جمہوریت کا تسلسل نئے عہد کا آغاز

الیکشن کے پر امن انعقاد سے بے یقینی کی فضا چھٹ گئی ہے اور لوگوں کا اعتماد بھی بحال ہوا ہے

الیکشن کے پر امن انعقاد سے بے یقینی کی فضا چھٹ گئی ہے اور لوگوں کا اعتماد بھی بحال ہوا ہے۔ فوٹو: فائل

انتخابات اور جمہوریت کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔

الیکشن کے پر امن انعقاد سے بے یقینی کی فضا چھٹ گئی ہے اور لوگوں کا اعتماد بھی بحال ہوا ہے، ایک خاص تناظر میں انتخابات کے التواء کا جو منظر نامہ تراشا جا رہا تھا وہ بھی درست ثابت نہ ہوا، انتخابی نتائج کے سامنے آنے کا عمل جاری ہے۔

بادی النظر میں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ سادہ اکثریت کے باوجود بھی جیتنے والی جماعت کی سعی ہوگی کہ وہ دوسری جماعتوں کو بھی حصہ دار بنانے کی سعی کرے تاکہ مرکز میں مضبوط حکومت بن سکے اور اس کے اثرات صوبوں پر پڑیں۔

اہل سیاست اور فکر کو اس صورتحال میں بریکنگ نیوز سے نکل کر آنے والے دنوں، ہفتوں اور مہینوں کی ممکنہ صورتحال پر غور کی ضرورت ہے۔

انتخابات کے بعد قائم ہونے والی نئی حکومت کو اصلاحات کرنی ہوں گی، اگر فوری اصلاحات ہوجائیں اور نئی حکومت مہنگائی کم کرنے کے حوالے سے عوامی مقبولیت کے فیصلوں سے اجتناب کر سکے تو دو سال کے بعد پاکستان کے اقتصادی حالات بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے، کیونکہ آنے والے دنوں میں مہنگائی مزید بڑھے گی اور اگلے کم از کم دو سال پاکستان کے لیے معاشی طور پر بہت کٹھن ہوں گے۔

ملک ترقی اس وقت ہی کرے گا جب توانائی ٹیکس اور دوسرے شعبوں میں اصلاحات ہوں گی، لیکن کیا کسی سیاسی حکومت کے لیے اصلاحات یا دیگر الفاظ میں مزید مہنگائی کرنا ممکن ہوگا؟ دوسری جانب پاکستان کا ہر باشندہ بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی کا نوحہ پڑھتا ہے۔ حکومتی مشینری کی نا اہلی اور کرپشن کے قصے سُناتا ہے۔

بجلی، پانی، گیس، اسپتال، تھانے اور دیگر درجنوں محکموں سے جُڑے مسائل پر شور مچاتا ہے۔ ان دو انتہاؤں کے درمیان میں کہیں وہ سیاسی حقیقتیں ہیں جن کے ذمے آگے کے سفر کی سمت اور طریقہ کار کا تعین ہے۔ الیکشن کے بعد آنے والی حکومت کے سامنے اسی سمت اور سفر کے طریقہ کار کا تعین سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔ کیا اگلی حکومت کی خواہش مند جماعتوں یا شخصیات کو اس گمبھیر صورتحال کا اندازہ ہے؟ اور آخر اُن کے پاس وہ کون سا طریقہ ہے کہ ملکی معیشت میں استحکام لایا جاسکے۔

پاکستان میں ہر معاشی اشاریہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پچھلے بیس سال میں ملک نے ہر حوالے سے ترقی کی ہے۔ جی ڈی پی، فی کس آمدنی، بنیادی انفرا اسٹرکچر، صحت، تعلیم اور ماحولیات سے جُڑی قانون سازیاں، اشاریے اور حساسیت، شہروںمیں تبدیلی کی حالت یہ ہے کہ بیس سال بعد آنے والا کوئی بھی رہائشی خود اپنے گھر کا راستہ بھی تلاش نہیں کر سکتا۔

