الیکشن کا آنکھوں دیکھا حال
نئی حکومت جلد ہی قائم ہو جائے گی جسے ہر حال میں عوام ، تاجروں، صنعتکاروں، کارخانہ داروں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا
میں اپنی بات جمعرات کی صبح 8 بجے کے مناظر سے ہی شروع کروں گا۔ پولنگ اسٹیشن کے قریب امیدواروں کے کارکنوں نے ٹینٹ لگا رکھے تھے۔ ووٹر بھی بڑی تعداد میں پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔ ایک کیمپ پر کچھ کرسیاں لگی تھیں چند میز اپنے سجنے کے انتظار میں تھے۔ کچھ کارکن بینر لگانے کے لیے بر سرپیکار تھے۔
کیمپ کو فعال کرنے میں بڑی کمی محسوس کی جا رہی تھی کہ ایک بزرگ آگے بڑھے ان کے ساتھ بزرگ خاتون بھی آگے بڑھیں اور ایک نے کرسی اٹھا کر میز کے گرد لگائی دوسرے نے میز پر کپڑے بچھائے۔ دونوں نے چند منٹ کی محنت سے کیمپ کا رنگ ہی بدل دیا۔ ووٹرز کو معلومات دینے لگے۔ ووٹر لسٹ میں ان کے نام چیک کرنے لگے۔
انھیں پولنگ اسٹیشن کی راہ دکھانے لگے۔ لوگوں کی آمد و رفت بڑھنے لگی۔ کاروں سے بزرگ خواتین، بڑے بوڑھے، نوجوان اترتے چلے جا رہے تھے۔ ارد گرد کے کیمپوں میں پھیل کر معلومات لے رہے تھے۔ عوام کا رش بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ ہر پولنگ اسٹیشن کے ارد گرد میلے کا سماں تھا۔ اس الیکشن کو بچے اور بچیاں بھی خوب انجوائے کر رہی تھیں۔ بہت سے امیدواروں نے اپنے کارکنوں، حمایتیوں کے لیے صبح سویرے ہی ناشتے کا انتظام کر رکھا تھا۔
مختلف رپورٹرز اپنے چینلز کو یہ اطلاع دے رہے تھے کہ پائے، چنے، حلوہ پوری، نان کلچے، چائے وغیرہ کے ساتھ زبردست ناشتہ دیا جا رہا تھا۔ کھانے پینے کی بات کو چند جملوں کے ساتھ ختم کرکے آگے بڑھتے ہیں۔ کچھ دیکھا کچھ سنا ، وہ کچھ یوں ہے کہ شامیانے لگے ہوئے تھے، دیکھیں چڑھی ہوئی تھیں، گرم گرم بھاپ دلوں کو گرما رہی تھی، تندور لگے ہوئے تھے، پیڑے بنائے جا رہے تھے، نان تیار ہو رہے تھے، قورمہ دیگ میں تیاری کے مراحل طے کر رہا تھا، بریانی کی خوشبو گیٹ توڑ توڑ کر باہر تک جا رہی تھی۔ گوجرانوالہ کے پہلوان سج دھج کر بڑی آن بان کے ساتھ پولنگ اسٹیشن کی طرف جا رہے تھے۔
ایک شخص کے پوچھنے پر بتایا کہ ہم نے زبردست ناشتہ کیا ہے۔ ناشتے کے بعد دوپہر تک کھانے کی باری آگئی، ڈیرے آباد ہونے لگے، غریب ووٹروں کو پیٹ بھر کھانا ملنے لگا، معلوم نہیں کون غریب کتنے وقت کا بھوکا ہوگا کہ آج وہ بریانی کی تھال پر ٹوٹ پڑا ہے۔ ایک تھال کے ارد گرد کئی افراد بیٹھے ہیں، بریانی ختم ہوتی ہے ایک بھاگ کر جاتا ہے دوسری اٹھا لاتا ہے۔ آج ان غریبوں، مسکینوں کے لیے عید کا سماں ہے۔ کھانے پینے کی بات ختم کرتے ہیں۔
