پاکستان ایک نظر میں آخر کوئی تو بتائے کہ غریب کا قصور کیا ہے

جس حکومت کی اولین ذمہ داری عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہے آخر ایسے حالات میں کہاں ہوتی ہے؟


فہیم پٹیل June 05, 2014
ہڑتال میں روز کی دیہاڑی والے کیا کرتے ہونگے؟ وہ آخر کس طرح اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہونگے؟ جو لوگ مالدار ہیں یا پھر متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں وہ تو گھر میں اشیا ضرورت کو جمع بھی کرسکتے ہیں لیکن روزانہ کی دیہاڑی والا تو یہ بھی نہیں کرسکتا۔ فوٹو: فائل

میں بھی اِس ملک کی اکثریت سے تعلق رکھنے والا ایک بے حس شہری ہی ہوں جو ہمیشہ صرف خود کی سوچتا ہے۔ یہاں لوگ زندگی کیسے گزار رہے ہیں،اُن کو کن مشکلات کا سامنا ہے ؟ کیا وہ دو وقت کی روٹی کما کر کھاپارہے ہیں یا پھر سسک سسک کر زندگی گزار رہے ہیں؟ اِس بات سے مجھے کیا لینا دینا؟ مجھے توبس اِسی بات کا خیال رہتا ہے کہ میرے پاس میری ضروریات زندگی کا سامان تو موجود ہے نہ اور اگر کچھ کمی ہے تو فوراً سے حاصل کرلی جائے۔

قدرت کا ایک کمال ہے کہ وہ طاقت جیسی قیمتی شہ سے ہر کسی کو نہیں نوازتا اور اِن خوش نصیبوں میں سے بھی کچھ ہی لوگ ہوتے ہیں جو قدرت کی جانب سے حاصل ہونے والی اِس طاقت کو صحیح طرح استعمال کرتے ہیں۔ ورنہ اکثر یت تو ظلم و بربریت کا بازار گرم رکھنے اور اپنی طاقت کو دوام بخشنے میں مگن رہتی ہے۔

بات کچھ اور کرنی تھی لیکن نالائقی کی وجہ سے کسی اور ہی طرف نکل گئی۔منگل کی دوپہر ٹی وی پر دیکھا کہ شہرِ کراچی کچھ ہی منٹوں میں مکمل طور پر بند ہوگیا ۔ اِس خبر کو دیکھنے کے بعد میں نے فوری طور پرسوچا کہ موٹرسائیکل میں پیٹرول ہے یا نہیں پھر مجھے خیال آیا کہ ہاں کل ہی تو میں نے ڈلوایا ہے تو اب ہفتہ بھر بھی شہر بند رہے تو میں آفس آ اور واپس گھر جا سکتا ہوں۔ اِس کے فوری بعد گھر والوں کو فون کرکے کہا کہ شہر بند ہورہا ہے تو گھر میں رہا جائے اور اگر کچھ سامان کی ضرورت ہے تو فوری طور پر جمع کرلیا جائے۔ بس اِس کاموں سے فارغ ہونے کے بعد آفس میں روز مرہ کے کاموں میں مصروف ہوگیا۔لیکن بازی تو اُس وقت پلٹی جب آفس سے واپسی پر موٹرسائیکل میں پیٹرول ہونے کے باوجود میں بیچ سڑک پر بے یارومددگار مشکل میں پھنس گیا۔ہوا کچھ یوں کہ دورانِ سفر میری موٹرسائیکل کا ٹائر پنکچر ہوگیا ۔ اِس حادثے کے بعد اِدھر اُدھر نظریں گھمائیں لیکن جہاں دیکھوں وہاں سناٹا ہی سناٹا تھا۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد خیال آیا کہ پنکچربنوانا تو ممکن نہیں اِس لیے کسی طرح موٹرسائیکل کو گھر تک پہنچایا جانا چاہیے اور پھر میری نظر ایک رکشہ پر پڑی ۔ میں جانتا تھا کہ ضرورت انسان کو بے بس ہی بنا دیتی ہے اِس لیے جانتا تھا کہ یہ موں مانگے پیسے مانگے گا اور وہی ہوا ۔ تھوڑے سے راستے کے لیے اپنی مرضی کے پیسے مانگے ۔ اب ظاہر ہے میں مجبور تھا ۔ اُس نے جتنے پیسے کا مطالبہ کیا مجبوراً مجھے اُتنے ہی دینے پڑے اور اِس طرح مجھے اپنی ہٹی کٹی اور صحت مند موٹرسائیکل کو بیماروں کی طرح رکشہ میں گھر تک لانا پڑا۔

کہا جاتا ہے کہ کچھ واقعات آپکو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ بالکل ایسا ہی کچھ اِس واقعہ کے بعد میرے ساتھ بھی ہوا۔ میں نے سوچا کہ میری تو لگی بندھی نوکری ہے۔ شہر کھلے یا بند ہو مجھے اِس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ آفس آگیا تو ٹھیک اور اگر نہیں بھی آسکا تو کیا ہوا میری چھٹیاں بنتی ہیں سو وہ میں ایڈجسٹ کروالوں گا اور اِس لحاظ میں اگلے مہینے میرے اکاونٹ میں پوری تنخواہ آجائے گی۔ لیکن جو لوگ کاروبار کرتے ہیں یا پھر روز کی دیہاڑی والے ہیں وہ کیا کرتے ہیں۔ وہ آخر کس طرح اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہونگے؟ جو لوگ مالدار ہیں یا پھر متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں وہ تو گھر میں اشیا ضرورت کو جمع بھی کرسکتے ہیں لیکن روزانہ کی دیہاڑی والا تو یہ بھی نہیں کرسکتا ۔ کیا کوئی ہے جو اُن کے بارے میں بھی سوچتا ہے؟ جس حکومت کی اولین ذمہ داری عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہے آخر ایسے حالات میں کہاں ہوتی ہے؟ آخر اُس کو اپنی اِس بھاری ذمہ داری کے حوالے سے اُوپر بھی جواب دینا ہے یا نہیں؟

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں