وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا

ہماری اشرافیہ میں سو عیب ہیں۔ اس کے سیاسی نمایندے عوامی مسائل کے بارے میں عمومی طور پر قطعی بے حس بھی نظر آتے ہیں...


Nusrat Javeed June 06, 2014
[email protected]

صدر ممنون حسین کے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب اور اس کے ایک روز بعد اسحاق ڈار کی بجٹ تقریر کے دوران صرف ایک رکنِ اسمبلی نے کچھ شور شرابہ کرنے کی کوشش کی۔ ایسا کرتے ہوئے جمشید دستی بارہا شیخ رشید اور تحریک انصاف کے بہت سارے اراکین کی طرف مدد طلب کرتی نگاہوں سے بھی دیکھتے پائے گئے۔ کوئی ایک رکن بھی لیکن ان کی مدد کو نہیں آیا۔ دستی کی ان سولو فلائٹس کو میں نے میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کی بچگانہ کوشش کے سوا اور کچھ نہ سمجھا۔ دو دن گزر جانے کے بعد مگر آہستہ آہستہ بات کھل رہی ہے کہ اسمبلی کے ایوان میں سلطان راہی بنے جمشید دستی دراصل دل ہی دل میں ان دنوں بہت پریشان ہیں۔

200 اراکین اسمبلی نے اپنے دستخطوں کے ساتھ قومی اسمبلی کے اسپیکر کو ان کے خلاف ایک باقاعدہ تحریک استحقاق بھیج دی ہے۔ محض قانونی حوالوں سے دیکھا جائے تو اس تحریک کو نظرانداز کرنا سردار ایاز صادق کے لیے بہت مشکل ہو گا۔ دستی کے خلاف تحریک بھیجنے والوں کا اصرار ہے کہ آج سے چند ماہ پہلے ٹیلی ویژن اسکرینوں پر خالی بوتلوں والی بوری کے ساتھ بارہا نمودار ہو کر مظفر گڑھ کے اس ''پارسا انقلابی''نے ان کو اجتماعی طور پر رسوا کیا ہے۔ سارے ملک کو یہ پیغام دیا ہے کہ عوام سے ووٹ لے کر قومی اسمبلی میں پہنچ جانے کے بعد اس کے اراکین کی اکثریت اسلام آباد میں ان کے لیے بنائے Flats میں غیر اخلاقی سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتی ہے۔

دستی صاحب نے یہ قصہ قومی اسمبلی ہی کے ایک اجلاس میں بیان کیا تھا۔ ان کی تسلی کے لیے قومی اسمبلی کے اراکین پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی بنائی گئی۔ دستی صاحب نے اس کمیٹی کے اجلاسوں میں شریک ہو کر اپنے لگائے ہوئے الزامات کا شدت سے دفاع کرنے کا تردد ہی نہ کیا۔ اس پر بالآخر عدم اعتماد کا اظہار بھی کر دیا۔ میری دانست میں قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی نے اس کے باوجود کافی درگزر سے کام لیا۔ ایسی کمیٹیاں جب کسی بھی شہری کو کسی بھی حوالے سے طلب کریں تو وہاں حاضری ضروری ہے۔ دانستہ غیر حاضری سے نبٹنے کے لیے ان کمیٹیوں کو تقریباََ وہی اختیارات حاصل ہیں جو اعلیٰ عدالتوں کو کسی شخص کی پیشی کو یقینی بنانے کے لیے میسر ہوتے ہیں۔

ہمارے دیسی ساخت کے ''انقلابیوں'' کے ساتھ مسئلہ مگر یہ بھی ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے بڑھکیں لگا کر ہیرو تو بنا کرتے ہیں۔ مگر جب کوئی ان کی Bullying کو سنجیدگی سے چیلنج کر ڈالے تو نہایت خاموشی سے بکری بن جانے کو فوقیت دیتے ہیں۔ دستی صاحب نے اپنی جانب سے لگائے الزام کی تحقیق کے لیے بنائی کمیٹی کے سلسلے میں بھی یہی کچھ کیا۔ میرے پاس تین سے زیادہ مستند ذرایع سے اس ملاقات کی پوری تفصیل موجود ہے جو دستی صاحب نے کافی منت سماجت کے بعد سردار ایاز صادق سے کی تھی۔ اس ملاقات میں ان کی ''داد فریاد'' کو میں ہوبہو الفاظ میں بیان کر سکتا ہوں۔ مجھے مگر لوگوں کے بھرم برقرار رکھنے کی بیماری ہے۔ کسی کی ذات کے بارے میں بہت مجبور ہو کر ہی زبان کھولا کرتا ہوں۔ اس لیے درگزر ہی بہتر ہے۔

