امیروں کی تلاش
’’امیر‘‘ تو حناربانی کھر بھی ہیں لیکن شاید ان کو تسلی ہوگی کہ بلاول کے نیک ارادے صرف ’’امیروں‘‘کے بارے میں ہیں
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ یہ ''امیر''کون ہیں کیونکہ آج کل سارے لیڈروں کی تو دھنا دھن ان ''امیروں''پر چل رہی ہیں، ہر ایک منہ میں جھاگ بھر بھر کر دانت پیس پیس کر اور''مکے''لہرا لہرا کر کہہ رہا ہے کہ اقتدار میں آکر''امیروں'' کی ایسی کی تیسی کردیں گے اور غریبوں کی ویسی کی ویسی کرکے چارٹر طیارے میں جنت واصل کردیں گے۔
خاص طور پر بلاول تو ان امیروں کے بارے میں بہت زیادہ سخت عزائم کا اظہار کررہا ہے یہاں تک کہ محترمہ حناربانی کھر نے بھی کہا ہے کہ بلاول امیروں کی سبسڈی چھین کر غریبوں کو واپس کردیں گے۔
''امیر'' تو حناربانی کھر بھی ہیں لیکن شاید ان کو تسلی ہوگی کہ بلاول کے نیک ارادے صرف ''امیروں''کے بارے میں ہیں اور ''امیروں'' کو اپنے والا کی طرح سبسڈی پر رکھیں گے۔خیر یہ تو معاملے کی ایک الگ ٹہنی ہے۔
اصل بات ''امیروں'' کی ہے۔جن کے بارے میں بلاول، ان کے والد اور دوسرے معاونین بے تحاشاگرج رہے ہیں، ہم جیسے آپ کو پتہ ہے،اکیڈمیوں کے مستند اور اداروں کے تربیت یافتہ محقق ہیں، باوجود کوشش کے یہ پتہ نہیں لگا پائے کہ یہ امیر لوگ کون ہیں، کہاں پائے جاتے ہیں اور ان کے خلاف تمام لیڈر بہت ہی خطرناک عزائم کا اظہار کر رہے ہیں بلکہ یہ صرف آج کی یا اس الیکشن کی بات نہیں ہے بلکہ پاکستان کی ابتدا ہی سے سارے لیڈر ان کی ایسی تیسی کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
اور بلاول کی امیروں سے دشمنی تو خاندانی ہے کیونکہ چار پشتوں سے اس خاندان کے لوگ ان امیروں کے درپے ہیں لیکن شاید یہ امیرلوگ بڑے چلترباز ہیں کہ ہاتھ لگتے ہی نہیں ہیں، لیکن ہم نے ابھی پکا ارادہ کرلیا ہے کہ اپنے ''ٹٹوئے تحقیق'' کی مدد سے ان بدبختوں کا پتہ لگا کر رہیں گے
اگر غم لشکر انگیزد کہ خون عاشقاں ریزد
من وساقی بہم ساز یم و بنیادش برا نداریم
یعنی اگر غم نے اپنی فوج جمع کرکے یہ ارادہ کیا ہے کہ عاشقوں کا خون بہا کررہیں گے تو میں اور ساقی بھی آپس میں مل کر اسے بیخ وبن سے اکھاڑ دیں گے۔اس لیے ہم بھی اپنے ٹٹوئے تحقیق کو لے کر ان امیروں کی نشان دہی کرکے ان لیڈروں کو ان پر چھوڑ دیں۔ چھوڑے ہوئے تو وہ اب بھی ہیں۔لیکن بیچارے ان کم بختوں کی تلاش میں ناکام رہ جاتے ہیں، مطلب یہ کہ پکڑ میں نہیں آتے ورنہ پھر وہ کبھی ان کو نہیں چھوڑیں گے اور ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹ کر کیفرکردار کو پہنچا دیں گے۔
معاملہ چونکہ بہت بڑا پیچیدہ اور پرانا تھا۔اس لیے ہم نے اپنے ایک پرانے ریٹائرڈ استاد سے مدد کے لیے رجوع کیا۔ہماری بات سن کر پہلے تو وہ قہہ قہہ کرکے خوب رویا اور پھر بھوں بھوں ہنسنے لگا۔ پوچھا، سر جی ایسا کیا ہوا جو آپ رونے کی جگہ ہنس رہے ہیں اور ہنسنے کی جگہ رو رہے ہیں۔
