ہر طرف نُور کے دریا ہیں رواں آج کی رات۔۔ شبِِ معراج
واقعۂ معراج کا مرصع تاج ِ تمام انبیاء و رُسلؑ میں فقط حضور سید المرسلین ﷺ کی جبین ِ ضوفشاں پر سجایا گیا۔
واقعہ معراج انسانی تاریخ کا وہ عدیم النظیر، پُرشکوہ اور استعجاب آفریں واقعہ ہے جو اپنے دامن میں امام الانبیاء حضور سید المرسلین ، وجہ تزئین و تخلیق ِ کائنات حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ کی شان ِ عظمت و رفعت، آپ ؐ کے اوج کمال اور ارتفاع ِ دارین، فوز و فلاح ِ آدمیت اور شفاعت و بخشش ِ انسانی کی نوید جاں فزا لیے ہوئے ہے۔
واقعۂ معراج کا مرصع تاج ِ تمام انبیاء و رُسلؑ میں فقط حضور سید المرسلین ﷺ کی جبین ِ ضوفشاں پر سجایا گیا۔ ایسا متبرک و محتشم تاج جس کی چمک کی تابانی سے آفتاب و ماہ تاب اور تابشِ کہکشاں بھی خجل نظر آتی ہے۔
حضور سرورِ کائناتؐ کو اسرا کی شب انبیاء کی امامت کا وہ ارفع و منفرد اعزاز بخشا گیا جس کی تیاری آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت مسیح علیہ السلام تک تسلسل سے کی گئی۔ اس شب حضور ؐ کو حبیب کبریا کا جاں بخش لقب ارزانی ہوا۔ اس شب سردار ملائکہ حضرت جبریل امیںؑ سائیس بن کر تاج دارِ فقر و غنا کے حضور حاضر ہوئے اور رحمۃ اللعالمینؐ کی بارگاہِ جلال میں دعوت کا مژدہ جاں افزا عطا کیا۔
یہی وہ شب تھی جب انبیائے کرامؑ آمنہ کے اُس دُرِیتیم ﷺ کے دیدار پُرانوار کی حسرت و تمنا لیے بیت المقدس میں منتظر تھے جس پر رب ذوالمنن اور اُس کے فرشتے ہمہ وقت درود و سلام کی بارش کیے رہتے ہیں اور پھر قیامت تک اہل ایمان کو بھی حکم دیا کہ تم بھی میری سنت و روایت میں کثرت سے سلام بھیجا کرو۔ جن کے شہر میں انسان قدم رکھتا ہے تو غم ِ حیات کی طلاطم خیز موجیں کپکپاتی، ڈگمگاتی اور لرزتی دُور بھاگ جاتی ہیں۔
تُو حُسن ہے، فیضان ہے، خوش بُو ہے، ضیاء ہے
معمور ترے ذکر سے عالَم کی فضا ہے
اسی شب کائنات رنگ و بُو اور عالم بالا کے مکینوں کو آپ ؐ کی لامحدود رفعت و عظمت کا صحیح اندازہ ہوا کہ ہر بابِ عرش آپ ؐ کے اعزاز میں کُھلتا چلا گیا، ہر آسمان کے مکین ایک لامثال فرحت و انبساط کے ساتھ آپؐ کے جمال جہاں آرا کا نظارہ کرنے کے لیے سراپا استقبال تھے۔
آپ ﷺ اس عالم ارضی میں وہ واحد خیرالخلائق ہستی ہیں جنہیں اسی شب جنت دوزخ کا مشاہد ہ کرایا گیا اور حقائق کو آپ کی چشم سُرمگیں کے سامنے رکھ دیا گیا کہ ان بدیہہ حقائق کی روشنی میں آپ ؐ کی اُمت اپنی زندگی کا لائحہ عمل متعین کرے۔ آقائے دو جہاںؐ نعائم فردوس ِ بریں دیکھ کر فرحت و انبساط سے معمور ہوگئے مگر دوزخ کے مہیب شعلوں میں خطا کاروں کی سزاؤں سے نہایت کبیدہ خاطر ہوئے۔
شافع محشرؐ اپنے خاطی و عاصی امتیوں کی مغفرت و بخشش کی تمنا لیے آگے بڑھتے گئے۔ ایک ایسا مقام بھی آگیا جسے قرآن سدرۃ المنتہاء کے نام سے یاد کرتا ہے وہاں ملائکہ کے رئیس حضرت روح الامینؑ (جنہوں نے فخر و مباہات سے آپؐ کے براق کی مہار تھامی ہوئی تھی) بھی شکستہ پا عرض کرتے ہیں: آقا ﷺ، یہ وہ مقام ہے جو میرے اور خالق کے درمیان حدِفاصل ہے اس سے آگے ایک بھی قدم رکھنے سے تجلیات خداوندی سے میرے پَر جلنے لگتے ہیں۔
جلتے ہیں جس مقام پہ پَر جبرائیل کے
اُس کی حقیقتوں کے شناسا تمہی تو ہو
