پاکستان اور سیاسی نظریات تیسرا اور آخری حصہ
سیکولرازم کا مطلب لادینیت پھیلانا یا مذہب کی مخالفت نہیں ہے بلکہ تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک کرنا ہوتا ہے
ولی خان نظریہ پاکستان کے بارے میں اپنی بحث جاری رکھتے ہوئے آگے لکھتے ہیں۔
''میں یہاں دستور ساز اسمبلی میں 11اگست 1947کو قائد اعظم کے افتتاحی خطبے میں سے جو انھوں نے اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے دیا تھا،ایک اقتبا س پیش کرنا چا ہوں گا۔
انھوں نے کہا، ''آ پ اپنے ما ضی کو بھو ل جا ئیں' باہمی ا تحا د وا تفا ق کے سا تھ اس جذ بے سے کا م کریں کہ آ پ میں سے ہر ایک ا ول و آ خر اس ملک کا شہری ہے 'خو اہ کسی فر قے سے تعلق ر کھتا ہو' ما ضی میں ا یک دو سر ے کے سا تھ کیسے ہی تعلقات ر ہے ہو ں' آ پ کا ر نگ نسل،ذات برادری یا عقیدہ کو ئی بھی ہو، سب کے حقو ق برا بر ہیں اور ذ مہ دا ریاں بھی برابر ہیں۔
ا گر آ پ یہ سب کچھ کر گز ر یں گے تو آپ کی تر قی و خو شحا لی کی کو ئی ا نتہا نہ ہوگی 'میں اس با ت پر بہت زور د ینے کی ضر ور ت نہیں سمجھتا، بہرحال ہمیں اس جذبہ سے کام شر وع کر د نیا چا ہیے'و قت گز ر نے کے ساتھ سا تھ ا کثر یتی اور ا قلیتی فر قو ں کے تما م جھگڑے اور ہند وؤں اور مسلمانوں کے اختلافات ختم ہو جا ئیں گے کیو نکہ جہاں تک گروہ بند ی کا تعلق ہے 'مسلمانو ں میں بھی گر وہ ہیں، پٹھان،پنجا بی ،شیعہ،سنی اور اسی طر ح ہندوؤں میں بھی مثلا برہمن، و یش اور کھشتر ی و غیر ہ ہیں بلکہ بنگا لی اورمد ر ا سی و غیر ہ کے چکر بھی ہیں۔
مملکت پاکستان میں ہر شخص ا پنی عبا د ت گا ہو ں میں جانے کے لیے آ زاد ہے' مندر میں جا ئے یا مسجد میں، آپ کا تعلق کسی مذ ہب ،فر قے یا عقیدے سے ہو مملکت کو اس سے کو ئی سر و کا ر نہیں۔''میرے نزدیک یہ '' سیکولرازم'' کی صحیح تعبیر ہے' اگر کسی کو اس سے اختلاف ہے تو وہ ہمارے سامنے آئے اور سمجھائے'یہ ہے بانی پاکستان کا پیش کردہ پاکستانی قومیت کا صحیح تصور۔نیشنل عوامی پارٹی(نیپ) اس پر پورا یقین رکھتی ہے۔
اس لیے پیرا نمبر 9میں لگایا گیا یہ الزام کہ نیپ علاقائی' لسانی اور نسلی بنیادوں پر چار قومیتوںکا پرچار کر رہی ہے، بالکل غلط اور بدنیتی پر مبنی ہے۔ولی خان نے بہت ہی خوبصورت پیرائے میں اور دلائل کے ساتھ یہ حقیقت ثابت کی ہے کہ ریاست کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا بلکہ ریاست کا وہی نظریہ ہوتا ہے جو ریاست کے حکمران طبقے کا ہوتا ہے'انھوں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ پاکستان کے بانی کے ذہن میں ایک سیکولر پاکستان کا واضح نقشہ تھا۔قائد اعظم کا طرز حیات اور ان کی تقریریں اس کا ثبوت ہیں۔
