نادر شاہ عادل کی یاد میں

انھیں سچ گوئی کی پاداش میں کئی نشیب و فراز سے بھی گزرنا پڑا

shabbirarman@yahoo.com

ممتاز صحافی نادرشاہ عادل المعروف ''شاہ جی '' ہفتہ 27جنوری 2024کو انتقال کرگئے ، اسی رات بعد نماز عشاء ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی، بعد ازاں انھیں آہوں و سسکیوں کے ساتھ میوہ شاہ قبرستان میں واقع ان کے نانا ملنگ شاہ کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔نماز جنازہ میں ان کے عزیز و اقارب ،اہل علاقہ، دوستوں اور صحافیوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی تھی۔

نادر شاہ عادل 1948میں لیاری میں پیدا ہوئے تھے لیکن ان کی شناختی کارڈ پر تاریخ پیدائش 23اپریل 1950درج ہے، یہ بات انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں بتائی تھی ۔ شاہ جی مقامی اسکولوں میں زیر تعلیم رہے ،اسلامیہ کالج سے بی اے اور سیاسیات میں ایم اے کیا تھا، وہ طویل عرصے تک لیاری کے علاقے بغدادی سیفی لین ہی میں مقیم رہے لیکن ما ضی قریب میں جب لیاری میں گینگ وار نے شاہ جی کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور وہ دل گرفتہ ہوکر لیاری کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے اورکراچی کے علاقے گزری میں جابسے، اور مرتے دم تک لیاری سے با ہر مقیم رہے اور اپنے مالک حقیقی سے جاملے ، اور لیاری منہ تکتا رہ گیا ۔ کیا یہی صلہ تھا ان کی لیاری سے محبت کا کہ ان کی نماز جنازہ بھی لیاری سے باہر پڑھی گئی۔

شاہ جی کے نانا سید ملنگ شاہ لیاری میں روحانی بزرگ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔شاہ جی کے سوتیلے والد سید اسرار عارفی بھی اپنی صحافتی،سماجی اور تعلیمی سرگرمیوں کی وجہ سے علاقے کی معروف شخصیت تھے، شاہ جی کی والدہ بانل دشتیاری بلوچی زبان کی پہلی شاعرہ تھیں جن کا باقاعدہ دیوان مرتب ہوا۔ان کا خاندان لیاری میں خاص سماجی اہمیت کا حامل ہے،اسی بنیاد پر ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ان کے بھائی امداد علی شاہ رکن صوبائی اسمبلی بھی منتخب ہوئے تھے۔

منفرد اور معتبر سینئر صحافی نادر شاہ عادل45سال سے زائد عرصے تک صحافتی میدان میں سرگرم عمل ر ہے۔ شاہ جی اپنے طویل صحافتی کیر یئر میں بطور رپورٹر ، فیچر رائٹر ،میگزین ایڈیٹر اور اداریہ نویس کے طور پر قابل قدر خدمات انجام دیں ، انھوں نے فلمی ہفت روزہ نور جہاں سے باقاعدہ صحافت شروع کی پھر روزنامہ مشرق میں رہے ،ماہنامہ اخبار وطن اور فلم ایشیا کے لیے بھی طویل عرصے لکھا پھر 1973 میں مساوات میں رپورٹر ہوگئے، اس کے بعد ہفت روزہ نصرت ،روزنامہ اعلان ، روزنامہ نوائے وقت ، روزنامہ حریت ، روزنامہ امروز ، روزنامہ خبریں ،روزنامہ انجام ، روزنامہ قومی اخبار ، روزنامہ دن ، روزنامہ جرات ، اور روزنامہ پاکستان میں بھی رہے۔

1996 میں ماہنامہ بنیاد کے چھ شمارے بھی نکالے، ایک صحافتی ادارے سے منسلک ہوکر لندن بھی گئے لیکن والدہ کی علالت کے سبب ایک ماہ بعد ہی واپس آنا پڑا ، 2001 میں روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ ہوگئے جہاں 2021میں علالت کے باعث مستعفی ہوگئے تھے ۔


شاہ جی نے سیاسی اور کھیلوں سمیت دیگر شعبوں کی رپورٹنگ کی، شاہ جی تاریخ، فنون، اسپورٹس، فلسفہ، ادب، فلم اور سماجیت پر بہ یک وقت عبور رکھنے والے منفرد و منفرد ممتاز صحافی تھے ، وہ مختلف اخبارات میں میگزین کے انچارجز کے طور پر بھی کام کرتے رہے ۔ شاہ جی کالم نگاری بھی کرتے رہے ،شاہ جی کی تحریروں میں حق و سچ کی کاٹ نمایاں نظر آتی تھی ، وہ اس سچائی کی قیمت بھی چکاتے رہے ہیں۔

شاہ جی نے 1970 کی دہائی میں لیاری کے سلگتے ہوئے سماجی مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے ایک کتاب بعنوان''لیاری کی کہانی'' لکھی جسے بے حد سراہا گیا۔یہ کتاب باتصویر تھی۔ ایک اور کتاب بلوچستان کا مقدمہ بھی تصنیف کی۔

شاہ جی لیاری میں اسٹریٹ اسکول کے بانی ہیں، انھوں نے ہی سب سے پہلے 1970 میں اپنے جنم بھومی علاقے سیفی لین بغدادی لیاری میں 14رضا کار اسٹریٹ اسکول بھی بنائے ، جو بمباسا کے نام سے منسوب تھا، جہاں صبا دشتیاری اور ن،م، دانش بھی پڑھاتے رہے ۔ جس کے بعد لیاری بھر میں اسٹریٹ اسکولوں کا جال پھیل گیا، جہاں بچوں کو اپنی مدد آپ کے تحت مفت تعلیم دی جاتی رہی ہے پھر بدنام زمانہ لیاری گینگ وار نے سب کچھ ملیا میٹ کردیا۔

نادر شاہ عادل اسٹیج اور فلم کے اداکار بھی رہے اور اسکرپٹ رائٹر بھی۔ انھوں نے متعدد بلوچی اور اردو کے اسٹیج ڈرامے لکھے اور ان میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ پہلی بلوچی سینما فلم''ھمل و ماہ گنج''میں بطور سیکنڈ ہیرو اہم کردار ادا کیا۔شاہ جی شاعر بھی تھے اور بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے کے علاوہ بچوں کے لیے نظم نگاری بھی کرتے رہے ہیں۔

شاہ جی نے لیاری میں فٹبال بھی کھیلی۔ ایسے شاندار صحافتی ادبی اور سماجی پس منظر کا حامل فرد جسے معاشرے میں عزت واحترام حاصل ہو اور وہ جس نے ہمیشہ بلوچ بچوں اورنوجوانوں میں علم کی شمع روشن کی ہو، انھیں سچ گوئی کی پاداش میں کئی نشیب و فراز سے بھی گزرنا پڑا۔ شاہ جی اصول پسند، خوددار انسان تھے،نام نمود سے اجتناب برتتے تھے، سادگی ان کی پہچان تھی ۔

ان کی یہی خوبیاں انھیں دوسرے لوگوں سے منفرد بنادیتی ، یہی وجہ ہے کہ صحافتی دنیا میں انھیں جو عزت و توقیر حاصل رہا وہ کم لوگوں کے نصیب میں آئی ہے۔ صحافی برادری نادر شاہ عادل کے انتقال کو ایک بہت بڑا نقصان قرار دیتے ہوئے کہتی ہے کہ صحافی برادری ایک شفیق استاد سے محروم ہوگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ شاہ جی کی مغفرت کرے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔( آمین ثم آمین ۔)
Load Next Story