کندن لال سہگل برصغیر کا پہلا سپر اسٹار پہلا حصہ
ہماری عمرکے ان لوگوں کویاد ہوگا جو موسیقی کے دلدادہ ہیں کہ روزانہ صبح 7بجے ریڈیو سیلون سے پرانے فلمی گیت بجا کرتے تھے
میرے والد مجھے '' کن رسیا'' کہتے تھے، کیونکہ میری والدہ بتاتی ہیں کہ جب مجھے نیند نہیں آتی تھی تو والد وائلن یا ستار بجا دیے کرتے تھے اور میں چند منٹ بعد ہی سوجاتی تھی، موسیقی کا شوق میری والدہ اور بہن بھائیوں کو بھی تھا، وہ بھی اچھی موسیقی کے دلدادہ تھے۔ میرے والد نے باقاعدہ موسیقی کی تربیت حاصل کی تھی لیکن اسے صرف شوق تک محدود رکھا۔
وہ سول ایوی ایشین میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ ہوش سنبھالنے پر میں نے اپنے آس پاس کتابیں دیکھیں ایک پرانا گراموفون ریکارڈ بھی دیکھا، جس پر ایک کتا بنا ہوا تھا، یہ کالے ریکارڈ HMV کمپنی کے تھے اس گرامو فون کو جس پر ایک بڑا سا لاؤڈ اسپیکر بھی لگا تھا وہ ایک کونے میں رکھا رہتا تھا۔ ریڈیو گرام کے ذریعے جو آواز میرے کانوں میں گونجی وہ کندن لال سہگل کی تھی اور گیت تھا:
بابل مورا نیہر چھوٹو ہی جائے
چار کہار میری ڈولیا سجائے رے
مورا اپنا بیگانہ چھوٹو ہی جائے
میرے والد کو سہگل کی آواز بہت پسند تھی، شملہ میں ان کی ملاقاتیں سہگل سے رہی تھیں، جناب زیڈ اے بخاری بھی ان کے ساتھ ہوتے۔ دوسری آواز جو سنی وہ شمشاد بیگم کی تھی، یہ دونوں آوازیں اتنا وقت گزرنے کے بعد بھی میرے آس پاس ہیں، بڑی ہوتی گئی پھر خورشید، کملا جھریا، ماسٹر مدن، استاد امانت علی خاں کے علاوہ بہت سے دوسرے فنکاروں کی آوازوں نے دل میں جگہ بنائی لیکن آج تک جو مقام سہگل اور شمشاد کا ہے وہ کسی اور کا نہیں۔
بقول اوپی نیئر '' شمشاد کی آواز میں گھنٹیاں سی بجتی ہیں، جو کسی اور گلوکارہ کے نصیب میں نہیں، اسی طرح سہگل کی آواز جادوئی آواز ہے جو سننے والے کو مسحورکردیتی ہے، مندرجہ بالا گیت، نواب واجد علی شاہ نے لکھا تھا، اور سہگل نے اسے فلم '' اسٹریٹ سنگر '' میں 1937 میں گایا تھا اور آر۔سی۔بورال نے اس کی موسیقی دی تھی۔ سہگل کے گیت آج بھی موسیقی کے دلدادہ شوق سے سنتے ہیں۔ فلم شاہ جہاں کے سبھی گیت بہت مقبول ہوئے جیسے یہ گیت جس کا سنگیت نوشاد نے دیا تھا اور ڈائریکٹر تھے اے۔آر کاردار۔
اے دل بے قرار جھوم اے دل بے قرار جھوم
ابر بہار چھا گیا، دور خزاں چلا گیا
عشق مراد پا گیا حسن کی مچ رہی ہے دھوم
سہگل جن کا پورا نام کندن لال سہگل تھا 11اپریل 1904 کو جموں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کشمیر کے راجہ کی ریاست میں تحصیل دار تھے۔ ان کا نام تھا امرچند سہگل اور والدہ تھیں کیسر بائی سہگل، جو بڑی اچھی گائیکہ تھیں، وہ مختلف محفلوں میں بھجن اور گیت گایا کرتی تھیں، وہ اپنے ساتھ سہگل کو لے جاتی تھیں۔ جہاں چھوٹی عمر میں ہی انھیں گانے کا شوق پیدا ہوگیا اور وہ بھی بھجن گانے لگے۔ ان کے والد کو سہگل کی موسیقی میں دلچسپی دیکھ کر ہمیشہ پریشانی ہوتی تھی کہ یہ لڑکا آگے جا کرکیا کرے گا، لیکن ماں بیٹے کی سرگرمیوں پر وہ خاموش رہتے تھے۔
موسیقی کے پروگراموں میں شرکت کی وجہ سے سہگل اکثر اسکول سے غائب رہنے لگے۔ انھیں رام لیلا کا انتظار رہتا، وہاں یہ رام لیلا میں ستار بجایا کرتے تھے۔ سہگل نے سب سے پہلا گیت کشمیر کے راجہ کے دربار میں گایا اور بہت خوب گایا۔ سہگل کو سب سے پہلے صوفی سلمان یوسف نے سنگیت سے روشناس کروایا تھا اور کہا تھا کہ '' یہ بچہ موسیقی میں اپنا نام روشن کرے گا۔'' لیکن سہگل کے والد یہ پیش گوئی سن کر کچھ خوش نہ ہوئے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب موسیقار ہونا باعث عزت نہ تھا۔ گانے والے کو کچھ زیادہ عزت نہیں دی جاتی، لیکن سہگل وہ پہلے گائیک ہیں جنھیں عزت بھی ملی اور شہرت بھی۔ ان کے گراموفون ریکارڈ ہاتھوں ہاتھ بک جایا کرتے تھے۔ سہگل ہی نے گانوں پر رائلٹی ملنے کا فلم سازوں کو پابند کیا۔ جس وقت سہگل نے راجہ کے دربار میں گیت گایا تھا، اس وقت ان کی عمر صرف بارہ سال تھی۔ انھوں نے کبھی کسی استاد سے موسیقی کی تعلیم حاصل نہیں کی، وہ خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے۔