1949میں جب قرار داد مقاصد منظور کی گئی تو احمد بشیر نے مولانا حسرت موہانی سے انٹرویو میں سوال کیا ،اس قرار داد کا آغاز تو پاکستان پر اﷲ کی حاکمیت کے اعلان سے کیا گیا ہے'آپ تیرہواں حج کرکے آئے ہیں ،آپ کیسے اس پر نا پسندیدگی کا اظہار کر سکتے ہیں؟ مولانا حسرت موہانی نے جواب دیا۔''اﷲ تعالی تو خود حکومت کرنے نہیں آئے گا'مگر اس کے نام پر یہاں کے حکمران اور مذہبی طبقہ، عوام کو ضرور اپنے حقوق سے محروم کردیں گے ۔''
اس مرد درویش کی بات سو فیصد درست ثابت ہوگئی ہے' پاکستان کے مذہبی رہنماء اور حکمران طبقوں نے اپنے مفاداتی اتحاد سے ملک کو ایک تنگ گلی میں پہنچادیا ہے' ملک کے سرمایہ دار اور جاگیردار طبقے نے استحصالی نظام کو بچانے کے لیے ہمیشہ ملا اور مارشل لاء کی بیساکھیوں کا سہارا لیا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد ان مذہبی جماعتوں کے لوگوں نے پاکستان کے نظام کو ٹھیک کرنے کا بیڑا اٹھایا جنھوں نے قائداعظم اور قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی' بدقسمتی سے یہ پارٹیاں اور ان کے رہنماء ہی پاکستان کے ٹھیکیدار بن گئے ہیں' ان پارٹیوں کی قیادت نے اسٹیبلشمنٹ، جیوڈیشری، بیوروکریسی ، جاگیرداروں، قبائلی وڈیروں اور سرمایہ داروں کے ساتھ مل کر ملک کو معاشی تباہی کے کنارے پہنچادیا ہے۔
ایک بڑا مسئلہ یہ بھی پیدا ہوا ہے کہ اسلامی نظام کی تشریح پر بھی لڑائی ہے'ہر ایک اپنے مذہبی مکتبہ فکر اپنے اکابرین کی تفہیم و تشریح کو اسلام کا نظام قرار دے رہا ہے' اختلاف رکھنے والوں کا خون بہایا جا رہا ہے'ریاست کا فرض عوام کے جان و مال، عزت و آبرو اور کاروبار کا تحفظ کرنا ہے۔ پاکستان کی ریاست اور مذہبی پیشوا کے اتحاد نے ریاست کا عوامی فلاحی کردار ختم کردیا ہے ۔
جمہوریت کی اساس عوام کے اقتدار اعلیٰ اور قانون کی حاکمیت پراستوار ہے'قانون کی بالادستی کے معنی یہ ہیں کہ متعلقہ ریاست کے تمام شہری آئین و قانون کی نظر میں برابر ہیںاور یکساں حقوق کے مالک ہیں۔
برصغیر کے مسلمانوں نے مذہبی جماعتوں کی سیاست کو مسترد کرکے قائد اعظم کے تصور پاکستان اور نظریہ ریاست کو ووٹ دیا'اب پاکستان کی جمہوری قوتوں کا فرض ہے کہ وہ قائد اعظم کے نظریات کے مطابق پاکستان کو چلائیں'قائد اعظم کے نظریہ ریاست کو زندہ کرنے کے لیے آئین میں جو ترامیم کرنا ضروری ہوں، وہ ہونی چاہیے۔
سیکولرازم کا مطلب لادینیت پھیلانا یا مذہب کی مخالفت نہیں ہے بلکہ تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک کرنا ہوتا ہے۔''کسی کے مذہب کو چھیڑو مت اور اپنا مذہب چھوڑو مت'' کا اصول اس کی بنیاد ہے 'صرف عقائد کی بنیاد پر کسی شہری کو عہدہ حاصل کرنے سے منع کرنا یا اس کے ساتھ انصاف نہ کرنا غیر جمہوری امر ہے۔(باچا خان اور ولی خان کی برسی کے موقعے پر ان کو خراج تحسین)
