اہم نکات
ایرکسن کا نظریہ نوجوانوں کی نفسیاتی ترقی کو سمجھنے کے لیے ایک قابل قدر لائحہ عمل فراہم کرتا ہے
بچوں کی تربیت والدین کے لیے اہم اور مشکل مرحلہ ثابت ہوتی ہے۔ خاص طور پر سن بلوغت کاوقت بچوں کے لیے ذہنی، جسمانی اور معاشرتی حوالوں سے پر خطر ہوتا ہے۔
انسانی نفسیات کو سمجھنے والے والدین یا اساتذہ بچوں کو ذہنی ابہام سے باہر نکال لیتے ہیں،بصورت دیگر والدین کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کا بنیادی سبب ان کی لاعلمی ہے۔ والدین کی غفلت بچوں اور نوجوانوں میں بری عادات کا پیش خیمہ بنتی ہے۔
اس دور میں بچے، نوعمر اور جوان جس ذہنی حبس اور ڈپریشن کا شکار ہیں، اور بری عادات اور باغی رویوں کو اپنا رہے ہیں، جس کے لیے والدین کو ان کی عمر کے ساتھ تبدیل ہونے والی جسمانی و جذباتی تبدیلیوں کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔
اس حوالے سے ممتاز ماہر نفسیات ایرک ایرکسن نے نفسیاتی فروغ کا ایک نظریہ پیش کیا ہے، جو پوری عمر پر محیط پر ہے۔ اس نظریے کے مطابق فرد آٹھ مراحل سے گزرتا ہے، ہرکیفیت ایک منفرد نفسیاتی بحران کی علامت دکھائی دیتی ہے، جس میں، ایرکسن کا نظریہ نوجوانوں کی جذباتی و نفسیاتی نشونما سے متعلق ہے۔
ایرکسن نے واضع کیا ہے کہ شناخت کے مختلف عناصر، خودمختاری، قربت، جنسیت، کامیابی، نظریہ، اور تخلیقیت نوجوانوں کی زندگیوں پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ شناخت پہلا عنصرہے، شناخت، ایرکسن کے نظریہ جوانی میں مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ اس مرحلے کے دوران، فرد کے ذہن میں''میں کون ہوں؟'' کا سوال اٹھتا ہے۔ وہ ذاتی سمجھ ، احساس اور ایک مربوط شناخت قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس عمل میں مختلف کرداروں، اقدار اور عقائد کو تلاش کرتا ہے، جو اکثر ہم مرتبہ گروہوں، سماجی توقعات اور ذاتی تجربات سے متاثر ہوتے ہیں۔ اسی دوران نوجوان شناخت کے بحرانوں سے گزرتے ہیں، مختلف شناختوں کو مربوط احساس میں ضم کرنے سے پہلے ان کے ساتھ تجربہ کرتے ہیں۔
دوسر ا اہم عنصر خودمختاری ہے۔ خود مختاری، جوانی کے دوران اہم ضرورت ہے کیونکہ نوعمری میں آزادی کا احساس اور اپنی سمت طے کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ ایرکسن کا خیال تھا کہ نوعمروں کو فیصلے کرنے، اپنے اعمال کی ذمے داری لینے، اور والدین کے اختیار سے اپنی آزادی پر زور دینے کے مواقع کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم، خود مختاری کا حصول مشکلات کے بغیر نہیں ملتا، کیونکہ نوعمر افراد کو اپنی آزادی کی خواہش اور خاندان و معاشرتی اصولوں کے حوالے سے تنازعات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تیسرا عنصر، قربت بتایا گیا ہے۔ اس مرحلے کے دوران، دوسروں کے ساتھ قریبی اور بامعنی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جس میں دوستی، رومانوی تعلق، اور خاندانی بندھن وغیرہ آجاتے ہیں۔ ایرکسن نے رشتوں میں اعتماد، ہمدردی اور باہمی احترام کی اہمیت پر زور دیا ہے، وہ جذباتی تکمیل اور ذاتی ترقی کے لیے قربت کو ضروری سمجھتا ہے۔ نوجوان لوگ جنسی رغبت کے بحران سے گزرتے ہیں، ان کے اندر خطرات اور مسترد ہونے کا خوف ملتا ہے بہرکیف وہ ان کیفیات کے ساتھ تعلق کی ضرورت کو متوازن کرنا سیکھتے ہیں۔