اس سے آگے کا سفر سرکارِ رسالت مآب ﷺ نے تنہا طے کیا۔ یہی وہ اعزاز و اکرام ہے جو آقا ؐ کو تمام کائنات اور اس کی موجودات پر ایسا ممیز کرتا ہے جس کا تصور بھی کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ پیش گاہِ عزت و جلالِ خداوندی کے وقت تمام حجابات اٹھا دیے گئے۔
سیدنا موسیٰ کلیم اﷲ جیسا صاحب سطوت پیغمبر کوہ ِ طور پر انوار رب دو جہاں کی ادنیٰ سی جھلک برداشت نہ کرسکا اور اس حقیت پر قرآن شاہد ہے مگر سردارِ دو جہاں ﷺ کی شان ِ رفعت دیکھیے کہ مشاہدہِ حق کے دوران پلک تک بھی نہ جھپکی اور ظرفِ نبوت نے فیضان ِ رب کو پوری طرح سمیٹ لیا۔
بارگاہِ خدا ئے عزوجل سے جو بیش قیمت گراں مایہ تحائف عطا ہوئے اُن میں بالاتفاق نماز پنج گانہ اور دیگر احکامات کے ساتھ یہ نوید جاں فزا بھی مرحمت ہوئی کہ آپؐ کی اُمت کے لیے شرک کے علاوہ دیگر تمام معاصی کی بخشش کا امکان ظاہر کیا گیا اور مقام ِ محمود جیسا لطیف اور باکمال منصب عطا کیا گیا۔
واقعۂ معراج کے پیش آنے کا ایک پس منظر تو یہ تھا کہ حضور سرور کونین ﷺ قریش مکہ کی ایذا رسانیوں سے پریشان و کبیدہ خاطر تھے، مصائب و آلام کی ان آندھیوں میں حبیب کبریا ﷺ کی دل جوئی مقصود تھی، کفار حضورؐ اور آپ ؐ کے رفقا پر جبر و استبداد کا ہر حربہ آزمائے ہوئے تھے، اس لیے یہ ازبس ضروری تھا کہ آپؐ کی تالیف قلب کا اہتمام کیا جائے۔
دوسرے یہ کہ معراجِ نبوت نے انسانی زندگی پر سماجی، اخلاقی اور معاشرتی اعتبار سے گہرے اثرات مرتب کیے، خلق خدا کو ایک لائحہ عمل مل گیا، ضوابطِ حیات کا ایک ایسا خزانہ ملا جو انقلاب و کیف آفرین بھی تھا اور نجات ِ اُخروی کا سبب بھی تمام انبیاء و رُسلؑ کی عملی طور پر امامت سے آپ ؐ کا امام الانبیاء ہونے کا منصب نکھر کا سامنے آگیا۔
سرنگوں ہوگئے ظلمت کے نشاں آج کی رات
ہر طرف نور کے دریا ہیں رواں آج کی رات
گردشِ شام و سحر اپنا چلن بھو ل گئی
جادۂ شوق پہ ہے کون رواں آج کی رات
واقعۂ معراج کا مرصع تاج ِ تمام انبیاء و رُسلؑ میں فقط حضور سید المرسلین ﷺ کی جبین ِ ضوفشاں پر سجایا گیا۔ ایسا متبرک و محتشم تاج جس کی چمک کی تابانی سے آفتاب و ماہ تاب اور تابشِ کہکشاں بھی خجل نظر آتی ہے۔
حضور سرورِ کائناتؐ کو اسرا کی شب انبیاء کی امامت کا وہ ارفع و منفرد اعزاز بخشا گیا جس کی تیاری آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت مسیح علیہ السلام تک تسلسل سے کی گئی۔ اس شب حضور ؐ کو حبیب کبریا کا جاں بخش لقب ارزانی ہوا۔ اس شب سردار ملائکہ حضرت جبریل امیںؑ سائیس بن کر تاج دارِ فقر و غنا کے حضور حاضر ہوئے اور رحمۃ اللعالمینؐ کی بارگاہِ جلال میں دعوت کا مژدہ جاں افزا عطا کیا۔
یہی وہ شب تھی جب انبیائے کرامؑ آمنہ کے اُس دُرِیتیم ﷺ کے دیدار پُرانوار کی حسرت و تمنا لیے بیت المقدس میں منتظر تھے جس پر رب ذوالمنن اور اُس کے فرشتے ہمہ وقت درود و سلام کی بارش کیے رہتے ہیں اور پھر قیامت تک اہل ایمان کو بھی حکم دیا کہ تم بھی میری سنت و روایت میں کثرت سے سلام بھیجا کرو۔ جن کے شہر میں انسان قدم رکھتا ہے تو غم ِ حیات کی طلاطم خیز موجیں کپکپاتی، ڈگمگاتی اور لرزتی دُور بھاگ جاتی ہیں۔
تُو حُسن ہے، فیضان ہے، خوش بُو ہے، ضیاء ہے
معمور ترے ذکر سے عالَم کی فضا ہے