بولے''رویا''میں اس لیے کہ ان کم بخت امیروں کی تلاش میں مجھے ناکامی ہوئی تھی جو ہمارے لیڈروں کو مطلوب ہیں اور ہنسا اس لیے کہ تم بھی میری طرح ناکام ہوئے حالانکہ تجھے بڑا دعویٰ تھا محقق ہونے کا،کیا ہوا وہ تمہاری اکیڈمیوں کی ڈگریاں اور اداروں کی تربیت؟۔عرض استاد محترم۔یہ اپنی نخرہ بازیاں چھوڑ دیجیے۔میرا ٹٹوئے تحقیق بری طرح کیچڑ میں پھنسا ہے اور کوئی اپائے بتائے کہ ہم کس طرح ان امیروں کو ڈھونڈ نکالیں اور اپنے لیڈروں کے سامنے پیش کریں تاکہ وہ ان کے ساتھ وہی کریں جو ہمیشہ کہتے رہے ہیں۔
اس پر استاد محترم پہلے رنجیدہ ہوئے اور پھر سنجیدہ ہوکر بولے۔تم نے علامہ اقبال کو پڑھا ہے؟ عرض کیا خوب اچھی طرح۔بھلا ہم جن کے ''خواب'' میں جی رہے ہیں ان کو بھی نہیں پڑھیں گے پھر ان کا یہ شعر بھی پڑھا ہوگا؟
جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں
وہ نکلے میرے ظلمت خانہ دل کے مکینوں میں
تفصیل چاہی تو فرمایا۔آج کل زمانہ الٹ پلٹ کا ہے۔میرا قول زرین ہے کہ جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں اور ہوتا وہی ہے جو نہیں دکھتا۔کسی چیز کو ڈھونڈنا ہو تو وہاں مت ڈھونڈو جہاں ہوتی ہے بلکہ وہاں ڈھونڈو جہاں نہیں ہوتی۔مجھے آخر میں یہ نکتہ سمجھ میں آیاتھا۔لیکن مجھے زبردستی ریٹائرڈ کردیا گیا۔وہ نکتہ یہ ہے کہ امیروں کو ڈھونڈنا ہو تو غریبوں میں ڈھونڈو۔اور غریبوں کو ڈھونڈنا ہو تو امیروں میں تلاش کرو یہ جو سامنے تمہیں امیر نظر آرہے ہیں یہ اصل میں غریب ہیں بلکہ فقیر ہیں دیکھیے در در اپنے مونہوں کو کشکول بنائے پھر رہے ہیں اور پشت ہا پشت سے سرگرداں ہیں ؎
ان سے کہنا کہ دل کی گلیوں میں
رات دن تیری انتظاری ہے
میں نے کچھ اور بھی تفصیل جاننا چاہی لیکن استاد نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔بس ''کلیو''دے دیا ہے آگے خود محنت کرو۔اور ہم نے استاد محترم کا کلیو لے کر اپنے ٹٹوئے تحقیق کو دوڑانا شروع کردیا۔تو آخر کار ہم نے ان ''امیروں''کو ڈھونڈ نکالا جو ہمارے لیڈروں کو مطلوب ہیں کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے۔پھر استاد کے کلیو کے ساتھ ساتھ ہم نے اپنا آزمودہ نسخہ بھی چلایا یعنی ''معلوم''سے نامعلوم کا پتہ لگانا۔یوں بہت ہی تیر بہدف نسخہ ہاتھ آگیا۔
سو ہم نے بھی ''امیروں''کا پتہ لگانے کے لیے غریبوں اور فقیروں کا تعاقب لگانا شروع کیا ، خوش قسمتی سے ایسے بہت سارے لوگ مل گئے جو گلے میں کشکول ڈالے منہ کو کاسہ گدائی لیے گلی گلی پھر رہے تھے، ان کا تعاقب کرتے ہوئے ہم نے ان ''امیروں''کا پتہ لگالیا۔
اور لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے غریب نظر آرہے تھے یعنی جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں لیکن جن کے پاس یہ بڑے بڑے خاندانی اور پیشہ ور''گداگر'' آتے ہیں وہ یقیناً ''امیر'' ہوتے ہوں گے۔جو بظاہر ''کالانعاموں'' کے بہروپ بھرے ہوئے ہیں یقیناً لازماً حتماً یہی وہ ''امیر'' ہیں جن کا تیاپانچہ کرنے کے ارادے ہمارے یہ لیڈر صاحبان کر رہے ہیں۔
بھیس بدلنا اور''کواکب''بن کر لوگوں کو دھوکا دینا کوئی ان بازیگروں سے سیکھے لیکن کوئی بات نہیں اب ہم نے پتہ لگالیا ہے تو ان لیڈران صاحبان کو بتا دیں گے اور ان ''امیروں'' کا قلع قمع کر دیں گے جو کالانعام کے بھیس میں چھپے ہوئے ہیں، ویسے تو سارے ان غریب نما امیروں کی ایسی تیسی کرنے کے لیے اتاولے ہورہے ہیں لیکن بالک بلاول کچھ زیادہ پرجوش ہے، ہم اس کو ان غریب نما امیروں کی لسٹ دینا چاہتے ہیں کیونکہ اس کا خاندانی ریکارڈ زیادہ وہ نہیں ہے۔ ان کے بزرگوں نے ان''امیروں'' کو کیفرکردار تک پہنچانے میں بہت ہی روشن ریکارڈ قائم کیا ہوا ہے۔
