شمعِ آرزو کی لو کیونکر بڑھے
پوری دنیا میں انتخابات جمہوریت کی بنیاد فراہم کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں انتخابات جمہوریت لانے کاکوئی بہترطریقہ نہیں ہیں
جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لیے انتخابات، مشورہ اور جمہوری قوتوں کا باہمی میل جول بہت اہم ہے۔خدا خدا کر کے8فروری 2024کے انتخابات تو ہو گئے لیکن کیا یہ انتخابات پاکستان کو ایک مضبوط معاشی قوت اور فلاحی مملکت بنا پائیں گے یا یہ صرف چہرے بدلنے کی ایک ایکسرسائز ہی ہو گی۔
پوری دنیا میں انتخابات جمہوریت کی بنیاد فراہم کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں انتخابات جمہوریت لانے کا کوئی بہتر طریقہ نہیں ہیں۔اس میں صرف وہ لوگ حصہ لے سکتے ہیں جو بے تحاشہ خرچ کر سکتے ہوں۔حد تو یہ ہے کہ بہت سی پارٹیاں اپنے ٹکٹ بیچتی ہیں۔اس سے پارٹی سربراہ کو بہت فائدہ ہوتا ہے لیکن اچھے نمایندے آگے نہیں آتے۔ہم دینِ اسلام کے پیرو کار ہیں۔
اسلام میں جو کسی منصب کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتا ہے،اس کا انتخاب غلط ہوتا ہے۔پھر اس میں گنتی اہم ہے،کردار و اوصاف، قابلیت و صلاحیت اہم نہیں ہے۔اسی لیے علامہ اقبال نے کہا کہ جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے ،جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔
کارل مارکس نے کہا تھا کہ ہر کچھ سالوں کے بعد مظلوموں کو یہ فیصلہ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے کہ ظالموں کا کون سا گروہ،کون سا طبقہ اب ان کا نمایندہ بن کر ظلم کرے گا اور اگلے 5سال ظلم و استحصال کرنے کا مینڈیٹ اس کے پاس ہو گا۔
مارک ٹوین نے کہا کہ اگر ووٹنگ سے واقعی کوئی فرق پڑتا تو یہ ظالم لوگ ہمیں کبھی بھی ووٹ نہ ڈالنے دیتے۔اسی طرح رالف نیڈر نے بہت عمدہ بات کی کہ جب ہم دو برائیوں میں سے کم تر برائی کا انتخاب کرتے ہیں تو بھی برائی ہی کا انتخاب کر رہے ہوتے ہیں۔
انتخابات میں اچھے نمایندوں کا چنائ تبھی ممکن ہے جب ووٹ دینے والے عوام کی اکثریت باشعور ہو۔ملک کی ترقی میں نہ صرف دلچسپی رکھتی ہو بلکہ صرف اور صرف کارکردگی،صلاحیت اور قابلیت کی بنیاد پر نمایندوں کا انتخاب یقینی بنائے۔ایک ایسے ملک میں جہاں عوام کی اکثریت جہالت اور غربت میں ڈوبی ہوئی ہو۔ان سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔
بائرن نے کہا تھا کہ انتخابات کے ذریعے بننے والی حکومت Govt of the people,by the people and for the peopleیعنی عوام کے ووٹوں سے بننے والی حکومت، عوام کی حکومت اور عوام کے لیے حکومت ہوتی ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے جب لوگ یعنی ووٹ کرنے والے افراد ذہنی طور پر اپاہجRetardedہوں تو وہ قابل، صاحبِ کردار اور باصلاحیت نمایندوں کو چھوڑ کر اپاہج لوگوں کو ہی نمایندے بنائیں گے اور وہ اپاہج نمایندے کسی ایسے کو حکومت کا سربراہ چنیں گے جو اپاہج ہو۔وہ لوگ جو چند ہزار میں اپنا ووٹ بیچ دیں،جو بریانی کی پلیٹ پر فریفتہ ہو جاتے ہوں،جو برادری اور ذات پات کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہوں،جو دلفریب نعروں سے مرعوب ہو جاتے ہوں اور جو بار بار دھوکہ کھاتے ہوں ان سے کسی اچھے چنائ کی توقع رکھنا عبث ہے۔