''میں یہاں دستور ساز اسمبلی میں 11اگست 1947کو قائد اعظم کے افتتاحی خطبے میں سے جو انھوں نے اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے دیا تھا،ایک اقتبا س پیش کرنا چا ہوں گا۔
انھوں نے کہا، ''آ پ اپنے ما ضی کو بھو ل جا ئیں' باہمی ا تحا د وا تفا ق کے سا تھ اس جذ بے سے کا م کریں کہ آ پ میں سے ہر ایک ا ول و آ خر اس ملک کا شہری ہے 'خو اہ کسی فر قے سے تعلق ر کھتا ہو' ما ضی میں ا یک دو سر ے کے سا تھ کیسے ہی تعلقات ر ہے ہو ں' آ پ کا ر نگ نسل،ذات برادری یا عقیدہ کو ئی بھی ہو، سب کے حقو ق برا بر ہیں اور ذ مہ دا ریاں بھی برابر ہیں۔
ا گر آ پ یہ سب کچھ کر گز ر یں گے تو آپ کی تر قی و خو شحا لی کی کو ئی ا نتہا نہ ہوگی 'میں اس با ت پر بہت زور د ینے کی ضر ور ت نہیں سمجھتا، بہرحال ہمیں اس جذبہ سے کام شر وع کر د نیا چا ہیے'و قت گز ر نے کے ساتھ سا تھ ا کثر یتی اور ا قلیتی فر قو ں کے تما م جھگڑے اور ہند وؤں اور مسلمانوں کے اختلافات ختم ہو جا ئیں گے کیو نکہ جہاں تک گروہ بند ی کا تعلق ہے 'مسلمانو ں میں بھی گر وہ ہیں، پٹھان،پنجا بی ،شیعہ،سنی اور اسی طر ح ہندوؤں میں بھی مثلا برہمن، و یش اور کھشتر ی و غیر ہ ہیں بلکہ بنگا لی اورمد ر ا سی و غیر ہ کے چکر بھی ہیں۔
مملکت پاکستان میں ہر شخص ا پنی عبا د ت گا ہو ں میں جانے کے لیے آ زاد ہے' مندر میں جا ئے یا مسجد میں، آپ کا تعلق کسی مذ ہب ،فر قے یا عقیدے سے ہو مملکت کو اس سے کو ئی سر و کا ر نہیں۔''میرے نزدیک یہ '' سیکولرازم'' کی صحیح تعبیر ہے' اگر کسی کو اس سے اختلاف ہے تو وہ ہمارے سامنے آئے اور سمجھائے'یہ ہے بانی پاکستان کا پیش کردہ پاکستانی قومیت کا صحیح تصور۔نیشنل عوامی پارٹی(نیپ) اس پر پورا یقین رکھتی ہے۔
اس لیے پیرا نمبر 9میں لگایا گیا یہ الزام کہ نیپ علاقائی' لسانی اور نسلی بنیادوں پر چار قومیتوںکا پرچار کر رہی ہے، بالکل غلط اور بدنیتی پر مبنی ہے۔ولی خان نے بہت ہی خوبصورت پیرائے میں اور دلائل کے ساتھ یہ حقیقت ثابت کی ہے کہ ریاست کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا بلکہ ریاست کا وہی نظریہ ہوتا ہے جو ریاست کے حکمران طبقے کا ہوتا ہے'انھوں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ پاکستان کے بانی کے ذہن میں ایک سیکولر پاکستان کا واضح نقشہ تھا۔قائد اعظم کا طرز حیات اور ان کی تقریریں اس کا ثبوت ہیں۔