ہمارے سماج میں جنس کے موضوع پر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے نوعمری کے ابہام آگے چل کر غلط رخ اختیار کرلیتے ہیں۔ ایرکسن نے جنسیت کو انسانی ترقی کے ایک بنیادی پہلو کے طور پر تسلیم کیا، جو افراد کے تعلقات، خود اعتمادی، اور شناخت کے احساس کو متاثر کرتا ہے۔ نوعمر افراد جنسی رجحان، صنفی شناخت، اور جنسی رویے کے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں، اکثر اس عمل میں سماجی اصولوں، ساتھیوں کے دباؤ اور ذاتی اقدار کو تلاش کرتے ہیں۔
ایرکسن کے مطابق پانچواں عنصر، کامیابی کا ہے، جس میں جوانی کے دوران ذاتی اور پیشہ ورانہ اہداف کا حصول شامل ہے۔ اس کا خیال تھا کہ نوجوان مختلف شعبوں میں کامیابی اور قابلیت کے لیے کوشش کرتے ہیں، جیسے کہ تعلیم، کیریئراور تخلیقی کوششیں وغیرہ۔ یہ حقیقت ہے کہ کامیابی کا حصول اہلیت اور مہارت کے احساس کو فروغ دیتا ہے، جو افراد کی خود اعتمادی اور فلاح و بہبود کی ترویج میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
تاہم، کامیابی کا حصول آسان نہیں ہے جس کے دوران ذہنی تناو اور کئی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں، خاص طور پر ان ثقافتوں میں جو اچھے نتائج پر یقین رکھتی ہیں کارکردگی اور پیداواری صلاحیت پر زور دیتی ہیں۔
افراد کے عالمی نظریے اور مقصد کے احساس کے تحت ایرکسن نے سوال اٹھایا ہے کہ نوجوان وجودی سوالات اور اخلاقی الجھنوں سے دوچار ہوتے ہیں جب وہ دنیا اور اس میں اپنی جگہ کا تعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاہتے ہیں، وہ اتھارٹی پر سوال کرنے کے ساتھ،سماجی اصولوں کو چیلنج کرتے ہیں اور ذاتی اقدار کو وسیع سماجی اور ثقافتی تناظر کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
نوجوانوں کو اس کوشش میں، نظریاتی تضادات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کیونکہ وہ اپنے انفرادی عقائد کو اپنی برادریوں اور معاشروں کی توقعات کے ساتھ ہم آہنگ کرتے کی کوشش کرتے ہیں۔
ساتواں عنصر، تخلیقی صلاحیت ہے، جو جوانی میں مقصدیت کو اجاگر کرتی ہے، جب افراد ذاتی مقاصد پر توجہ مرکوز کرنے کے ذریعے، فلاح و بہبود میں حصہ دار بنتے ہیں۔
ایرکسن نے تخلیقیت کو دوسروں کی پرورش اور رہنمائی کرنے کی خواہش کے طور پر بیان کیاہے، خواہ والدین ، سرپرست یا کمیونٹی ہو یہ مرحلہ افراد کو بامعنی تعلقات استوار کرنے اور عظیم تر بھلائی کے حوالے سے، حصہ داری میں کئی مواقعے فراہم کرتا ہے۔
تاہم، تخلیقی صلاحیتوں کو حاصل کرنے میں ناکامی بھی متوقع ہے، جو یقینی طور پر جمود اور مایوسی کے جذبات کا باعث بن سکتی ہے، کیونکہ جدوجہد کے سفر میں ناکامیاں بھی آتی ہیں، جو مشاہدات اور تجربات کے ذریعے ذہنی پختگی کا باعث بنتی ہیں۔
ایرکسن کا نظریہ نوجوانوں کی نفسیاتی ترقی کو سمجھنے کے لیے ایک قابل قدر لائحہ عمل فراہم کرتا ہے۔ شناخت کے مسائل کو اجاگر کرتا ہے، جس کے توسط سے ، اہم نکات جیسے خود مختاری، قربت، جنسیت، کامیابی، نظریہ، اور تخلیقی صلاحیت وغیرہ کے ہر مرحلے کو اجاگر کرتا ہے تاکہ معلمین، والدین اور سماج اس سے فائدہ حاصل کرسکیں، جو نوجوانوں کی ترقی اور نشوونما میں مدد کر سکتے ہیں، لچک، ہمدردی، اور مقصد کے احساس کو فروغ دے سکتے ہیں۔