احسان فراموش کالانعام
یہ ہمارے جو کالانعام اور انعام عوام ہیں بہت بدلگام ہیں، بدنظام ہیں اور نمک حرام ہیں
اب تو یہ بات اچھی اور بری دونوں طرح سے ثابت ہوگئی کہ یہ ہمارے جو کالانعام اور انعام عوام ہیں بہت بدلگام ہیں، بدنظام ہیں اور نمک حرام ہیں بلکہ احسان فراموش، لائق پاپوش مثل خرگوش بلکہ نیکی برباد گناہ لازم بھی ہیں اور طوطا چشم، کواء چشم اور چشم گل چشم کی طرح یک چشم بھی ہیں نہ تو یہ کوئی نظر یعنی بصیرت رکھتے ہیں اور نہ ہی آئی کیو یعنی بصارت رکھتے ہیں بلکہ سب کے سب اپنے ہی آئی کون ہیں۔
ذرا انگلیوں پر گن کر''خادموں'' کی اتنی زیادہ تعداد پر غور کیجیے۔جس قوم کی خدمت کے لیے اتنے سارے خدمت گار،غم گسار، جذبہ خدمت میں سرشار خادم موجود ہوں ان کی خوش قسمتی سے کون انکار کرسکتا ہے۔داد دینا پڑے گی ان خدمت گار،غم گسار اور تابعدار خاندانوں کو جو سب کچھ تیاگ کر صرف ایک نعرہ لگارہے ہیں،ہر صبح خدمت،ہر شام خدمت،ہمارا تو ہے کام خدمت
سو پشت سے ہے پیشۂ آباخدمتگاری
کچھ لیڈری ذریعہ ئے عزت نہیں مجھے
یہ خدمت گاران قوم و ملک و وطن جو عوامی خدمت کے لیے اپنا عیش و آرام قیام و طعام صبح و شام قربان کیے ہوئے ہیں ان میں سے اکثر کے بارے میں ہمیں معلوم ہے صرف آج ہی سے خدمت گار نہیں بلکہ پشت ہا پشت خدمت گار ہیں
تازہ نہیں ہے نشئہ فکر سخن مجھے
تریاکی قدیم ہوں دود چراغ کا
مغلوں کے دور سے لے کر آج کے چغلوں کے زمانے تک یہ مخصوص خادمان قوم اور ملت و قوم اس کام میں مصروف چلے آرہے ہیں۔ان کے آبا ء اور اجداد نے مغلوں کی پاجوسی کی، کچھ کے بزرگوں نے سکھوں کے چرن چھوئے، انگریزوں کے بوٹ اٹھائے چمکائے اور سر پر اٹھائے صرف اور صرف اس لیے کہ ان کی اولادیں فارغ البال ہوکر عوام کی خدمت کا یہ خاندانی پیشہ جاری رکھ سکیں، خوش قسمتی سے اولادیں سعادت مند نکلیں اور ان سے بھی زیادہ جوش و خروش سے عوام کی خدمت میں لگے رہو منا بھائی ہوگئیں اور ابھی تک ہیں
نہ ہنسو ہم پہ، ہیں خدمت کے لیے آئے ہوئے
در بدر پھرتے ہیں خدمات کے نہلائے ہوئے
لیکن یہ عوام کالانعام بے وفا بے مروت پھر بھی ہرجائی کے ہرجائی ہیں، احسان ماننے کے بجائے الٹا ان بیچاروں کو برا بھلا۔بلکہ ''برا ہی برا'' کہتے ہیں۔ایک شخص نے دریا کنارے ایک معذور شخص کو دیکھا تو اسے اپنے کاندھے پر بٹھا کر دریا پار کرایا۔تو شکریہ ادا کرنے پر اس احسان فراموش نے کہا۔تمہارے کندھوں کی ہڈیاں بہت سخت ہیں مجھے بہت تکلیف ہوئی، بقول داغ ؎
دل لے کے مفت کہتے ہیں کچھ کام کا نہیں
الٹی شکایتیں ہوئیں احسان تو گیا
لیکن خدمت کرنے والے اپنے جذبہ خدمت میں اتنے سرشار ہیں کہ کچھ پروا ہی نہیں کرتے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ پرعزم ہوکر خدمت میں مصروف ہیں بلکہ ان پرانے خدمت گار خاندانوں کو دیکھ کر نئے نئے خادم میدان خدمت میں آرہے ہیں۔وہ ایک جو ''قومی ہیرو''تھا اگر اس پر اکتفا کرتا تو ایک خوبصورت بیوی اور بچوں کے ساتھ گھرانہ جما کر خوشحال سسرال میں بے مثال زندگی گزارتا۔