اسی شب کائنات رنگ و بُو اور عالم بالا کے مکینوں کو آپ ؐ کی لامحدود رفعت و عظمت کا صحیح اندازہ ہوا کہ ہر بابِ عرش آپ ؐ کے اعزاز میں کُھلتا چلا گیا، ہر آسمان کے مکین ایک لامثال فرحت و انبساط کے ساتھ آپؐ کے جمال جہاں آرا کا نظارہ کرنے کے لیے سراپا استقبال تھے۔
آپ ﷺ اس عالم ارضی میں وہ واحد خیرالخلائق ہستی ہیں جنہیں اسی شب جنت دوزخ کا مشاہد ہ کرایا گیا اور حقائق کو آپ کی چشم سُرمگیں کے سامنے رکھ دیا گیا کہ ان بدیہہ حقائق کی روشنی میں آپ ؐ کی اُمت اپنی زندگی کا لائحہ عمل متعین کرے۔ آقائے دو جہاںؐ نعائم فردوس ِ بریں دیکھ کر فرحت و انبساط سے معمور ہوگئے مگر دوزخ کے مہیب شعلوں میں خطا کاروں کی سزاؤں سے نہایت کبیدہ خاطر ہوئے۔
شافع محشرؐ اپنے خاطی و عاصی امتیوں کی مغفرت و بخشش کی تمنا لیے آگے بڑھتے گئے۔ ایک ایسا مقام بھی آگیا جسے قرآن سدرۃ المنتہاء کے نام سے یاد کرتا ہے وہاں ملائکہ کے رئیس حضرت روح الامینؑ (جنہوں نے فخر و مباہات سے آپؐ کے براق کی مہار تھامی ہوئی تھی) بھی شکستہ پا عرض کرتے ہیں: آقا ﷺ، یہ وہ مقام ہے جو میرے اور خالق کے درمیان حدِفاصل ہے اس سے آگے ایک بھی قدم رکھنے سے تجلیات خداوندی سے میرے پَر جلنے لگتے ہیں۔
جلتے ہیں جس مقام پہ پَر جبرائیل کے
اُس کی حقیقتوں کے شناسا تمہی تو ہو
اس سے آگے کا سفر سرکارِ رسالت مآب ﷺ نے تنہا طے کیا۔ یہی وہ اعزاز و اکرام ہے جو آقا ؐ کو تمام کائنات اور اس کی موجودات پر ایسا ممیز کرتا ہے جس کا تصور بھی کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ پیش گاہِ عزت و جلالِ خداوندی کے وقت تمام حجابات اٹھا دیے گئے۔
سیدنا موسیٰ کلیم اﷲ جیسا صاحب سطوت پیغمبر کوہ ِ طور پر انوار رب دو جہاں کی ادنیٰ سی جھلک برداشت نہ کرسکا اور اس حقیت پر قرآن شاہد ہے مگر سردارِ دو جہاں ﷺ کی شان ِ رفعت دیکھیے کہ مشاہدہِ حق کے دوران پلک تک بھی نہ جھپکی اور ظرفِ نبوت نے فیضان ِ رب کو پوری طرح سمیٹ لیا۔
بارگاہِ خدا ئے عزوجل سے جو بیش قیمت گراں مایہ تحائف عطا ہوئے اُن میں بالاتفاق نماز پنج گانہ اور دیگر احکامات کے ساتھ یہ نوید جاں فزا بھی مرحمت ہوئی کہ آپؐ کی اُمت کے لیے شرک کے علاوہ دیگر تمام معاصی کی بخشش کا امکان ظاہر کیا گیا اور مقام ِ محمود جیسا لطیف اور باکمال منصب عطا کیا گیا۔
واقعۂ معراج کے پیش آنے کا ایک پس منظر تو یہ تھا کہ حضور سرور کونین ﷺ قریش مکہ کی ایذا رسانیوں سے پریشان و کبیدہ خاطر تھے، مصائب و آلام کی ان آندھیوں میں حبیب کبریا ﷺ کی دل جوئی مقصود تھی، کفار حضورؐ اور آپ ؐ کے رفقا پر جبر و استبداد کا ہر حربہ آزمائے ہوئے تھے، اس لیے یہ ازبس ضروری تھا کہ آپؐ کی تالیف قلب کا اہتمام کیا جائے۔
دوسرے یہ کہ معراجِ نبوت نے انسانی زندگی پر سماجی، اخلاقی اور معاشرتی اعتبار سے گہرے اثرات مرتب کیے، خلق خدا کو ایک لائحہ عمل مل گیا، ضوابطِ حیات کا ایک ایسا خزانہ ملا جو انقلاب و کیف آفرین بھی تھا اور نجات ِ اُخروی کا سبب بھی تمام انبیاء و رُسلؑ کی عملی طور پر امامت سے آپ ؐ کا امام الانبیاء ہونے کا منصب نکھر کا سامنے آگیا۔
سرنگوں ہوگئے ظلمت کے نشاں آج کی رات
ہر طرف نور کے دریا ہیں رواں آج کی رات
گردشِ شام و سحر اپنا چلن بھو ل گئی
جادۂ شوق پہ ہے کون رواں آج کی رات