نئی حکومت اور اس کے چیلنجز
مئی جون میں بجٹ پیش ہونا ہے جو نئی حکومت کے لیے پہلا چیلنج ہو گا
ملک میں الیکشن نتائج کے بعد قائم ہونے والی پارلیمنٹ اور حکومت کو کئی چیلنجزورثے میں ملیں گے۔یہ چیلنجز کثیر الجہتی نوعیت کے ہیں۔سب سے پہلا چیلنج ملکی معیشت اور کاروبار کی بحالی ہے۔ مئی جون میں بجٹ پیش ہونا ہے جو نئی حکومت کے لیے پہلا چیلنج ہو گا۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات بھی طے ہونے ہیں' حکومت کی معاشی حکمت عملی کا پہلا امتحان آئی ایم ایف کے ساتھ اس کی ڈیلنگ ہے۔ ماضی میں آئی ایم ایف کے ساتھ الجھنے کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
معیشت کو اس کے اصولوں کے مطابق چلانا پڑے گا'معاشی اور مالیاتی معاملات کو سیاست کی عینک سے دیکھ کر حل کرنے کی کوشش کی جائے گی توآئی ایم ایف کے ساتھ معاملات خراب ہونے کا خدشہ موجود ہے۔نئی حکومت کو مالی ڈسپلن کی اعلیٰ مثال قائم کرنی ہو گی۔نئی حکومت کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وہ حکومتی اخراجات کوکم سے کم رکھے۔ وفاقی کابینہ کا سائز مختصر ہونا چاہیے۔
مشیران اور معاونین کی تعداد بھی انتہائی کم ہونی چاہیے'جہاں ناگزیر ہو وہاں ہی مشیر وغیرہ تعینات ہونا چاہیے۔ محض نوازشات کے طور پر عہدے تقسیم نہیں کیے جانے چاہئیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جتنے زیادہ عہدے بنتے جائیں گے' سرکاری خزانے پر اتنا ہی بوجھ بڑھتا جائے گا۔آئی ایم ایف بھی بار بار یہی کہتا آ رہا ہے کہ حکومت اپنے اخراجات کو کم کرے۔
ملک کے خوشحال طبقات سے ٹیکس وصول کرنے کے لیے نئے قوانین بنائے جانے چاہئیں ' غیرمنقولہ بڑی بڑی جائیدادوں پر دولت ٹیکس کی شرح بڑھانی چاہیے' شہروں کے ارد گرد ایکڑوں پر پھیلے ہوئے فارم ہائسز کے مالکان پر دولت ٹیکس عائد ہونا چاہیے اور اس کی شرح جائیداد کے تناسب سے مقرر ہونی چاہیے۔
صوبائی حکومتوں کو بھی غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کی پالیسی پر چلنا ہو گا۔ صوبائی حکومتوں کے کنٹرول میں جو وزارتیں اور محکمے ہیں ان کی گورننس کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ مشاہدے کی بات ہے کہ صوبائی حکومتوں کے زیر نگرانی چلنے والے اسپتال اور ہیلتھ سینٹرز میں سروسز کا معیار بہت پست ہے۔ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف اپنے فرائض کو پوری جانفشانی اور توجہ سے ادا نہیں کر رہے۔
صوبائی حکومتوں کے زیر نگرانی چلنے والے اسپتالوں میں مختلف قسم کے ٹیسٹ کرنے والی مشینیں اکثر اوقات خراب ملتی ہیں یا ان کے رزلٹ درست نہیں ہوتے۔
سرکاری عملہ اپنے نان پروفیشنل ازم کی بنیاد پر مریضوں اور ان کے لواحقین کو مس گائیڈ کرتا ہے۔ بعض اوقات جان بوجھ کر بھی یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ مشینیں خراب ہیں۔ اسپتالوں میں صفائی ستھرائی کا انتظام انتہائی خراب ہے۔ اس کے برعکس وفاق کے زیر انتظام چلنے والے اسپتالوں کی گورننس خاصی حد تک بہتر ہے۔ لہذا نئی صوبائی حکومتوں کو شعبہ ہیلتھ کی جانب توجہ دینی چاہیے۔
پاکستان میں سیاسی اشرافیہ عموماً خارجہ امور، معاشی اصلاحات، ماحولیاتی تبدیلی یا سکیورٹی مسائل پربات نہیں کرتے'اگر کرتے بھی ہیں تو بہت ہی سرسری اور سطحی انداز سے کرتے ہیں۔
سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں بعض ایسے وعدے بھی کر جاتی ہیں' جن کا پورا ہونا تقریباً نا ممکن ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنا حقیقی معاشی پلان عوام کے سامنے رکھیں تاکہ انھیں حقائق کی بنیاد پر فیصلہ کرنے میں آسانی رہے، بہرحال نئی حکومت بنانے والوں کو اپنے منشور کو سامنے رکھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے یہاں موسمیاتی تبدیلی کے لیے مناسب بجٹ نہیں رکھا جاتا۔نئی حکومت کو آبی ذخائر کی تعمیر پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
زراعت کی حالت بہت خراب ہے۔ نئی حکومت کو زرعی خود کفالت کے لیے کام کرنا ہو گا۔ پاکستان کے پاس وسیع و عریض زرعی رقبہ موجود ہے۔ اس کے باوجود پاکستان میں آلو سے لے کر سبز مرچوں تک سبزی درآمد ہوتی ہے۔ اسی طرح گندم کی بمپر فصل ہونے کے باوجود آٹے کی قلت ہوتی ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے' یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ نئی حکومت کے کارپردازوں کو بھی حقائق کا علم ہے۔ اگر حکومت اس جانب توجہ دے تو پاکستان بآسانی زرعی خودکفالت حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے دنیا میں سب سے زیادہ متاثرہ تیسرے ملک کے طور پر سامنے آیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہماری زراعت کا شعبہ بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی نے ہمارے نہری نظام کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ بیس برس بعد ہماری آبادی چالیس کروڑ تک پہنچ جائے گی۔
اس وقت عام آدمی مہنگائی اور بے روزگاری سے پریشان ہے اور مزدور و کسان مسائل سے عاجز آکرشہروں میں مزدوری کر رہا ہے۔ غربت کا سلسلہ چل رہا تھا اور چل رہا ہے اور یہ سلسلہ نہ رک رہا ہے اور نہ روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پھر بھی دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے کہ ملک آگے بڑھ رہا ہے، ترقی کررہا ہے حالانکہ ترقی صرف ایک مختصر سا طبقہ کررہا ہے۔
ہمارے تعلیمی ڈھانچے کے جو نتائج سامنے آرہے ہیں وہ افسوسناک ہیں اور المناک صورتحال یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم اور نصاب تعلیم رجعت پسندی اور انتہا پسندی کو پروموٹ کر رہا ہے۔ نئی حکومت کو تعلیمی اصلاحات پر بھی بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔سرکاری شعبے میں چلنے والے تعلیمی انفراسٹرکچر کو اپ ڈیٹ کرنا انتہائی ضروری ہو چکا ہے۔ سرکاری اسکولوں' کالجز اور یونیورسٹیز میںاسٹاف کی بھرتی کے نظام میں شفافیت لانے کی ضرورت ہے۔
ملک میں یکساں تعلیمی نصاب رائج کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کی تمام سرکاری اور نجی درس گاہوں میں ایک ہی نصاب پڑھایا جانا چاہیے۔انگریزی زبان کو بطور مضمون پرائمری سے لازمی قرار دیا جائے۔انگریزی مضمون میں مقامی اقدار ' کہانیوں اور پہیلیوں کو شامل کیا جانا چاہیے تاکہ بچے انگریزی بھی پڑھیں اور اپنی اقدار سے بھی آگاہی حاصل کریں۔