مواصلات کے نظام، ملٹی اسٹوری بلڈنگز، مالز، ہائپر مارکیٹس، فیشن چینز، یہ سب کچھ اور بہت کچھ بیس سال پہلے کی حقیقت میں کہیں موجود ہی نہیں تھے۔ جو فیملیز موٹر سائیکل لینے کے لیے سال ہا سال بچت کرتی اور جب بائیک خریدتی تو مٹھائیاں بانٹتی وہاں آج اسپلٹ اے سی، ایل ای ڈی اور کم از کم دو بائیکس ایک ناقابل گفتگو حقیقت ہے۔ یہ سب پاکستان کی ایک سچائی ہے۔

پاکستان کو پرانے قرض بھی ادا کرنے ہیں۔ آنے والے دنوں میں پاکستان کو آئی ایم ایف سے دو عبوری قسطیں ملنی ہیں اور فیصلہ ہوچکا ہے کہ پاکستان 2024 میں ایک بار پھر آئی ایم ایف سے قرضہ لے گا، یہ قرضہ کڑی شرائط پر ہوگا، اگر دوست ممالک پاکستان کو مطلوبہ قرضہ یا امداد دے بھی دیں تو وقتی گزارہ ہوجائے گا لیکن اگلے سال پاکستان کو کڑی قسطوں پر لیے گئے بیرونی قرض کی قسط ادا کرنا مشکل ہو جائے گا، اگر پاکستان قرضوں کی ری شیڈولنگ، ری پرو فائلنگ کی طرف جاتا ہے تو اس کے علیحدہ نتائج ہوں گے۔ مشرق وسطیٰ کی صورتحال یا کسی دوسرے واقعے سے اگر کوئی بین الاقوامی تبدیلی رونما ہوتی ہے تو ایسی صورت میں معاملات یکسر تبدیل بھی ہوسکتے ہیں۔

اس وقت عوام کو درپیش اہم مسائل میں مہنگائی اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ سرفہرست ہے۔ ان مسائل کی وجہ سے عام آدمی سے لے کر صنعت کار تک ہر کوئی پریشان ہے۔ حکومت ملنے کے بعد گزشتہ حکومتوں کا رونا رونے کے بجائے مسائل حل کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔


پاکستان میں اس وقت ہر طرح کی انڈسٹری بدترین بحران سے دوچار ہے جس کی بڑی وجہ توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ انرجی کاسٹ بڑھنے کی وجہ سے پیداواری لاگت میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے ہم مسابقت میں خطے کے دیگر ممالک سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔

معاشی ماہرین کے مطابق گزشتہ 2 سے زائد ماہ کے عرصے سے پاکستانی روپیہ مارکیٹ میں مستحکم ہے، تاہم روپے کے استحکام کو الیکشن کے بعد خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ الیکشن کے بعد مارچ کے ماہ میں روپے کی قدر کو دھچکا لگنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ کرنسی ماہرین کے مطابق مارکیٹ میں طلب کے مقابلے میں ڈالر کی دستیابی کم ہے۔ ترسیلات زر اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کا حجم مسلسل کمی کا شکار ہے۔

خاص کر ترسیلات زر میں اضافہ نہ ہو سکا، بلکہ رواں مال کے پہلے 6 ماہ میں ترسیلات زر 6 فیصد کم رہی ہیں۔ گزشتہ مالی سال کے دوران بھی ترسیلات زر اس سے گزشتہ سال کے مقابلے میں 25 فیصد کم تھیں، یعنی ترسیلات زر میں کمی کے باعث 4 ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہوا۔

جب کہ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق رواں سال بھی ترسیلات زر کا حجم مزید کم ہو کر صرف 22 ارب ڈالرز تک گر جانے کا امکان ہے۔ یعنی 2 سالوں میں ترسیلات زر کا حجم 9 ارب ڈالرز کم ہو جانے کا خدشہ ہے۔ ماہرین کے مطابق ترسیلات زر میں اس قدر کمی کی وجہ سے روپے پر دباؤ مزید بڑھے گا جو ڈالر مہنگا ہونے کا باعث ہو گا۔