ہمارے سیاست دانوں کی اکثریت ایک ہی پارٹی سے تعلق رکھتی ہے جسے مفاد پرست پارٹی کہتے ہیں۔ہمارے یہ نمایندے اور رہنماء اپنے مفاد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں اپنے لیے جگہ بناتے رہتے ہیں۔ضرورت کے مطابق یہ اپنی وابستگی اور بیانیہ تبدیل کر لیتے ہیں۔اس وجہ سے ہمارے ہاں کوئی ایک بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں جو سیاست و معاشرت کو بدلنا چاہتی ہو۔
سیاست و معاشرت میں تبدیلی وہ لاتے ہیں جو کسی بڑے مقصد،کسی نظریے سے جڑے ہوں اور اس نظریے کے مطابق اپنی زندگی ڈھال رکھی ہو لیکن ہمارے نمایندوں اور رہنمائں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نظر نہیں آتا۔ان کے لیے الیکشن جیتنا اور حکومت بنانا یا حکومت میں شامل ہونا ہی ایک مقصد ہے۔
ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو اصلی تبدیلی اور انقلاب لانا چاہتا ہو۔یہ تو انقلاب کا سن کر سہم جاتے ہیں۔انقلاب میں تو خون بہتا ہے،جان ہتھیلی پر رکھنی پڑتی ہے۔ہمارے یہ رہنماء اسٹیٹس کوStatus quoوالے ہیںویسے بھی دنیا کے اس خطے میں جس میں ہم رہتے ہیں پچھلے پانچ چھ ہزار سالوں میں کوئی انقلاب نہیں آیا۔پاکستان میں اب تک ہونے والے الیکشن یہ بھی بتاتے ہیں کہ عوام کوئی بھی فیصلہ کریں لیکن ہوتا وہ ہے جو مقتدر قوتیں چاہیں۔
پچاس کی دہائی میں الیکشن ہوئے جس میں جگتو فرنٹ نے اکثریت حاصل کی لیکن فرنٹ کو حکومت کرنے نہیں دی گئی۔1970کے انتخابات بہت صاف انتخابات مانے جاتے ہیں۔انتخابات سے پہلے مشرقی پاکستان کے ہر دلعزیز مشہور رہنماء جناب شیخ مجیب الرحمان اگر تلہ سازش کیس میں گرفتار جیل میں تھے لیکن ایک دن اعلان ہوا کہ اگرتلہ سازش کیس کمیشن ختم کر دیا گیا ہے اور جناب شیخ مجیب کو رہا کر دیا گیا ہے۔
خیر انتخابات ہوئے اور مشرقی پاکستان میں دو نشستوں کے علاوہ قومی اسمبلی کی ساری نشستیں جناب شیخ مجیب کی عوامی لیگ کے حصے میں آئیں۔
مشرقی پاکستان کی آبادی،مغربی پاکستان کی آبادی سے زیادہ تھی۔قومی اسمبلی میں عوامی لیگ کو اکثریت حاصل تھی لیکن شیخ مجیب صاحب کو حکومت نہیں دی گئی۔اس زیادتی کے نتیجے میں مشرقی پاکستان نے بنگلہ دیش بن کر پاکستان سے منہ موڑ لیا۔انتخابات اگر قومی مسائل کا حل ہوتے تو پاکستان آدھا نہ رہ جاتا۔ان سب باتوں کے باوجود موجودہ نظام میں اچھی یا بری تبدیلی بیلٹ باکس کے ذریعے ہی لائی جا سکتی ہے۔اگر عوام کمر باندھ لیں،باشعور ہو جائیں، تو اچھی تبدیلی ممکن ہے۔