خاص طور پر بلاول تو ان امیروں کے بارے میں بہت زیادہ سخت عزائم کا اظہار کررہا ہے یہاں تک کہ محترمہ حناربانی کھر نے بھی کہا ہے کہ بلاول امیروں کی سبسڈی چھین کر غریبوں کو واپس کردیں گے۔
''امیر'' تو حناربانی کھر بھی ہیں لیکن شاید ان کو تسلی ہوگی کہ بلاول کے نیک ارادے صرف ''امیروں''کے بارے میں ہیں اور ''امیروں'' کو اپنے والا کی طرح سبسڈی پر رکھیں گے۔خیر یہ تو معاملے کی ایک الگ ٹہنی ہے۔
اصل بات ''امیروں'' کی ہے۔جن کے بارے میں بلاول، ان کے والد اور دوسرے معاونین بے تحاشاگرج رہے ہیں، ہم جیسے آپ کو پتہ ہے،اکیڈمیوں کے مستند اور اداروں کے تربیت یافتہ محقق ہیں، باوجود کوشش کے یہ پتہ نہیں لگا پائے کہ یہ امیر لوگ کون ہیں، کہاں پائے جاتے ہیں اور ان کے خلاف تمام لیڈر بہت ہی خطرناک عزائم کا اظہار کر رہے ہیں بلکہ یہ صرف آج کی یا اس الیکشن کی بات نہیں ہے بلکہ پاکستان کی ابتدا ہی سے سارے لیڈر ان کی ایسی تیسی کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
اور بلاول کی امیروں سے دشمنی تو خاندانی ہے کیونکہ چار پشتوں سے اس خاندان کے لوگ ان امیروں کے درپے ہیں لیکن شاید یہ امیرلوگ بڑے چلترباز ہیں کہ ہاتھ لگتے ہی نہیں ہیں، لیکن ہم نے ابھی پکا ارادہ کرلیا ہے کہ اپنے ''ٹٹوئے تحقیق'' کی مدد سے ان بدبختوں کا پتہ لگا کر رہیں گے
اگر غم لشکر انگیزد کہ خون عاشقاں ریزد
من وساقی بہم ساز یم و بنیادش برا نداریم
یعنی اگر غم نے اپنی فوج جمع کرکے یہ ارادہ کیا ہے کہ عاشقوں کا خون بہا کررہیں گے تو میں اور ساقی بھی آپس میں مل کر اسے بیخ وبن سے اکھاڑ دیں گے۔اس لیے ہم بھی اپنے ٹٹوئے تحقیق کو لے کر ان امیروں کی نشان دہی کرکے ان لیڈروں کو ان پر چھوڑ دیں۔ چھوڑے ہوئے تو وہ اب بھی ہیں۔لیکن بیچارے ان کم بختوں کی تلاش میں ناکام رہ جاتے ہیں، مطلب یہ کہ پکڑ میں نہیں آتے ورنہ پھر وہ کبھی ان کو نہیں چھوڑیں گے اور ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹ کر کیفرکردار کو پہنچا دیں گے۔
معاملہ چونکہ بہت بڑا پیچیدہ اور پرانا تھا۔اس لیے ہم نے اپنے ایک پرانے ریٹائرڈ استاد سے مدد کے لیے رجوع کیا۔ہماری بات سن کر پہلے تو وہ قہہ قہہ کرکے خوب رویا اور پھر بھوں بھوں ہنسنے لگا۔ پوچھا، سر جی ایسا کیا ہوا جو آپ رونے کی جگہ ہنس رہے ہیں اور ہنسنے کی جگہ رو رہے ہیں۔
بولے''رویا''میں اس لیے کہ ان کم بخت امیروں کی تلاش میں مجھے ناکامی ہوئی تھی جو ہمارے لیڈروں کو مطلوب ہیں اور ہنسا اس لیے کہ تم بھی میری طرح ناکام ہوئے حالانکہ تجھے بڑا دعویٰ تھا محقق ہونے کا،کیا ہوا وہ تمہاری اکیڈمیوں کی ڈگریاں اور اداروں کی تربیت؟۔عرض استاد محترم۔یہ اپنی نخرہ بازیاں چھوڑ دیجیے۔میرا ٹٹوئے تحقیق بری طرح کیچڑ میں پھنسا ہے اور کوئی اپائے بتائے کہ ہم کس طرح ان امیروں کو ڈھونڈ نکالیں اور اپنے لیڈروں کے سامنے پیش کریں تاکہ وہ ان کے ساتھ وہی کریں جو ہمیشہ کہتے رہے ہیں۔
