جسٹس ر رشید اے رضوی

وہ زندگی کے آخری دم تک اس ملک کے کمزور طبقات اور ان کے حق کے لیے کام کرنے والوں کی مدد کرتے رہے

یہ آٹھ فروری 2023 کی سہ پہر تین بجے کا وقت تھا جب مجھے سیکریٹری اطلاعات کے دفتر سے پیغام ملا کہ کمیشن کی میٹنگ میں شرکت کے لیے آجائیں۔ مجھے ابھی کمیشن کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں تھیں تاہم تعمیلِ حکم میں میٹنگ میں شریک ہوگیا۔

یہ وہ موقع تھا جب جسٹس (ریٹائرڈ) رشید اے رضوی سے پہلا بالمشافہ تعارف ہوا۔ جسٹس صاحب جب اِس اجلاس میں کمیشن فار دی پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ ادر میڈیا پریکٹیشنرز (CPJMP) سندھ کے پہلے چیئرمین کی حیثیت سے شرکت کے لیے تشریف لائے تو تمام شرکائے اجلاس نے تعظیماً کھڑے ہوکر اُن کا استقبال کیا۔

باوقار، خوش لباس اور خوش خُلق شخصیت کے حامل جسٹس رشید اے رضوی نے صدارت کی کرسی سنبھالنے کے بعد اجلاس کے باقاعدہ آغاز کے لیے تلاوتِ کلامِ پاک کی درخواست کی۔

اجلاس میں صوبے کے داخلہ، قانون، اطلاعات اور انسانی حقوق کے محکموں کے سیکریٹری جب کہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ)، آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی(APNS)،کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز(CPNE)، پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن (PBA)، سندھ بار کونسل(SBC)، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP)، آل پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز سوسائٹی (APNES) کے نمایندگان اور سندھ اسمبلی کے دو اراکین موجود تھے۔

اُس وقت کے سیکریٹری اطلاعات سندھ عمران عطا سومرو نے اجلاس کے شروع ہوتے ہی مجھے ہدایت کی کہ کمیشن کے فوکل پرسن کی حیثیت سے آج کی میٹنگ کے مِنِٹس بھی آپ ہی تشکیل دیں گے۔ یہ حکم پریشان کُن تھا کیونکہ مِنِٹس لکھنے کے تجربے سے اس سے پہلے میں کبھی نہیں گزرا تھا۔ تاہم ہدایات کی تعمیل تو کرنی تھی سو ذہن کو امتحان کے لیے تیارکیا اور اجلاس کی کارروائی کی روداد لکھنی شروع کردی۔

قرآنِ مجید کی تلاوت کے بعد کمیشن کے تمام معزز اراکین نے اپنا تعارف کرایا اور اس کے بعد کمیشن کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ رشید اے رضوی نے اعلان کیا کہ وہ اِس کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے کوئی تنخواہ یا مراعات نہیں لیں گے بلکہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے قائم اس کمیشن کے چیئرمین کے فرائض بلا معاوضہ اور رضاکارانہ طور پر انجام دینے میں مسرت محسوس کریں گے۔

میرے لیے یہ ایک غیر متوقع بات تھی کیونکہ ایک ایسے سماج میں جہاں مراعات یافتہ اشخاص اور بھی زیادہ مراعات کے لیے دوڑتے پھر رہے ہوں وہاں اپنی مراعات سے ازخود دستبردار ہونے والے جسٹس رشید رضوی جیسے لوگ بمشکل ہی مل پائیں اور جب کہ کمیشن کے قوانین کی رو سے چیئرمین تنخواہ و مراعات کا حقدار بھی ہو ایسی صورت میں جسٹس ریٹائرڈ رشید اے رضوی کا تنخواہ و مراعات لینے سے انکار کردینا قابلِ تحسین اقدام تھا۔

انھوں نے واضح کیا کہ ریٹائرڈ جسٹس کی حیثیت سے انھیں مناسب پنشن ملتی ہے، لٰہذا وہ اپنی نئی ذمے داریوں کے لیے حکومت سے مزید کوئی تنخواہ و مراعات نہیں لیں گے۔کمیشن کے اس پہلے اجلاس میں اراکینِ کمیشن نے متفقہ طور پر راقم کو کمیشن کے سیکریٹری کے فرائض بھی سونپ دیے۔

اجلاس میں کمیشن کے ایکٹ اور رولزکا بغور مطالعہ کیا گیا اور چیئرمین کمیشن جسٹس ریٹائرڈ رشید اے رضوی نے کہا کہ صحافیوں کے حقوق اور ان کی جان و مال کے تحفظ کے لیے آئینِ پاکستان اور اقوامِ متحدہ کے پلان آف ایکشن کی روشنی میں اس کمیشن کوکام کرنا ہے اور صحافیوں اور ان کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے انھوں نے واضح کیا کہ کمیشن کے ایکٹ کی رو سے اقوامِ متحدہ کے دیے گئے، پلان آف ایکشن کے تحت صحافیوں کے تحفظ کے لیے حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کی مانیٹرنگ بھی کمیشن کے مینڈیٹ میں شامل ہے۔