لیکن اسے بھی قوم کی خدمت کا کورونا ہوگیا۔پہلے اسپتال بنوا کر''ہیرو'' سے ''خیرو'' ہوگیا اور اگر اسی مقام پر ٹھہر کر رہ جاتا تو دوسرا عبدالستار ایدھی بن جاتا۔لیکن اسے تو بڑی بڑی خدمتیں کرنے کا کوئڈنائنٹین ہوگیا تھا،تو ایدھی جیسی چھوٹی چھوٹی خدمتوں پر کیسے صبر ہوتا۔اور پھر ہیرو اور خیرو سے گزر کر زیرو ہوگیا۔
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
لیکن ان کالانعاموں نے اس کی بھی قدر نہیں کی اور اس بچارے کو۔جیسے جانتے نہیں پہچانتے نہیں۔ حالانکہ اس نے ان کم بختوں کے لیے کیا کیا کچھ نہیں کیا
ہم نے کیا کیا نہ تیرے عشق میں محبوب کیا
صبر ایوب کیا گریہ ئے یعقوب کیا
وہ ایک اور تھا،جو تھا تو پرانے خدمت گاروں کے ایک خاندان سے۔لیکن خدمت کا ایک نیا جذبہ لے کر اٹھا تھا۔روٹی کپڑا اور مکان۔اسلام ہمارا دین، جمہوریت ہماری سیاست اور سوشلزم ہماری معیشت۔ یہاں تک کہ اس دائم المریض کا وہ سڑا ہوا ہاتھ بھی کندھے سے اٹھا کر دور پھینک دیا جو ہمیشہ درد کرتا رہتا تھا،اور ہمیں یقین تھا کہ وہ اپنا روٹی کپڑا مکان کا وعدہ بھی پورا کرتا۔لیکن افسوس کہ
ہم سے نہ پوچھو مسیپاہیا سے پوچھو
جس نے بجروا میں چھینا دوپٹہ میرا
کیونکہ ہمیں ایک دانائے راز نے بتایا ہے کہ اس نے اپنے ایک ''ہم پیالہ وہم نوا''قذافی کے مشورے سے مفت روٹی کپڑا اور مکان کے پورے ملک کو جیل میں تبدیل کرنا کہ صرف وہاں روٹی کپڑا اور مکان کا مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے یعنی تھری ان ون۔وہ ایک شخص کے پاس صرف ایک روپیہ تھا اور اس ایک روپیہ میں سے اس نے خود بھی اپنا پیٹ بھرنا تھا۔
اپنے پالتو مرغ کو بھی کھلانا اور اپنے گدھے کو بھی۔چنانچہ اس نے ایک دانا بزرگ سے مشورہ کیا،بزرگ نے مشورہ دیا اور اس نے روپیہ کا تربوز خریدا خود کھایا،بیج مرغ کو کھلائے اور چھلکے گدھے کو کھلا دیے لیکن افسوس کہ ان ناقدروں نے اس خدمت گار کو ''تربوز''خریدنے نہیں دیا۔
عوامی خدمت کے لیے ان خاندانوں کا جذبہ صادق اتنا زیادہ ہے کہ اکثر وقت سے پہلے قوم و ملک پر قربان ہوکر شہید اور مزار بن جاتے ہیں بلکہ اب تو یہ خاندان اتنا زیادہ''فنا فی الخدمت'' ہوگئے ہیں کہ''بچے''بھی آنکھ کھولتے ہی خدمت میں لگ جاتے ہیں اپنا عیش و آرام اور خواب خود تو ایک طرف شادی کرنے کی عمر میں بھی خدمت خدمت خدمت۔
وہ اکثر فلموں اور ڈراموں میں ہم دیکھتے اور سنتے ہیں کہ کوئی کردار اپنے کسی کام سے تلوار سے،جنگ سے ملک سے یا پیشے سے ''شادی'' کرلیتے ہیں اور قومی خدمت کا جذبہ تو اتنا طاقتور ہے کہ بہت سارے لوگ اس سے شادی کرکے اپنی خانہ آبادی سے تائب ہوجاتے ہیں۔