ہمارے سارے سیاسی زعماء بشمول جناب بانی پی ٹی آئی نے یہ سوچا سمجھا فیصلہ کر رکھا ہے کہ اسٹیٹس کو بحال رکھنا ہے۔اس پر ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔یہ عوام کی حکمرانی کے خلاف ہیں۔ یہ سب لینڈ کروزر والے ہیں۔بڑے بڑے قلعہ نما گھروں میں رہتے ہیں۔عوام ان کے عشق میں بے وقوف بنے ہوئے ہیں کیونکہ عشق ہوتا ہی بے ربطی اجزائے حواس ہے۔
جناب نواز شریف اور بلاول زرداری کو تو چھوڑ دیں کیا کسی نے جناب عمران خان کو لینڈ کروزر چھوڑتے دیکھا۔کیا یہ تینوں قلعہ نماء گھروں ،بلاول ہائس،جاتی عمرہ اور تین سو کنال کے بنی گالہ ہائس میں نہیںرہتے۔یہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے تبدیلی کا نعرہ تو لگاتے ہیں لیکن اصل میں انھیں تبدیلی بھاتی نہیں۔ 1970کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی،کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا۔ پی پی پی متعدد بار حکومت بنانے کے باوجود آج بلاول وہی نعرہ لگا کر ووٹر کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ آپ دیکھیں کیا وزیرِ اعظم ہائس اور گورنر ہائسز یونیورسٹیاں بن گئے ہیں۔
کیا ان میں سے کسی نے عوام کی حکمرانی کی جانب قدم بڑھایا۔اگر نہیں تو پھر تبدیلی کیونکر آئے گی۔ شمعِ آرزو کی لو کیونکر بڑھائی جا سکتی ہے جب کہ لیڈران بے وقوف بناتے ہیں اور عوام ان کے بچھائے جال میں خوشی سے پھنسنے کو تیار ہوتے ہیں۔ انتخابات کا دن آیا اور چلا گیا۔پچھلے انتخابات اور موجودہ انتخابات کے درمیان پاکستان میں بہتری نہیں آئی،خدا کرے اب ہم بہتری کی جانب قدم بڑھا سکیں تاکہ شمعِ آرزو کی لو بڑھائی جا سکے۔
پوری دنیا میں انتخابات جمہوریت کی بنیاد فراہم کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں انتخابات جمہوریت لانے کا کوئی بہتر طریقہ نہیں ہیں۔اس میں صرف وہ لوگ حصہ لے سکتے ہیں جو بے تحاشہ خرچ کر سکتے ہوں۔حد تو یہ ہے کہ بہت سی پارٹیاں اپنے ٹکٹ بیچتی ہیں۔اس سے پارٹی سربراہ کو بہت فائدہ ہوتا ہے لیکن اچھے نمایندے آگے نہیں آتے۔ہم دینِ اسلام کے پیرو کار ہیں۔
اسلام میں جو کسی منصب کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتا ہے،اس کا انتخاب غلط ہوتا ہے۔پھر اس میں گنتی اہم ہے،کردار و اوصاف، قابلیت و صلاحیت اہم نہیں ہے۔اسی لیے علامہ اقبال نے کہا کہ جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے ،جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔
کارل مارکس نے کہا تھا کہ ہر کچھ سالوں کے بعد مظلوموں کو یہ فیصلہ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے کہ ظالموں کا کون سا گروہ،کون سا طبقہ اب ان کا نمایندہ بن کر ظلم کرے گا اور اگلے 5سال ظلم و استحصال کرنے کا مینڈیٹ اس کے پاس ہو گا۔
