا ہوگا۔
انھیں اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ ان کے ووٹ کے نتیجے میں پاکستان میں مزید تقسیم پیدا نہ ہو۔ بلکہ ایک مستحکم اور مضبوط حکومت قیام ہو۔ پاکستان اب مزید کسی سیاسی چوں چوں کے مربہ حکومت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں ووٹر ز کو کسی ایک جماعت کو پاکستان کی باگ دوڑ دینا ہوگی۔ کسی ایک جماعت کو سادہ اکثریت دینا ہوگی۔ تا کہ وہ بحرانوں سے نبٹنے کے لیے کسی کی محتاج نہ ہو۔
پاکستان اسٹبلشمنٹ اور سیاست کی لڑائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ وقت لڑائی کا نہیں ہے، مل کر چلنے کا ہے۔میں مقتدر حلقوں کے سیاسی کردار کو جائز قرار نہیں دے رہا۔ لیکن آج وہ حقیقت ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پہلے ان سے لڑائی لڑیں یا پہلے پاکستان کے معاشی مسائل حل کر لیں۔ ایک طرف پاکستان کے معاشی ، معاشرتی اور عوامی مسائل ہیں، دہشت گردی ہے۔ دوسری طرف اسٹبلشمنٹ ہے۔ کیا یہ وقت اسٹبلشمنٹ سے لڑنے کا ہے یا یہ وقت ملک کے مسائل حل کرنے کا ہے۔
ایک دفعہ ہم نے معاشی مسائل حل کر لیے، لوگوں کے مسائل حل کر لیے پھر اسٹبلشمنٹ سے بھی لڑائی ہو سکتی۔ آپ کہیں گے کہ میں اسٹبلشمنٹ کے کردار کو جائز قرار دینے کی راہ تلاش کر رہا ہوں۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں پاکستان کسی بحرانی کیفیت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ووٹر کو یہ بات سامنے رکھنی چاہیے۔
باقی یہ بات بھی حقیقت ہے کہ سب سیاسی جماعتیں اسٹبلشمنٹ کے سیاسی کردار کے حق میں نہیں ہیں لیکن سب نے ہی ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ اس لیے نہ تو کسی کا ماضی صاف ہے، اس لیے کسی ایک کو کوئی استثنا حاصل نہیں ہے۔ پاکستان کے ووٹر پر بہت بھاری ذمے د اری ہے۔ کل کو وہ کسی اور کو اس کا ذمے دار نہیں ٹھہر ا سکتا۔ اس نے مستقبل کو سامنے رکھ کر ووٹ دینا ہے۔ وہ آنکھیں بند کر کے ووٹ نہیں دے سکتا۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے تو بس ووٹ دے دیا ہے۔
پاکستان میں تقسیم اور سیاسی بحران پاکستان کے دشمنوں کی خواہش ہے، دشمن بحران چاہتا ہے، دشمن انتشار چاہتا ہے، دشمن لڑائی چاہتا ہے۔ لڑائی ختم کرنے کے لیے ووٹ دینے کا وقت ہے۔
یہ کسی فرد کی محبت میں نہیں پاکستان کی محبت میں ووٹ دینے کا وقت ہے، لڑنے والوں کو نہیں صلح کرنے والوں کو ووٹ دینے کا وقت ہے۔ کام کرنے والوں کو ووٹ دینے کا وقت ہے۔ سب کی کارکردگی آپ کے سامنے ہے۔ آپ نے کسی کو پہلی باری نہیں دینی ہے۔ سب نے باریاں لے لی ہیں۔ ان کی کارکردگی کو سامنے رکھ کر ووٹ دینے کا وقت ہے۔ مناظروں کے تحت نہیں موازنوں کے تحت ووٹ دینے کا وقت ہے۔ کارکردگی کے تقابلی جائزہ کے تحت ووٹ دینے کاوقت ہے۔
اب ووٹر نے فیصلہ کرنا ہے کہ اس نے ساری انتخابی مہم کے بعد کس کو ووٹ دینا ہے۔ اسی طرح انتخابی امیدواروں نے پولنگ ڈے کی تیاری کرنی ہے، ووٹر کو پولنگ اسٹیشن لانے کے انتظامات کرنے ہیں۔ پولنگ ایجنٹ مقرر کرنے ہیں۔
پولنگ کیمپ لگانے ہیں۔ پولنگ ڈے پر کام کرنے والے پارٹی کارکنوں اور انتخابی عملے کو کھانا پہنچانا ہے، سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج اکٹھے کرنے کے لیے اپنے سیل بنانے ہیں۔ تمام ٹی وی چینلز نے الیکشن سیل قائم کر دیے ہیں۔ لوگوں کو چھٹی دے دی گئی ہے تا کہ وہ آرام سے اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں۔
جن دوستوں نے یہ شرط لگائی تھی کہ انتخابات نہیں ہوںگے،ان کی شرط ہارنے کا دن قریب آگیا ہے۔ جن دوستوں نے انتخاب ہونے کی شرط لگائی ہوئی تھی ان کے شرط جیتنے کا دن آگیا ہے۔
پاکستان کے انتخابی معرکوں کے نتائج عوام کے لیے خاص دلچسپی کاباعث ہوںگے۔ ایک تجسس تو تحریک انصاف کے آزاد امیدواران کے بارے میں رہے گا کہ ان میں سے کتنے جیتے اور کتنے ہارتے ہیں۔ لوگوں کو یہ بھی تجسس ہے کہ جن وکلا کو ٹکٹ دیے گئے تھے، کیا وہ جیت جائیں گے؟ وکلا کو ٹکٹ دینے کی حکمت عملی کتنی کامیاب اور کتنی ناکام رہی ہے۔
بہت دوستوں نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ کیا یہ وکلا سیٹ نکال لیں گے؟میں سمجھتا ہوں کہ کچھ وکلا تو تحریک انصاف کی بہت محفوظ سیٹوں سے کھڑے ہیں، یہ وہ سیٹیں ہیں جو تحریک انصاف گزشتہ دو انتخابات سے جیت رہی ہے۔ وہاں تو وکلا کا کچھ چانس ہے۔ لیکن باقی حلقوں میں مجھے ان کی کامیابی کے زیادہ امکانات نہیں لگتے۔ مجھے لگتا ہے کہ وکلا کی اکثریت ہار جائے گی۔ سیاسی لوگوں کے جیتنے کا زیادہ چانس لگ رہا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے ووٹر کو پاکستان کے نازک حا لات کا اندازہ ہونا چاہیے۔ انھیں پاکستان کے معاشی بحران کا اندازہ ہونا چاہیے۔پاکستان اس وقت کسی بھی تقسیم اور محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ووٹر کو محاذ آرائی بڑھانے نہیں بلکہ محاذ آرائی ختم کرنے کے لیے ووٹ ڈالنا ہوگا۔ پاکستان کے ووٹر کو یہ بات سامنے رکھنا ہوگی کہ اس کے ووٹ کے نتیجے میں پاکستان میں کوئی بحران پیدا نہ ہو بلکہ اس کے ووٹ کے نتیجے میں پاکستان کے لیے آسانیاں پیدا ہونی چاہیے۔
اس کو اپنے ووٹ کا استعمال کسی فرد یا جماعت کے حق میں نہیں بلکہ پاکستان کے حق میں استعمال کرنا چاہیے۔ ووٹر کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کسی بھی قسم کا بحران پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ بیانیے کے تحت ووٹ دینے کا وقت نہیں۔
یہ پاکستان کو آنے والی مشکلات سے بچانے کے لیے ووٹ دینے کا وقت ہے۔ ذاتی پسند سے بالاتر ہو کر پاکستان کے لیے ووٹ دینے کا وقت ہے۔ جوش سے نہیں ہوش سے ووٹ دینے کا وقت ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستان کی قوم نے اس نازک وقت پر اپنے ووٹ کا درست فیصلہ نہ کیا تو خطرناک نتائج بھی سامنے آسکتے ہیں۔
