جشن نگار
فلم انڈسٹری نگار ایوارڈز کی بدولت ترقی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے نگار ایوارڈز کی سرپرستی پر فخر بھی کرتی تھی
ہفت روزہ نگار پاکستان میں فلمی دنیا کا سب سے پہلا اخبار تھا اور اب بھی جاری ہے، جس نے فلم انڈسٹری کی پچھتر سال تک شب و روز خدمت کی اور اب وہ اپنی اشاعت کی پلاٹینم جوبلی منا رہا ہے، نگار کی داغ بیل الیاس رشیدی نے ڈالی تھی اور پھر اس اخبار نے اتنی ترقی کی کہ یہ اخبار نہ صرف فلمی دنیا کا سب سے بڑا اخبار تھا اور اس کی اشاعت اس دور کے بڑے بڑے روزناموں سے بھی زیادہ تھی۔
اخباری صحافت میں بھی اس کو ایک نمایاں مقام حاصل تھا اور اس کے قارئین ہزاروں میں تھے پھر اس اخبار کے مالک اور مدیر الیاس رشیدی نے پاکستان میں بمبئی انڈیا کے فلم فیئر ایوارڈ کی طرز پر نگار پبلک فلم ایوارڈ کا اجرا کیا اور یہ ایوارڈز برسوں تک دیے جاتے رہے۔
اس دور میں جس فنکار یا فنکارہ کو نگار ایوارڈ سے نوازا جاتا تھا، فلمی دنیا میں اس کی قدر و منزلت بڑھ جاتی تھی اور فلم انڈسٹری میں ان فنکاروں کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہو جاتا تھا نگار ایوارڈ مسلسل 48سال تک دیے جاتے رہے۔
مدیر الیاس رشیدی کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے اسلم الیاس رشیدی نے بھی اس سلسلے کو بڑی کامیابی کے ساتھ جاری رکھا اور بڑی مستقل مزاجی کے ساتھ اخبار بھی شایع کررہے ہیں اور ایوارڈ کے سلسلے کو بھی بدستور قائم رکھا اور نگار اخبارکی پسندیدگی میں کبھی کمی نہ آسکی تھی، اس فلم کے اخبار سے کئی نامور رائٹر بھی وابستہ رہے تھے، جن میں ابراہیم جلیس، انور عنایت اللہ، بشیر نیاز، دکھی پریم نگری، حمید کشمیری، علی سفیان آفاقی اور راقم بھی شامل تھا۔
نگار اخبار نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان کے فلمی حلقوں میں بھی پسندیدگی سے پڑھا جاتا تھا میں نے اسی نگار اخبار سے اپنی فلمی صحافت کا آغازکیا تھا اور پھر اسی اخبار کا لاہور میں نمایندہ خاص بن کر گیا تھا اور وہاں دس بارہ سال گزارے تھے۔ اس دوران میں بحیثیت مصنف و نغمہ نگار فلم انڈسٹری سے وابستہ ہو گیا تھا اور میں نے تیس پینتیس فلمیں بھی لکھی تھیں۔
بعض فلموں کی کہانیاں اور مکالمے جب کہ زیادہ تر فلموں کے نغمات لکھے تھے جو پاکستان کے تمام نامور گلوکار اور گلوکاراؤں نے گائے تھے اور انھیں بڑی شہرت حاصل ہوئی تھی پھر جب لاہور میں فلم انڈسٹری کو زوال آیا تو میں لاہور سے واپس کراچی آگیا تھا اور کراچی میں بحیثیت کمرشل پروڈیوسرکافی فلمیں پروڈیوس کی تھیں اور بے شمار جنگلز (کمرشل گیت) لکھے تھے جنھیں بے پناہ مقبولیت ہوئی تھی۔پھر کچھ عرصے بعد میں اپنی فیملی کے ساتھ امریکا چلا گیا اور وہاں کی ریاست نیوجرسی میں سکونت اختیار کرلی۔
مجھے وہاں رہتے ہوئے اب بائیس سال کا عرصہ ہوگیا ہے۔ ہر سال پاکستان آتا ہوں اس بار جب میں نومبر میں پاکستان آیا تو میں حسب معمول نگار ویکلی کے دفتر بھی گیا تو اسلم الیاس رشیدی نے یہ مژدہ سنایا کہ '' ہمدم بھائی! اس سال دسمبر میں نگار اخبار کی اشاعت کے پچھتر سال پورے ہو چکے ہیں تو میرے منہ سے بے ساختہ نکلا پھر تو جشن نگار ہونا چاہیے۔