اس پر استاد محترم پہلے رنجیدہ ہوئے اور پھر سنجیدہ ہوکر بولے۔تم نے علامہ اقبال کو پڑھا ہے؟ عرض کیا خوب اچھی طرح۔بھلا ہم جن کے ''خواب'' میں جی رہے ہیں ان کو بھی نہیں پڑھیں گے پھر ان کا یہ شعر بھی پڑھا ہوگا؟
جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں
وہ نکلے میرے ظلمت خانہ دل کے مکینوں میں
تفصیل چاہی تو فرمایا۔آج کل زمانہ الٹ پلٹ کا ہے۔میرا قول زرین ہے کہ جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں اور ہوتا وہی ہے جو نہیں دکھتا۔کسی چیز کو ڈھونڈنا ہو تو وہاں مت ڈھونڈو جہاں ہوتی ہے بلکہ وہاں ڈھونڈو جہاں نہیں ہوتی۔مجھے آخر میں یہ نکتہ سمجھ میں آیاتھا۔لیکن مجھے زبردستی ریٹائرڈ کردیا گیا۔وہ نکتہ یہ ہے کہ امیروں کو ڈھونڈنا ہو تو غریبوں میں ڈھونڈو۔اور غریبوں کو ڈھونڈنا ہو تو امیروں میں تلاش کرو یہ جو سامنے تمہیں امیر نظر آرہے ہیں یہ اصل میں غریب ہیں بلکہ فقیر ہیں دیکھیے در در اپنے مونہوں کو کشکول بنائے پھر رہے ہیں اور پشت ہا پشت سے سرگرداں ہیں ؎
ان سے کہنا کہ دل کی گلیوں میں
رات دن تیری انتظاری ہے
میں نے کچھ اور بھی تفصیل جاننا چاہی لیکن استاد نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔بس ''کلیو''دے دیا ہے آگے خود محنت کرو۔اور ہم نے استاد محترم کا کلیو لے کر اپنے ٹٹوئے تحقیق کو دوڑانا شروع کردیا۔تو آخر کار ہم نے ان ''امیروں''کو ڈھونڈ نکالا جو ہمارے لیڈروں کو مطلوب ہیں کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے۔پھر استاد کے کلیو کے ساتھ ساتھ ہم نے اپنا آزمودہ نسخہ بھی چلایا یعنی ''معلوم''سے نامعلوم کا پتہ لگانا۔یوں بہت ہی تیر بہدف نسخہ ہاتھ آگیا۔
سو ہم نے بھی ''امیروں''کا پتہ لگانے کے لیے غریبوں اور فقیروں کا تعاقب لگانا شروع کیا ، خوش قسمتی سے ایسے بہت سارے لوگ مل گئے جو گلے میں کشکول ڈالے منہ کو کاسہ گدائی لیے گلی گلی پھر رہے تھے، ان کا تعاقب کرتے ہوئے ہم نے ان ''امیروں''کا پتہ لگالیا۔
اور لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے غریب نظر آرہے تھے یعنی جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں لیکن جن کے پاس یہ بڑے بڑے خاندانی اور پیشہ ور''گداگر'' آتے ہیں وہ یقیناً ''امیر'' ہوتے ہوں گے۔جو بظاہر ''کالانعاموں'' کے بہروپ بھرے ہوئے ہیں یقیناً لازماً حتماً یہی وہ ''امیر'' ہیں جن کا تیاپانچہ کرنے کے ارادے ہمارے یہ لیڈر صاحبان کر رہے ہیں۔
بھیس بدلنا اور''کواکب''بن کر لوگوں کو دھوکا دینا کوئی ان بازیگروں سے سیکھے لیکن کوئی بات نہیں اب ہم نے پتہ لگالیا ہے تو ان لیڈران صاحبان کو بتا دیں گے اور ان ''امیروں'' کا قلع قمع کر دیں گے جو کالانعام کے بھیس میں چھپے ہوئے ہیں، ویسے تو سارے ان غریب نما امیروں کی ایسی تیسی کرنے کے لیے اتاولے ہورہے ہیں لیکن بالک بلاول کچھ زیادہ پرجوش ہے، ہم اس کو ان غریب نما امیروں کی لسٹ دینا چاہتے ہیں کیونکہ اس کا خاندانی ریکارڈ زیادہ وہ نہیں ہے۔ ان کے بزرگوں نے ان''امیروں'' کو کیفرکردار تک پہنچانے میں بہت ہی روشن ریکارڈ قائم کیا ہوا ہے۔