جسٹس ریٹائرڈ رشید اے رضوی نے کمیشن کے پہلے ہی اجلاس میں شریک سرکاری محکموں کے سیکریٹریزکو باور کرایا کہ آئین و قانون کی سربلندی اور جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے اظہارِ رائے کی آزادیوں کا تحفظ اولین ضرورت ہے، لہٰذا صحافیوں کے حقوق اور ان کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے سرکارکے تمام محکموں کو مکمل یگانگت کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ صحافیوں کو اپنے فرائض کی ادائیگی میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہمارا کمیشن صحافیوں کی ان مشکلات کو کم کرنے کے لیے فعال کردار ادا کرے گا اور اس کام کے لیے سرکار کے تمام محکموں کا کمیشن سے تعاون بہت ضروری ہے۔

کمیشن کے اس پہلے اجلاس میں جسٹس (ر) رشید اے رضوی صاحب کی منصف صفت، راست گو اور ملکی و بین الاقوامی قوانین سے آگاہی رکھنے والی معتبر اور محترم شخصیت ابھر کر ہمارے سامنے آئی۔ اِس اجلاس کے مِنِٹس سیکریٹری اطلاعات کو دکھانے کے بعد حتمی منظوری کے لیے جسٹس صاحب کے پاس گیا جنھوں نے کچھ معمولی رد و بدل کے بعد مِنِٹس جاری کرنے کے احکامات دیے۔

اس پہلے اجلاس کے بعد منعقدہ ہر اجلاس کے مِنِٹس کو چیئرمین صاحب بغور پڑھنے اور ضروری درستگی کے بعد جاری کرنے کے احکامات دیتے۔صحافیوں کے ساتھ پیش آنے والے کسی بھی اہم واقعے پر جسٹس صاحب کمیشن کا اجلاس طلب کرتے اور متعلقہ صحافی/ صحافیوں کی جلد از جلد داد رسی کے لیے خطوط متعلقہ محکموں کو فوری بھجوائے جاتے اور تیز تر کارروائی کے لیے ریمائنڈر بھی لکھے جاتے۔

صحافیوں کی جانب سے موصول ہونے والی شکایات کی تیز تر داد رسی کے لیے کمیشن کے قوانین کی روشنی میں چیئرمین صاحب نے کمیشن کی ایک سات رکنی ایگزیکیٹو کمیٹی بھی تشکیل دے دی تھی جو صحافیوں کی جانب سے ملنے والی کسی بھی شکایت پر فوری اجلاس منعقد کر کے قرارداد، بیان اور متعلقہ اداروں کو خطوط روانہ کرتی۔

صحافیوں کے مسائل کے حل کے لیے جسٹس ریٹائرڈ رشید اے رضوی اپنے ذاتی تعلقات کو بھی بروئے کار لاتے اور متعلقہ عمال سے بذاتِ خود بات کر کے بھی صحافیوں کے مسائل حل کراتے۔

صرف یہی نہیں بلکہ صوبہ سندھ میں صحافیوں اور میڈیا میں کام کرنے والوں کے تحفظ کے لیے ملک کے پہلے کمیشن کے دفتر کے قیام اور اس کو چلانے کے لیے مالی وسائل کے حصول کے لیے بھی جسٹس ریٹائرڈ رشید اے رضوی نے انتھک محنت کی اُن کی کوششوں سے سندھ حکومت نے کمیشن کے لیے گرانٹ ان ایڈ منظورکی، جب کہ کمیشن کے کراچی میں صدر دفتر اور صوبے کے ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں دفاتر کے قیام کے لیے بھی چیئرمین صاحب مستقل مصروف رہے۔

اس مقصد کے لیے وہ اپنی شدید علالت کے دنوں میں بھی غافل نہیں رہے بلکہ انتقال سے محض ایک ہفتے قبل مسلسل دو روز اسپتال بلاکر مجھے ضروری ہدایات بھی دیتے رہے۔ان کی رہنمائی میں کمیشن کی ویب سائٹ کے قیام کے لیے بھی محکمہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے تعاون سے پیش رفت مکمل کی جاچکی ہے۔

چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ رشید اے رضوی کے ساتھ کمیشن کے سیکریٹری کے طور پر کام کر کے مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع مل رہا تھا۔ وہ مجھ سے بہت شفقت سے پیش آتے اور بہت حوصلہ افزائی کرتے۔ وہ ایک ایسے نامور اور شہرت یافتہ قانون دان تھے جنھوں نے اپنی ساری زندگی آئین و قانون کی سربلندی کے لیے کام کرتے گزاری جس کی ایک بڑی مثال جنرل مشرف کے مارشل لاء کے بعد پی سی او کے تحت سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے حلف لینے سے انکار تھا جس کے بعد انھوں نے سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے سبکدوش ہونا قبول کیا لیکن اپنے اصولوں پر سمجھوتہ گوارا نہیں کیا۔

جسٹس ریٹائرڈ رشید اے رضوی زمانہ طالبِ علمی سے ہی طلباء سیاست میں سرگرم رہے۔ بحیثیتِ وکیل انھوں نے بار ایسوسی ایشنز میں وکلاء کی دلیرانہ نمایندگی کی اور جمہوری اقدار کے فروغ کی جدوجہد میں وہ قید و بند کی صعوبتوں سے بھی گزرے اور پھر بحیثیتِ جج انھوں نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا بھرپور لوہا منوایا۔ وہ زندگی کے آخری دم تک اس ملک کے کمزور طبقات اور ان کے حق کے لیے کام کرنے والوں کی مدد کرتے رہے لیکن ان کے چاہنے والوں کے لیے 3 فروری 2024 ایک گہرے دُکھ کا دن تھا جب وہ اس عالمِ فانی سے عالمِ جاودانی کی طرف روانہ ہوگئے۔
Load Next Story