آئیے ووٹ ڈالنے چلیں
یہ انتخابات ایک ایسے وقت میں منعقد ہورہے ہیں جب ایک اور سابق وزیر اعظم کو سزائیں سنادی گئی ہیں
ملک میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر آج آٹھ فروری کو 12ویں انتخابات منعقد ہورہے ہیں۔ یہ انتخابات ایک ایسے وقت میں منعقد ہورہے ہیں جب ایک اور سابق وزیر اعظم کو سزائیں سنادی گئی ہیں اور ایک سیاسی جماعت اپنے انتخابی نشان سے محروم ہوچکی ہے۔
جب 2018میں 11ویں عام منعقد ہوئے تھے تو اس وقت ایک سابق وزیر اعظم کو سزا دے کر جیل میں مقید کردیا گیا تھا بلکہ گزشتہ منعقد ہونے والے تمام انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو جمہوری عمل کی منفی پرواز کا پتہ چلتا ہے۔
برصغیر ہندوستان میں 1946میں انتخابات منعقد ہوئے تھے مگر یہ انتخابات بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منعقد نہیں ہوئے تھے۔ اس وقت صرف مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص طبقہ کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہوا تھا۔
ان انتخابات کے نتیجہ میں ہندوستان کے بٹوارے کا فیصلہ ہوا تھا۔ 1947 سے 1959تک پاکستان میں سیاسی جماعتیں برسراقتدار رہیں مگر 9 سال تک آئین نہ بن سکا۔
ایک بیوروکریٹ غلام محمد نے آئین ساز اسمبلی کو توڑ دیا۔ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین نے نئی آئین ساز اسمبلی کا انتخاب کیا، مگر پھر 1958 میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا۔
پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کو 1968 میں عوامی تحریک کے ذریعہ اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ جنرل یحییٰ خان نے عام انتخابات کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں ختم کیں مگر دسمبر 1970 میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منعقد ہونے والے انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کیا گیا جس کی بناء پر اکثریتی صوبہ کے عوام نے اپنا الگ ملک بنانے کا فیصلہ کیا۔
پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں قائم ہوئی اور سیاست دانوں نے متفقہ طور پر 1973 کا آئین تیار کیا مگر بھٹو دور میں بنیادی انسانی حقوق پر قدغن لگی رہی۔ نیشنل عوامی پارٹی کی بلوچستان کی حکومت کو توڑ دیا گیا اور نیپ کے تمام رہنماؤں کو حیدرآباد سازش کیس کے نام پر جیلوں میں بھیج دیا گیا۔
وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1977 میں عام انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔ مخالف جماعتیں پاکستان قومی اتحاد کے تحت متحد ہوگئیں۔ پی این اے کی جماعتوں کو ایک زوردار مہم چلانے کا موقع ملا۔ پی این اے کے ایک رہنما ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان نے میلوں طویل جلوس نکالنے کا ریکارڈ قائم کیا۔
سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ پی این اے کی انتخابی مہم کو سرکاری ٹی وی پر حکمراں جماعت کے برابر کوریج ملنی چاہیے مگر پی این اے کی انتخابی مہم کے ماہرین نے یہ تاثر پھیلا دیا کہ انتخابات میں بڑے پیمانہ پر دھاندلی ہوگئی جس تاثر کومستحکم کرنے میں وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ اور اہم وزراء کا بلا مقابلہ منتخب ہونے کا سلسلہ بھی شامل تھا، یوں انتخابات کے بعد پی این اے نے تحریک چلائی اور جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا۔
جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور میں بنیادی انسانی حقوق کو مکمل طور پر پامال کیا۔ صرف سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی نہیں دی بلکہ کئی کارکنوں کو پھانسی دیدی گئی۔ ہزاروں کارکنوں، صحافیوں اور ادیبوں کو کوڑے مارے گئے۔ جب جنرل ضیاء الحق نے ایک متنازع ریفرنڈ م کے ذریعے خود کو منتخب صدر قرار دیا۔