پاکستان کے معاشی چیلنجز بہت خطرناک ہو گئے ہیں۔ اس لیے کمزور حکومت پاکستان کے مفاد میں نہیں۔میں سمجھتا ہوں کسی بھی قسم کی مخلوط حکومت بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ پاکستان اب اس نہج پر پہنچ گیا ہے جہاں کسی بھی قسم کا سیاسی عدم استحکام برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے پاکستان کے ووٹر کو ایک مستحکم حکومت کے لیے ووٹ دینا ہوگا۔
انھیں اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ ان کے ووٹ کے نتیجے میں پاکستان میں مزید تقسیم پیدا نہ ہو۔ بلکہ ایک مستحکم اور مضبوط حکومت قیام ہو۔ پاکستان اب مزید کسی سیاسی چوں چوں کے مربہ حکومت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں ووٹر ز کو کسی ایک جماعت کو پاکستان کی باگ دوڑ دینا ہوگی۔ کسی ایک جماعت کو سادہ اکثریت دینا ہوگی۔ تا کہ وہ بحرانوں سے نبٹنے کے لیے کسی کی محتاج نہ ہو۔
پاکستان اسٹبلشمنٹ اور سیاست کی لڑائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ وقت لڑائی کا نہیں ہے، مل کر چلنے کا ہے۔میں مقتدر حلقوں کے سیاسی کردار کو جائز قرار نہیں دے رہا۔ لیکن آج وہ حقیقت ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پہلے ان سے لڑائی لڑیں یا پہلے پاکستان کے معاشی مسائل حل کر لیں۔ ایک طرف پاکستان کے معاشی ، معاشرتی اور عوامی مسائل ہیں، دہشت گردی ہے۔ دوسری طرف اسٹبلشمنٹ ہے۔ کیا یہ وقت اسٹبلشمنٹ سے لڑنے کا ہے یا یہ وقت ملک کے مسائل حل کرنے کا ہے۔
ایک دفعہ ہم نے معاشی مسائل حل کر لیے، لوگوں کے مسائل حل کر لیے پھر اسٹبلشمنٹ سے بھی لڑائی ہو سکتی۔ آپ کہیں گے کہ میں اسٹبلشمنٹ کے کردار کو جائز قرار دینے کی راہ تلاش کر رہا ہوں۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں پاکستان کسی بحرانی کیفیت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ووٹر کو یہ بات سامنے رکھنی چاہیے۔
باقی یہ بات بھی حقیقت ہے کہ سب سیاسی جماعتیں اسٹبلشمنٹ کے سیاسی کردار کے حق میں نہیں ہیں لیکن سب نے ہی ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ اس لیے نہ تو کسی کا ماضی صاف ہے، اس لیے کسی ایک کو کوئی استثنا حاصل نہیں ہے۔ پاکستان کے ووٹر پر بہت بھاری ذمے د اری ہے۔ کل کو وہ کسی اور کو اس کا ذمے دار نہیں ٹھہر ا سکتا۔ اس نے مستقبل کو سامنے رکھ کر ووٹ دینا ہے۔ وہ آنکھیں بند کر کے ووٹ نہیں دے سکتا۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے تو بس ووٹ دے دیا ہے۔
پاکستان میں تقسیم اور سیاسی بحران پاکستان کے دشمنوں کی خواہش ہے، دشمن بحران چاہتا ہے، دشمن انتشار چاہتا ہے، دشمن لڑائی چاہتا ہے۔ لڑائی ختم کرنے کے لیے ووٹ دینے کا وقت ہے۔
یہ کسی فرد کی محبت میں نہیں پاکستان کی محبت میں ووٹ دینے کا وقت ہے، لڑنے والوں کو نہیں صلح کرنے والوں کو ووٹ دینے کا وقت ہے۔ کام کرنے والوں کو ووٹ دینے کا وقت ہے۔ سب کی کارکردگی آپ کے سامنے ہے۔ آپ نے کسی کو پہلی باری نہیں دینی ہے۔ سب نے باریاں لے لی ہیں۔ ان کی کارکردگی کو سامنے رکھ کر ووٹ دینے کا وقت ہے۔ مناظروں کے تحت نہیں موازنوں کے تحت ووٹ دینے کا وقت ہے۔ کارکردگی کے تقابلی جائزہ کے تحت ووٹ دینے کاوقت ہے۔