پاکستان خطے کا وہ واحد ملک ہے جہاں ادویات کی قیمتیں سب سے زیادہ ہیں۔ادویات کی قیمتیں کم کرنا بھی نئی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
2024 میں بھی روزمرہ استعمال کی اشیا کی مہنگائی نے غریب طبقے کو بری طرح متاثر کیا ۔ پاکستان میںپاپولر سیاسی جماعتیں اپنے تھنک ٹینک نہیں چلاتیں' اصولی طور پر پاپولر سیاسی جماعتوں کو خارجہ امور' داخلی معاملات ' مانیٹری معاملات اور زرعی معاملات پر الگ الگ تھنک ٹینک قائم کرنے چاہئیں۔
اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے جو پارٹی حکومت بناتی ہے اس کے پاس ملک کے ہر شعبے کے بارے میں مکمل انفرمیشن ہوتی ہے۔وہ معلومات اور اعدادوشمار کے لیے بیوروکریسی کی محتاج نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں قائم ہونے والی حکومتیں 'بیوروکریسی 'عدلیہ اور پولیس پر بہتر کنٹرول رکھتی ہیں۔
اچھی معاشیات اچھی سیاست ہے جب کہ اچھی سیاست اچھی معاشیات کی ضمانت ہے۔اس کا مطلب ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ملک عزیز میں سب سے کم بجٹ صحت اور تعلیم کا ہے۔ ایک عام پڑھے لکھے پاکستانی کو اپنے ہی ملک میں اپنا مستقبل محفوظ نظر نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مقتدر طبقے نے اس کے لیے آگے بڑھنے کے راستے بند کر دیے ہیں۔درمیانے طبقے کے لیے کاروبار کرنا آسان ہے اور نہ ہی اسے اچھی ملازمت ملتی ہے۔
ریاست کے وسائل کا رخ ایک مخصوص طبقے کی طرف کر دیا گیا ہے۔ اعلیٰ ملازمتیں بھی ان کے پاس ہیں' بڑے کاروبار وں پر بھی وہ قابض ہیں۔بڑے زمیندار بھی وہی ہیں۔ سیاست پر بھی انھی کا قبضہ ہے' ریاستی اور محکمہ جاتی قوانین بھی وہی بناتے اور اسے ختم کرتے ہیں۔
نئی حکومت کو آئین میں موجود ایسے آرٹیکلز اور شقیں ختم کرنا ہوں گی جو ملک میںرجعت پسند اور انتہا پسند طبقے کو قوت فراہم کرتی ہیں۔آئین میں موجود مختلف آرٹیکلز اور شقوں میں جو ابہام ہے' انھیں بھی ختم کرنا نئی پارلیمنٹ کی بنیادی ذمے داری ہے۔
پاکستان پینل کوڈ'کریمینل پروسیجر کوڈ وغیرہ میں بھی ایسی ترامیم کرنے کی ضرورت ہے جن سے پولیس اور بیوروکریسی کے احتساب کا بھی راستہ کھل سکے۔تفتیش کے نظام کو اس وقت تک بہتر نہیں کیا جا سکتا جب تک تفتیشی افسر اور عملے پر احتساب کاشکنجہ نہیں کسا جاتا۔اسی طرح عدلیہ کے حوالے سے بھی چیک اینڈ بیلنس کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر نئی پارلیمنٹ ان سارے معاملات کو حل کرنے میں کامیاب رہتی ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں ترقی کا عمل شروع ہو گا' معاشرے میں استحکام پیدا ہو گا'جرائم میں کمی ہو گی اور معاشی سرگرمیاں بہتر ہوں گی'سرکاری عملے کی کارکردگی بہتر ہو گی کیونکہ اسے پتہ ہو گا کہ اگر وہ کام صحیح نہیں کرے گا تو اس کا احتساب ہو جائے گا۔
نئی حکومت کے پاس کرنے کے لیے بہت کچھ ہے اور نئی حکومت کے پاس وقت بھی بہت ہے۔ پانچ سال کا وقت تھوڑا نہیں ہوتا 'قانون سازی کے لیے تو زیادہ وقت کی ضرورت ہی نہیں ہوتی' حکومت کو اپنے پہلے 100دن میں کم از کم قوانین کی بہتری کے عمل کو مکمل کر لینا چاہیے' اگر نئی حکومت یہ کام کرنے میں کامیاب ہو گئی تو اس کے لیے آگے کام کرنا بہت آسان ہو جائے گا۔
دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اپنے پہلے 100دن میں کیا کرتی ہے اورجو وعدے اس نے عوام سے کیے ہیں وہ کیسے پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات بھی طے ہونے ہیں' حکومت کی معاشی حکمت عملی کا پہلا امتحان آئی ایم ایف کے ساتھ اس کی ڈیلنگ ہے۔ ماضی میں آئی ایم ایف کے ساتھ الجھنے کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
معیشت کو اس کے اصولوں کے مطابق چلانا پڑے گا'معاشی اور مالیاتی معاملات کو سیاست کی عینک سے دیکھ کر حل کرنے کی کوشش کی جائے گی توآئی ایم ایف کے ساتھ معاملات خراب ہونے کا خدشہ موجود ہے۔نئی حکومت کو مالی ڈسپلن کی اعلیٰ مثال قائم کرنی ہو گی۔نئی حکومت کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وہ حکومتی اخراجات کوکم سے کم رکھے۔ وفاقی کابینہ کا سائز مختصر ہونا چاہیے۔
مشیران اور معاونین کی تعداد بھی انتہائی کم ہونی چاہیے'جہاں ناگزیر ہو وہاں ہی مشیر وغیرہ تعینات ہونا چاہیے۔ محض نوازشات کے طور پر عہدے تقسیم نہیں کیے جانے چاہئیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جتنے زیادہ عہدے بنتے جائیں گے' سرکاری خزانے پر اتنا ہی بوجھ بڑھتا جائے گا۔آئی ایم ایف بھی بار بار یہی کہتا آ رہا ہے کہ حکومت اپنے اخراجات کو کم کرے۔
ملک کے خوشحال طبقات سے ٹیکس وصول کرنے کے لیے نئے قوانین بنائے جانے چاہئیں ' غیرمنقولہ بڑی بڑی جائیدادوں پر دولت ٹیکس کی شرح بڑھانی چاہیے' شہروں کے ارد گرد ایکڑوں پر پھیلے ہوئے فارم ہائسز کے مالکان پر دولت ٹیکس عائد ہونا چاہیے اور اس کی شرح جائیداد کے تناسب سے مقرر ہونی چاہیے۔
صوبائی حکومتوں کو بھی غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کی پالیسی پر چلنا ہو گا۔ صوبائی حکومتوں کے کنٹرول میں جو وزارتیں اور محکمے ہیں ان کی گورننس کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ مشاہدے کی بات ہے کہ صوبائی حکومتوں کے زیر نگرانی چلنے والے اسپتال اور ہیلتھ سینٹرز میں سروسز کا معیار بہت پست ہے۔ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف اپنے فرائض کو پوری جانفشانی اور توجہ سے ادا نہیں کر رہے۔
صوبائی حکومتوں کے زیر نگرانی چلنے والے اسپتالوں میں مختلف قسم کے ٹیسٹ کرنے والی مشینیں اکثر اوقات خراب ملتی ہیں یا ان کے رزلٹ درست نہیں ہوتے۔
سرکاری عملہ اپنے نان پروفیشنل ازم کی بنیاد پر مریضوں اور ان کے لواحقین کو مس گائیڈ کرتا ہے۔ بعض اوقات جان بوجھ کر بھی یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ مشینیں خراب ہیں۔ اسپتالوں میں صفائی ستھرائی کا انتظام انتہائی خراب ہے۔ اس کے برعکس وفاق کے زیر انتظام چلنے والے اسپتالوں کی گورننس خاصی حد تک بہتر ہے۔ لہذا نئی صوبائی حکومتوں کو شعبہ ہیلتھ کی جانب توجہ دینی چاہیے۔
پاکستان میں سیاسی اشرافیہ عموماً خارجہ امور، معاشی اصلاحات، ماحولیاتی تبدیلی یا سکیورٹی مسائل پربات نہیں کرتے'اگر کرتے بھی ہیں تو بہت ہی سرسری اور سطحی انداز سے کرتے ہیں۔
سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں بعض ایسے وعدے بھی کر جاتی ہیں' جن کا پورا ہونا تقریباً نا ممکن ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنا حقیقی معاشی پلان عوام کے سامنے رکھیں تاکہ انھیں حقائق کی بنیاد پر فیصلہ کرنے میں آسانی رہے، بہرحال نئی حکومت بنانے والوں کو اپنے منشور کو سامنے رکھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے یہاں موسمیاتی تبدیلی کے لیے مناسب بجٹ نہیں رکھا جاتا۔نئی حکومت کو آبی ذخائر کی تعمیر پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
زراعت کی حالت بہت خراب ہے۔ نئی حکومت کو زرعی خود کفالت کے لیے کام کرنا ہو گا۔ پاکستان کے پاس وسیع و عریض زرعی رقبہ موجود ہے۔ اس کے باوجود پاکستان میں آلو سے لے کر سبز مرچوں تک سبزی درآمد ہوتی ہے۔ اسی طرح گندم کی بمپر فصل ہونے کے باوجود آٹے کی قلت ہوتی ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے' یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ نئی حکومت کے کارپردازوں کو بھی حقائق کا علم ہے۔ اگر حکومت اس جانب توجہ دے تو پاکستان بآسانی زرعی خودکفالت حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے دنیا میں سب سے زیادہ متاثرہ تیسرے ملک کے طور پر سامنے آیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہماری زراعت کا شعبہ بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی نے ہمارے نہری نظام کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ بیس برس بعد ہماری آبادی چالیس کروڑ تک پہنچ جائے گی۔
اس وقت عام آدمی مہنگائی اور بے روزگاری سے پریشان ہے اور مزدور و کسان مسائل سے عاجز آکرشہروں میں مزدوری کر رہا ہے۔ غربت کا سلسلہ چل رہا تھا اور چل رہا ہے اور یہ سلسلہ نہ رک رہا ہے اور نہ روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پھر بھی دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے کہ ملک آگے بڑھ رہا ہے، ترقی کررہا ہے حالانکہ ترقی صرف ایک مختصر سا طبقہ کررہا ہے۔
ہمارے تعلیمی ڈھانچے کے جو نتائج سامنے آرہے ہیں وہ افسوسناک ہیں اور المناک صورتحال یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم اور نصاب تعلیم رجعت پسندی اور انتہا پسندی کو پروموٹ کر رہا ہے۔ نئی حکومت کو تعلیمی اصلاحات پر بھی بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔سرکاری شعبے میں چلنے والے تعلیمی انفراسٹرکچر کو اپ ڈیٹ کرنا انتہائی ضروری ہو چکا ہے۔ سرکاری اسکولوں' کالجز اور یونیورسٹیز میںاسٹاف کی بھرتی کے نظام میں شفافیت لانے کی ضرورت ہے۔
ملک میں یکساں تعلیمی نصاب رائج کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کی تمام سرکاری اور نجی درس گاہوں میں ایک ہی نصاب پڑھایا جانا چاہیے۔انگریزی زبان کو بطور مضمون پرائمری سے لازمی قرار دیا جائے۔انگریزی مضمون میں مقامی اقدار ' کہانیوں اور پہیلیوں کو شامل کیا جانا چاہیے تاکہ بچے انگریزی بھی پڑھیں اور اپنی اقدار سے بھی آگاہی حاصل کریں۔
پاکستان خطے کا وہ واحد ملک ہے جہاں ادویات کی قیمتیں سب سے زیادہ ہیں۔ادویات کی قیمتیں کم کرنا بھی نئی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