غیر جماعتی بنیادوں پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرائے گئے۔ مخالف جماعتوں کے اتحاد ایم آر ڈی نے ان انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا مگر حیرت انگیز طور پر غیر سول حکومت نے بہت سے سیاسی کارکنوں کو رہا کر دیا۔ سیاسی رہنماؤں اور امیدواروں کو جلسہ جلوسوں کی اجازت دیدی گئی۔
ایم آر ڈی کے بائیکاٹ کے باوجود ووٹنگ کی شرح 52.93 فیصد تک پہنچ گئی۔ 1988میں جنرل ضیاء الحق نے قومی اسمبلی توڑدی، بعدازاں ہوائی حادثہ میں ہلاک ہو گئے اور اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے قومی انتخابات کرائے۔
ان انتخابات میں محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ ان انتخابات میں ووٹنگ کی شرح 42.75 فیصد بتائی گئی۔ اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کردیا اور 1990میں نئے انتخابات کرائے گئے۔ ان انتخابات میں ووٹنگ کا تناسب 45 فیصد رہا۔
میاں نواز شریف وزیر اعظم بنے مگر ان کا صدر غلام اسحاق خان سے جھگڑا ہوا۔ اس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل کاکڑ کی مداخلت پر غلام اسحاق خان اور میاں نواز شریف اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور پہلی دفعہ ڈاکٹر معین قریشی کی قیادت میں غیر جانبدار نگراں حکومت قائم ہوئی۔ 1993میں انتخابات منعقد ہوئے۔
ان انتخابات میں ووٹنگ کی شرح 40.02 فیصد رہی۔ بے نظیر بھٹو دوسری دفعہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں اور پیپلز پارٹی کے رہنما فاروق لغاری صدر کے عہدہ پر فائز ہوئے مگر 1997 میں مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کیا۔
1997 کے یہ انتخابات پہلی دفعہ رمضان میں منعقد ہوئے اور ووٹنگ کی شرح 35.79 فیصد رہی۔ میاں نواز شریف کو ایک دفعہ پھر وزیر اعظم بننے کا موقع ملا مگر پھر جنرل پرویز مشرف نے 1991 میں میاں نواز شریف کی حکومت کو برطرف کرکے انھیں اٹک قلعہ میں نظربند کیا گیا۔
جنرل پرویز مشرف نے 2002 میں عام انتخابات کرائے مگر ملک کی دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو ملک میں واپس آنے اور انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ملی۔ ان انتخابات میں ووٹنگ کی شرح 41.76 فیصد رہی، یوں مسلم لیگ ق کے میر ظفر اﷲ جمالی، چوہدری شجاعت حسین اور شوکت عزیز کو باری باری وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے مواقع ملے۔
2007 میں وکلاء نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک چلائی۔ پہلے بے نظیر بھٹو جلاوطنی ختم کر کے ملک واپس آئیں۔ میاں نواز شریف وطن آنے میں کامیاب ہوئے۔ بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں شہید کیا گیا اور 2008 میں عام انتخابات منعقد کرائے۔ ووٹنگ کا تناسب 44.35 فیصد رہا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے پانچ سال مکمل کیے اور 2013میں عام انتخابات منعقد ہوئے۔
ان انتخابات میں ووٹنگ کی شرح 55.2 فیصد رہی۔ میاں نواز شریف ایک بار پھر وزیر اعظم منتخب ہوئے مگر 4 سال بعد سپریم کورٹ نے پاناما اسکینڈل کے بارے میں سماعت کے دوران وزیر اعظم میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیا اور نئے انتخابات سے10دن قبل احتساب عدالت نے میاں نواز شریف کو عمر قید اور جرمانہ کی سزا سنائی ۔