مارک ٹوین نے کہا کہ اگر ووٹنگ سے واقعی کوئی فرق پڑتا تو یہ ظالم لوگ ہمیں کبھی بھی ووٹ نہ ڈالنے دیتے۔اسی طرح رالف نیڈر نے بہت عمدہ بات کی کہ جب ہم دو برائیوں میں سے کم تر برائی کا انتخاب کرتے ہیں تو بھی برائی ہی کا انتخاب کر رہے ہوتے ہیں۔
انتخابات میں اچھے نمایندوں کا چنائ تبھی ممکن ہے جب ووٹ دینے والے عوام کی اکثریت باشعور ہو۔ملک کی ترقی میں نہ صرف دلچسپی رکھتی ہو بلکہ صرف اور صرف کارکردگی،صلاحیت اور قابلیت کی بنیاد پر نمایندوں کا انتخاب یقینی بنائے۔ایک ایسے ملک میں جہاں عوام کی اکثریت جہالت اور غربت میں ڈوبی ہوئی ہو۔ان سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔
بائرن نے کہا تھا کہ انتخابات کے ذریعے بننے والی حکومت Govt of the people,by the people and for the peopleیعنی عوام کے ووٹوں سے بننے والی حکومت، عوام کی حکومت اور عوام کے لیے حکومت ہوتی ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے جب لوگ یعنی ووٹ کرنے والے افراد ذہنی طور پر اپاہجRetardedہوں تو وہ قابل، صاحبِ کردار اور باصلاحیت نمایندوں کو چھوڑ کر اپاہج لوگوں کو ہی نمایندے بنائیں گے اور وہ اپاہج نمایندے کسی ایسے کو حکومت کا سربراہ چنیں گے جو اپاہج ہو۔وہ لوگ جو چند ہزار میں اپنا ووٹ بیچ دیں،جو بریانی کی پلیٹ پر فریفتہ ہو جاتے ہوں،جو برادری اور ذات پات کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہوں،جو دلفریب نعروں سے مرعوب ہو جاتے ہوں اور جو بار بار دھوکہ کھاتے ہوں ان سے کسی اچھے چنائ کی توقع رکھنا عبث ہے۔
ہمارے سیاست دانوں کی اکثریت ایک ہی پارٹی سے تعلق رکھتی ہے جسے مفاد پرست پارٹی کہتے ہیں۔ہمارے یہ نمایندے اور رہنماء اپنے مفاد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں اپنے لیے جگہ بناتے رہتے ہیں۔ضرورت کے مطابق یہ اپنی وابستگی اور بیانیہ تبدیل کر لیتے ہیں۔اس وجہ سے ہمارے ہاں کوئی ایک بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں جو سیاست و معاشرت کو بدلنا چاہتی ہو۔
سیاست و معاشرت میں تبدیلی وہ لاتے ہیں جو کسی بڑے مقصد،کسی نظریے سے جڑے ہوں اور اس نظریے کے مطابق اپنی زندگی ڈھال رکھی ہو لیکن ہمارے نمایندوں اور رہنمائں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نظر نہیں آتا۔ان کے لیے الیکشن جیتنا اور حکومت بنانا یا حکومت میں شامل ہونا ہی ایک مقصد ہے۔
ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو اصلی تبدیلی اور انقلاب لانا چاہتا ہو۔یہ تو انقلاب کا سن کر سہم جاتے ہیں۔انقلاب میں تو خون بہتا ہے،جان ہتھیلی پر رکھنی پڑتی ہے۔ہمارے یہ رہنماء اسٹیٹس کوStatus quoوالے ہیںویسے بھی دنیا کے اس خطے میں جس میں ہم رہتے ہیں پچھلے پانچ چھ ہزار سالوں میں کوئی انقلاب نہیں آیا۔پاکستان میں اب تک ہونے والے الیکشن یہ بھی بتاتے ہیں کہ عوام کوئی بھی فیصلہ کریں لیکن ہوتا وہ ہے جو مقتدر قوتیں چاہیں۔