1949میں جب قرار داد مقاصد منظور کی گئی تو احمد بشیر نے مولانا حسرت موہانی سے انٹرویو میں سوال کیا ،اس قرار داد کا آغاز تو پاکستان پر اﷲ کی حاکمیت کے اعلان سے کیا گیا ہے'آپ تیرہواں حج کرکے آئے ہیں ،آپ کیسے اس پر نا پسندیدگی کا اظہار کر سکتے ہیں؟ مولانا حسرت موہانی نے جواب دیا۔''اﷲ تعالی تو خود حکومت کرنے نہیں آئے گا'مگر اس کے نام پر یہاں کے حکمران اور مذہبی طبقہ، عوام کو ضرور اپنے حقوق سے محروم کردیں گے ۔''
اس مرد درویش کی بات سو فیصد درست ثابت ہوگئی ہے' پاکستان کے مذہبی رہنماء اور حکمران طبقوں نے اپنے مفاداتی اتحاد سے ملک کو ایک تنگ گلی میں پہنچادیا ہے' ملک کے سرمایہ دار اور جاگیردار طبقے نے استحصالی نظام کو بچانے کے لیے ہمیشہ ملا اور مارشل لاء کی بیساکھیوں کا سہارا لیا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد ان مذہبی جماعتوں کے لوگوں نے پاکستان کے نظام کو ٹھیک کرنے کا بیڑا اٹھایا جنھوں نے قائداعظم اور قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی' بدقسمتی سے یہ پارٹیاں اور ان کے رہنماء ہی پاکستان کے ٹھیکیدار بن گئے ہیں' ان پارٹیوں کی قیادت نے اسٹیبلشمنٹ، جیوڈیشری، بیوروکریسی ، جاگیرداروں، قبائلی وڈیروں اور سرمایہ داروں کے ساتھ مل کر ملک کو معاشی تباہی کے کنارے پہنچادیا ہے۔
ایک بڑا مسئلہ یہ بھی پیدا ہوا ہے کہ اسلامی نظام کی تشریح پر بھی لڑائی ہے'ہر ایک اپنے مذہبی مکتبہ فکر اپنے اکابرین کی تفہیم و تشریح کو اسلام کا نظام قرار دے رہا ہے' اختلاف رکھنے والوں کا خون بہایا جا رہا ہے'ریاست کا فرض عوام کے جان و مال، عزت و آبرو اور کاروبار کا تحفظ کرنا ہے۔ پاکستان کی ریاست اور مذہبی پیشوا کے اتحاد نے ریاست کا عوامی فلاحی کردار ختم کردیا ہے ۔
جمہوریت کی اساس عوام کے اقتدار اعلیٰ اور قانون کی حاکمیت پراستوار ہے'قانون کی بالادستی کے معنی یہ ہیں کہ متعلقہ ریاست کے تمام شہری آئین و قانون کی نظر میں برابر ہیںاور یکساں حقوق کے مالک ہیں۔
برصغیر کے مسلمانوں نے مذہبی جماعتوں کی سیاست کو مسترد کرکے قائد اعظم کے تصور پاکستان اور نظریہ ریاست کو ووٹ دیا'اب پاکستان کی جمہوری قوتوں کا فرض ہے کہ وہ قائد اعظم کے نظریات کے مطابق پاکستان کو چلائیں'قائد اعظم کے نظریہ ریاست کو زندہ کرنے کے لیے آئین میں جو ترامیم کرنا ضروری ہوں، وہ ہونی چاہیے۔
سیکولرازم کا مطلب لادینیت پھیلانا یا مذہب کی مخالفت نہیں ہے بلکہ تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک کرنا ہوتا ہے۔''کسی کے مذہب کو چھیڑو مت اور اپنا مذہب چھوڑو مت'' کا اصول اس کی بنیاد ہے 'صرف عقائد کی بنیاد پر کسی شہری کو عہدہ حاصل کرنے سے منع کرنا یا اس کے ساتھ انصاف نہ کرنا غیر جمہوری امر ہے۔(باچا خان اور ولی خان کی برسی کے موقعے پر ان کو خراج تحسین)