اس کی پلاٹینم جوبلی منائی جانی چاہیے۔ پھر اس بات کو حتمی شکل دے دی گئی اور ایک کمیٹی بنائی گئی جس میں میرے علاوہ انیس مرچنٹ، اقبال سہوانی، مقبول احمد برفت، اطہر جاوید صوفی اور وسیع قریشی کو شامل کیا گیا، لگا تار کئی ملاقاتوں کے دوران طے کیا گیا کہ جشنِ نگار کے لیے گورنر سندھ محمدکامران خان سے بات کی جائے گی اور گورنر سے ملاقات رنگ لائی انھوں نے مہمان خصوصی بننا قبول کرلیا اور گورنر ہاؤس کراچی میں جشن نگار کی تقریب کی اجازت دے دی پھر ایک پروگرام مرتب کیا گیا اور 31 جنوری کی شام گورنر ہاؤس کراچی میں جشن نگار کا انعقاد کیا گیا۔ اس تقریب کی نظامت کے فرائض ٹی وی، اسٹیج اور فلم کے آرٹسٹ حنیف راجا نے انجام دیے۔
اس پروگرام میں کینیڈا سے آئی ہوئی فلم کی لیجنڈ ہیروئن ممتاز نے بھی بطور خاص شرکت کی اور ممتاز کی وجہ سے اس تقریب کا حسن بڑھ گیا تھا۔ اس تقریب میں ٹیلی وژن اسٹیج اور فلم کے بہت سے فنکاروں نے بھی شرکت کی جن میں گلوکار ایم افراہیم، گلوکار حسن جہانگیر، گلوکار تنویر آفریدی اور دیگر فنکاروں نے بھی شرکت کر کے ایک خوبصورت ورائٹی پروگرام بھی پیش کیا۔ اس پروگرام میں اسلم الیاس رشیدی کی ہونہار صاحبزادی پلوشہ نے بھی بڑے خوبصورت انداز میں اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے اپنے والد کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیا۔
مہمان خصوصی گورنر سندھ محمد کامران خان اور صوبائی وزیر اطلاعات احمد شاہ نے جن شخصیات کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈز سے نوازا، ان میں اداکارہ ممتاز، نغمہ نگار یونس ہمدم، براڈ کاسٹر اینکر علی حسن ساجد اور دیگر بھی شامل تھے۔ اسلم الیاس رشیدی نے مہمان خصوصی کی خدمت میں سپاس نامہ بھی پیش کیا، مہمان خصوصی گورنر سندھ اور احمد شاہ نے نگار ویکلی کی شاندار خدمات کو سراہتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا اور نگار کے لیے 5لاکھ روپے دینے کا اعلان بھی کیا۔
وزیر اطلاعات سندھ احمد شاہ کی طرف سے بھی مالی امداد کا اعلان کیا گیا۔ اداکارہ ممتاز نے کہا کہ نگار فلم ایوارڈ پاکستان فلم انڈسٹری کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہوتے تھے۔
ان ایوارڈز کو حاصل کرکے فنکاروں کی توقیر میں اضافہ ہوتا تھا اور فلم انڈسٹری نگار ایوارڈز کی بدولت ترقی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے نگار ایوارڈز کی سرپرستی پر فخر بھی کرتی تھی اور فلم انڈسٹری کو ایک بڑا سہارا بھی ملتا تھا گوکہ اب فلم انڈسٹری کے زوال کے بعد نگار ایوارڈ کا تسلسل اب قائم نہ رکھا جا سکا مگر ایڈیٹر نگار ویکلی اسلم الیاس رشیدی نے یہ اعلان کیا کہ جیسے ہی فلمی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا، نگار فلم ایوارڈ کا دوبارہ سے آغاز کیا جائے گا۔
جشن نگار کی اس تقریب میں پی ٹی وی کراچی کے اسٹیشن ڈائریکٹر سید امجد شاہ اور پی ٹی وی کرنٹ افیئر کے سربراہ فدا حسین سومرو نے بھی شرکت کر کے اس تقریب کو رونق بخشی تھی۔ تقریب میں ایک شاندار سوونیر بھی نگار ویکلی کی طرف سے پیش کیا گیا اور تقریب کے آخر میں تمام مہمانوں کے لیے ایک شاندار عشائیہ کا بھی اہتمام کیا گیا۔