پچاس کی دہائی میں الیکشن ہوئے جس میں جگتو فرنٹ نے اکثریت حاصل کی لیکن فرنٹ کو حکومت کرنے نہیں دی گئی۔1970کے انتخابات بہت صاف انتخابات مانے جاتے ہیں۔انتخابات سے پہلے مشرقی پاکستان کے ہر دلعزیز مشہور رہنماء جناب شیخ مجیب الرحمان اگر تلہ سازش کیس میں گرفتار جیل میں تھے لیکن ایک دن اعلان ہوا کہ اگرتلہ سازش کیس کمیشن ختم کر دیا گیا ہے اور جناب شیخ مجیب کو رہا کر دیا گیا ہے۔
خیر انتخابات ہوئے اور مشرقی پاکستان میں دو نشستوں کے علاوہ قومی اسمبلی کی ساری نشستیں جناب شیخ مجیب کی عوامی لیگ کے حصے میں آئیں۔
مشرقی پاکستان کی آبادی،مغربی پاکستان کی آبادی سے زیادہ تھی۔قومی اسمبلی میں عوامی لیگ کو اکثریت حاصل تھی لیکن شیخ مجیب صاحب کو حکومت نہیں دی گئی۔اس زیادتی کے نتیجے میں مشرقی پاکستان نے بنگلہ دیش بن کر پاکستان سے منہ موڑ لیا۔انتخابات اگر قومی مسائل کا حل ہوتے تو پاکستان آدھا نہ رہ جاتا۔ان سب باتوں کے باوجود موجودہ نظام میں اچھی یا بری تبدیلی بیلٹ باکس کے ذریعے ہی لائی جا سکتی ہے۔اگر عوام کمر باندھ لیں،باشعور ہو جائیں، تو اچھی تبدیلی ممکن ہے۔
ہمارے سارے سیاسی زعماء بشمول جناب بانی پی ٹی آئی نے یہ سوچا سمجھا فیصلہ کر رکھا ہے کہ اسٹیٹس کو بحال رکھنا ہے۔اس پر ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔یہ عوام کی حکمرانی کے خلاف ہیں۔ یہ سب لینڈ کروزر والے ہیں۔بڑے بڑے قلعہ نما گھروں میں رہتے ہیں۔عوام ان کے عشق میں بے وقوف بنے ہوئے ہیں کیونکہ عشق ہوتا ہی بے ربطی اجزائے حواس ہے۔
جناب نواز شریف اور بلاول زرداری کو تو چھوڑ دیں کیا کسی نے جناب عمران خان کو لینڈ کروزر چھوڑتے دیکھا۔کیا یہ تینوں قلعہ نماء گھروں ،بلاول ہائس،جاتی عمرہ اور تین سو کنال کے بنی گالہ ہائس میں نہیںرہتے۔یہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے تبدیلی کا نعرہ تو لگاتے ہیں لیکن اصل میں انھیں تبدیلی بھاتی نہیں۔ 1970کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی،کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا۔ پی پی پی متعدد بار حکومت بنانے کے باوجود آج بلاول وہی نعرہ لگا کر ووٹر کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ آپ دیکھیں کیا وزیرِ اعظم ہائس اور گورنر ہائسز یونیورسٹیاں بن گئے ہیں۔
کیا ان میں سے کسی نے عوام کی حکمرانی کی جانب قدم بڑھایا۔اگر نہیں تو پھر تبدیلی کیونکر آئے گی۔ شمعِ آرزو کی لو کیونکر بڑھائی جا سکتی ہے جب کہ لیڈران بے وقوف بناتے ہیں اور عوام ان کے بچھائے جال میں خوشی سے پھنسنے کو تیار ہوتے ہیں۔ انتخابات کا دن آیا اور چلا گیا۔پچھلے انتخابات اور موجودہ انتخابات کے درمیان پاکستان میں بہتری نہیں آئی،خدا کرے اب ہم بہتری کی جانب قدم بڑھا سکیں تاکہ شمعِ آرزو کی لو بڑھائی جا سکے۔