دیکھتے ہیں کہ ہر جگہ شامیانے، قناتیں، کرسیاں میز کپڑے ان پر سجائے گئے۔ڈیکوریشن والوں کی چاندی ہوگئی۔ ٹرانسپورٹروں کی بھی چاندی ہوتی رہی۔ ووٹرز کو سارا دن پولنگ اسٹیشن کے قریب امیدوار کے کیمپ پہنچاتے رہے اور امیدوار سے منہ مانگے دام سمیٹتے رہے۔ پھول والوں کا کاروبار بھی خوب چمکتا رہا۔ مٹھائی والوں نے کئی دن پہلے سے تیاری کر رکھی تھی۔ غیر سرکاری غیر حتمی نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے جیتنے والوں نے خوب مٹھائی بانٹی۔ ڈھول بجانے والوں کی بھی مراد بر آئی تھی۔
جمعرات صبح 8 بجے تا 5 بجے تک بہت سے ووٹرز پریشان بھی رہے۔ بہت سے گھر والوں نے بتایا کہ ان کے گھر کے افراد کے ووٹ بکھر گئے ہیں۔ کوئی ایک پولنگ اسٹیشن کوئی دوسرا کسی اور پولنگ اسٹیشن میں درج تھا۔ جنھیں تلاش کرنے میں کئی گھنٹے صرف ہوگئے۔ چونکہ عام انتخابات والے روز ہی ملک بھر میں موبائل انٹرنیٹ سروس بند رہی تھی۔
لہٰذا 8300 سے معلومات لینے کا سلسلہ ہی ختم ہو چکا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس سروس سے دو کروڑ ووٹرز نے فائدہ اٹھایا، آیندہ اگر ایسا کوئی انتظام ہو جائے کہ ہر ووٹرز کو آگاہ کر دیا جائے اس کے موبائل فون پر اسے بتایا جائے کہ کہاں اس کا پولنگ اسٹیشن ہے وغیرہ وغیرہ۔ بہت سی جگہوں میں انتخابی فہرستوں میں بے قاعدگیاں بھی دیکھنے میں آئیں۔
کہیں عملے کی کمی کی شکایت، کہیں پولنگ تاخیر سے شروع ہونے کی شکایت۔ یاد آیا پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد بھی بہت سے ووٹرز اپنے حق رائے دہی کے استعمال سے محروم رہے کہ عینی شاہد محمد عزیر نے بتایا کہ گلستان جوہر بلاک 2 شاہین اسکول کے پولنگ اسٹیشن کے باہر سیکڑوں افراد 5 بجے کے بعد بھی موجود تھے کہ اب وقت ختم ہو چکا ہے اور متمنی تھے کہ وقت بڑھایا جائے تاکہ وہ اپنا ووٹ کاسٹ کر سکیں۔ کچھ اظہار تاسف کر رہے تھے کچھ کف افسوس مل رہے تھے۔
بہر حال اس الیکشن کے نتیجے میں آزاد امیدواروں کا پلڑا بھاری ہو چکا ہے۔ امید ہے کہ الیکشن سے جمہوریت مضبوط ہوگی اور عوام کی امیدیں پوری ہوں گی۔ نگراں حکومت نے ایک اچھا کارنامہ کر دکھایا ہے۔ پاک فوج نے الیکشن عمل میں سیکیورٹی کی فراہمی میں کلیدی کردار ادا کرکے قوم کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔
نئی حکومت جلد ہی قائم ہو جائے گی جسے ہر حال میں عوام ، تاجروں، صنعتکاروں، کارخانہ داروں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ ملکی معیشت کی بحالی کے لیے عوام دوست، تاجر دوست ایسی پالیسیاں تشکیل دینا ہوں گی جس سے ہر شخص برسر روزگار ہو، ملک کو امپورٹ کنٹری سے نکال کر ایکسپورٹ میں زبردست اور تیزی سے ترقی کرنے والا ملک بنانا ہوگا جس کے لیے چھوٹے بڑے کارخانوں کے قیام کے لیے مراعاتی پالیسی کا اعلان کیا جائے۔
ملک کو ایک قابل عمل اور ایسی تعمیراتی پالیسی دی جائے تاکہ پلاٹ بھی سستا مہیا ہو اور غریب شخص بھی اپنا گھر بنا سکے۔ ایسی تعمیراتی پالیسی لے کر آئیں جس سے بلڈرز کو پابند کیا جائے کہ تعمیرات سے وابستہ جن تقریباً 100 انڈسٹریوں کا مال استعمال ہوتا ہے وہ سب میڈ ان پاکستان ہونا چاہیے پھر وہ حکومتی مراعاتی تعمیراتی پالیسی سے استفادہ کر سکتا ہے۔ یہی بات محلات بنانے والے، بنگلے بنانے والوں کو بھی سمجھانے کی ضرورت ہے۔
ملک کو صرف میڈ ان پاکستان کی طرف لے کر جائیں اسی کی ملکی کھپت بھی ہو اور ایکسپورٹ بھی مکمل طور پر پاکستانی میٹریل پر مبنی ہو۔ روپے کی مکمل طرف داری کرنا ہوگی، اپنی کرنسی کو سر پر اٹھانا ہوگا۔ اب بتدریج ایسی پالیسی اپنائی جائے کہ آیندہ چل کر جلد ازجلد آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل ہو۔ ملک میں جتنے تعمیراتی فلاحی اور معاشی منصوبے شروع ہیں یا درمیان میں ہیں یا مکمل ہونے کے قریب ہیں ان کو جلد ازجلد مکمل کیا جائے۔
ملک کو ایسی زرعی پالیسی بنا کر دی جائے کہ کوئی بھی قابل کاشت جگہ کاشت سے خالی نہ رہے۔ ہر طرف درخت لگے ہوں، بے شمار، قطار در قطار، بنجر زمینوں کو کیا جائے آباد۔ ریلوے کی خالی زمینیں ہوں یا کسی اور ادارے کی سب ہوں سرسبز و شاداب۔ بڑی بڑی غیر آباد ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے خالی احاطے جب تک تعمیرات کا آغاز نہیں ہوتا ان پر فصلیں اگائی جائیں، پھول اگائے جائیں، پودے لگائے جائیں تاکہ پوری غیر آباد سوسائٹی پر پھولوں کی بہار کا راج ہو پھر دیکھیے یہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بھی جلد ازجلد آباد ہو کر رہیں گی۔
کیمپ کو فعال کرنے میں بڑی کمی محسوس کی جا رہی تھی کہ ایک بزرگ آگے بڑھے ان کے ساتھ بزرگ خاتون بھی آگے بڑھیں اور ایک نے کرسی اٹھا کر میز کے گرد لگائی دوسرے نے میز پر کپڑے بچھائے۔ دونوں نے چند منٹ کی محنت سے کیمپ کا رنگ ہی بدل دیا۔ ووٹرز کو معلومات دینے لگے۔ ووٹر لسٹ میں ان کے نام چیک کرنے لگے۔
انھیں پولنگ اسٹیشن کی راہ دکھانے لگے۔ لوگوں کی آمد و رفت بڑھنے لگی۔ کاروں سے بزرگ خواتین، بڑے بوڑھے، نوجوان اترتے چلے جا رہے تھے۔ ارد گرد کے کیمپوں میں پھیل کر معلومات لے رہے تھے۔ عوام کا رش بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ ہر پولنگ اسٹیشن کے ارد گرد میلے کا سماں تھا۔ اس الیکشن کو بچے اور بچیاں بھی خوب انجوائے کر رہی تھیں۔ بہت سے امیدواروں نے اپنے کارکنوں، حمایتیوں کے لیے صبح سویرے ہی ناشتے کا انتظام کر رکھا تھا۔
مختلف رپورٹرز اپنے چینلز کو یہ اطلاع دے رہے تھے کہ پائے، چنے، حلوہ پوری، نان کلچے، چائے وغیرہ کے ساتھ زبردست ناشتہ دیا جا رہا تھا۔ کھانے پینے کی بات کو چند جملوں کے ساتھ ختم کرکے آگے بڑھتے ہیں۔ کچھ دیکھا کچھ سنا ، وہ کچھ یوں ہے کہ شامیانے لگے ہوئے تھے، دیکھیں چڑھی ہوئی تھیں، گرم گرم بھاپ دلوں کو گرما رہی تھی، تندور لگے ہوئے تھے، پیڑے بنائے جا رہے تھے، نان تیار ہو رہے تھے، قورمہ دیگ میں تیاری کے مراحل طے کر رہا تھا، بریانی کی خوشبو گیٹ توڑ توڑ کر باہر تک جا رہی تھی۔ گوجرانوالہ کے پہلوان سج دھج کر بڑی آن بان کے ساتھ پولنگ اسٹیشن کی طرف جا رہے تھے۔
ایک شخص کے پوچھنے پر بتایا کہ ہم نے زبردست ناشتہ کیا ہے۔ ناشتے کے بعد دوپہر تک کھانے کی باری آگئی، ڈیرے آباد ہونے لگے، غریب ووٹروں کو پیٹ بھر کھانا ملنے لگا، معلوم نہیں کون غریب کتنے وقت کا بھوکا ہوگا کہ آج وہ بریانی کی تھال پر ٹوٹ پڑا ہے۔ ایک تھال کے ارد گرد کئی افراد بیٹھے ہیں، بریانی ختم ہوتی ہے ایک بھاگ کر جاتا ہے دوسری اٹھا لاتا ہے۔ آج ان غریبوں، مسکینوں کے لیے عید کا سماں ہے۔ کھانے پینے کی بات ختم کرتے ہیں۔
دیکھتے ہیں کہ ہر جگہ شامیانے، قناتیں، کرسیاں میز کپڑے ان پر سجائے گئے۔ڈیکوریشن والوں کی چاندی ہوگئی۔ ٹرانسپورٹروں کی بھی چاندی ہوتی رہی۔ ووٹرز کو سارا دن پولنگ اسٹیشن کے قریب امیدوار کے کیمپ پہنچاتے رہے اور امیدوار سے منہ مانگے دام سمیٹتے رہے۔ پھول والوں کا کاروبار بھی خوب چمکتا رہا۔ مٹھائی والوں نے کئی دن پہلے سے تیاری کر رکھی تھی۔ غیر سرکاری غیر حتمی نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے جیتنے والوں نے خوب مٹھائی بانٹی۔ ڈھول بجانے والوں کی بھی مراد بر آئی تھی۔
جمعرات صبح 8 بجے تا 5 بجے تک بہت سے ووٹرز پریشان بھی رہے۔ بہت سے گھر والوں نے بتایا کہ ان کے گھر کے افراد کے ووٹ بکھر گئے ہیں۔ کوئی ایک پولنگ اسٹیشن کوئی دوسرا کسی اور پولنگ اسٹیشن میں درج تھا۔ جنھیں تلاش کرنے میں کئی گھنٹے صرف ہوگئے۔ چونکہ عام انتخابات والے روز ہی ملک بھر میں موبائل انٹرنیٹ سروس بند رہی تھی۔
لہٰذا 8300 سے معلومات لینے کا سلسلہ ہی ختم ہو چکا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس سروس سے دو کروڑ ووٹرز نے فائدہ اٹھایا، آیندہ اگر ایسا کوئی انتظام ہو جائے کہ ہر ووٹرز کو آگاہ کر دیا جائے اس کے موبائل فون پر اسے بتایا جائے کہ کہاں اس کا پولنگ اسٹیشن ہے وغیرہ وغیرہ۔ بہت سی جگہوں میں انتخابی فہرستوں میں بے قاعدگیاں بھی دیکھنے میں آئیں۔
کہیں عملے کی کمی کی شکایت، کہیں پولنگ تاخیر سے شروع ہونے کی شکایت۔ یاد آیا پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد بھی بہت سے ووٹرز اپنے حق رائے دہی کے استعمال سے محروم رہے کہ عینی شاہد محمد عزیر نے بتایا کہ گلستان جوہر بلاک 2 شاہین اسکول کے پولنگ اسٹیشن کے باہر سیکڑوں افراد 5 بجے کے بعد بھی موجود تھے کہ اب وقت ختم ہو چکا ہے اور متمنی تھے کہ وقت بڑھایا جائے تاکہ وہ اپنا ووٹ کاسٹ کر سکیں۔ کچھ اظہار تاسف کر رہے تھے کچھ کف افسوس مل رہے تھے۔
بہر حال اس الیکشن کے نتیجے میں آزاد امیدواروں کا پلڑا بھاری ہو چکا ہے۔ امید ہے کہ الیکشن سے جمہوریت مضبوط ہوگی اور عوام کی امیدیں پوری ہوں گی۔ نگراں حکومت نے ایک اچھا کارنامہ کر دکھایا ہے۔ پاک فوج نے الیکشن عمل میں سیکیورٹی کی فراہمی میں کلیدی کردار ادا کرکے قوم کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔
نئی حکومت جلد ہی قائم ہو جائے گی جسے ہر حال میں عوام ، تاجروں، صنعتکاروں، کارخانہ داروں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ ملکی معیشت کی بحالی کے لیے عوام دوست، تاجر دوست ایسی پالیسیاں تشکیل دینا ہوں گی جس سے ہر شخص برسر روزگار ہو، ملک کو امپورٹ کنٹری سے نکال کر ایکسپورٹ میں زبردست اور تیزی سے ترقی کرنے والا ملک بنانا ہوگا جس کے لیے چھوٹے بڑے کارخانوں کے قیام کے لیے مراعاتی پالیسی کا اعلان کیا جائے۔
ملک کو ایک قابل عمل اور ایسی تعمیراتی پالیسی دی جائے تاکہ پلاٹ بھی سستا مہیا ہو اور غریب شخص بھی اپنا گھر بنا سکے۔ ایسی تعمیراتی پالیسی لے کر آئیں جس سے بلڈرز کو پابند کیا جائے کہ تعمیرات سے وابستہ جن تقریباً 100 انڈسٹریوں کا مال استعمال ہوتا ہے وہ سب میڈ ان پاکستان ہونا چاہیے پھر وہ حکومتی مراعاتی تعمیراتی پالیسی سے استفادہ کر سکتا ہے۔ یہی بات محلات بنانے والے، بنگلے بنانے والوں کو بھی سمجھانے کی ضرورت ہے۔
ملک کو صرف میڈ ان پاکستان کی طرف لے کر جائیں اسی کی ملکی کھپت بھی ہو اور ایکسپورٹ بھی مکمل طور پر پاکستانی میٹریل پر مبنی ہو۔ روپے کی مکمل طرف داری کرنا ہوگی، اپنی کرنسی کو سر پر اٹھانا ہوگا۔ اب بتدریج ایسی پالیسی اپنائی جائے کہ آیندہ چل کر جلد ازجلد آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل ہو۔ ملک میں جتنے تعمیراتی فلاحی اور معاشی منصوبے شروع ہیں یا درمیان میں ہیں یا مکمل ہونے کے قریب ہیں ان کو جلد ازجلد مکمل کیا جائے۔
ملک کو ایسی زرعی پالیسی بنا کر دی جائے کہ کوئی بھی قابل کاشت جگہ کاشت سے خالی نہ رہے۔ ہر طرف درخت لگے ہوں، بے شمار، قطار در قطار، بنجر زمینوں کو کیا جائے آباد۔ ریلوے کی خالی زمینیں ہوں یا کسی اور ادارے کی سب ہوں سرسبز و شاداب۔ بڑی بڑی غیر آباد ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے خالی احاطے جب تک تعمیرات کا آغاز نہیں ہوتا ان پر فصلیں اگائی جائیں، پھول اگائے جائیں، پودے لگائے جائیں تاکہ پوری غیر آباد سوسائٹی پر پھولوں کی بہار کا راج ہو پھر دیکھیے یہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بھی جلد ازجلد آباد ہو کر رہیں گی۔