اس تقریب میں رات گئے تک ایک میوزیکل پروگرام بھی پیش کیا گیا جس میں مقامی اسٹیج، ٹیلی وژن اور فلم کے فنکاروں نے بھی شرکت کی۔ اس طرح یہ تقریب بڑے ہی خوبصورت انداز سے اپنے اختتام کو پہنچی۔
اخباری صحافت میں بھی اس کو ایک نمایاں مقام حاصل تھا اور اس کے قارئین ہزاروں میں تھے پھر اس اخبار کے مالک اور مدیر الیاس رشیدی نے پاکستان میں بمبئی انڈیا کے فلم فیئر ایوارڈ کی طرز پر نگار پبلک فلم ایوارڈ کا اجرا کیا اور یہ ایوارڈز برسوں تک دیے جاتے رہے۔
اس دور میں جس فنکار یا فنکارہ کو نگار ایوارڈ سے نوازا جاتا تھا، فلمی دنیا میں اس کی قدر و منزلت بڑھ جاتی تھی اور فلم انڈسٹری میں ان فنکاروں کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہو جاتا تھا نگار ایوارڈ مسلسل 48سال تک دیے جاتے رہے۔
مدیر الیاس رشیدی کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے اسلم الیاس رشیدی نے بھی اس سلسلے کو بڑی کامیابی کے ساتھ جاری رکھا اور بڑی مستقل مزاجی کے ساتھ اخبار بھی شایع کررہے ہیں اور ایوارڈ کے سلسلے کو بھی بدستور قائم رکھا اور نگار اخبارکی پسندیدگی میں کبھی کمی نہ آسکی تھی، اس فلم کے اخبار سے کئی نامور رائٹر بھی وابستہ رہے تھے، جن میں ابراہیم جلیس، انور عنایت اللہ، بشیر نیاز، دکھی پریم نگری، حمید کشمیری، علی سفیان آفاقی اور راقم بھی شامل تھا۔
نگار اخبار نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان کے فلمی حلقوں میں بھی پسندیدگی سے پڑھا جاتا تھا میں نے اسی نگار اخبار سے اپنی فلمی صحافت کا آغازکیا تھا اور پھر اسی اخبار کا لاہور میں نمایندہ خاص بن کر گیا تھا اور وہاں دس بارہ سال گزارے تھے۔ اس دوران میں بحیثیت مصنف و نغمہ نگار فلم انڈسٹری سے وابستہ ہو گیا تھا اور میں نے تیس پینتیس فلمیں بھی لکھی تھیں۔
بعض فلموں کی کہانیاں اور مکالمے جب کہ زیادہ تر فلموں کے نغمات لکھے تھے جو پاکستان کے تمام نامور گلوکار اور گلوکاراؤں نے گائے تھے اور انھیں بڑی شہرت حاصل ہوئی تھی پھر جب لاہور میں فلم انڈسٹری کو زوال آیا تو میں لاہور سے واپس کراچی آگیا تھا اور کراچی میں بحیثیت کمرشل پروڈیوسرکافی فلمیں پروڈیوس کی تھیں اور بے شمار جنگلز (کمرشل گیت) لکھے تھے جنھیں بے پناہ مقبولیت ہوئی تھی۔پھر کچھ عرصے بعد میں اپنی فیملی کے ساتھ امریکا چلا گیا اور وہاں کی ریاست نیوجرسی میں سکونت اختیار کرلی۔
مجھے وہاں رہتے ہوئے اب بائیس سال کا عرصہ ہوگیا ہے۔ ہر سال پاکستان آتا ہوں اس بار جب میں نومبر میں پاکستان آیا تو میں حسب معمول نگار ویکلی کے دفتر بھی گیا تو اسلم الیاس رشیدی نے یہ مژدہ سنایا کہ '' ہمدم بھائی! اس سال دسمبر میں نگار اخبار کی اشاعت کے پچھتر سال پورے ہو چکے ہیں تو میرے منہ سے بے ساختہ نکلا پھر تو جشن نگار ہونا چاہیے۔
