نیا سیاسی منظرنامہ اور اس کے تقاضے

بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے بارے میں زیادہ کچھ کہنے کی اس لیے کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔۔


Shakeel Farooqi June 06, 2014
[email protected]

وطن عزیز پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع انتہائی اہمیت کا حامل ہے جہاں ایک جانب اس کی سرحدیں اپنے ازلی دشمن بھارت سے ملتی ہیں تو دوسری جانب اسے اپنے آزمائے ہوئے دوست چین کا قرب بھی حاصل ہے۔ اس کے علاوہ اس کی سرحدیں مسلم آبادی والے ممالک افغانستان اور ایران سے بھی ملی ہوئی ہیں۔ تزویراتی اعتبار سے یہ Locationکچھ اس نوعیت کی ہے کہ جس کے بارے میں صرف یہی کہنے پر اکتفا کیا جاسکتا ہے کہ:

اے روشنی طبع تو برمن بلاشدی

بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے بارے میں زیادہ کچھ کہنے کی اس لیے کوئی ضرورت نہیں کہ وہ تو اس کے قیام ہی کا مخالف ہے اور روز اول سے اس کے وجود کو ہی صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے درپے ہے۔ یہ اسی کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا نتیجہ تھا کہ 1971 میں سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہوا اور ہمارا مشرقی بازوکٹ کر ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگیا۔ اس سانحے کے پس پشت سب سے گھناؤنا کردار اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ادا کیا تھا جس کا تعلق سیکولرازم کی چیمپئن اس سیاسی جماعت کانگریس سے تھا جو ہندوستان کے حالیہ عام انتخابات میں تاریخ کی بدترین شکست سے دوچار ہونے کے بعد اپنے کیفر کردار کو پہنچ گئی ہے۔

رہا سوال پاکستان کے دوسرے پڑوسی افغانستان کا تو اس کی بکاؤ قیادت نے قیام پاکستان کے وقت ضمیر فروشی اور بھارت نوازی کی اس قدر انتہا کردی کہ ایک عرصے تک ہمارے وطن عزیز کے وجود ہی کو تسلیم نہیں کیا۔ ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ صرف طالبان کے مختصر سے عرصہ حکمرانی کے سوائے افغانستان میں زیادہ تر بھارت کے ہمنوا حکمراں ہی اقتدار پر قابض رہے ہیں۔ ہم اس منظر کے عینی شاہد ہیں جب بھارت کے آنجہانی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو افغانستان کے حکمرانوں سردار داؤد اور سردار نعیم کا دلی میں سواگت کر رہے تھے اور افغانستان کے یہ دونوں قائدین ان سے بغل گیر ہو رہے تھے۔ لگتا ہے کہ آج حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ جیسے بھارت نواز قائدین کی صورت میں تاریخ اپنے آپ کو ایک مرتبہ پھر دہرا رہی ہے۔ عبداللہ عبداللہ کی اصلیت سے بھلا کون واقف نہیں ہے۔

بھارتی حکمرانوں کا دست شفقت ہمیشہ ان کے سر پر رہا ہے اور انھوں نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ بڑے عیش کے دن بھارت میں گزارے ہیں۔ اب افغانستان میں صدارتی منصب پر فائز ہونے کے بعد کیا وہ بھارت کا حق نمک ادا نہیں کریں گے؟ حق نمک ادا کرنے میں تو حامد کرزئی نے بھی اپنی جانب سے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کے نومنتخب وزیر اعظم نریندر مودی نے نہ صرف سب سے پہلے شرف ملاقات ان ہی کو بخشا بلکہ دونوں لیڈروں کی باڈی لینگویج سے دونوں کی قرابت اور گرم جوشی بالکل صاف ظاہر ہو رہی تھی۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے برسوں سے بچھڑے ہوئے دو ہم مشرب یا سگے بھائی آپس میں مل رہے ہوں۔ اس کے بعد جب وزیر اعظم میاں نواز شریف سے ملاقات کی باری آئی تو مودی جی کا رویہ کچھ اور ہی تھا۔ جس کا اظہار ایک مشہور فلمی گانے کے یہ بول کر رہے تھے:

لاکھ چھپاؤ' چھپ نہ سکے گا راز ہو کتنا گہرا

دل کی بات بتا دیتا ہے اصلی نقلی چہرا

اگرچہ مصافحہ بھی ہوا اور مسکراتے ہوئے تصویر بھی کھینچی گئی مگر یہ سب کارروائی محض رسمی اور دنیا دکھاوے کے لیے تھی۔ سچ پوچھیے تو سارک ممالک کے سربراہوں کے حوالے سے میاں صاحب کو تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت بھی مودی کی ایک ڈپلومیٹک چال تھی جس کا مطلب دنیا کو یہ دکھانا تھا کہ بھارت کے نئے پردھان منتری کتنے نیک نیت اور کشادہ دل ہیں۔ اگر میاں صاحب مودی کے اس دعوت نامے کو ٹھکرا دیتے تو مودی جی انھیں دنیا بھر میں رسوا اور بدنام کرنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑتے۔

دوسری جانب اندرون ملک بعض حلقوں کا اصرار تھا کہ میاں صاحب اس وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری میں ہرگز شرکت نہ کریں جس کے ہاتھ گجرات کے مظلوم مسلمانوں کے خون میں رنگے ہوئے ہیں، لیکن میاں نواز شریف نے مخالف حلقوں کی ناراضگی کا خطرہ مول لے کر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے ذریعے مودی کی ڈپلومیٹک چال کا جواب ڈپلومیسی کے ذریعے دے دیا۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے خیرسگالی کے جذبے کا اظہار کرتے ہوئے پاک بھارت تعلقات کے سلسلے کو دوبارہ وہیں سے شروع کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کردیا جہاں سے یہ سلسلہ بی جے پی کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورہ لاہور کے بعد ٹوٹا تھا۔

میاں صاحب نے صرف اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بی جے پی کے سابق وزیر اعظم واجپائی کی مزاج پرسی کے لیے بھی گئے جو آج کل علیل ہیں۔ مگر میاں صاحب کی روایتی شرافت کا جواب پردھان منتری نریندر مودی کی جانب سے حسب عادت اور حسب فطرت اس ڈھٹائی کے ساتھ دیا گیا اور عقابی انداز میں اپنے مطالبات پیش کیے گئے جن میں ممبئی حملوں کا معاملہ نمایاں طور پر شامل تھا۔

بھارت میں وزارت عظمیٰ اور افغانستان میں عہدہ صدارت کے لیے ہونے والے انتخابات ایک نئے سیاسی منظرنامے کی غمازی کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں کچھ اہم تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔ بھارت اور افغانستان کا سیاسی گٹھ جوڑ عبداللہ عبداللہ کی افغان صدارت کی صورت میں ایک نئی اور اہم سیاسی کروٹ لے سکتا ہے۔ ان حالات میں اگر میاں نواز شریف کی حکومت نے بھارت کو افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں تک راہداری کی تجارتی سہولت فراہم کردی تو ایسے حالات میں بھارت اور افغانستان کی نئی سیاسی قیادتوں کا خطرناک گٹھ جوڑ پاکستان کی بقا اور سلامتی کے علاوہ بعض دیگر قومی مفادات کے حوالے سے بھی گہری تشویش کا باعث ہونے کے علاوہ شدید اور تباہ کن پیچیدگیاں اور الجھنیں بھی پیدا کرسکتا ہے۔

دوسری جانب بھارت کے نومنتخب وزیر اعظم نریندر مودی اپنے انتخاب سے پہلے ہی عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی رابطوں میں اضافے کی باتیں کرتے رہے ہیں جس کا اولین مقصد پاکستان اور اس کے دیرینہ دوست اور پڑوسی کے درمیان فاصلے بڑھانا اور غلط فہمیاں پیدا کرنا ہے۔

ان گمبھیر حالات میں ہماری وزارت خارجہ کو جس کا قلم دان وزارت ، خود وزیر اعظم کے پاس اضافی ذمے داری کی صورت میں پڑا ہوا ہے بڑے نازک اور سنگین ترین چیلنجوں کا سامنا ہے۔ گویا پاکستان اس وقت چکی کے دو پاٹوں کے درمیان ہے، مشرق میں مودی کا ہندوستان اور شمال مغربی رخ پر عبداللہ عبداللہ کا افغانستان۔ بھارت کی پچھلی حکومت نے تو ہمارے مغربی پڑوسی اور برادر ملک ایران سے بھی ہمارے تعلقات خراب کرنے کی بڑی کوشش کی تھی لیکن شکر کا مقام ہے کہ ہماری حکومت اور وزارت خارجہ نے بھارت کے ان مذموم اور ناپاک عزائم کو بروقت بھانپ لیا اور ایران کی قیادت کو گمراہ کرنے کی تمام چالوں کو ناکام کردیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس خطے کے نئے سیاسی منظر نامے کے حوالے سے سال 2014 وطن عزیز پاکستان کے لیے انقلابی تبدیلیوں کا سال ہے جس میں بھارت اور افغانستان میں ابھرنے والی نئی سیاسی قیادتوں کے علاوہ افغانستان سے امریکی اتحادی افواج کے انخلا کی صورت میں رونما ہونے والی سب سے بڑی سیاسی تبدیلی سب سے اہم اور انتہائی توجہ طلب ہے۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ پاکستانی قوم زیادہ سے زیادہ اتحاد کا مظاہرہ کرے اور سیاسی اور فوجی قیادت شانہ بہ شانہ نئے چیلنجوں سے نبرد آزما ہو تاکہ ملک کی سلامتی پر کوئی آنچ نہ آنے پائے اور کسی کو بھی ہماری جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی ہمت و جرأت نہ ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