ان کی آواز God Gifted تھی۔ تیرہ سال کی عمر میں جب ان کی آواز میں بدلاؤ آنے لگا تو انھوں نے گانا بند کردیا۔ کئی سال تک انھوں نے نہ گایا، پھر ان کی والدہ انھیں ایک بزرگ کے پاس لے گئیں۔ انھوں نے سہگل کو ریاض کرنے کو کہا۔ ریاض کرتے کرتے وہ گانے بھی لگے۔ ان کی آواز میں رچاؤ اور نکھار آگیا، وہ غزلیں اور گیت گانے لگے۔ اس وقت کے دو بڑے گلوکار پنکج ملک اور بہاڑی سانیال ان کی گائیکی کی بہت تعریف کرتے تھے اور کہتے تھے ''آپ بہت اچھا گاتے ہیں۔''
سہگل کی پہلی نوکری ریلوے میں ہوئی ٹائم کیپر کی حیثیت سے۔ پھر انھیں دوسری آفر آئی ریمنگٹن ٹائپ رائٹر کمپنی کی طرف سے جس میں سیلز منیجر کی حیثیت سے ان کا اپائنمنٹ ہوا۔ یہ نوکری سہگل کو بہت راس آئی اور یہی نوکری انھیں موسیقی کی دنیا میں لے گئی۔ انھوں نے پڑھائی چھوڑ دی، سیلز مین کی حیثیت سے انھیں شہروں شہروں جانا پڑتا تھا۔
ایک دفعہ انھیں اسی سلسلے میں لاہور جانا پڑا، وہاں انارکلی بازار میں مہرچند جین سے ملاقات ہوئی، مہر چند جین کا تعلق فلمی دنیا سے تھا وہ سہگل کو کلکتہ لے آئے۔یہاں سہگل کو مہرچند جین نے مختلف موسیقاروں اور فلم سازوں سے ملوایا، ان کی گائیکی کے سب دیوانے ہوگئے۔ اب انھیں فلموں کی آفر بھی ملنے لگیں، کیونکہ اس زمانے میں اداکاروں کو اداکاری کے ساتھ ساتھ گانا بھی گانا پڑتا تھا۔ سہگل کی گائیکی مشہور ہونے لگی۔
مہر چند جین سہگل کو بہت پسند کرتے تھے۔ کلکتہ میں سہگل کی ملاقات ہریش چندرباری سے ہوئی۔ انھوں نے سہگل کو بی اے سرکار سے ملوایا، انھوں نے سہگل کو 200 روپے ماہوار پر ملازم رکھ لیا۔ اس وقت 200 روپے کی بہت اہمیت تھی۔ یہ فلم اسٹوڈیو تھا اور نیو تھیٹر بھی تھا۔ وہیں سہگل کی ملاقات سنگیت کار آر۔سی۔ بورال سے بھی ہوئی۔ وہ سہگل کی گائیکی سے بہت متاثر ہوئے اور اپنی فلم '' زندہ لاش '' میں انھیں 1932 میں پہلی بار متعارف کروایا۔
اس کے علاوہ '' محبت کے آنسو'' اور ''صبح کا ستارہ'' میں بھی ہیرو کا چانس دیا، لیکن یہ تینوں فلمیں فلاپ ہوگئیں، لیکن جس فلم نے راتوں رات انھیں سپراسٹار بنا دیا وہ تھی '' یہودی کی لڑکی۔'' ان کے علاوہ چندرلیکھا، چنڈی داس، روپ لیکھا اور ''کارروان حیات''۔ پھر سہگل کو ملی ایک فلم جو پی، سی بروا کی تھی اور نام تھا ''دیوداس۔'' اس فلم کو اتنی پذیرائی ملی کہ راتوں رات سہگل بطور سپر اسٹار مشہور ہوگئے، اس فلم نے انھیں یکدم آسمان پر پہنچا دیا۔ فلم '' یہودی کی لڑکی'' کا ایک گیت بہت مشہور ہوا تھا۔
بالم آئے بسو مورے من میں
دکھیا جیا بلائے پریتم آن ملو
یہ گیت موسیقی کی دنیا میں ایک سنگ میل ثابت ہوا، ہر شخص اس کا دیوانہ تھا، سہگل کے گیت گلی گلی گونج رہے تھے۔ ریڈیو سیلون پر 47 سال تک 7 بج کر 57منٹ پر روزانہ سہگل کا کوئی نہ کوئی گیت بجتا تھا۔
ہماری عمر کے ان لوگوں کو یاد ہوگا جو موسیقی کے دلدادہ ہیں کہ روزانہ صبح 7 بجے ریڈیو سیلون سے پرانے فلمی گیت بجا کرتے تھے اور بدھ کی شام ساڑھے 7 بجے بناکا گیت مالا پیش کیا جاتا تھا، جسے معروف شخصیت امین سایانی پیش کیا کرتے تھے۔ سہگل نے اردو، پنجابی، ہندی، تامل، پشتو اور فارسی زبان میں بھی گیت گائے۔ کے۔ایل سہگل کو ہندوستان فلم انڈسٹری کا سپراسٹار مانا جاتا ہے۔ دوسرے سپر اسٹار تھے راجیش کھنہ۔ کیا بات تھی راجیش کھنہ کی، ہر طرف اس کا طوطی بولتا تھا۔
(جاری ہے)