اس کی پلاٹینم جوبلی منائی جانی چاہیے۔ پھر اس بات کو حتمی شکل دے دی گئی اور ایک کمیٹی بنائی گئی جس میں میرے علاوہ انیس مرچنٹ، اقبال سہوانی، مقبول احمد برفت، اطہر جاوید صوفی اور وسیع قریشی کو شامل کیا گیا، لگا تار کئی ملاقاتوں کے دوران طے کیا گیا کہ جشنِ نگار کے لیے گورنر سندھ محمدکامران خان سے بات کی جائے گی اور گورنر سے ملاقات رنگ لائی انھوں نے مہمان خصوصی بننا قبول کرلیا اور گورنر ہاؤس کراچی میں جشن نگار کی تقریب کی اجازت دے دی پھر ایک پروگرام مرتب کیا گیا اور 31 جنوری کی شام گورنر ہاؤس کراچی میں جشن نگار کا انعقاد کیا گیا۔ اس تقریب کی نظامت کے فرائض ٹی وی، اسٹیج اور فلم کے آرٹسٹ حنیف راجا نے انجام دیے۔
اس پروگرام میں کینیڈا سے آئی ہوئی فلم کی لیجنڈ ہیروئن ممتاز نے بھی بطور خاص شرکت کی اور ممتاز کی وجہ سے اس تقریب کا حسن بڑھ گیا تھا۔ اس تقریب میں ٹیلی وژن اسٹیج اور فلم کے بہت سے فنکاروں نے بھی شرکت کی جن میں گلوکار ایم افراہیم، گلوکار حسن جہانگیر، گلوکار تنویر آفریدی اور دیگر فنکاروں نے بھی شرکت کر کے ایک خوبصورت ورائٹی پروگرام بھی پیش کیا۔ اس پروگرام میں اسلم الیاس رشیدی کی ہونہار صاحبزادی پلوشہ نے بھی بڑے خوبصورت انداز میں اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے اپنے والد کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیا۔
مہمان خصوصی گورنر سندھ محمد کامران خان اور صوبائی وزیر اطلاعات احمد شاہ نے جن شخصیات کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈز سے نوازا، ان میں اداکارہ ممتاز، نغمہ نگار یونس ہمدم، براڈ کاسٹر اینکر علی حسن ساجد اور دیگر بھی شامل تھے۔ اسلم الیاس رشیدی نے مہمان خصوصی کی خدمت میں سپاس نامہ بھی پیش کیا، مہمان خصوصی گورنر سندھ اور احمد شاہ نے نگار ویکلی کی شاندار خدمات کو سراہتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا اور نگار کے لیے 5لاکھ روپے دینے کا اعلان بھی کیا۔
وزیر اطلاعات سندھ احمد شاہ کی طرف سے بھی مالی امداد کا اعلان کیا گیا۔ اداکارہ ممتاز نے کہا کہ نگار فلم ایوارڈ پاکستان فلم انڈسٹری کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہوتے تھے۔
ان ایوارڈز کو حاصل کرکے فنکاروں کی توقیر میں اضافہ ہوتا تھا اور فلم انڈسٹری نگار ایوارڈز کی بدولت ترقی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے نگار ایوارڈز کی سرپرستی پر فخر بھی کرتی تھی اور فلم انڈسٹری کو ایک بڑا سہارا بھی ملتا تھا گوکہ اب فلم انڈسٹری کے زوال کے بعد نگار ایوارڈ کا تسلسل اب قائم نہ رکھا جا سکا مگر ایڈیٹر نگار ویکلی اسلم الیاس رشیدی نے یہ اعلان کیا کہ جیسے ہی فلمی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا، نگار فلم ایوارڈ کا دوبارہ سے آغاز کیا جائے گا۔
جشن نگار کی اس تقریب میں پی ٹی وی کراچی کے اسٹیشن ڈائریکٹر سید امجد شاہ اور پی ٹی وی کرنٹ افیئر کے سربراہ فدا حسین سومرو نے بھی شرکت کر کے اس تقریب کو رونق بخشی تھی۔ تقریب میں ایک شاندار سوونیر بھی نگار ویکلی کی طرف سے پیش کیا گیا اور تقریب کے آخر میں تمام مہمانوں کے لیے ایک شاندار عشائیہ کا بھی اہتمام کیا گیا۔
اس تقریب میں رات گئے تک ایک میوزیکل پروگرام بھی پیش کیا گیا جس میں مقامی اسٹیج، ٹیلی وژن اور فلم کے فنکاروں نے بھی شرکت کی۔ اس طرح یہ تقریب بڑے ہی خوبصورت انداز سے اپنے اختتام کو پہنچی۔