قومی اسمبلی کے سارے اراکین فرشتے ہرگز نہیں ہیں۔ وہ میرے اور آپ کی طرح انسان ہیں۔ اسی معاشرے کے نمایندے جہاں پارسائی کا شور تو بہت مچایا جاتا ہے مگر دودھ اور دوائوں جیسی بنیادی اشیاء بھی خالص نہیں ملتیں۔ پارلیمانی لاجز کا ذکر کرتے ہوئے میں آپ کو پوری ذمے داری کے ساتھ بتا سکتا ہوں کہ وہاں 70 فیصد کے قریب اراکین پارلیمان اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔

خواتین کی نشستوں پر منتخب ہونے والی اراکین کے لیے یہ ایک محفوظ ترین ''محلہ'' ہے۔ اور ان خواتین میں سے کئی ایسی ہیں جو سینیٹ یا قومی اسمبلی کے اجلاسوں کے دوران یہاں تنہا قیام پذیر ہوتی ہیں۔ مائوں بہنوں اور بچوں کے ساتھ عام علاقوں میں رہنے والے لوگ بھی خوب جانتے ہیں کہ ان کے محلے کی ''شہرت'' ہمارے جیسے معاشرے میں کتنی اہم ہوا کرتی ہے۔ ''پارلیمانی لاجز'' کو آپ بوریوں میں خالی بوتیں بھر کر ٹیلی ویژن اسکرینوں پر گلا پھاڑتے ہوئے ''غیر اخلاقی سرگرمیوں کے گڑھ'' ثابت کرنا شرع ہو جائیں تو وہاں کے مکین اجتماعی طور پر لعنت ملامت کا نشانہ بن جاتے ہیں۔

ہماری اشرافیہ میں سو عیب ہیں۔ اس کے سیاسی نمایندے عوامی مسائل کے بارے میں عمومی طور پر قطعی بے حس بھی نظر آتے ہیں۔ ان کے اندازِ سیاست کی کئی ایسی باتیں ہیں جن کی شدید ترین الفاظ میں مسلسل مذمت ہونا چاہیے۔ ان کی قابلِ مذمت حرکتوں سے مگر ان کے بچوں کو ''غیر اخلاقی سرگرمیوں کے گڑھ'' کے باسی بنا کر دُنیا کے سامنے رسوا کر دینا مگر کسی بھی صورت جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پارسائی کے غضب سے اندھے ہوئے دستی نے مگر یہ سب کچھ بڑے ہی بے دریغ انداز میں کر ڈالا۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر سے اکیلے میں مل کر انھیں اس معاملے کو بھلا دینے کا مناسب موقعہ مل گیا تھا۔ صدر ممنون کے خطاب اور اسحاق ڈار کی بجٹ تقریر کے دوران خواہ مخواہ نظر آنے والی پھرتیوں سے انھیں اب اپنے ہاتھ سے لگائے زخم یاد دلانے کی ہرگز ضرورت نہ تھی۔ اب وہ جانیں اور قومی اسمبلی۔

1985ء سے پارلیمان کے بارے میں مسلسل لکھتے ہوئے لیکن میرے دل میں اب اور طرح کے خدشات اُمڈ آئے ہیں۔ حالیہ چند ہفتوں میں ہونے والے کچھ واقعات کی وجہ سے ہمارے میڈیا کی مجموعی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ ہماری اشرافیہ کے تمام تر لوگ خواہ ان کا تعلق کسی بھی شعبے یا محکمے سے ہو یہ سوچتے نظر آ رہے ہیں کہ بالآخر وقت آگیا ہے کہ ''دو ٹکے کے صحافیوں'' کو ان کی ''اصل اوقات'' میں واپس بھیج دیا جائے۔

1985ء کی قومی اسمبلی کے قیام کے چند ہی روز بعد کچھ اراکین اسمبلی نے ان کے بارے میں چھپی چند اخباروں کی خبروں اور کالموں کے خلاف ''تحاریکِ استحقاق'' پیش کرنا شروع کر دی تھیں۔ سید فخر امام کو خدا خوش رکھے۔ انھوں نے ایک تاریخی رولنگ دے کر ایسی تحاریک کا راستہ روک دیا۔ اپنی رولنگ میں انھوں نے پریس گیلری کو قومی اسمبلی کے ایوان کی Extension قرار دے کر اس کی توقیر کو مسلم کر دیا۔ مجھے یقین ہے کہ دستی کے بعد اب کئی صحافی بھی قومی اسمبلی کے تقریباََ ہر اجلاس میں تحاریکِ استحقاق کا نشانہ بنائے جائیں گے۔ وہ دن ہوا ہوئے جب ہمارا یعنی پارلیمان کے بارے میں لکھنے اور بولنے والے صحافیوں کا پسینہ گلاب تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں