تمہیں کیا کرنا ہے
’’اگر وہ اپنا مقام بھول گیا ہے تو کیا تمہیں بھی بھول جانا چاہیے کہ تمہیں کیا کرنا ہے؟‘‘
KARACHI:
واقعہ ایسا نہیں کہ میں اسے دہراتی لیکن جب میں سوشل میڈیا پر اختلاف کی صورت میں استعمال کی جانیوالی زبان دیکھتی ہوں تو نہ صرف وہ واقعہ یاد آجاتا ہے بلکہ یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ لیڈر اپنے کارکن کو کیسے تیار کرتا ہے۔ واقعہ 1990 کا ہے جب میاں نواز شریف وزیراعظم تھے اور سندھ میں جام صادق علی اکلوتے رکن صوبائی اسمبلی ہونے کے باوجود وزیر اعلیٰ سندھ کے عہدے پر براجمان تھے اور جن کی آشیرباد سے براجمان تھے ان کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے ورکرز اور لیڈرشپ پر خصوصی طور پر مہربان تھے۔
جامعہ کراچی میں میرا ایم ایس سی کا آخری سیمسٹر تھا جب خوف کو بڑھانے کے لیے مجھے بھی گرفتار کیا گیا۔ ان کا خیال تھا کہ خواتین کی گرفتاری سے پیپلز پارٹی کے اکابرین اور کارکن ڈر جائیں گے اور حکومت مخالف سرگرمیوں میں کمی آجائے گی لیکن ہوا اس کے برعکس وہ مجھے ہی خوف زدہ نہیں کرسکے تو کسی اور کو کیا کرتے۔ مجھے دھمکیاں دی جاتی رہیں کہ ''ایسے کیس بنائیں گے کہ کئی برس تک باہر نہیں نکل سکوگی'' کو عملی جامہ پہناتے ہوئے خوفزدہ کرنے میں ناکام رہنے والوں نے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے بھیانک کیس بنا دیے اور ایک ماہ بعد جیل بھیج دیا گیا اب ایک نیا دور شروع ہوا۔
پیشیاں انسداد دہشت گردی کورٹ میں ہوتی تھیں کیونکہ الزامات ہی کچھ ایسے تھے، بے نظیر بھٹوکو دباؤ میں لینے کے لیے آصف علی زرداری پر سنگین ترین مقدمات بنائے گئے اور ان کی حاضری بھی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں یقینی بنائی جاتی تھی ۔یہ ڈیزائن کرنے والوں کے ذہن میں شاید یہ تھا کہ ہم جیسے کارکن جب لیڈر کو اپنی بے بسی میں دیکھیں گے تو انھیں عقل آجائے گی۔ لیکن ہوا کچھ یوں کہ لیڈرشپ کو اتنا قریب دیکھ کر ہم کارکنوں کو ''عقل'' کیا آتی ہمارے حوصلے اور بڑھ گئے اور انسداد ہشت گردی کورٹ جس کا ماحول اس طرح بنایا گیا تھا کہ ایک دہشت طاری ہوجاتی تھی ہم سب کے لیے ایک طرح کا پکنک پوائنٹ بن گیا۔
پیشی والے دن خصوصی طور پر تیار ہوکر کورٹ جاتے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو سن کر دل ہی دل میں ہنستے رہنا جھوٹے گواہوں کو مقدس کتابوں پر حلف لے کر بیان دیتے دیکھنا اور پھر وکیلوں کی جرح پر اعتماد کو ہکلاتے دیکھنا، سوال کے جواب میں بار بار پسینہ پونچھنا اور جرح ختم ہوتے تیزی سے نکلتا دیکھنا معمول سا بن گیا تھا ایسے ماحول میں جہاں ڈر اور خوف کا دور دور نشان نہ ہو۔ ایک روز یہ ہوا کہ پیشی جاری تھی بی بی عدالت میں موجود تھیں لیکن جج کی کرسی پر موجود شخص کا رویہ اس روز انتہائی ہتک آمیز تھا صاف ظاہر ہو رہا تھا جج صاحب کو کچھ خصوصی احکامات موصول ہوئے ہیں اور وہ ان احکامات پر عمل کر رہے ہیں۔
اہانت آمیز رویہ صرف بی بی کے ساتھ تھا ورنہ دیگر ملزمان بشمول میرے ان کا رویہ وہی تھا جو روز ہوتا تھا پھر ایک وقت ایسا آیا کہ جج صاحب شاہ کی وفاداری میں حد سے ہی گزر گئے ۔ میں بی بی کے بائیں ہاتھ پر بیٹھی تھی اور بہت دیر سے جذبات پر قابو پانے میں کامیاب ہو رہی تھی لیکن اس آخری حرکت کو برداشت نہ کرسکی نتائج کی پرواہ نہ کرتے ہوئے میں اپنی جگہ سے اٹھنے ہی لگی تھی کہ بی بی نے میرا ہاتھ دبایا ۔میں نے ان کی جانب دیکھا تو انتہائی مدہم آواز میں کہا کہ ''بیٹھ جاؤ'' میں بیٹھنا نہیں چاہتی تھی لیکن انھوں نے گھور کر دیکھا تو مجھے بیٹھنا ہی پڑا جس نے بی بی سے ایک بار پھر ملاقات کی ہے وہ میری بات کی تائید کرے گا کہ بی بی کی آنکھوں میں ایک عجیب طرح کی طاقت تھی جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔شاید اس موقعے پر میں اسی لیے دبک گئی تھی۔
جج صاحب نے اس کے بعد بھی اپنی کارروائیاں جاری رکھیں لیکن عدالت کے برخاست ہوتے ہی بی بی کا رخ میری جانب ہوا۔ ''یہ تم کیا کرنے جا رہی تھیں؟'' انھوں نے کسی قدر برہم سے لہجے میں سوال کیا تھا۔ ''بی بی! وہ آپ۔۔۔۔!'' میں اتنا ہی کہہ پائی تھی کہ بی بی نے ہاتھ اٹھاکر مجھے مزید کچھ کہنے سے روک دیا۔ ''وہ جج ہیں'' انھوں نے کہا لیکن اب کی بار برہمی نہیں تھی۔ ''لیکن وہ تو۔۔۔۔!'' میں نے پھر سے کچھ کہنا چاہا لیکن ایک بار پھر روک دی گئی۔
''اگر وہ اپنا مقام بھول گیا ہے تو کیا تمہیں بھی بھول جانا چاہیے کہ تمہیں کیا کرنا ہے؟'' بی بی کے انداز میں ایک استاد کی شفقت تھی۔ یہ صبر و تحمل ، یہ برداشت،در گزر ، رواداری اور منصف کے مقام کے احترام کا احساس ! کیا کہوں بی بی نے انصاف و قانون اور تاریخ کے کتنے بڑے سبق ایک ہی وقت میں یاد دلائے۔ ''سوری بی بی!'' میرے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا اس واقعے کو ربع صدی ہونے کو ہے لیکن کبھی عدالت جانے کا اتفاق ہوا تو بی بی کے لفظ کانوں میں گونجتے ہیں ۔ صرف یہی نہیں جب کوئی اپنے مقام سے گر جاتا ہے تب بھی بی بی یاد آتی ہیں ۔ ''اگر وہ اپنا مقام بھول گیا ہے تو کیا تم بھی بھول جاؤگی کہ تمہیں کیا کرنا ہے؟''
ہم کو تو انتظار ِسحر بھی قبول ہے
لیکن شب ِ فراق ترا کیا اصول ہے