2018 کے انتخابات میں ووٹنگ کی شرح 51.7فیصد رہی۔ پھر انتخابات منعقد ہورہے ہیں مگر آج بھی حالات خراب ہیں۔ بلوچستان اور خیبرپختون خوا میں دہشت گردی بڑھ گئی ہے،ایک امیدوار کو قتل کردیا گیا ہے مگر عوام کی طاقت عظیم ہے۔ سب کے سامنے ایک ہی سوال ہے کہ کیا نئی آنے والی حکومت ملک کو بحران سے نکال سکے گی؟ مگر انتخابات ہونا ایک مثبت اقدام ہے۔ آئیے ووٹ ڈالنے چلیں۔
جب 2018میں 11ویں عام منعقد ہوئے تھے تو اس وقت ایک سابق وزیر اعظم کو سزا دے کر جیل میں مقید کردیا گیا تھا بلکہ گزشتہ منعقد ہونے والے تمام انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو جمہوری عمل کی منفی پرواز کا پتہ چلتا ہے۔
برصغیر ہندوستان میں 1946میں انتخابات منعقد ہوئے تھے مگر یہ انتخابات بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منعقد نہیں ہوئے تھے۔ اس وقت صرف مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص طبقہ کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہوا تھا۔
ان انتخابات کے نتیجہ میں ہندوستان کے بٹوارے کا فیصلہ ہوا تھا۔ 1947 سے 1959تک پاکستان میں سیاسی جماعتیں برسراقتدار رہیں مگر 9 سال تک آئین نہ بن سکا۔
ایک بیوروکریٹ غلام محمد نے آئین ساز اسمبلی کو توڑ دیا۔ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین نے نئی آئین ساز اسمبلی کا انتخاب کیا، مگر پھر 1958 میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا۔
پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کو 1968 میں عوامی تحریک کے ذریعہ اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ جنرل یحییٰ خان نے عام انتخابات کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں ختم کیں مگر دسمبر 1970 میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منعقد ہونے والے انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کیا گیا جس کی بناء پر اکثریتی صوبہ کے عوام نے اپنا الگ ملک بنانے کا فیصلہ کیا۔
پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں قائم ہوئی اور سیاست دانوں نے متفقہ طور پر 1973 کا آئین تیار کیا مگر بھٹو دور میں بنیادی انسانی حقوق پر قدغن لگی رہی۔ نیشنل عوامی پارٹی کی بلوچستان کی حکومت کو توڑ دیا گیا اور نیپ کے تمام رہنماؤں کو حیدرآباد سازش کیس کے نام پر جیلوں میں بھیج دیا گیا۔
وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1977 میں عام انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔ مخالف جماعتیں پاکستان قومی اتحاد کے تحت متحد ہوگئیں۔ پی این اے کی جماعتوں کو ایک زوردار مہم چلانے کا موقع ملا۔ پی این اے کے ایک رہنما ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان نے میلوں طویل جلوس نکالنے کا ریکارڈ قائم کیا۔
سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ پی این اے کی انتخابی مہم کو سرکاری ٹی وی پر حکمراں جماعت کے برابر کوریج ملنی چاہیے مگر پی این اے کی انتخابی مہم کے ماہرین نے یہ تاثر پھیلا دیا کہ انتخابات میں بڑے پیمانہ پر دھاندلی ہوگئی جس تاثر کومستحکم کرنے میں وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ اور اہم وزراء کا بلا مقابلہ منتخب ہونے کا سلسلہ بھی شامل تھا، یوں انتخابات کے بعد پی این اے نے تحریک چلائی اور جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا۔
جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور میں بنیادی انسانی حقوق کو مکمل طور پر پامال کیا۔ صرف سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی نہیں دی بلکہ کئی کارکنوں کو پھانسی دیدی گئی۔ ہزاروں کارکنوں، صحافیوں اور ادیبوں کو کوڑے مارے گئے۔ جب جنرل ضیاء الحق نے ایک متنازع ریفرنڈ م کے ذریعے خود کو منتخب صدر قرار دیا۔
غیر جماعتی بنیادوں پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرائے گئے۔ مخالف جماعتوں کے اتحاد ایم آر ڈی نے ان انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا مگر حیرت انگیز طور پر غیر سول حکومت نے بہت سے سیاسی کارکنوں کو رہا کر دیا۔ سیاسی رہنماؤں اور امیدواروں کو جلسہ جلوسوں کی اجازت دیدی گئی۔
ایم آر ڈی کے بائیکاٹ کے باوجود ووٹنگ کی شرح 52.93 فیصد تک پہنچ گئی۔ 1988میں جنرل ضیاء الحق نے قومی اسمبلی توڑدی، بعدازاں ہوائی حادثہ میں ہلاک ہو گئے اور اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے قومی انتخابات کرائے۔
ان انتخابات میں محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ ان انتخابات میں ووٹنگ کی شرح 42.75 فیصد بتائی گئی۔ اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کردیا اور 1990میں نئے انتخابات کرائے گئے۔ ان انتخابات میں ووٹنگ کا تناسب 45 فیصد رہا۔
میاں نواز شریف وزیر اعظم بنے مگر ان کا صدر غلام اسحاق خان سے جھگڑا ہوا۔ اس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل کاکڑ کی مداخلت پر غلام اسحاق خان اور میاں نواز شریف اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور پہلی دفعہ ڈاکٹر معین قریشی کی قیادت میں غیر جانبدار نگراں حکومت قائم ہوئی۔ 1993میں انتخابات منعقد ہوئے۔
ان انتخابات میں ووٹنگ کی شرح 40.02 فیصد رہی۔ بے نظیر بھٹو دوسری دفعہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں اور پیپلز پارٹی کے رہنما فاروق لغاری صدر کے عہدہ پر فائز ہوئے مگر 1997 میں مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کیا۔
1997 کے یہ انتخابات پہلی دفعہ رمضان میں منعقد ہوئے اور ووٹنگ کی شرح 35.79 فیصد رہی۔ میاں نواز شریف کو ایک دفعہ پھر وزیر اعظم بننے کا موقع ملا مگر پھر جنرل پرویز مشرف نے 1991 میں میاں نواز شریف کی حکومت کو برطرف کرکے انھیں اٹک قلعہ میں نظربند کیا گیا۔
جنرل پرویز مشرف نے 2002 میں عام انتخابات کرائے مگر ملک کی دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو ملک میں واپس آنے اور انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ملی۔ ان انتخابات میں ووٹنگ کی شرح 41.76 فیصد رہی، یوں مسلم لیگ ق کے میر ظفر اﷲ جمالی، چوہدری شجاعت حسین اور شوکت عزیز کو باری باری وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے مواقع ملے۔
2007 میں وکلاء نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک چلائی۔ پہلے بے نظیر بھٹو جلاوطنی ختم کر کے ملک واپس آئیں۔ میاں نواز شریف وطن آنے میں کامیاب ہوئے۔ بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں شہید کیا گیا اور 2008 میں عام انتخابات منعقد کرائے۔ ووٹنگ کا تناسب 44.35 فیصد رہا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے پانچ سال مکمل کیے اور 2013میں عام انتخابات منعقد ہوئے۔
ان انتخابات میں ووٹنگ کی شرح 55.2 فیصد رہی۔ میاں نواز شریف ایک بار پھر وزیر اعظم منتخب ہوئے مگر 4 سال بعد سپریم کورٹ نے پاناما اسکینڈل کے بارے میں سماعت کے دوران وزیر اعظم میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیا اور نئے انتخابات سے10دن قبل احتساب عدالت نے میاں نواز شریف کو عمر قید اور جرمانہ کی سزا سنائی ۔
2018 کے انتخابات میں ووٹنگ کی شرح 51.7فیصد رہی۔ پھر انتخابات منعقد ہورہے ہیں مگر آج بھی حالات خراب ہیں۔ بلوچستان اور خیبرپختون خوا میں دہشت گردی بڑھ گئی ہے،ایک امیدوار کو قتل کردیا گیا ہے مگر عوام کی طاقت عظیم ہے۔ سب کے سامنے ایک ہی سوال ہے کہ کیا نئی آنے والی حکومت ملک کو بحران سے نکال سکے گی؟ مگر انتخابات ہونا ایک مثبت اقدام ہے۔ آئیے ووٹ ڈالنے چلیں۔