2024 میں بھی روزمرہ استعمال کی اشیا کی مہنگائی نے غریب طبقے کو بری طرح متاثر کیا ۔ پاکستان میںپاپولر سیاسی جماعتیں اپنے تھنک ٹینک نہیں چلاتیں' اصولی طور پر پاپولر سیاسی جماعتوں کو خارجہ امور' داخلی معاملات ' مانیٹری معاملات اور زرعی معاملات پر الگ الگ تھنک ٹینک قائم کرنے چاہئیں۔
اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے جو پارٹی حکومت بناتی ہے اس کے پاس ملک کے ہر شعبے کے بارے میں مکمل انفرمیشن ہوتی ہے۔وہ معلومات اور اعدادوشمار کے لیے بیوروکریسی کی محتاج نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں قائم ہونے والی حکومتیں 'بیوروکریسی 'عدلیہ اور پولیس پر بہتر کنٹرول رکھتی ہیں۔
اچھی معاشیات اچھی سیاست ہے جب کہ اچھی سیاست اچھی معاشیات کی ضمانت ہے۔اس کا مطلب ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ملک عزیز میں سب سے کم بجٹ صحت اور تعلیم کا ہے۔ ایک عام پڑھے لکھے پاکستانی کو اپنے ہی ملک میں اپنا مستقبل محفوظ نظر نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مقتدر طبقے نے اس کے لیے آگے بڑھنے کے راستے بند کر دیے ہیں۔درمیانے طبقے کے لیے کاروبار کرنا آسان ہے اور نہ ہی اسے اچھی ملازمت ملتی ہے۔
ریاست کے وسائل کا رخ ایک مخصوص طبقے کی طرف کر دیا گیا ہے۔ اعلیٰ ملازمتیں بھی ان کے پاس ہیں' بڑے کاروبار وں پر بھی وہ قابض ہیں۔بڑے زمیندار بھی وہی ہیں۔ سیاست پر بھی انھی کا قبضہ ہے' ریاستی اور محکمہ جاتی قوانین بھی وہی بناتے اور اسے ختم کرتے ہیں۔
نئی حکومت کو آئین میں موجود ایسے آرٹیکلز اور شقیں ختم کرنا ہوں گی جو ملک میںرجعت پسند اور انتہا پسند طبقے کو قوت فراہم کرتی ہیں۔آئین میں موجود مختلف آرٹیکلز اور شقوں میں جو ابہام ہے' انھیں بھی ختم کرنا نئی پارلیمنٹ کی بنیادی ذمے داری ہے۔
پاکستان پینل کوڈ'کریمینل پروسیجر کوڈ وغیرہ میں بھی ایسی ترامیم کرنے کی ضرورت ہے جن سے پولیس اور بیوروکریسی کے احتساب کا بھی راستہ کھل سکے۔تفتیش کے نظام کو اس وقت تک بہتر نہیں کیا جا سکتا جب تک تفتیشی افسر اور عملے پر احتساب کاشکنجہ نہیں کسا جاتا۔اسی طرح عدلیہ کے حوالے سے بھی چیک اینڈ بیلنس کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر نئی پارلیمنٹ ان سارے معاملات کو حل کرنے میں کامیاب رہتی ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں ترقی کا عمل شروع ہو گا' معاشرے میں استحکام پیدا ہو گا'جرائم میں کمی ہو گی اور معاشی سرگرمیاں بہتر ہوں گی'سرکاری عملے کی کارکردگی بہتر ہو گی کیونکہ اسے پتہ ہو گا کہ اگر وہ کام صحیح نہیں کرے گا تو اس کا احتساب ہو جائے گا۔
نئی حکومت کے پاس کرنے کے لیے بہت کچھ ہے اور نئی حکومت کے پاس وقت بھی بہت ہے۔ پانچ سال کا وقت تھوڑا نہیں ہوتا 'قانون سازی کے لیے تو زیادہ وقت کی ضرورت ہی نہیں ہوتی' حکومت کو اپنے پہلے 100دن میں کم از کم قوانین کی بہتری کے عمل کو مکمل کر لینا چاہیے' اگر نئی حکومت یہ کام کرنے میں کامیاب ہو گئی تو اس کے لیے آگے کام کرنا بہت آسان ہو جائے گا۔
دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اپنے پہلے 100دن میں کیا کرتی ہے اورجو وعدے اس نے عوام سے کیے ہیں وہ کیسے پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہے۔