نئی حکومت کو بہت سے محاذوں پر کام کرنا پڑے گا اور بیک وقت کرنا پڑے گا۔ معیشت کی بحالی میں اوورسیز پاکستانی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ حکومت اگر اوورسیز پاکستانیوں کو یہ گارنٹی دینے میں کامیاب رہی کہ ہم آپ کے لیے کچھ کرنے جا رہے ہیں تو ان کی جانب سے ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہوگا۔ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تعلقات زیادہ شاندار رہے ہیں۔ سعودی عرب، پاکستان کو ایک خوشحال اور مضبوط ملک دیکھنے کا خواہشمند ہے۔

پاکستان کی ہر مشکل وقت میں سعودی عرب نے مدد کی۔ چاہے وہ معاشی مشکلات ہوں سیاسی مشکلات ہوں یعنی کبھی بھی پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑا۔ حکومت سعودی عرب میں جاری ترقیاتی منصوبوں کے لیے اپنے اسکلڈ ورکرز کو بھیجے۔ ہمیں ترسیلات زر میں بہتری کے لیے اس پر فوکس کرنا پڑے گا۔ سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک میں اسکلڈ ورکرز بھیجنے کے معاملے کو ترجیحات میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔

ہر حکومت یہ کہتی ہے کہ اوور سیز ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، وعدے اور اعلانات کیے گئے لیکن ان پر عمل نہیں ہوا۔ یہ درست ہے کہ اوورسیز پاکستانی ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہیں اور اس کا اندازہ سب کو ہوچکا ہے مگر اب ان کے مسائل کے حل کے لیے حکومتوں کو آگے آنا ہوگا۔

اوورسیز پاکستانیوں کو زیادہ سے زیادہ آسانیاں اور ریلیف دینے کی ضرورت ہے۔ 92 کے بعد انڈسٹری یا کمپیوٹر ٹیکنالوجی بہت تبدیل ہوئی ہم اس کا ساتھ نہیں دے سکے۔ بات یہ ہے کہ ہم اسکلڈ ورکرز تیار نہیں کرسکے۔ ٹیکنیکل ایجوکیشن کی بہت کمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سعودی عرب سمیت خلیجی ملکوں کو اسکلڈ لیبر فراہم کرنے میں پیچھے ہیں۔

بلومبرگ کی جانب سے بھی پاکستان کی معیشت سے متعلق رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ بلوم برگ کا اپنی سروے رپورٹ میں کہنا ہے کہ پاکستان کا آئی ایم ایف پروگرام مارچ میں ختم ہورہا ہے، جنوری میں ڈالرز بانڈ 9 فیصد واپس آئے، سرمایہ کار آئی ایم ایف سے فنڈنگ کے معاہدے کے لیے ایک نئے لیڈر کا انتظار کررہے ہیں، گزشتہ سال پاکستان نے سرمایہ کاروں کو تقریباً 100 فیصد منافع واپس کیا۔ بہتر کارکردگی پاکستان کو فائدہ پہنچا سکتی ہے۔

الیکشن کے بعد نئی حکومت آئی ایم ایف سے جاری معاہدہ ختم ہونے کے بعد نیا معاہد ہ کرسکتی ہے۔ آیندہ مالی سال میں پاکستان نے 25 بلین ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ یہ پاکستان کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر سے تقریباً 3 گنا زیادہ ہے۔ امریکی جریدے بلوم برگ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ ختم ہوگیا ہے، اگلے مالی سال ادائیگیوں کا اثر زرمبادلہ کے ذخائر پر پڑے گا۔

پاکستان کے موجودہ حالات میں جس بھی پارٹی کی حکومت بنے اسے سب سے پہلے لا اینڈ آرڈر ٹھیک کرنا چاہے، کیونکہ دہشت گردی کو کچلے بغیر معاشی ترقی کا خواب ادھورا رہے گا۔ دوسری ترجیح کاروبار ہونا چاہے، نوجوانوں کو روزگار ملے، مہنگائی پر کنٹرول کیا جائے۔

حکومت کی طرف سے اس بات کی ضمانت دی جانی چاہیے کہ جو بھی انویسٹر آئے اسے یہ اطمینان ہو کہ اس کا سرمایہ محفوظ رہے گا۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ پالیسیوں میں عدم تسلسل ہے۔ مستحکم سیاسی حکومت ہونی چاہیے اور اس کی کریڈیبلٹی ہو جو یہ لوگوں کے مسائل کو حل کرے۔
Load Next Story